Ayats Found (2)
Surah 20 : Ayat 124
وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِى فَإِنَّ لَهُۥ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُۥ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ أَعْمَىٰ
اور جو میرے 1"ذِکر"(درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے2"
2 | اس جگہ آدم علیہ السلام کا قصہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہ قصہ جس طریقے سے یہاں، اور قرآن کے دوسرے مقامات پر بیان ہوا ہے اس پر غور کرنے سے میں یہ سمجھا ہوں (واللہ اعلم بالصواب) کہ زمین کی اصل خلافت وہی تھی جو آدم علیہ السلام کو ابتداءً جنت میں دی گئی تھی۔ وہ جنت ممکن ہے کہ آسمانوں میں ہو اور ممکن ہے کہ اسی زمین پر بنائی گئی ہو۔ بہرحال وہاں اللہ تعالٰی کا خلیفہ اس شان سے رکھا گیا تھا کہ اس کے کھانے پینے اور لباس و مکان کا سارا انتظام سرکار کے ذمہ تھا اور خدمت گار (فرشتے) اس کے حکم کے تابع تھے۔ اس کو اپنی ذاتی ضروریات کے لیے قطعاً کوئی فکر نہ کرنی پڑتی تھی، تاکہ وہ خلافت کے بزرگ تر اور بلند تر وظائف ادا کرنے کے لیے مستعد ہو سکے۔ مگر اس عہدے پر مستقل تقرر ہونے سے پہلے امتحان لینا ضروری سمجھا گیا تاکہ امیدوار کی صلاحیتوں کا حال کھل جاۓ اور یہ ظاہر ہو جاۓ کہ اس کی کمزوریاں کیا ہیں اورخوبیاں کیا۔ چنانچہ امتحان لیا گیا اور جو بات کھلی وہ یہ تھی کہ یہ امید وار تحریص و اطماع کے اثر میں آکر پھسل جاتا ہے، اطاعت کے عزم پر مضبوطی سے قائم نہیں رہتا، اور اس کے علم پر نسیان غالب آجاتا ہے۔ اس امتحان کے بعد آدم اور ان کی اولاد کو مستقل خلافت پر مامور کرنے کے بجاۓ آزمائش کے دور میں امیدواروں کے لیے معیشت کا سرکاری انتظام ختم کر دیا گیا۔ اب اپنی معاش کا انتظام انہیں خود کرنا ہے۔ البتہ زمین اور اس کی مخلوقات پر ان کے اختیارات برقرار ہیں۔ آزمائش اس بات کی ہے کہ اختیار رکھنے کے باوجود یہ اطاعت کرتے ہیں یا نہیں، اور اگر بھول لاحق ہوتی ہے، یا تحریص و اطماع کے اثر پھسلتے ہیں، تو تنبیہ، تذکیر اور تعلیم کا اثر قبول کر کے سنبھلتے بھی ہیں یا نہیں؟ اور ان کا آخری فیصلہ کیا ہوتا ہے، طاعت کا یا معصیت کا؟ اس آزمائشی خلافت کے دوران میں ہر ایک کے طرز عمل کا ریکارڈ محفوظ رہے گا۔ اور یوم الحساب میں جو لوگ کامیاب نکلیں گے انہی کو پھر مستقل خلافت، اس دائمی زندگی اور لا زوال سلطنت کے ساتھ جس کا لالچ دے کر شیطان نے حکم کی خلاف ورزی کرائی تھی، عطا کی جاۓ گی۔ اس وقت یہ پوری زمین جنت بنا دی جاۓ گی اور اس کے وارث خدا کے وہ صالح بندے ہوں گے جنہوں نے آزمائشی خلافت میں طاعت پر قائم رہ کر ، یا بھول لاحق ہونے کے بعد بالآخر طاعت کی طرف پلٹ کر اپنی اہلیت ثابت کر دی ہو گی۔ جنت کی اس زندگی کو جو لوگ محض کھانے پینے اور اَینڈنے کی زندگی سمجھتے ہیں ان کا خیال صحیح نہیں ہے۔ وہاں پیہم ترقی ہو گی بغیر اس کے کہ اس کے لیے کسی تنزل کا خطرہ ہو۔ اور وہاں خلافت الہٰی کے عظیم الشان کام انسان انجام دے گا بغیر اس کے کہ اسے پھر کسی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے۔ مگر ان ترقیات اور ان خدمات کا تصور کرنا ہمارے لیے اتنا ہی مشکل ہے جتنا ایک بچے کے لیے یہ تصور کرنا مشکل ہوتا ہے کہ بڑا ہو کر جب وہ شادی کرے گا تو ازدواجی زندگی کی کیفیات کیا ہوں گی اسی لیے قرآن میں جنت کی زندگی کے صرف انہی لذائذ کا ذکر کیا گیا ہے جن کا ہم اس دنیا کی لذتوں پر قیاس کر کے کچھ اندازہ کر سکتے ہیں۔ اس موقع پر یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ آدم و حوا کا قصہ جس طرح بائیبل میں بیان ہوا ہے اسے بھی ایک نظر دیکھ لیا جاۓ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ ’’خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور اس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا تو انسان جیتی جان ہوا۔ اور خداوند خدا نے مشرق کی طرف عدن میں ایک باغ لگایا اور انسان کو جسے اس نے بنایا تھا وہاں رکھا‘‘۔ ’’اور باغ کے بیچ میں حیات کا درخت اور نیک و بد کی پہچان کا درخت بھی لگایا‘‘۔ ’’اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دیا اور کہا کہ تو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا۔ کیونکہ جس روز تو نے اس میں سے کھایا تو مرا‘‘۔ ’’اور خداوند خدا اس پسلی سے جو اس نے آدم میں سے نکالی تھی ایک عورت بنا کر اسے آدم کے پاس لایا‘‘، ’’اور آدم اور اس کی بیوی دونوں ننگے تھے اور شرماتے نہ تھے۔‘‘ اور ’’سانپ کُل دشتی جانوروں سے جن کو خداوند خدا نے بنایا تھا، چالاک تھا، اور اس نے عورت سے کہا کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا‘‘؟ ’’سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہرگز نہ رکو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاؤ گے‘‘۔ چنانچہ عورت نے اس کا پھل لے کر کھایا اور اپنے شوہر کو بھی کھلایا ’’تب دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اور ان کو معلوم ہوا کہ وہ ننگے ہیں اور انہوں نے انجیر کے پتوں کو سی کر اپنے لیے لنگیاں بنائیں۔ اور انہوں نے خداوند خدا کے حضور سے باغ کے درختوں میں چھپایا‘‘۔ پھر خدا نے آدم کو پکارا کہ تو کہاں ہے۔ اس نے کہا کہ میں تیری آواز سن کر ڈرا اور چھپ گیا کیونکہ میں ننگا تھا۔ خدا نے کہا ارے، تجھ کو یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ تو ننگا ہے۔ ضرور تو نے اس درخت کا پھل کھایا ہو گا جس سے میں نے منع کیا تھا۔ آدم نے کہا کہ مجھے حوا نے اس کا پھل کھلایا، اور حوا نے کہا مجھے سانپ نے بہکایا تھا۔ اس پر خدا نے سانپ سے کہا ’’اس لیے کہ تو نے یہ کیا تو سب چو پایوں اور دشتی جانوروں میں ملعون ٹھیرا۔ تو اپنے پیٹ کے بل چلے گا اور عمر بھر خاک چاٹے گا اور میں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا۔ وہ تیرے سر کو کچلے گا اور تو اس کی ایڑی پر کاٹے گا۔‘‘ اور عورت کو یہ سزا دی کہ ’’میں تیرے درد حمل کو بہت بڑھاؤں گا، تو درد کے ساتھ بچہ جنے گی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہو گی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا‘‘۔ اور آدم کے بارے میں یہ فیصلہ صادر کیا کہ چونکہ تو نے اپنی بیوی کی بات مانی اور میرے حکم کے خلاف کیا ’’اس لیے زمین تیرے سبب سے لعنتی ہوئی، مشقت کے ساتھ تو اپنی عمر بھر اس کی پیداوار کھاۓ گا .......... تو اپنے منہ کے پسینے کی روٹی کھاۓ گا۔‘‘ پھر ’’خداوند نے آدم اور اس کی بیوی کے واسطے چمڑے کے کرتے بنا کر ان کو پہناۓ‘‘۔ ’’اور خداوند خدا نے کہا دیکھو انسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا۔ اب کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنا ہاتھ بڑھاۓ اور حیات کے درخت سے بھی کچھ لے کر کھاۓ اور ہمیشہ جیتا رہے۔ اس لیے خداوند خدا نے اس کو باغ عدن سے باہر کر دیا‘‘ (پیدائش، باب 2۔ آیات 7۔25۔ باب 3۔آیات 1۔23)۔ بائیبل کے اس بیان اور قرآن کے بیان کو ذرا وہ لوگ بالمقابل رکھ کر دیکھیں جو یہ کہتے ہوۓ نہیں شرماتے کہ قرآن میں یہ قصے بنی اسرائیل سے نقل کر لیے گۓ ہیں۔ |
1 | دنیا میں تنگ زندگی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے تنگ دستی لاحق ہو گی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں اسے چین نصیب نہ ہو گا۔ کروڑ پتی بھی ہو گا تو بے چین رہے گا۔ ہفت اقلیم کا فرمانروا بھی ہو گا تو بے کلی اور بے اطمینانی سے نجات نہ پاۓ گا۔ اس کی دنیوی کامیابیاں ہزاروں قسم کی تدبیروں کا نتیجہ ہوں گی جن کی وجہ سے اپنے ضمیر سے لے کر گرد و پیش کے پورے اجتماعی ماحول تک ہر چیز کے ساتھ اس کی پیہم کشمکش جاری رہے گی جو اسے کبھی امن و اطمینان اور سچی مسرت سے بہرہ مند نہ ہونے دے گی۔ |
Surah 20 : Ayat 127
وَكَذَٲلِكَ نَجْزِى مَنْ أَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِنۢ بِـَٔـايَـٰتِ رَبِّهِۦۚ وَلَعَذَابُ ٱلْأَخِرَةِ أَشَدُّ وَأَبْقَىٰٓ
اِس طرح ہم حد سے گزرنے والے اور اپنے رب کی آیات نہ ماننے والے کو (دُنیا میں) بدلہ دیتے ہیں1، اور آخرت کا عذاب زیادہ سخت اور زیادہ دیر پا ہے
1 | اشارہ ہے اس ’’تنگ زندگی‘‘ کی طرف جو اللہ کے ’’ذکر‘‘ یعنی اس کی کتاب اور اس کے بھیجے ہوۓ درس نصیحت سے منہ موڑنے والوں کو دنیا میں نسر کرائی جاتی ہے۔ |