Ayats Found (6)
Surah 2 : Ayat 173
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ ٱلْمَيْتَةَ وَٱلدَّمَ وَلَحْمَ ٱلْخِنزِيرِ وَمَآ أُهِلَّ بِهِۦ لِغَيْرِ ٱللَّهِۖ فَمَنِ ٱضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَآ إِثْمَ عَلَيْهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اللہ کی طرف سے اگر کوئی پابندی تم پر ہے تو وہ یہ ہے کہ مُردار نہ کھاؤ، خون سے اور سور کے گوشت سے پرہیز کرو اور کوئی چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو1 ہاں جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ ان میں سے کوئی چیز کھا لے بغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہو یا ضرورت کی حد سے تجاوز کر ے، تو اس پر کچھ گناہ نہیں، اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے2
2 | اس آیت میں حرام چیز کے استعمال کرنے کی اجازت تین شرطوں کے ساتھ دی گئی ہے۔ ایک یہ کہ واقعی مجبُوری کی حالت ہو۔ مثلاً بھُوک یا پیاس سے جان پر بن گئی ہو، یا بیماری کی وجہ سے جان کا خطرہ ہو اور اس حالت میں حرام چیز کے سوا اور کوئی چیز میسّر نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ خدا کے قانون کو توڑنے کی خواہش دل میں موجود نہ ہو۔ تیسرے یہ کہ ضرورت کی حد سے تجاوز نہ کیا جائے، مثلاً حرام چیز کے چند لقمے یا چند قطرے یا چند گھونٹ اگر جان پچا سکتے ہوں تو ان سے زیادہ اس چیز کا استعمال نہ ہونے پائے |
1 | اس کا اطلاق اُس جانور کے گوشت پر بھی ہوتا ہے جسے خدا کے سوا کسی اَور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو اور اُس کھانے پر بھی ہوتا ہے جو اللہ کے سواکِسی اَور کے نام پر بطور نذر کے پکایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جانور ہو یا غلّہ یا اور کوئی کھانے کی چیز ، دراصل اس کا مالک اللہ تعالٰی ہی ہے اور اللہ ہی نے وہ چیز ہم کو عطا کی ہے۔ لہٰذا اعترافِ نعمت صدقہ و نذر و نیاز کے طور پر اگر کسی کا نام ان چیزوں پر لیا جا سکتا ہے تو وہ صرف اللہ ہی کا نام ہے۔ اس کے سوا کسی دُوسرے کا نام لینا یہ معنی رکھتا ہے کہ ہم خدا کے بجائے یا خدا کے ساتھ اس کی بالاتری بھی تسلیم کر رہے ہیں اور اس کو بھی مُنعِم سمجھتے ہیں |
Surah 6 : Ayat 145
قُل لَّآ أَجِدُ فِى مَآ أُوحِىَ إِلَىَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُۥٓ إِلَّآ أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُۥ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ ٱللَّهِ بِهِۦۚ فَمَنِ ٱضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے محمدؐ! ان سے کہو کہ جو وحی تمہارے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو، الا یہ کہ وہ مُردار ہو، یا بہایا ہوا خون ہو، یاسور کا گوشت ہو کہ وہ ناپاک ہے، یا فسق ہو کہ اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو1 پھر جو شخص مجبوری کی حالت میں (کوئی چیز اِن میں سے کھا لے) بغیر اس کے کہ وہ نافرمانی کا ارادہ رکھتا ہو اور بغیر اس کے کہ وہ حد ضرورت سے تجاوز کرے، تو یقیناً تمہارا رب در گزر سے کام لینے والا اور رحم فرمانے والا ہے
1 | یہ مضمون سُورہ بقرہ آیت ۷۳ اور سُورہ مائدہ آیت ۳ میں گزر چکا ہے، اور آگے سُورہ نحل آیت ۱۱۵ میں آنے والا ہے۔ سُورہ بقرہ کی آیت اور اس آیت میں بظاہر اتنا اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہاں محض ”خون“ کہا گیا ہے اور یہاں خون کے ساتھ مَسْفُوْح کی قید لگائی گئی ہے ، یعنی ایسا خون جو کسی جانور کو زخمی کر کے یا ذبح کر کے نکالا گیا ہو۔ مگر دراصل یہ اختلاف نہیں بلکہ اُس حکم کی تشریح ہے۔ اِسی طرح سُورۂ مائدہ کی آیت میں ان چار چیزوں کے علاوہ چند اور چیزوں کی حُرمت کا بھی ذکر ملتا ہے، یعنی وہ جانور جو گلا گھُونٹ کر یا چوٹ کھا کر یا بلندی سے گِر کر یا ٹکر کھا کر مرا ہو یا جسے کسی درندے نے پھاڑ ا ہو۔ لیکن فی الحقیقت یہ بھی اختلاف نہیں ہے بلکہ ایک تشریح ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جانور اس طور پر ہلاک ہوئے ہوں وہ بھی مُردار کی تعریف میں آتے ہیں۔ فقہائے اسلام میں سے ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ حیوانی غذاؤں میں سے یہی چار چیزیں حرام ہیں اور ان کے سوا ہر چیز کا کھانا جائز ہے۔ یہی مسلک حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت عائشہ کا تھا۔ لیکن متعدّد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض چیزوں کے کھانے سے یا تو منع فرمایا ہے یا ان پر کراہت کا اظہار فرمایا ہے۔ مثلاً پالتو گدھے ، کچیلوں والے درندے اور پنجوں والے پرندے ۔ اس وجہ سے اکثر فقہاء تحریم کو ان چار چیزوں تک محدُود نہیں مانتے بلکہ دُوسری چیزوں تک اسے وسیع قرار دیتے ہیں۔ مگر اس کے بعد پھر مختلف چیزوں کی حِلّت و حُرمت میں فقہاء لء درمیان اختلاف ہوا ہے۔ مثلاً پالتو گدھے کو امام ابو حنیفہ ، امام مالک اور امام شافعی حرام قرار دیتے ہیں۔ لیکن بعض دُوسرے فقہا کہتے ہیں کہ وہ حرام نہیں ہے بلکہ کسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اس کی ممانعت فرما دی تھی۔ درندہ جانوروں اور شکاری پرندوں اور مُردار خور حیوانات کو حنفیہ مطلقاً حرام قرار دیتے ہیں۔ مگر امام مالک اور اَوزاعی کے نزدیک شکاری پرندے حلال ہیں۔ لَیث کے نزدیک بِلّی حلال ہے۔ امام شافعی کے نزدیک صرف وہ درندے حرام ہیں جو انسان پر حملہ کرتے ہیں، جیسے شیر، بھیڑیا، چیتا وغیرہ۔ عِکْرِمہ کے نزدیک کوّا اور بجّو دونوں حلال ہیں۔ اسی طرح حنفیہ تما م حشرات الارض کو حرام قرار دیتے ہیں ، مگر ابن ابی لیلیٰ، امام مالک اور اوزاعی کے نزدیک سانپ حلال ہے۔ ان تمام مختلف اقوال اور ان کے دلائل پر غور کرنے سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ دراصل شریعت الہٰی میں قطعی حُرمت اُن چار ہی چیزوں کی ہے جن کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے ۔ ان کے سوا دُوسری حیوانی غذاؤں میں مختلف درجوں کی کراہت ہے۔ جن چیزوں کی کراہت صحیح روایات کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے وہ حُرمت کے درجہ سے قریب تر ہیں اور جن چیزوں میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہوا ہے ان کی کراہت مشکوک ہے۔ رہی طبعی کراہت جس کی بنا پر بعض اشخاص بعض چیزوں کو کھانا پسند نہیں کرتے، یا طبقاتی کراہت جس کی بنا پر انسانوں کے بعض طبقے بعض چیزوں کو ناپسند کرتے ہیں، یا قومی کراہت جس کی بنا پر بعض قومیں بعض چیزوں سے نفرت کرتی ہیں ، تو شریعتِ الہٰی کسی کو مجبُور نہیں کرتی کہ وہ خواہ مخواہ ہر اس چیز کو ضرور ہی کھا جائے جو حرام نہیں کی گئی ہے۔ اور اسی طرح شریعت کسی کو یہ حق بھی نہیں دیتی کہ وہ اپنی کراہت کو قانون قرار دے اور ان لوگوں پر الزام عائد کر ے جو ایسی غذائیں استعمال کرتے ہیں جنھیں وہ نا پسند کرتا ہے |
Surah 5 : Ayat 60
قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذَٲلِكَ مَثُوبَةً عِندَ ٱللَّهِۚ مَن لَّعَنَهُ ٱللَّهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ ٱلْقِرَدَةَ وَٱلْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ ٱلطَّـٰغُوتَۚ أُوْلَـٰٓئِكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَأَضَلُّ عَن سَوَآءِ ٱلسَّبِيلِ
پھر کہو 1"کیا میں اُن لوگوں کی نشاندہی کروں جن کا انجام خدا کے ہاں فاسقوں کے انجام سے بھی بدتر ہے؟ وہ جن پر خدا نے لعنت کی، جن پر اُس کا غضب ٹوٹا، جن میں سے بندر اور سور بنائے گئے، جنہوں نے طاغوت کی بندگی کی ان کا درجہ اور بھی زیادہ برا ہے اور وہ سَوَا٫ السّبیل سے بہت زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں"
1 | لطیف اشارہ ہے خود یہُودیوں کی طرف، جن کی اپنی تاریخ یہ کہہ رہی ہے کہ بارہا وہ خدا کے غضب اور اس کی لعنت میں مُبتلا ہوئے، سَبْت کا قانون توڑنے پر ان کی قوم کے بہت سے لوگوں کی صُورتیں مسخ ہوئیں، حتٰی کہ وہ تنزّل کی اس انتہا کو پہنچے کہ طاغوت کی بندگی تک انہیں تصیب ہوئی ۔ پس کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آخر تمہاری بے حیائی اور مجرمانہ بے باکی کی کوئی حد بھی ہے کہ خود فسق و فجور اور انتہائی اخلاقی تنزل میں مُبتلا ہو اور اگر کوئی دُوسرا گروہ خدا پر ایمان لا کر سچّی دینداری کا طریقہ اختیار کرتا ہے تو اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہو |
Surah 2 : Ayat 65
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ ٱلَّذِينَ ٱعْتَدَوْاْ مِنكُمْ فِى ٱلسَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُواْ قِرَدَةً خَـٰسِــِٔينَ
پھر تمہیں اپنی قوم کے اُن لوگوں کا قصہ تو معلوم ہی ہے جنہوں نے سبت کا قانون توڑا تھا1 ہم نے انہیں کہہ دیا کہ بندر بن جاؤ اور اس حال میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر دھتکار پھٹکار پڑے2
2 | اس واقعے کی تفصیل آگے سُورہ اعراف رکوع ۲۱ میں آتی ہے۔ ان کے بندر بنائے جانے کی کیفیت میں اختلاف ہے۔ بعض یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی جسمانی ہیئت بگاڑ کر بندروں کی سی کر دی گئی تھی اور بعض اس کے یہ معنی لیتے ہیں کہ ان میں بندروں کی سی صفات پیدا ہو گئی تھیں۔ لیکن قرآن کے الفاظ اور اندازِ بیان سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسخ اخلاقی نہیں بلکہ جسمانی تھا۔ میرے نزدیک قرینِ قیاس یہ ہے کہ ان کے دماغ بعینہااسی حال پر رہنے دیے گئے ہوں گے جس میں وہ پہلے تھے اور جسم مسخ ہو کر بندروں کے سے ہو گئے ہوں گے |
1 | سَبْت ، یعنی ہفتے کا دن ۔ بنی اسرائیل کے لیے یہ قانون مقرر کیا گیا تھا کہ وہ ہفتے کو آرام اور عبادت کے لیے مخصُوص رکھیں۔ اس روز کسی قسم کا دُنیوی کام ، حتّٰی کہ کھانا پکانے کا کام بھی نہ خود کریں، نہ اپنے خادموں سے لیں۔ اس باب میں یہاں تک تاکیدی احکام تھے کہ جو شخص اس مقدس دن کی حُرمت کو توڑے، وہ واجب القتل ہے(ملاحظہ ہو خُروج ، باب ۳۱ ، آیت ۱۷-۱۲)۔ لیکن جب بنی اسرائیل پر اخلاقی و دینی انحطاط کا دَور آیا تو وہ علی الا علان سَبْت کی بے حرمتی کرنے لگے حتّٰی کہ اُن کے شہروں میں کُھلے بندوں سَبْت کے روز تجارت ہونے لگی |
Surah 5 : Ayat 60
قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذَٲلِكَ مَثُوبَةً عِندَ ٱللَّهِۚ مَن لَّعَنَهُ ٱللَّهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ ٱلْقِرَدَةَ وَٱلْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ ٱلطَّـٰغُوتَۚ أُوْلَـٰٓئِكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَأَضَلُّ عَن سَوَآءِ ٱلسَّبِيلِ
پھر کہو 1"کیا میں اُن لوگوں کی نشاندہی کروں جن کا انجام خدا کے ہاں فاسقوں کے انجام سے بھی بدتر ہے؟ وہ جن پر خدا نے لعنت کی، جن پر اُس کا غضب ٹوٹا، جن میں سے بندر اور سور بنائے گئے، جنہوں نے طاغوت کی بندگی کی ان کا درجہ اور بھی زیادہ برا ہے اور وہ سَوَا٫ السّبیل سے بہت زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں"
1 | لطیف اشارہ ہے خود یہُودیوں کی طرف، جن کی اپنی تاریخ یہ کہہ رہی ہے کہ بارہا وہ خدا کے غضب اور اس کی لعنت میں مُبتلا ہوئے، سَبْت کا قانون توڑنے پر ان کی قوم کے بہت سے لوگوں کی صُورتیں مسخ ہوئیں، حتٰی کہ وہ تنزّل کی اس انتہا کو پہنچے کہ طاغوت کی بندگی تک انہیں تصیب ہوئی ۔ پس کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آخر تمہاری بے حیائی اور مجرمانہ بے باکی کی کوئی حد بھی ہے کہ خود فسق و فجور اور انتہائی اخلاقی تنزل میں مُبتلا ہو اور اگر کوئی دُوسرا گروہ خدا پر ایمان لا کر سچّی دینداری کا طریقہ اختیار کرتا ہے تو اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہو |
Surah 7 : Ayat 166
فَلَمَّا عَتَوْاْ عَن مَّا نُهُواْ عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُونُواْ قِرَدَةً خَـٰسِــِٔينَ
پھر جب وہ پوری سرکشی کے ساتھ وہی کام کیے چلے گئے جس سے انہیں روکا گیا تھا، تو ہم نے کہا کہ بندر ہو جاؤ ذلیل اور خوار1
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ، حاشیہ نمبر۸۳ |