Ayats Found (2)
Surah 5 : Ayat 64
وَقَالَتِ ٱلْيَهُودُ يَدُ ٱللَّهِ مَغْلُولَةٌۚ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُواْ بِمَا قَالُواْۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَآءُۚ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّآ أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَـٰنًا وَكُفْرًاۚ وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ ٱلْعَدَٲوَةَ وَٱلْبَغْضَآءَ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَـٰمَةِۚ كُلَّمَآ أَوْقَدُواْ نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا ٱللَّهُۚ وَيَسْعَوْنَ فِى ٱلْأَرْضِ فَسَادًاۚ وَٱللَّهُ لَا يُحِبُّ ٱلْمُفْسِدِينَ
یہودی کہتے ہیں اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں1 باندھے گئے ان کے ہاتھ2، اور لعنت پڑی اِن پر اُس بکواس کی بدولت جو یہ کرتے ہیں3 اللہ کے ہاتھ تو کشادہ ہیں، جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے حقیقت یہ ہے کہ جو کلام تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے وہ ان میں سے اکثر لوگوں کی سرکشی و باطل پرستی میں الٹے اضافہ کا موجب بن گیا ہے4، اور (اس کی پاداش میں) ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لیے عداوت اور دشمنی ڈال دی ہے جب کبھی یہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اُس کو ٹھنڈا کر دیتا ہے یہ زمین میں فساد پھیلانے کی سعی کر رہے ہیں مگر اللہ فساد برپا کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا
4 | یعنی بجائے اس کے کہ اس کلام کو سُن کر وہ کوئی مفید سبق لیتے، اپنی غلطیوں اور غلط کاریوں پر متنبّہ ہو کر ان کی تلافی کرتے، اور اپنی گِری ہوئی حالت کے اسباب معلوم کر کے اصلاح کی طرف متوجہ ہوتے، اُن پر اس کا اُلٹا اثر یہ ہوا ہے کہ ضد میں آکر انہوں نے حق و صداقت کی مخالفت شروع کر دی ہے۔ خیر و صلاح کے بھُولے ہوئے سبق کو سُن کر خود راہِ راست پر آنا تو درکنار ، اُن کی اُلٹی کوشش یہ ہے کہ جو آواز اس سبق کو یاد دلا رہی ہے اسے دبا دیں تاکہ کوئی دُوسرا بھی اسے نہ سُننے پائے |
3 | یعنی اس قسم کی گُستاخیاں اور طعن آمیز باتیں کر کے یہ چاہیں کہ خدا ان پر مہربان ہو جائے اور عنایات کی بارش کرنے لگے تو یہ کسی طرح ممکن نہیں۔ بلکہ ان باتوں کا اُلٹا نتیجہ یہ ہے کہ یہ لوگ خدا کی نظرِ عنایت سے اور زیادہ محرُوم اور اس کی رحمت سے اَور زیادہ دُور ہوتے جاتے ہیں |
2 | یعنی بخل میں یہ خود مُبتلا ہیں۔ دُنیا میں اپنے بُخل اور اپنی تنگ دلی کے لیے ضرب المثل بن چکے ہیں |
1 | عربی محاورے کے مطابق کسی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بخیل ہے، عطا اور بخشش سے اُس کا ہاتھ رُکا ہوا ہے ۔ پس یہُودیوں کے اس قول کا مطلب یہ نہیں ہے کہ واقعی اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ بخیل ہے ۔ چونکہ صدیوں سے یہُودی قوم ذلّت و نکبت کی حالت میں مُبتلا تھی اور اس کی گزشتہ عظمت محض ایک افسانہء پارینہ بن کر رہ گئی تھی جس کے پھر واپس آنے کا کوئی امکان اُنہیں نظر نہ آتا تھا ، اس لیے بالعمُوم اپنے قومی مصائب پر ماتم کرتے ہوئے اُس قوم کے نادان لوگ یہ بیہودہ فقرہ کہا کرتے تھے کہ معاذ اللہ خدا تو بخیل ہو گیا ہے، اس کے خزانے کا مُنہ بند ہے ، ہمیں دینے کے لیے اس کے پاس آفات اور مصائب کے سوا اور کچھ نہیں رہا۔ یہ بات کچھ یہُودیوں تک ہی محدُود نہیں، دُوسری قوموں کے جُہلاء کا بھی یہی حال ہے کہ جب ان پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو خدا کی طرف رجُوع کرنے کے بجائے وہ جل جل کر اس قسم کی گُستاخانہ باتیں کیا کرتے ہیں |
Surah 5 : Ayat 68
قُلْ يَـٰٓأَهْلَ ٱلْكِتَـٰبِ لَسْتُمْ عَلَىٰ شَىْءٍ حَتَّىٰ تُقِيمُواْ ٱلتَّوْرَٮٰةَ وَٱلْإِنجِيلَ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْۗ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّآ أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَـٰنًا وَكُفْرًاۖ فَلَا تَأْسَ عَلَى ٱلْقَوْمِ ٱلْكَـٰفِرِينَ
صاف کہہ دو کہ 1"اے اہل کتاب! تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ توراۃ اور انجیل اور اُن دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو جو تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہیں" ضرور ہے کہ یہ فرمان جو تم پر نازل کیا گیا ہے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور انکار کو اور زیادہ بڑھا دے گا2 مگر انکار کرنے والوں کے حال پر کچھ افسوس نہ کرو
2 | یعنی یہ بات سُن کر ٹھنڈے دل سے غور کرنے اور حقیقت کو سمجھنے کے بجائے وہ ضد میں آکر اَور زیادہ شدید مخالفت شروع کر دیں گے |
1 | توراۃ اور انجیل کو قائم کرنے سے مراد راست بازی کے ساتھ ان کی پَیروی کرنا اور انہیں اپنا دستورِ زندگی بناتا ہے۔ اِس موقع پر یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ بائیبل کے مجمُوعہ کتب مقدسہ میں ایک قسم کی عبارات تو وہ ہیں جو یہودی اور عیسائی مصنّفین نے بطورِ خود لکھی ہیں۔ اور دُوسری قسم کی عبارات وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارشادات یا حضرت موسیٰ ؑ ، عیسیٰ ؑ اور دُوسرے پیغمبروں کے اقوال ہونے کی حیثیت سے منقول ہیں اور جن میں اس بات کی تصریح ہے کہ اللہ نے ایسا فرمایا یا فلاں نبی نے ایسا کہا۔ ان میں سے پہلی قسم کی عبارات کو الگ کر کے اگر کوئی شخص صرف دُوسری قسم کی عبارات کا تَتَبُّع کرے تو بآسانی یہ دیکھ سکتا ہے کہ ان کی تعلیم اور قرآن کی تعلیم میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہے۔ اگرچہ مترجموں اور ناسخوں اور شارحوں کی دراندازی سے، اور بعض جگہ زبانی راویوں کی غلطی سے ، یہ دُوسری قسم کی عبارات بھی پُوری طرح محفوظ نہیں رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود کوئی شخص یہ محسُوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان میں بعینہہ اسی خالص توحید کی دعوت دی گئی ہے جس کی طرف قرآن بُلا رہا ہے، وہی عقائد پیش کیے گئے ہیں جو قرآن پیش کرتا ہے اور اسی طریقِ زندگی کی طرف رہنمائی کی گئی ہے جس کی ہدایت قرآن دیتا ہے۔ پس حقیقت یہ ہے کہ اگر یہُودی اور عیسائی اُسی تعلیم پر قائم رہتے جو اِن کتابوں میں خدا اور پیغمبروں کی طرف سے منقول ہے تو یقیناّ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت وہ ایک حق پرست اور راست رَو گروہ پائے جاتے اور انہیں قرآن کے اندر وہی روشنی نظر آتی جو پچھلی کتابوں میں پائی جاتی تھی۔ اس صُورت میں ان کے لیے نبی صلی علیہ وسلم کی پَیروی اختیار کرنے میں تبدیلِ مذہب کا سرے سے کوئی سوال پیدا ہی نہ ہوتا بلکہ وہ اُسی راستہ کے تسلسل میں، جس پر وہ پہلے سے چلے آرہے تھے، آپ کے متبع بن کر آگے چل سکتے تھے |