Ayats Found (3)
Surah 7 : Ayat 176
وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَـٰهُ بِهَا وَلَـٰكِنَّهُۥٓ أَخْلَدَ إِلَى ٱلْأَرْضِ وَٱتَّبَعَ هَوَٮٰهُۚ فَمَثَلُهُۥ كَمَثَلِ ٱلْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثۚ ذَّٲلِكَ مَثَلُ ٱلْقَوْمِ ٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَاۚ فَٱقْصُصِ ٱلْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
اگر ہم چاہتے تو اسے اُن آیتوں کے ذریعہ سے بلندی عطا کرتے، مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہش نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا، لہٰذا اس کی حالت کتے کی سی ہو گئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے1 یہی مثال ہے اُن لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں تم یہ حکایات اِن کو سناتے رہو، شاید کہ یہ کچھ غور و فکر کریں
1 | ان دو مختصر سے فقروں میں بڑا اہم مضمون ارشاد ہوا ہے جسے ذرا تفصیل کے ساتھ سمجھ لینا چاہیے۔ وہ شخص جس کی مثال یہاں پیش کی گئی ہے، آیات الہٰی کا علم رکھتا تھا، یعنی حقیقت سے واقف تھا۔ اس علم کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ اس رویہ سے بچتا جس کو وہ غلط جانتا تھا اور وہ طرزِ عمل اختیار کرتا جو اسے معلوم تھا کہ صحیح ہے۔ اسی عمل مطابقِ علم کی بدولت اللہ تعالیٰ اس کو انسانیت کے بلند مراتب پر ترقی عطا کرتا۔ لیکن وہ دنیا کے فائدوں اور لذتوں اور آرائشوں کی طرف جھک پڑا، خواہشاتِ نفس کے تقاضوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے اُس نے ان کے آگے سپر ڈال دی، معالیِ امور کی طلب میں دنیا کی حرص و طمع سے بالا تر ہونے کے بجائے وہ اس حرص و طمع سے ایسا مغلوب ہوا کہ اپنے سب اُونچے ارادوں اور اپنی عقلی و اخلاقی ترقی کے سارے امکانات کو طلاق دے بیٹھا اور اُن تمام حدود کو توڑ کر نکل بھا گا جن کی نگہداشت کا تقاضا خود اُس کا علم کر رہا تھا۔ پھر جب وہ محض اپنی اخلاقی کمزوری کی بنا پر جانتے بوجھتے حق سے منہ موڑ کر بھاگا تو شیطان جو قریب ہی اس کی گھات میں لگا ہوا تھا۔، اس کے پیچھے لگ گیا اور برابر اُسے ایک پستی سے دوسری پستی کی طرف لے جاتا رہا یہاں تک کہ ظالم نے اسے اُن لوگوں کے زمرے میں پہنچا کر ہی دم لیا جو اس کے دام میں پھنس کر پوری طرح اپنی متاعِ عقل وہوش گم کر چکے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس شخص کی حالت کو کُتّے سے تشبیہ دیتا ہے جس کی ہر وقت لٹکی ہوئی زبان اور ٹپکتی ہوئی رال ایک نہ بجھنے والی آتشِ حرص اور کبھی نہ سیر ہونے والی نیت کا پتہ دیتی ہے۔ بنائے تشبیہ وہی ہے جس کی وجہ سے ہم اپنی اُردو زبان میں ایسے شخص کو دنیا کی حرص میں اندھا ہو رہا ہو، دنیا کا کتّا کہتے ہیں کُتّے کی جبلت کیا ہے؟ حرص و آز۔ چلتے پھرتے اس کی ناک زمین سونگھنے ہی میں لگی رہتی ہے کہ شاید کہیں سے بو ئے طعام آجائے۔ اسے پتھر مار یے تب بھی اس کی یہ توقع دور نہیں ہوتی کہ شاید یہ چیز جو پھینکی گئی ہے کوئی ہڈی یا روٹی کا کوئی ٹکڑا ہو۔ پیٹ کا بندہ ایک دفعہ تو لپک کر اس کو بھی دانتوں سے پکڑہی لیتا ہے۔ اس سے بے التفاتی کیجیے تب بھی وہ لالچ کا مارا توقعات کی ایک دنیا دل میں لیے، زبان لٹکائے، ہانپتا کانپتا کھڑا ہی رہے گا۔ ساری دنیا کو وہ بس پیٹ ہی کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ کہیں کوئی بڑی سی لاش پڑی ہو، جو کئی کتوں کے کھانے کو کافی ہو ، تو ایک کتا اس میں سے صرف اپنا حصہ لیتے پر اکتفا نہ کرے گا بلکہ اسے صرف اپنے ہی لیے مخصوص رکھنا چاہیگا اور کسی دوسرے کتے کو اس کےپاس نہ بھٹکنے دے گا۔اس شہوت شکم کے بعد اگر کوئی چیز اس پر غالب ہے تو وہ ہے شہوتِ فَرج۔ اپنے سارے جسم میں صرف ایک شرمگاہ ہی وہ چیز ہے جس سے وہ دل چسپی رکھتا ہے اور اسی کو سونگھنے اورچاٹنے میں مشغول رہتا ہے۔ پس تشبیہ کا مدعا یہ ہے کہ دنیا پر ست آدمی جب علم اور ایمان کی رسّی تُڑا کر بھاگتا ہے اور نفس کی اندھی خواہشات کے ہاتھ میں اپنی باگیں دے دیتا ہے تو پھر کتے کی حالت کو پہنچے بغیر نہیں رہتا ، ہمہ تن پیٹ اور ہمہ تن شرمگاہ |
Surah 18 : Ayat 18
وَتَحْسَبُهُمْ أَيْقَاظًا وَهُمْ رُقُودٌۚ وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ ٱلْيَمِينِ وَذَاتَ ٱلشِّمَالِۖ وَكَلْبُهُم بَـٰسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِٱلْوَصِيدِۚ لَوِ ٱطَّلَعْتَ عَلَيْهِمْ لَوَلَّيْتَ مِنْهُمْ فِرَارًا وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْبًا
تم انہیں دیکھ کر یہ سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں، حالانکہ وہ سو رہے تھے ہم انہیں دائیں بائیں کروٹ دلواتے رہتے تھے1 اور ان کا کتا غار کے دہانے پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا اگر تم کہیں جھانک کر اُنہیں دیکھتے تو الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور تم پر ان کے نظارے سے دہشت بیٹھ جاتی2
2 | یعنی پہاڑوں کے اندر ایک اندھیرے غار میں چند آدمیوں کا اس طرح موجود ہونا اور آگے کتے کا بیٹھا ہونا ایک ایسا دہشت ناک منظر پیش کرتا کہ جھانکنے والے ان کو ڈاکو سمجھ کر بھاگ جاتے تھے، اور یہ ایک بڑا سبب تھا جس کی وجہ سے ان لوگوں کے حال پر اتنی مدت تک پردہ پڑا رہا۔ کسی کو یہ جرأت ہی نہ ہوئی کہ اندر جا کر کبھی اصل معاملے سے با خبر ہوتا۔ |
1 | یعنی اگر باہر سے کوئی جھانک کر دیکھتا بھی تو ان سات آدمیوں کے وقتاً فوقتاً کروٹیں لیتے رہنے کی وجہ سے وہ یہی گمان کرتا کہ یہ بس یونہی لیٹے ہوئے ہیں، سوئے ہوئے نہیں ہیں۔ |
Surah 18 : Ayat 22
سَيَقُولُونَ ثَلَـٰثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمَۢا بِٱلْغَيْبِۖ وَيَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْۚ قُل رَّبِّىٓ أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِم مَّا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِيلٌۗ فَلَا تُمَارِ فِيهِمْ إِلَّا مِرَآءً ظَـٰهِرًا وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِم مِّنْهُمْ أَحَدًا
کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا اور کچھ دوسرے کہہ دیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا اُن کا کتا تھا یہ سب بے تکی ہانکتے ہیں کچھ اور لوگ کہتے ہیں کہ سات تھے اور آٹھواں اُن کا کتا تھا1 کہو، میرا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنے تھے کم ہی لوگ ان کی صحیح تعداد جانتے ہیں پس تم سرسری بات سے بڑھ کر ان کی تعداد کے معاملے میں لوگوں سے بحث نہ کرو، اور نہ ان کے متعلق کسی سے کچھ پوچھو2
2 | مطلب یہ ہے اصل چیز ان کی تعداد نہیں ہے، بلکہ اصل چیز وہ سبق ہیں جو اس قصے سے ملتے ہیں۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ایک سچے مومن کو کسی حال میں حق سے منہ موڑنے اور باطل کے آگے سر جھکانے کے لیے تیار نہ ہونا چاہیے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ مومن کا اعتماد اسباب دنیا پر نہیں بلکہ اللہ پر ہونا چاہیے، اور حق پرستی کے لیے بظاہر ماحول میں کسی سازگاری کے آثار نظر نہ آتے ہوں تب بھی اللہ کے بھروسے پر راہ حق میں قدم اٹھا دینا چاہیے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جس ’’عادت جاریہ‘‘ کو لوگ ’’قانون فطرت‘‘ سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس قانون کے خلاف دنیا میں کچھ نہیں ہو سکتا، اللہ تعالٰی در حقیقت اس کا پابند نہیں ہے، وہ جب اور جہاں چاہے اس عادت کو بدل کر غیر معمولی کام بھی کرنا چاہے، کر سکتا ہے۔ اس کے لیے یہ کوئی بڑا کام نہیں ہے کہ کسی کو دو سو برس تک سلا کر اس طرح اٹھا بٹھائے جیسے وہ چند گھنٹے سویا ہے، اور اس کی عمر، شکل، صورت، لباس، تندرستی، غرض کسی چیز پر بھی اس امتداد زمانہ کا کچھ اثر نہ ہو۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ نوع انسانی کی تمام اگلی پچھلی نسلوں کو بیک وقت زندہ کر کے اٹھا دینا، جس کی خبر انبیاء اور کتب آسمانی نے دی ہے، اللہ تعالٰی کی قدرت سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جاہل انسان کس طرح ہر زمانے میں اللہ کی نشانیوں کو اپنے لیے سرمۂ چشم بصیرت بنانے کے بجائے الٹا مزید گمراہی کا سامان بناتے رہے ہیں۔ اصحاب کہف کو جو معجزہ اللہ نے اس لیے دکھایا تھا کہ لوگ اس سے آخرت کا یقین حاصل کریں، ٹھیک اسی نشان کو انہوں نے یہ سمجھا کہ اللہ نے انہیں اپنے کچھ اور ولی پوجنے کے لیے عطا کردیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہیں وہ اصل سبق جو آدمی کو اس قصے سے لینے چاہییں اور اس میں توجہ کے قابل یہی امور ہیں۔ان سے توجہ ہٹا کر اس کھوج میں لگ جانا کہ اصحاب کہف کتنے تھے اور کتنے نہ تھے، اور ان کے نام کیا کیا تھے، اور ان کا کتا کس رنگ کا تھا، یہ ان لوگوں کا کام ہے جو مغز کو چھوڑ کر صرف چھلکوں سے دلچسپی رکھتے ہیں۔اس لیے اللہ تعالٰی نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اور آپ کے واسطے سے اہل ایمان کو یہ تعلیم دی کہ اگر دوسرے لوگ اس طرح کی غیر متعلق بحثیں چھیڑیں بھی تو تم ان میں نہ الجھو، نہ ایسے سوالات کی تحقیق میں اپنا وقت ضائع کرو، بلکہ اپنی توجہ صرف کام کی بات پر مرکوز رکھو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے خود ان کی صحیح تعداد بیان نہیں فرمائی تاکہ شوق فضول رکھنے والوں کو غذا نہ ملے۔ |
1 | اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعے کے پونے تین سو سال بعد، نزول قرآن کے زمانے میں اس کی تفصیلات کے متعلق مختلف افسانے عیسائیوں میں پھیلے ہوئے تھے اور عموماً مستند معلومات لوگوں کے پاس موجود نہ تھیں۔ ظاہر ہے کہ وہ پریس کا زمانہ نہ تھا جن کتابوں میں اس کے متعلق نسبۃً زیادہ صحیح معلومات درج تھیں وہ عام طور پر شائع ہوتیں۔ واقعات زیادہ تر زبانی روایات کے ذریعے سے پھیلتے تھے، اور امتداد زمانہ کے ساتھ ان کی بہت سیر تفصیلات افسانہ بنتی چلی جاتی تھیں۔ تاہم چونکہ تیسرے قول کی تردید اللہ تعالٰی نے نہیں فرمائی ہے اس لیے یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ صحیح تعداد سات ہی تھی۔ |