Ayats Found (4)
Surah 7 : Ayat 162
فَبَدَّلَ ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنْهُمْ قَوْلاً غَيْرَ ٱلَّذِى قِيلَ لَهُمْ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِجْزًا مِّنَ ٱلسَّمَآءِ بِمَا كَانُواْ يَظْلِمُونَ
مگر جو لوگ اُن میں سے ظالم تھے اُنہوں نے اُس بات کو جو اُن سے کہی گئی تھی بدل ڈالا، اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے ان کے ظلم کی پاداش میں ان پر آسمان سے عذاب بھیج دیا1
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ، حاشیہ ۷۴و۷۵ |
Surah 18 : Ayat 61
فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِهِمَا نَسِيَا حُوتَهُمَا فَٱتَّخَذَ سَبِيلَهُۥ فِى ٱلْبَحْرِ سَرَبًا
پس جب وہ ان کے سنگم پر پہنچے تو اپنی مچھلی سے غافل ہو گئے اور وہ نکل کر اس طرح دریا میں چلی گئی جیسے کہ کوئی سرنگ لگی ہو
Surah 18 : Ayat 63
قَالَ أَرَءَيْتَ إِذْ أَوَيْنَآ إِلَى ٱلصَّخْرَةِ فَإِنِّى نَسِيتُ ٱلْحُوتَ وَمَآ أَنْسَـٰنِيهُ إِلَّا ٱلشَّيْطَـٰنُ أَنْ أَذْكُرَهُۥۚ وَٱتَّخَذَ سَبِيلَهُۥ فِى ٱلْبَحْرِ عَجَبًا
خادم نے کہا "آپ نے دیکھا! یہ کیا ہوا؟ جب ہم اُس چٹان کے پاس ٹھیرے ہوئے تھے اُس وقت مجھے مچھلی کا خیال نہ رہا اور شیطان نے مجھ کو ایسا غافل کر دیا کہ میں اس کا ذکر (آپ سے کرنا) بھول گیا مچھلی تو عجیب طریقے سے نکل کر دریا میں چلی گئی"
Surah 37 : Ayat 142
فَٱلْتَقَمَهُ ٱلْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ
آخرکار مچھلی نے اسے نگل لیا اور وہ ملامت زدہ تھا1
1 | ان فقروں پر غور کرنے سے جو صورت واقعہ سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ: (1)حضرت یونس جس کشتی میں سوار ہوئے تھے وہ اپنی گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی(Overloaded)تھی۔ (2) قرعہ اندازی کشتی میں ہوئی، اور غالباً اس وقت جب بحری سفر کے دوران میں یہ محسوس ہوا کہ بوجھ کی زیادتی کے سبب سے تمام مسافروں کی جان خطرے میں پڑ گئی ہے۔ لہٰذا قرعہ اس غرض کے لیے ڈالا گیا کہ جس کا نام قرعہ میں نکلے اسے پانی میں پھینک دیا جائے۔ (3) قرعہ میں حضرت یونس ہی کا نام نکلا، وہ سمندر میں پھینک دیے گئے اور ایک مچھلی نے ان کو نگل لیا۔ (4) اس ابتلا میں حضرت یونس اس لیے مبتلا ہوئے کہ وہ اپنے آقا (یعنی اللہ تعالٰی) کی اجازت کے بغیر اپنے مقام ماموریت سے فرار ہو گئے تھے۔ اس معنی پر لفظ اَبَقَ بھی دلالت کرتا ہے جس کی تشریح اوپر حاشیہ نمبر 78 میں گزرچکی ہے، اور اسی معنی پر لفظ مُلِیْم بھی دلالت کرتا ہے۔ مُلیم ایسے قصور وار آدمی کو کہتے ہیں جو اپنے قصور کی وجہ سے آپ ہی ملامت کا مستحق ہو گیا ہو، خواہ اسے ملامت کی جائے یا نہ کی جائے (یقال قد الام الر جل اذا اتیٰ ما یلام علیہ من الامر و ان لم یُلِم ۔ ابن جریر)۔ |