Ayats Found (6)
Surah 21 : Ayat 16
وَمَا خَلَقْنَا ٱلسَّمَآءَ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَـٰعِبِينَ
ہم نے اِس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ بھی ان میں ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے1
1 | یہ تبصرہ ہے ان کے اس پور سے نظریۂ حیات پر جس کی وجہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت پر توجہ نہ کرتے تھے ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ انسان دنیا میں بس یونہی آزاد چھوڑ دیا گیا ہے ۔ جو کچھ چاہے کرے اور جس طرح چاہے جیے ، کوئی باز پرس اس سے نہیں ہونی ہے ۔ کسی کو اسے حسب نہیں دینا ہے ۔ چند روز کی بھلی بری زندگی گزار کر سب کو بس یونہی فنا ہو جانا ہے ۔ کوئی دوسری زندگی نہیں ہے جس میں بھلائی کی جزا اور برائی کی سزا ہو۔ یہ خیال در حقیقت اس بات کا ہم معنی تھا کہ کائنات کا یہ سارا نظام محض کسی کھلنڈرے کا کھیل ہے جس کا کوئی سنجیدہ مقصد نہیں ہے ۔ اوریہ خیال دعوت پیغمبر سے ان کی بے اعتنائی کا اصل سبب تھا |
Surah 21 : Ayat 17
لَوْ أَرَدْنَآ أَن نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّٱتَّخَذْنَـٰهُ مِن لَّدُنَّآ إِن كُنَّا فَـٰعِلِينَ
اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں کرنا ہوتا تو اپنے ہی پاس سے کر لیتے1
1 | یعنی ہمیں کھیلنا ہی ہوتا تو کھلونے بنا کر ہم خود ہی کھیل لیتے ۔ اس صورت میں یہ ظلم تو ہر گز نہ کیا جاتا کہ خواہ مخواہ ایک ذی حس ، ذی شعور ، ذمہ دار مخلوق کو پیدا کر ڈالا جاتا، اس کے درمیان حق و باطل کی یہ کشمکش اورکھینچا تانیاں کرائی جاتیں ، اور محض اپنے لطف وتفریح کے لیے ہم دوسروں کو بلا وجہ تکلیفوں میں ڈالتے ۔ تمہارے خدا نے یہ دنیا کچھ رومی اکھاڑے (Coliseum) کے طور پر نہیں بنائی ہے کہ بندوں کو درندوں سے لڑوا کر اوران کی بوٹیاں نچوا کر خوشی کے ٹھٹھے لگائے |
Surah 23 : Ayat 115
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَـٰكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ
کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے1 اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے؟"
1 | اصل میں لفظ عَبَثاً کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ، جس کا ایک مطلب تو ہے ’’ کھیل کے طور پر‘‘۔ اور دوسرا مطلب ہے ’’ کھیل کے لیے ‘‘ پہلی صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے۔ ’’ کیا تم نے یہ سمجھا تھا کہ ہم نے تمہیں یونہی بطور تفریح بنا دیا ہے ، تمہاری تخلیق کی کوئی غرض و غایت نہیں ہے ، محض ایک بے مقصد مخلوق بنا کر پھیلا دی گئی ہے۔ ’’ دوسری صورت میں مطلب یہ ہو گا : ’’ کیا تم یہ سمجھتے تھے کہ تم بس کھیل کود اور تفریح اور ایسی لا حاصل مصروفیتوں کے لیے پیدا کیے گۓ ہو جن کا کبھی کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے |
Surah 38 : Ayat 27
وَمَا خَلَقْنَا ٱلسَّمَآءَ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَـٰطِلاًۚ ذَٲلِكَ ظَنُّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْۚ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُواْ مِنَ ٱلنَّارِ
ہم نے اس آسمان اور زمین کو، اور اس دنیا کو جو ان کے درمیان ہے، فضول پیدا نہیں کر دیا ہے1 یہ تو اُن لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کیا ہے، اور ایسے کافروں کے لیے بربادی ہے جہنم کی آگ سے
1 | یعنی محض کھیل کے طور پر پیدا نہیں کر دیا ہے کہ اس میں کوئی حکمت نہ ہو، کوئی غرض اور مقصد نہ ہو، کوئی عدل اور انصاف نہ ہو، اور کسی اچھے یا بُرے فعل کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو۔ یہ ارشاد پچھلی تقریر کا ماحصل بھی ہے اور آگے کے مضمون کی تمہید بھی۔ پچھلی تقریر کے بعد یہ فقرہ ارشاد فرمانے سے مقصود یہ حقیقت سامعین سے ذہن نشین کرانا ہے کہ انسان یہاں شترِ بے مہار کی طرح نہیں چھوڑ دیا گیا ہے، نہ یہ دنیا اندھیر نگری ہے کہ یہاں جس کا جو کچھ جی چاہے کرتا رہے اور اس پر کوئی باز پُرس نہ ہو۔ آگے کے مضمون کی تمہید کے طور پر اس فقرے سے کلام کا آغاز کر کے یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ جو شخص جزا و سزا کا قائل نہیں ہے اور اپنی جگہ یہ سمجھے بیٹھا رہے کہ نیک و بد سب آخر کار مر کر مٹی ہو جائیں گے، کسی سے کوئی محاسبہ نہ ہو گا، نہ کسی کو بھلائی یا بُرائی کا کوئی بدلہ ملے گا، وہ دراصل دنیا کو ایک کھلونا اور اس کے بنانے والے کو کھلنڈرا سمجھتا ہے اور اس کا خیال یہ ہے کہ خالق کائنات نے دنیا بنا کر اور اس میں انسان کو پیدا کر کے ایک فعل عبث کا ارتکاب کیا ہے۔ یہی بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مختلف طریقوں سے ارشاد فرمائی گئی ہے۔ مثلاً فرمایا: اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُم عَبَثاً وَّ اَنَّکُمْ اِلِیْنَا لَا تُرْ جَعُوْنَ (المومنون:115) کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تم کو فضول پیدا کر دیا ہے اور تم ہمارے طرف پلٹائے جانے والے نہیں ہو؟ وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا لٰعِبِیْنَ o مَا خَلَقْنٰھُمَا اِلَّا بِا لْحَقِّ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَھُم لَا یَعْلَمُوْنَ o اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ مِیْقَا تھُُمْ اَجْمَعِیْنَo (الدُّ خان: 38۔40) ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور کائنات کو جو ان کے درمیان ہے کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا ہے۔ ہم نے ان کو بر حق پیدا کیا ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ درحقیقت فیصلے کا دن ان سب کے لیے حاضری کا وقت مقرر ہے۔ |
Surah 44 : Ayat 38
وَمَا خَلَقْنَا ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَـٰعِبِينَ
یہ آسمان و زمین اور اِن کے درمیان کی چیزیں ہم نے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنا دی ہیں
Surah 44 : Ayat 39
مَا خَلَقْنَـٰهُمَآ إِلَّا بِٱلْحَقِّ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
اِن کو ہم نے برحق پیدا کیا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں1
1 | یہ ان کے اعتراض کا دوسرا جواب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بھی حیات بعد الموت اور آخرت کی جزا و سزا ک کا منکر ہے وہ دراصل اس کارخانہ عالم کو کھلونا اور اس کے خالق کو نادان بچہ سمجھتا ہے، اسی بناء پر اس نے یہ رائے قائم کی ہے کہ انسان دنیا میں ہر طرح کے ہنگامے برپا کر کے ایک روز بس یوں ہی مٹی میں رل مل جائے گا اوراس کے کسی اچھے یا برے کام کا کوئی نتیجہ نہ نکلے گا۔ حالاں کہ یہ کائنات کسی کھلنڈرے کی نہیں بلکہ ایک خالق حکیم کی بنائی ہوئی ہے اور کسی حکیم سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی ہے کہ وہ فعل عبث کا ارتکاب کرے گا۔ انکار آخرت کے جواب میں یہ استدلال قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے، ہم اس کی مفصل تشریح کر چکے ہیں۔(ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد، اول، ص 551، جلد دوم ، ص 264۔ 265۔ جلد سوم، ص151۔ 152۔ 302۔ 303 ۔ 731 تا 735) |