Ayats Found (3)
Surah 2 : Ayat 57
وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ ٱلْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْكُمُ ٱلْمَنَّ وَٱلسَّلْوَىٰۖ كُلُواْ مِن طَيِّبَـٰتِ مَا رَزَقْنَـٰكُمْۖ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَـٰكِن كَانُوٓاْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
ہم نے تم پر ابر کا سایہ کیا1، من وسلویٰ کی غذا تمہارے لیے فراہم کی2 اور تم سے کہا کہ جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں، اُنہیں کھاؤ، مگر تمہارے اسلاف نے جو کچھ کیا، وہ ہم پر ظلم نہ تھا، بلکہ انہوں نے آپ اپنے ہی اوپر ظلم کیا
2 | مَنّ و سَلْویٰ وہ قدرتی غذائیں تھیں، جو اس مہاجرت کے زمانے میں اُن لوگوں کو چالیس برس تک مسلسل ملتی رہیں ۔ مَنّ دھنیے کے بیج جیسی ایک چیز تھی ، ج اُوس کی طرح گِرتی اور زمین پر جم جاتی تھی۔ اور سَلْویٰ بٹیر کی قسم کے پرندے تھے۔ خدا کے فضل سے ان کی اتنی کثرت تھی کہ ایک پُوری کی پُوری قوم محض انہی غذا ؤ ں پر زندگی بسر کرتی رہی اور اسے فاقہ کشی کی مصیبت نہ اُٹھانی پڑی، حالانکہ آج کسی نہایت متمدّن ملک میں بھی اگر چند لاکھ مہاجر یکایک آپڑیں، تو اُن کی خوراک کا انتظام مشکل ہو جاتا ہے۔ ( مَنّ اور سَلْویٰ کی تفصیلی کیفیّت کے لیے ملاحظہ ہو بائیبل ، کتاب خرُوج، باب ۱۶- گنتی، باب ۱۱، آیت ۹-۷ و ۳۲-۳۱ و یشوع ، باب ۵- آیت ۱۲) |
1 | یعنی جزیرہ نمائے سینا میں جہاں دُھوپ سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ تمہیں میسّر نہ تھی، ہم نے ابر سے تمہارے بچا ؤ کا انتظام کیا۔ اس موقع پر خیال رہے کہ بنی اسرائیل لاکھوں کی تعداد میں مصر سے نکل کر آئے تھے اور سینا کے علاقے میں مکانات کا تو کیا ذکر، سر چھُپانے کے لیے ان کے پاس خیمے تک نہ تھے۔ اُس زمانے میں اگر خدا کی طرف سے ایک مدّت تک آسمان کو اَبر آلود نہ رکھا جاتا ، تو یہ قوم دُھوپ سے ہلاک ہو جاتی |
Surah 7 : Ayat 160
وَقَطَّعْنَـٰهُمُ ٱثْنَتَىْ عَشْرَةَ أَسْبَاطًا أُمَمًاۚ وَأَوْحَيْنَآ إِلَىٰ مُوسَىٰٓ إِذِ ٱسْتَسْقَـٰهُ قَوْمُهُۥٓ أَنِ ٱضْرِب بِّعَصَاكَ ٱلْحَجَرَۖ فَٱنۢبَجَسَتْ مِنْهُ ٱثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًاۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْۚ وَظَلَّلْنَا عَلَيْهِمُ ٱلْغَمَـٰمَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْهِمُ ٱلْمَنَّ وَٱلسَّلْوَىٰۖ كُلُواْ مِن طَيِّبَـٰتِ مَا رَزَقْنَـٰكُمْۚ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَـٰكِن كَانُوٓاْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
اور ہم نے اس قوم کو بارہ گھرانوں میں تقسیم کر کے انہیں مستقل گروہوں کی شکل دے دی تھی1 اور جب موسیٰؑ سے اس کی قوم نے پانی مانگا تو ہم نے اس کو اشارہ کیا کہ فلاں چٹان پر اپنی لاٹھی مارو چنانچہ اس چٹان سے یکایک بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر گروہ نے اپنے پانی لینے کی جگہ متعین کر لی ہم نے اُن پر بادل کا سایہ کیا اور اُن پر من و سلویٰ اتارا2 کھاؤ وہ پاک چیزیں جو ہم نے تم کو بخشی ہیں مگر اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کیا تو ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے3
3 | اب تاریخ بنی اسرائیل کے اُن واقعات کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مذکورہ بالا احسانات کو جواب یہ لوگ کیسی کیسی مجرمانہ بے باکیوں کے ساتھ دیتے رہے اور پھر کس طرح مسلسل تباہی کے گڑھے میں گرتے چلے گئے |
2 | اوپر جس تنظیم کا ذکر کیا گیا ہے وہ منجملہ اُن احسانات کے تھی جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر کیے۔ اس کے بعد اب مزید تین احسانات کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ایک یہ کہ جزیرہ نمائے سینا کے بیابانی علاقہ میں ان کے لیے پانی کی بہم رسانی کا غیر معمولی انتظام کیا گیا۔ دوسرے یہ کہ ان کو دھوپ کی تپش سے بچانے کے لیے آسمان پر بادل چھا دیا گیا۔ تیسرے یہ کہ ان کے لیے خوراک کی بہم رسانی کا غیر معمولی انتظام من و سلویٰ کے نزول کی شکل میں کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ اگر ان تین اہم ترین ضروریاتِ زندگی کا بندوبست نہ کیا جاتا تو یہ قوم جس کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچی ہوئی تھی، اس علاقہ میں بھوک پیاس سے بالکل ختم ہو جائی ۔ آج بھی کوئی شخص وہاں جائے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جائے گا کہ اگر یہاں پندرہ بیس لاکھ آدمیوں کا ایک عظیم الشان قافلہ یکایک آ ٹھہرے تو اس کے لیے پانی، خوراک اور سائے کا آخر کیا انتظام ہو سکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں پورے جزیرہ نما کی آبادی ۵۵ ہزار سے زیادہ نہیں ہے اور آج اس بیسویں صدی میں بھی اگر کوئی سلطنت وہاں پانچ چھ لاکھ فوج لے جانا چاہے تو اس کے مُدَبِّروں کو رسد کے انتظام کی فکر میں دردِ سر لاحق ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے بہت سے محققین نے ، جو نہ کتاب کو مانتے ہیں اور نہ معجزات کو تسلیم کرتے ہیں ، یہ ماننے سے انکار کر دیا ہے کہ بنی اسرائیل جزیرہ نمائے سینا کےاُس حصہ سے گزرے ہونگے جس کا ذکر بائیبل اور قرآن میں ہوا ہے۔ ان کا گمان ہے کہ شاید یہ واقعات فلسطین کے جنوبی اور عرب کے شمالی حصہ میں پیش آئے ہوں گے۔ جزیرہ نمائے سینا کے طبعی اور معاشی جغرافیہ کو دیکھتے ہوئے وہ اس بات کو بالکل نا قابلِ تصور سمجھتے ہیں کہ اتنی بڑی قوم یہاں برسوں ایک ایک جگہ پڑاؤ کرتی ہوئی گزر سکی تھی، خصوصاً جب کہ مصر کی طرف سے اس کی رسد کا راستہ بھی منقطع تھا اور دوسری طرف خود اس جزیرہ نما کے مشرق اور شمال میں عَمالِقَہ کے قبیلے اس کی مزاحمت پر آمادہ تھے۔ ان امور کو پیش نظر رکھنے سے صحیح طور پر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان چند مختصر آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے جِن احسانات کاذکر فرمایا ہے وہ درحقیقت کتنے بڑے احسانات تھے اور اس کے بعد یہ کتنی بڑی احسان فراموشی تھی کہ اللہ کے فضل و کرم کی ایسی صریح نشانیاں دیکھ لینے پر بھی یہ قوم مسلسل اُن نا فرمانیوں اور عذاریوں کی مر تکب ہوتی رہی جن سے اس کی تاریخ بھری پڑی ہے۔(تقابل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ۷ حواشی نمبر ۷۲، ۷۳، ۷٦) |
1 | اشارہ ہے بنی اسرائیل کی اُس تنظیم کی طرف جو سورہ مائدہ آیت ١۲ میں بیان ہوئی ہے اور جس کی پوری تفصیل بائیبل کی کتاب گنتی میں ملتی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کوہِ سینا کے بیابان میں بنی اسرائیل کی مردم شماری کرائی، پھر ان کے ١۲ گھرانوں کو جو حضرت یعقوب کے دس بیٹوں اور حضرت یوسف کے دو بیٹوں کی نسل سے تھے الگ الگ گروہوں کی شکل میں منظم کیا، اور ہر گروہ پر ایک ایک سردار مقرر کیا تاکہ وہ ان کےاندر اخلاقی، مذہبی، تمدنی و معاشرتی اور فوجی حیثیت سے نظم قائم رکھے اور احکامِ شریعت کا اجراء کرتا رہے۔ نیز حضرت یعقوب کے بارھویں بیٹے لاوِی کی اورلاد کو جس کی نسل سے حضرت موسیٰ اور ہارون تھے، ایک الگ جماعت کی شکل میں منظم کیا تاکہ وہ ان سب قبیلوں کےدرمیان شمعِ حق روشن رکھنے کی خدمت انجام دیتی رہے |
Surah 20 : Ayat 80
يَـٰبَنِىٓ إِسْرَٲٓءِيلَ قَدْ أَنجَيْنَـٰكُم مِّنْ عَدُوِّكُمْ وَوَٲعَدْنَـٰكُمْ جَانِبَ ٱلطُّورِ ٱلْأَيْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكُمُ ٱلْمَنَّ وَٱلسَّلْوَىٰ
اے بنی اسرائیل، ہم نے تم کو تمہارے دشمن سے نجات دی، اور طور کے دائیں جانب1 تمہاری حاضری کے لیے وقت مقرر کیا2 اور تم پر من و سلویٰ اتارا3
3 | من و سلویٰ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول البقرہ، حاشیہ 73۔ الاعراف، حاشیہ 118۔ بائیبل کا بیان ہے کہ مصر سے نکلنے کے بعد جب بنی اسرائیل دشت سین میں ایلیم اور سینا کے درمیان گزر رہے تھے اور خوراک کے ذخیرے ختم ہو کر فاقوں کی نوبت آ گئی تھی، اس وقت من و سلویٰ کا نزول شروع ہوا، اور فلسطین کے آباد علاقے میں پہنچنے تک پورے چالیس سال یہ سلسلہ جاری رہا (خروج، باب 16۔ گنتی باب 11، آیت 7۔9۔ یشوع، باب 5، آیت 12) کتاب خروج میں من و سلویٰ کی یہ کیفیت بیان کی گئی ہے ’’اور یوں ہوا کہ شام کو اتنی بٹیریں آئیں کہ ان کی خیمہ گاہ کو ڈھانک لیا۔ اور صبح کو خیمہ گاہ کے آس پاس اوس پڑی ہوئی تھی اور جب وہ اوس جو پڑی تھی سوکھ گئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ بیابان میں ایک چھوٹی چھوٹی گول گول چیز، ایسی چھوٹی جیسے پالے کے دانے ہوتے ہیں، زمین پر پڑی ہے۔ بنی اسرائیل اسے دیکھ کر آپس میں کہنے لگے مَن؟ کیونکہ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا ہے‘‘ (باب 16۔ آیت 13۔ 15)۔ ’’اور بنی اسرائیل نے اس کا نام من رکھا اور وہ دھنیے کے بیج کی طرح سفید اور اس کا مزہ شہد کے بنے ہوۓ پوۓ کی طرح تھا‘‘ (آیت 31)۔ گنتی میں اس کی مزید تشریح یہ ملتی ہے؟ ’’لوگ ادھر اُدھر جا کر اسے جمع کرتے اور اسے چکی میں پیستے یا اوکھلی میں کوٹ لیتے تھے۔ پھر اسے ہانڈیوں میں ابال کر روٹیاں بناتے تھے۔ اس کا مزہ تازہ تیل کا سا تھا۔ اور رات کو جب لشکر گاہ میں اوس پڑتی تو اس کے ساتھ من بھی گرتا تھا‘‘ اب 11۔آیت 8۔9) یہ بھی ایک معجزہ تھا۔ کیونکہ 40 برس بعد جب بنی اسرائیل کے لیے خوراک کے فطری ذرائع بہم پہنچ گۓ تو یہ سلسلہ بند کر دیا گیا۔ اب نہ اس علاقے میں بٹیروں کی وہ کثرت ہے، بہ من ہی کہیں پایا جاتا ہے۔ تلاش و جستجو کرنے والوں نے ان علاقوں کو چھان مارا ہے جہاں بائیبل کے بیان کے مطابق بنی اسرائیل نے 40 سال تک دشت نوردی کی تھی۔ من ان کو کہیں نہ ملا۔ البتہ کاروباری لوگ خریداروں کو بیوقوف بنانے کے لیے من کا حلوا ضرور بیچتے پھرتے ہیں۔ |
2 | سورہ بقرہ رکوع 6، اور سورہ اعراف رکوع 17 میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی نے بنی اسرائیل کو شریعت کا ہدایت نامہ عطا کرنے کے لیے چالیس دن کی میعاد مقرر کی تھی جس کے بعد حضرت موسیٰ کو پتھی کی تختیوں پر لکھے ہوۓ احکام عطا کیے گۓ۔ |
1 | یعنی طور کے مشرقی دامن میں۔ |