Ayats Found (3)
Surah 17 : Ayat 106
وَقُرْءَانًا فَرَقْنَـٰهُ لِتَقْرَأَهُۥ عَلَى ٱلنَّاسِ عَلَىٰ مُكْثٍ وَنَزَّلْنَـٰهُ تَنزِيلاً
اور اس قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے تاکہ تم ٹھیر ٹھیر کر اسے لوگوں کو سناؤ، اور اسے ہم نے (موقع موقع سے) بتدریج اتارا ہے1
1 | یہ مخالفین کے اس شبہہ کا جواب ہے کہ اللہ میاں کو پیغام بھیجنا تھاتو پورا پیغام بیک وقت کیوں نہ بھیج دیا؟ یہ آخر ٹھیر ٹھیر کر تھوڑا تھوڑا پیغام کیوں بھیجا جا رہا ہے؟ کیا خدا کو بھی انسانوں کی طرح سوچ سوچ کر بات کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے؟ اس شبہہ کا مفصل جواب سورہ نحل آیات ١۰١،١۰۲ میں گزر چکا ہے اور وہاں ہم اس کی تشریح بھی کر چکے ہیں، اس لیے یہاں اس کے اعادے کی ضرورت نہیں ہے۔ |
Surah 73 : Ayat 4
أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ ٱلْقُرْءَانَ تَرْتِيلاً
یا اس سے کچھ کم کر لو یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو1، اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو2
2 | یعنی تیز تیز رواں دواں نہ پڑھو، بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زیاد سے ادا کرو اور ایک ایک آیت پر ٹھیرو، تاکہ ذہن پوری طرح کلام الہی کے مفہوم و مدعا کو سمجھے اور اس کے مضامین سے متاثر ہو۔ کہیں اللہ کی ذات و صفات کا ذکر ہے تو اس کی عظمت و ہیبت دل پر طاری ہو۔ کہیں اس رحمت کا بیان ہے تو دل جذباتِ تشکر سے لبریز ہو جائے۔ کہیں اس کے غضب اور اس کے عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خوف طاری ہو۔ کہیں کسی چیز کا حکم ہے یا کسی چیز سے منع کیا گیا ہے تو سمجھا جائے کہ کس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور کس چیز سے منع کیا گیا ہے ۔ غرض یہ قرات محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کر دینے کے لیے نہیں بلکہ غور و فکر اور تدبر کے ساتھ ہونی چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ کی قرات کا طریقہ حضرت انسؓ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ آپ الفاظ کو کھینچ کھینچ کرپڑھتے تھے۔ مثال کے طور پر انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر بتایا کہ آپ اللہ ، رحمان اور رحیم کو مد کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ (بخاری) حضرت ام سلمہؓ سے یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ حضورؐ ایک ایک آیت کو الگ الگ کر پڑھتے اور ہر آیت پر ٹھیرتے جاتے تھے، مثلاً الحمد للہ رب العلمین پڑھ کر رکھ جاتے، پھر الرحمن الرحیم پر ٹھیرتے اور اس کے بعد رک کر ملک یوم الدین کہتے (مسند احمد ۔ ابو داؤد۔ ترمذی۔ نسائی)حضرت حذیفہ بن یمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رات کی نماز میں حضورؐ کے ساتھ کھڑا ہو گیا تو آپ کی قرات کا یہ انداز دیکھا کہ جہاں تسبیح کا موقع آتا وہاں تسبیح فرماتے، جہاں دعا کا موقع آتا وہاں دعا مانگتے ، جہاں اللہ تعالی کی پناہ مانگنے کا موقع آتا وہاں پناہ مانگتے (مسلم، نسائی)۔ حضرت ابوذر کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رات کی نماز میں جب حضورؐ اس مقام پر پہنچے ان تعذبھم فانھم عبادک و ان تغفرلھم فانک انت العزیز الحکیم۔ (اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تو غالب اور دانا ہے) تو اسی کو دہراتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی (مسند احمد، بخاری) |
1 | یہ اس مقدار وقت کی تشریح ہے جسے عبادت میں گزارنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس میں آپ کو اختیار دیا گیا کہ خواہ آدھی رات نماز میں صرف کریں، یا اس سے کچھ کم کر دیں، اس سے کچھ زیادہ۔ لیکن اندازِ بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ قابلِ ترجیح آدھی رات ہے، کیونکہ اسی کو معیار قرار دے کر کمی بیشی کا اختیار دیا گیا ہے |
Surah 20 : Ayat 114
فَتَعَـٰلَى ٱللَّهُ ٱلْمَلِكُ ٱلْحَقُّۗ وَلَا تَعْجَلْ بِٱلْقُرْءَانِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَىٰٓ إِلَيْكَ وَحْيُهُۥۖ وَقُل رَّبِّ زِدْنِى عِلْمًا
پس بالا و برتر ہے اللہ، پادشاہ حقیقی1 اور دیکھو، قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کرو جب تک کہ تمہاری طرف اُس کی وحی تکمیل کو نہ پہنچ جائے، اور دُعا کرو کہ اے پروردگار مجھے مزید علم عطا کر2
2 | فَتَعٰلَی اللہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ، پر تقریر ختم ہو چکی تھی۔ اس کے بعد رخصت ہوتے ہوۓ فرشتہ اللہ تعالٰی کے حکم سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو ایک بات پر خبر دار کرتا ہے جو وحی نازل کرنے کے دوران میں اس کے مشاہدے میں آئی۔ بیچ میں ٹوکنا مناسب نہ سمجھا گیا، اس لیے پیغام کی ترسیل مکمل کرنے کے بعد اب وہ اس کا نوٹس لے رہا ہے۔ بات کیا تھی جس پر یہ تنبیہ کی گئی، اسے خود تنبیہ کے الفاظ ہی ظاہر کر رہے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم وحی کا پیغام وصول کرنے کے دوران میں اسے یاد کرنے اور زبان سے دہرانے کی کوشش فرما رہے ہوں گے۔ اس کوشش کی وجہ سے آپ کی توجہ بار بار بٹ جاتی ہو گی۔ سلسلۂ اخذ وحی میں خلل واقع ہو رہا ہو گا۔ پیغام کی سماعت پر توجہ پوری طرح مرکوز نہ ہو رہی ہو گی۔ اس کیفیت کو دیکھ کر یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ آپ کو پیغام وحی وصول کرنے کا صحیح طریقہ سمجھا یا جاۓ، اور بیچ بیچ میں یاد کرنے کی کوشش جو آپ کرتے ہیں اس سے منع کر دیا جاۓ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ طٰہٰ کا یہ حصہ ابتدائی زمانے کی وحیوں میں سے ہے۔ ابتدائی زمانہ میں جب کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ابھی اخذ وحی کی عادت اچھی طرح نہ پڑی تھی، آپ سے کئی مرتبہ یہ فعل سرزد ہوا ہے اور ہر موقع پر کوئی نہ کوئی فقرہ اس پر آپ کو متنبہ کرنے کے لیے اللہ تعالٰی کی طرف سے ارشاد فرمایا گیا ہے۔ سورۂ قیامہ کے نزول کے موقع پر بھی یہی ہوا تھا اور اس پر سلسلۂ کلام کو توڑ کر آپ کو ٹوکا گیا کہ : لَا تُحَرِّ کْ بِہٖ لِسَا نَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ، اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ، فَاِذَا قَرَأ نٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ۔ ’’اسے یاد کرنے کی جلدی میں اپنی زبان کو بار بار حرکت نہ دو، اسے یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے، لہٰذا جب ہم اسے سنا رہے ہوں تو غور سے سنتے رہو، پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے۔‘‘ سورۂ اعلیٰ میں بھی آپ کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ ہم اسے پڑھوا دیں گے اور آپ بھولیں گے نہیں، : سَنْقْر ئُکَ فَلَا تَنْسٰی۔ بعد میں جب آپ کو پیغامات وحی وصول کرنے کی اچھی مہارت حاصل ہو گئی تو اس طرح کی کیفیات آپ پر طاری ہونی بند ہو گئیں۔ اسی وجہ سے بعد کی سورتوں میں ایسی کوئی تنبیہ ہمیں نہیں ملتی۔ |
1 | اس طرح کے فقرے قرآن میں بالعموم ایک تقریر کو ختم کرتے ہوۓ ارشاد فرماۓ جاتے ہیں، اور مقصود یہ ہوتا ہے کہ کلام خاتمہ اللہ تعالٰی کی حمد و ثنا پر ہو۔ انداز بیان اور سیاق و سباق پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں ایک تقریر ختم ہو گئی ہے اور : وَلَقَدْ عَھِدْ نَآ اِلٰیٓ اٰدَمَ۔ سے دوسری تقریر شروع ہوتی ہے۔ اغلب یہ ہے کہ یہ دونوں تقریریں مختلف اوقات میں نازل ہوئی ہوں گی اور بعد میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم الہٰی کے تحت ان کو ایک سورہ میں جمع کر دیا ہو گا۔ جمع کرنے کی وجہ دونوں کے مضمون کی مناسبت ہے جس کو ابھی ہم واضح کریں گے۔ |