Ayats Found (9)
Surah 11 : Ayat 17
أَفَمَن كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِۦ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِن قَبْلِهِۦ كِتَـٰبُ مُوسَىٰٓ إِمَامًا وَرَحْمَةًۚ أُوْلَـٰٓئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِۦۚ وَمَن يَكْفُرْ بِهِۦ مِنَ ٱلْأَحْزَابِ فَٱلنَّارُ مَوْعِدُهُۥۚ فَلَا تَكُ فِى مِرْيَةٍ مِّنْهُۚ إِنَّهُ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ
پھر بھلا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا1، اس کے بعد ایک گواہ بھی پروردگار کی طرف سے (اس شہادت کی تائید میں) آ گیا2، اور پہلے موسیٰؑ کی کتاب رہنما اور رحمت کے طور پر آئی ہوئی بھی موجود تھی (کیا وہ بھی دنیا پرستوں کی طرح اس سے انکار کرسکتا ہے؟) ایسے لوگ تو اس پر ایمان ہی لائیں گے3 اور انسانی گروہوں میں سے جو کوئی اس کا انکار کرے تو اس کے لیے جس جگہ کا وعدہ ہے وہ دوزخ ہے پس اے پیغمبرؐ، تم اِس چیز کی طرف سے کسی شک میں نہ پڑنا، یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے مگر اکثر لوگ نہیں مانتے
3 | سلسلۂ کلام کےلحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جولوگ دنیوی زندگی کے ظاہری پہلو پر اور اس کی خوش نمائیوں پر فریفتہ ہیں اُن کے لیے تو قرآن کی دعوت کو رد کر دینا آسان ہے۔ مگر وہ شخص جو اپنی ہستی اور کائنات کے نظام میں پہلے سے توحید و آخرت کی کھلی شہادت پا رہا تھا ، پھر قرآن نے آکر ٹھیک وہی بات کہی جس کی شہادت وہ پہلے سے اپنے اندر بھی پا رہا تھا اور باہر بھی ، اور پھر اس کی مزید تائید قرآن سے پہلے آئی ہوئی کتاب آسمانی میں بھی اسے مل گئی، آخر وہ کس طر ح اتنی زبردست شہادتوں کی طرف سے آنکھیں بند کر کے اِن منکرین کا ہم نوا ہو سکتا ہے ؟ اس ارشاد سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نزول قرآن سے پہلے ایمان بالغیب کی منزل سے گزر چکے تھے ۔ جس طرح سورۂ اَنعام میں حضرت ابراہیم کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ نبی ہونے سے پہلے آثارِ کائنات کے مشاہدے سے توحید کی معرفت حاصل کر چکے تھے، اسی طرح یہ آیت صاف بتا رہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی غور و فکر سے اس حقیقت کو پا لیا تھا اور اس کے بعد قرآن نے آپ کو حقیقت کا براہِ راست کی بلک آکر اس کی نہ صرف تصدیق و توثیق کا علم بھی عطا کر دیا گیا |
2 | یعنی قرآن ، جس نے آکر اُس فطری و عقلی شہادتت کی تائید کی اور اسے بتایا کہ فی الواقع حقیقت وہی ہے جس کا نشان آفاق و انفس کے آثار میں تُونے پایا ہے |
1 | یعنی جس کو خود اپنے وجود میں اور زمین و آسمان کی ساخت میں اور کائنات کے نظم و نسق میں اِس امر کی کھلی شہادت مل رہی تھی کہ اِس دنیا کا خالق، مالک ، پروردگار اور حاکم و فرما نروا صرف ایک خدا ہے، اور پھر انہین شہادتوں کو دیکھ کر جس کا دل یہ گواہی بھی پہلے ہی دے رہا تھا کہ اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی ضرور ہونی چاہیے جس میں انسان اپنے خدا کو اپنے اعمال کا حساب دے اور اپنے کیے کی جزا اور سزا پائے |
Surah 20 : Ayat 127
وَكَذَٲلِكَ نَجْزِى مَنْ أَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِنۢ بِـَٔـايَـٰتِ رَبِّهِۦۚ وَلَعَذَابُ ٱلْأَخِرَةِ أَشَدُّ وَأَبْقَىٰٓ
اِس طرح ہم حد سے گزرنے والے اور اپنے رب کی آیات نہ ماننے والے کو (دُنیا میں) بدلہ دیتے ہیں1، اور آخرت کا عذاب زیادہ سخت اور زیادہ دیر پا ہے
1 | اشارہ ہے اس ’’تنگ زندگی‘‘ کی طرف جو اللہ کے ’’ذکر‘‘ یعنی اس کی کتاب اور اس کے بھیجے ہوۓ درس نصیحت سے منہ موڑنے والوں کو دنیا میں نسر کرائی جاتی ہے۔ |
Surah 22 : Ayat 51
وَٱلَّذِينَ سَعَوْاْ فِىٓ ءَايَـٰتِنَا مُعَـٰجِزِينَ أُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلْجَحِيمِ
اور جو ہماری آیات کو نیچا دکھانے کی کوشش کریں گے وہ دوزخ کے یار ہیں
Surah 34 : Ayat 5
وَٱلَّذِينَ سَعَوْ فِىٓ ءَايَـٰتِنَا مُعَـٰجِزِينَ أُوْلَـٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مِّن رِّجْزٍ أَلِيمٌ
اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو نیچا دکھانے کے لیے زور لگایا ہے، ان کے لیے بدترین قسم کا دردناک عذاب ہے1
1 | اوپر آخرت کے امکان کی دلیل تھی، اور یہ اس کے وجوب کی دلیل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایسا وقت ضرور آنا ہی چاہیے جب ظالموں کو ان کے ظلم کا اور صالحوں کو ان کی نیکی کا بدلہ دیا جائے۔ عقل یہ چاہتی ہے اور انصاف یہ تقاضا کرتا ہے کہ جو نیکی کرے اسے انعام ملے اور جو بدی کرے وہ سزا پائے۔ اب اگر تم دیکھتے ہو کہ دنیا کی موجودگی میں نہ ہر بد کو اس کی بدی کا اور نہ ہر نیک کو اس کی نیکی کا پورا بدلہ ملتا ہے، بلکہ بسا اوقات بدی اور نیکی کے الٹے نتائج بھی نکل آتے ہیں، تو تمہیں تسلیم کرنا چاہیے کہ عقل اور انصاف کا یہ لازمی تقاضا کسی وقت ضرور پورا ہونا چاہیے۔ قیامت اور آخرت اسی وقت کا نام ہے۔ اس کا آنا نہیں آنا عقل کے خلاف اور انصاف سے بعید ہے۔ اس سلسلہ میں ایک اور نکتہ بھی اوپر کی آیات سے واضح ہوتا ہے۔ ان میں بتایا گیا ہے کہا ایمان اور عمل صالح کا نتیجہ مغفرت اور رزق کریم ہے۔ اور جو لوگ خدا کے دین کو نیچا دکھانے کے لیے معاندانہ جدوجہد کریں ان کے لیے بدترین قوم کا عذاب ہے۔ اس سے خود بخود یہ ظاہر ہو گیا کہ جو شخص سچے دل سے ایمان لائے گا اس کے عمل میں اگر کچھ خرابی بھی ہو تو وہ رزق کریم چاہے نہ پائے مگر مغفرت سے محروم نہ رہے گا اور جو شخص کافر تو ہو مگر دین حق کے مقابلے میں عند و مخالفت کی روش بھی اختیار نہ کرے وہ عذاب سے تو نہ بچے گا مگر بد ترین عذاب اس کے لیے نہیں ہے۔ |
Surah 34 : Ayat 38
وَٱلَّذِينَ يَسْعَوْنَ فِىٓ ءَايَـٰتِنَا مُعَـٰجِزِينَ أُوْلَـٰٓئِكَ فِى ٱلْعَذَابِ مُحْضَرُونَ
رہے وہ لوگ جو ہماری آیات کو نیچا دکھانے کے لیے دوڑ دھوپ کرتے ہیں، تو وہ عذاب میں مبتلا ہوں گے
Surah 23 : Ayat 63
بَلْ قُلُوبُهُمْ فِى غَمْرَةٍ مِّنْ هَـٰذَا وَلَهُمْ أَعْمَـٰلٌ مِّن دُونِ ذَٲلِكَ هُمْ لَهَا عَـٰمِلُونَ
مگر یہ لوگ اس معاملے سے بے خبر ہیں1 اور ان کے اعمال بھی اس طریقے سے (جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے) مختلف ہیں وہ اپنے یہ کرتوت کیے چلے جائیں گے
1 | یعنی اس امر سے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں ، کہہ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں ، یہ سب کچھ کہیں درج ہو رہا ہے ، اور کبھی اس کا حساب ہونے والا ہے |
Surah 23 : Ayat 67
مُسْتَكْبِرِينَ بِهِۦ سَـٰمِرًا تَهْجُرُونَ
اپنے گھمنڈ میں اُس کو خاطر ہی میں نہ لاتے تھے اپنی چوپالوں میں اُس پر باتیں چھانٹتے1 اور بکواس کیا کرتے تھے
1 | اصل میں لفظ’’ سٰمِراً‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ سمر کے معنی ہیں رات کے وقت بات چیت کرنا ، گپیں ہانکنا، قصے کہانیاں کہنا۔ دیہاتی اور قصباتی زندگی میں یہ راتوں کی گپیں عموماً چو پالوں میں ہوا کرتی ہیں ، اور یہی اہل مکہ کا بھی دستور تھا |
Surah 87 : Ayat 11
وَيَتَجَنَّبُهَا ٱلْأَشْقَى
اور اس سے گریز کریگا وہ انتہائی بد بخت
Surah 87 : Ayat 13
ثُمَّ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَىٰ
پھر نہ اس میں مرے گا نہ جیے1 گا
1 | یعنی نہ اسے موت ہی آئے گی کہ عذاب سے چھوٹ جائے، اور نہ جینے کی طرح جیے گا کہ زندگی کا کوئی لطف اسے حاصل ہو۔ یہ سزا ان لوگوں کے لیے ہے جو سرے سے اللہ ا ور اس کے رسولؐ کی نصیحت کو قبول ہی نہ کریں اور مرتے دم تک کفروشرک یا دہریت پر قائم رہیں۔ رہے وہ لوگ جو دل میں ایمان رکھتے ہوں مگر اپنے برے اعمال کی بنا پر جہنم میں ڈالے جائیں تو ان کے متعلق احادیث میں آیا ہے کہ جب وہ اپنی سزا بھگت لیں گے تو اللہ تعالٰی انہیں موت دے دے گا، پھر ان کے حق میں شفاعت قبول کی جائے گی اور ان کی جلی ہو لاشیں جنت کی نہروں پر لا کرڈالی جائیں گی اور اہل جنت سے کہا جائے گا کہ ان پر پانی ڈالو اور اس پانی سے وہ اس طرح جی اٹھیں گے جیسے نباتات پانی پڑنے سے اُ گ آتی ہیں۔ یہ مضمون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسل میں حضرت ابو سعید خدری اور بزار میں حضرت ابو ہریرہؓ کے حوالہ سے منقول ہوا ہے۔ |