Ayats Found (8)
Surah 6 : Ayat 106
ٱتَّبِعْ مَآ أُوحِىَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَۖ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَۖ وَأَعْرِضْ عَنِ ٱلْمُشْرِكِينَ
اے محمدؐ! اُس وحی کی پیروی کیے جاؤ جو تم پر تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے کیونکہ اُس ایک رب کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے اور ان مشرکین کے پیچھے نہ پڑو
Surah 7 : Ayat 1
الٓمٓصٓ
ا، ل، م، ص
Surah 7 : Ayat 3
ٱتَّبِعُواْ مَآ أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِۦٓ أَوْلِيَآءَۗ قَلِيلاً مَّا تَذَكَّرُونَ
لوگو، جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اُس کی پیروی کرو اور اپنے رب کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو1 مگر تم نصیحت کم ہی مانتے ہو
1 | یہ اِس سورة کا مرکزی مضمون ہے۔ اصل دعوت جو اس خطبہ میں دی گئی ہے وہ یہی ہے کہ انسان کو دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے جس ہدایت ور رہنمائی کی ضرورت ہے، اپنی اور کائنات کی حقیقت اور اپنے وجود کی غرض و غایت سمجھنے کے لیے جو علم اُسے درکار ہے، اور اپنے اخلاق، تہذیب، معاشرہ اور تمدّن کو صحیح بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے جن اصولوں کا وہ محتاج ہے،اُن سب کے لیےاُسے صرف اللہ رب العالمٰین کو اپنا رہنما تسلیم کرنا چاہیے اور صرف اُسی ہدایت کی پیروی اختیار کرنی چاہیے جو اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے بھیجی ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے رہنما کی طرف ہدایت کے لیے رجوع کرنا اور اپنے آپ کو اُس کی رہنمائی کے حوالے کردینا انسان کے لیے بنیادی طور پر ایک غلط طریق کار ہے جس کا نتیجہ ہمیشہ تباہی کی صورت میں نکلا ہے اور ہمیشہ تباہی کی صورت ہی میں نکلے گا۔ یہاں”اولیاء“ (سر پرستوں)کا لفظ اس معنی میں استعمال ہُواہے کہ انسان جس کی رہنمائی پر چلتا ہے اُسے درحقیقت اپنا ولی و سرپرست بناتا ہے خواہ زبان سے اس کی حمدوثنا کے گیت گاتا ہو یا اس پر لعنت کی بوچھاڑ کرتا ہو، خواہ اس کی سر پرستی کا معترف ہو یا بہ شدّت اس سے انکار کرے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الشوریٰ،حاشیہ ٦) |
Surah 7 : Ayat 203
وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِـَٔـايَةٍ قَالُواْ لَوْلَا ٱجْتَبَيْتَهَاۚ قُلْ إِنَّمَآ أَتَّبِعُ مَا يُوحَىٰٓ إِلَىَّ مِن رَّبِّىۚ هَـٰذَا بَصَآئِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اے نبیؐ، جب تم اِن لوگوں کے سامنے کوئی نشانی (یعنی معجزہ) پیش نہیں کرتے تو یہ کہتے ہیں کہ تم نے اپنے لیے کوئی نشانی کیوں نہ انتخاب کر لی؟1 ان سے کہو 2"میں تو صرف اُس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب نے میری طرف بھیجی ہے یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے اُن لوگوں کے لیے جو اِسے قبول کریں
2 | یعنی میرا منصب یہ نہیں ہے کہ جس چیز کی مانگ ہو یا جس کی میں خود ضرورت محسوس کروں اسے خود ایجاد یا تصنیف کر کے پیش کردوں۔ میں تو ایک رسول ہوں اور میرا منصب صرف یہ ہے کہ جس نے مجھے بھیجا ہے اس کی ہدایت پر عمل کروں۔ معجزے کے بجائے میرے بھیجنے والے نے جو چیز میرے پاس بھیجی ہے وہ یہ قرآن ہے ۔ اس کے اندر بصیرت افروز روشنیاں موجود ہیں اور اس کی نمایاں ترین خوبی یہ ہے کہ جو لوگ اس کو مان لیتے ہیں ان کو زندگی کا سیدھا راستہ مل جاتا ہے اوران کے اخلاقِ حسنہ میں رحمت ِ الہٰی کے آثار صاف ہو یدا ہونے لگتے ہیں |
1 | کفار کےاس سوال میں ایک صریح طعن کا انداز پایا جاتا تھا۔ یعنی ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میاں جس طرح تم نبی بن بیٹھے ہو اسی طرح کوئی معجزہ بھی چھانٹ کر اپنے لیے بنا لائے ہوتے۔ لیکن آگے ملاحظہ ہو کہ اس طعن کا جواب کس شان سے دیا جاتا ہے |
Surah 10 : Ayat 109
وَٱتَّبِعْ مَا يُوحَىٰٓ إِلَيْكَ وَٱصْبِرْ حَتَّىٰ يَحْكُمَ ٱللَّهُۚ وَهُوَ خَيْرُ ٱلْحَـٰكِمِينَ
اور اے نبیؐ، تم اس ہدایت کی پیروی کیے جاؤ جو تمہاری طرف بذریعہ وحی بھیجی جا رہی ہے، اور صبر کرو یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے، اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے
Surah 33 : Ayat 2
وَٱتَّبِعْ مَا يُوحَىٰٓ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
پیروی کرو اُس بات کی جس کا اشارہ تمہارے رب کی طرف سے تمہیں کیا جا رہا ہے، اللہ ہر اُس بات سے باخبر ہے جو تم لوگ کرتے ہو1
1 | اس فقرے میں خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی ہے اور مسلمانوں سے بھی اور مخالفین اسلام سے بھی۔ مطلب یہ ہے کہ نبی اگر اللہ کے حکم پر عمل کر کے بدنامی کا خطرہ مول لے گا اور اپنی عزت پر دشمنوں کے حملے صبر کے ساتھ برداشت کرے گا تو اللہ سے اس کی یہ وفا دارانہ خدمت چھپی نہ رہے گی۔ مسلمانوں میں سے جو لوگ نبی کی عقیدت میں ثابت قدم رہیں گے اور جو شکوک و شبہات میں مبتلا ہوں گے، دونوں ہی کا حال اللہ سے مخفی نہ رہے گا۔ اور کفار و منافقین اس کو بدنام کرنے کے لیے جو دَوڑ دھوپ کریں گے اس سے بھی اللہ بے خبر نہ رہے گا۔ لہٰذا گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ ہر ایک اپنے عمل کے لحاظ سے جس جزا یا سزا کا مستحق ہو گا وہ اسے مل کر رہے گی۔ |
Surah 39 : Ayat 55
وَٱتَّبِعُوٓاْ أَحْسَنَ مَآ أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ ٱلْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
اور پیروی اختیار کر لو اپنے رب کی بھیجی ہوئی کتاب کے بہترین پہلو کی1، قبل اِس کے کہ تم پر اچانک عذاب آئے اور تم کو خبر بھی نہ ہو
1 | کتاب اللہ بہترین پہلو کی پیروی کرنے کا مطلب یہ کہ اللہ تعالٰی نے جن کاموں کا حکم دیا ہے آدمی ان کی تعمیل کرے، جن کاموں سے اس نے منع کیا ہے ان سے بچے، اور امثال اور قصوں میں جو کچھ اس نے ارشاد فرمایا ہے اس سے عبرت اور نصیحت حاصل کرے۔ بخلاف اس کے جو شخص حکم سے منہ موڑتا ہے، منہیات کا ارتکاب کرتا ہے اور اللہ کے وعظ و نصیحت سے کوئی اثر نہیں لیتا وہ کتاب اللہ کے بدترین پہلو کو اختیار کرتا ہے، یعنی وہ پہلو اختیار کرتا ہے جسے کتاب اللہ بدترین قرار دیتی ہے۔ |
Surah 43 : Ayat 43
فَٱسْتَمْسِكْ بِٱلَّذِىٓ أُوحِىَ إِلَيْكَۖ إِنَّكَ عَلَىٰ صِرَٲطٍ مُّسْتَقِيمٍ
تم بہر حال اُس کتاب کو مضبوطی سے تھامے رہو جو وحی کے ذریعہ سے تمہارے پاس بھیجی گئی ہے، یقیناً تم سیدھے راستے پر ہو1
1 | یعنی تم اس فکر میں نہ پڑو کہ ظلم اور بے ایمانی کے ساتھ حق کی مخالفت کرنے والے اپنے کیے کی کیا اور کب سزا پاتے ہیں، نہ اس بات کی فکر کرو کہ اسلام کو تمہاری زندگی میں فروغ حاصل ہوتا ہے یا نہیں ۔ تمہارے لیے بس یہ اطمینان کافی ہے کہ تم حق پر ہو۔ لہٰذا نتائج کی فکر کیے بغیر اپنا فرض انجام دیتے چلے جاؤ اور یہ اللہ پر چھوڑ دو کہ وہ باطل کا سر تمہارے سامنے نیچا کرتا ہے یا تمہارے پیچھے |