Ayats Found (10)
Surah 2 : Ayat 51
وَإِذْ وَٲعَدْنَا مُوسَىٰٓ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ ٱتَّخَذْتُمُ ٱلْعِجْلَ مِنۢ بَعْدِهِۦ وَأَنتُمْ ظَـٰلِمُونَ
یاد کرو، جب ہم نے موسیٰؑ کو چالیس شبانہ روز کی قرارداد پر بلایا1، تو اس کے پیچھے تم بچھڑے کو اپنا معبود بنا بیٹھے 2اُس وقت تم نے بڑی زیادتی کی تھی
2 | گائے اور بیل کی پرستش کا مرض بنی اسرائیل کی ہمسایہ اقوام میں ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ مصر اور کَنْعان میں اس کا عام رواج تھا۔ حضرت یوسف ؑ کے بعد بنی اسرائیل جب انحطاط میں مبتلا ہوئے اور رفتہ رفتہ قبطیوں کے غلام بن گئے تو انہوں نے جن جملہ اور امراض کے ایک یہ مرض بھی اپنے حکمرانوں سے لے لیا تھا۔ ( بچھڑے کی پرستش کا یہ واقعہ بائیبل کتابِ خروج ، باب۳۲ میں تفصیل کے ساتھ درج ہے) |
1 | مصر سے نجات پانے بے بعد جب بنی اسرائیل جزیرہ نما ئے سینا میں پہنچ گئے، تو حضرت موسیٰ ؑ کو اللہ تعالیٰ نے چالیس شب و روز کے لےی کوہ ِ طور پر طلب فرمایا تاکہ وہاں اس قوم کے لیے، جواب آزاد ہو چکی تھی، قوانین شریعت اور عملی زندگی کی ہدایات عطا کی جائیں۔ ( ملاحظہ ہو بائیبل، کتابِ خروج ، باب ۲۴ تا ۳۱) |
Surah 2 : Ayat 92
۞ وَلَقَدْ جَآءَكُم مُّوسَىٰ بِٱلْبَيِّنَـٰتِ ثُمَّ ٱتَّخَذْتُمُ ٱلْعِجْلَ مِنۢ بَعْدِهِۦ وَأَنتُمْ ظَـٰلِمُونَ
تمہارے پاس موسیٰؑ کیسی کیسی روشن نشانیوں کے ساتھ آیا پھر بھی تم ایسے ظالم تھے کہ اس کے پیٹھ موڑتے ہی بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے
Surah 2 : Ayat 54
وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِۦ يَـٰقَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِٱتِّخَاذِكُمُ ٱلْعِجْلَ فَتُوبُوٓاْ إِلَىٰ بَارِئِكُمْ فَٱقْتُلُوٓاْ أَنفُسَكُمْ ذَٲلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلتَّوَّابُ ٱلرَّحِيمُ
یاد کرو جب موسیٰؑ (یہ نعمت لیتے ہوئے پلٹا، تو اُس) نے اپنی قوم سے کہا کہ 1"لوگو، تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنے اوپر سخت ظلم کیا ہے، لہٰذا تم لوگ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو، اسی میں تمہارے خالق کے نزدیک تمہاری بہتری ہے" اُس وقت تمہارے خالق نے تمہاری توبہ قبول کر لی کہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
1 | یعنی اپنے اُن آدمیوں کو قتل کرو جنہوں نے گوسالے کو معبُود بنایا اور اس کی پرستش کی |
Surah 2 : Ayat 93
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَـٰقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ ٱلطُّورَ خُذُواْ مَآ ءَاتَيْنَـٰكُم بِقُوَّةٍ وَٱسْمَعُواْۖ قَالُواْ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُواْ فِى قُلُوبِهِمُ ٱلْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْۚ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُم بِهِۦٓ إِيمَـٰنُكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
پھر ذرا اُس میثاق کو یاد کرو، جو طُور کو تمہارے اوپر اٹھا کر ہم نے تم سے لیا تھا ہم نے تاکید کی تھی کہ جو ہدایات ہم دے رہے ہیں، ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرو اور کان لگا کر سنو تمہارے اسلاف نے کہا کہ ہم نے سن لیا، مگر مانیں گے نہیں اور ان کی باطل پرستی کا یہ حال تھا کہ دلوں میں ان کے بچھڑا ہی بسا ہوا تھا کہو: اگر تم مومن ہو، تو عجیب ایمان ہے، جو ایسی بری حرکات کا تمہیں حکم دیتا ہے
Surah 4 : Ayat 153
يَسْــَٔلُكَ أَهْلُ ٱلْكِتَـٰبِ أَن تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتَـٰبًا مِّنَ ٱلسَّمَآءِۚ فَقَدْ سَأَلُواْ مُوسَىٰٓ أَكْبَرَ مِن ذَٲلِكَ فَقَالُوٓاْ أَرِنَا ٱللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْهُمُ ٱلصَّـٰعِقَةُ بِظُلْمِهِمْۚ ثُمَّ ٱتَّخَذُواْ ٱلْعِجْلَ مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ ٱلْبَيِّنَـٰتُ فَعَفَوْنَا عَن ذَٲلِكَۚ وَءَاتَيْنَا مُوسَىٰ سُلْطَـٰنًا مُّبِينًا
یہ اہل کتاب اگر آج تم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ تم آسمان سے کوئی تحریر اُن پر نازل کراؤ تو اِس سے بڑھ چڑھ کر مجرمانہ مطالبے یہ پہلے موسیٰؑ سے کر چکے ہیں اُس سے تو اِنہوں نے کہا تھا کہ ہمیں خدا کو علانیہ دکھا دو اور اِسی سرکشی کی وجہ سے یکایک اِن پر بجلی ٹوٹ پڑی تھی پھر انہوں نے بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا، حالانکہ یہ کھلی کھلی نشانیاں دیکھ چکے تھے اس پر بھی ہم نے اِن سے درگزر کیا ہم نے موسیٰؑ کو صریح فرمان عطا کیا
Surah 7 : Ayat 148
وَٱتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَىٰ مِنۢ بَعْدِهِۦ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلاً جَسَدًا لَّهُۥ خُوَارٌۚ أَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّهُۥ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلاًۘ ٱتَّخَذُوهُ وَكَانُواْ ظَـٰلِمِينَ
موسیٰؑ کے پیچھے1 اس کی قوم کے لوگوں نے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑے کا پتلا بنا لیا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی کیا اُنہیں نظر نہ آتا تھا کہ وہ نہ ان سے بولتا ہے نہ کسی معاملہ میں ان کی رہنمائی کرتا ہے؟ مگر پھر بھی اُنہوں نے اسے معبود بنا لیا اور وہ سخت ظالم تھے2
2 | یہ اُس مصریّت زندگی کا دوسرا ظہور تھا جسے لیے ہوئے بنی اسرائیل مصر سے نکلے تھے۔ مصر میں گائے کی پرستش اور تقدیس کا جو رواج تھا اس سے یہ قوم اتنی شدّت کے ساتھ متاثر ہو چکی تھی کہ قرآن کہتا ہے وَاُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِھِمُ العِجْلَ۔یعنی ان کے دلوں میں بچھڑا بس کر رہ گیا تھا۔ سب سے زیادہ حیرت کا مقام یہ ہے کہ ابھی مصر سے نکلے ہوئے ان کو صرف تین مہینے ہی گزرے تھے۔ سمندر کا پھٹنا ، فرعون کا غرق ہونا ، اِن لوگوں کا بخیریت اُس بندِ غلامی سے نِکل آنا جس کے ٹوٹنے کی کوئی اُمید نہ تھی ، اور اس سلسلے کے دوسرے واقعات ابھی بالکل تازہ تھے، اور انہیں خوب معلوم تھا کہ یہ جو کچھ ہوا محض اللہ کی قدرت سے ہوا ہے ، کِسی دوسرے کی طاقت و تصرف کا اس میں کچھ دخل نہ تھا۔ مگر اس پر بھی انہوں نے پہلے تو پیغمبر سے ایک مصنوعی خدا طلب کیا ، اور پھر پیغمبر کے پیٹھ موڑتے ہی خود ایک مصنوعی خدا بنا ڈالا ۔ یہی وہ حرکت ہے جس پر بعض انبیاء بنی اسرا ئیل نے اپنی قوم کو اُس بدکار عورت سے تشبیہ دی ہے جو اپنے شوہر کے سوا ہر دوسرے مرد سے دل لگاتی ہو اور جو شب اوّل میں بھی بے وفائی سے نہ چُوکی ہو |
1 | یعنی اُن چالیس دِنوں کے دوران میں جب کہ حضرت موسیٰ ؑ اللہ تعالیٰ کی طلبی پر کوہ سینا گئے ہوئے تھے اور یہ قوم پہاڑ کے نیچے میدانُ الرَّاحَہ میں ٹھہری ہوئی تھی |
Surah 20 : Ayat 88
فَأَخْرَجَ لَهُمْ جَسَدًا لَّهُۥ خُوَارٌ فَقَالُواْ هَـٰذَآ إِلَـٰهُكُمْ وَإِلَـٰهُ مُوسَىٰ فَنَسِىَ
اور ان کے لیے ایک بچھڑے کی مورت بنا کر نکال لایا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی لوگ پکار اٹھے "یہی ہے تمہارا خدا اور موسیٰؑ کا خدا، موسیٰؑ اسے بھول گیا"
Surah 7 : Ayat 152
إِنَّ ٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُواْ ٱلْعِجْلَ سَيَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَذِلَّةٌ فِى ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَاۚ وَكَذَٲلِكَ نَجْزِى ٱلْمُفْتَرِينَ
(جواب میں ارشاد ہوا کہ) "جن لوگوں نے بچھڑے کو معبود بنایا وہ ضرور اپنے رب کے غضب میں گرفتار ہو کر رہیں گے اور دنیا کی زندگی میں ذلیل ہوں گے جھوٹ گھڑنے والوں کو ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں
Surah 11 : Ayat 69
وَلَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَآ إِبْرَٲهِيمَ بِٱلْبُشْرَىٰ قَالُواْ سَلَـٰمًاۖ قَالَ سَلَـٰمٌۖ فَمَا لَبِثَ أَن جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ
اور دیکھو، ابراہیمؑ کے پاس ہمارے فرشتے خوشخبری لیے ہوئے پہنچے کہا تم پر سلام ہو ابراہیمؑ نے جواب دیا تم پر بھی سلام ہو پھر کچھ دیر نہ گزری کہ ابراہیمؑ ایک بھنا ہوا بچھڑا (ان کی ضیافت کے لیے) لے آیا1
1 | اس سے معلوم ہوا کہ فرشتے حضرت ابراہیم ؑ کے ہاں انسانی صورت میں پہنچے تھے اور ابتداءً انہوں نے اپنا تعارف نہیں کرایا تھا۔ اس لیے حضرت ابراہیم ؑ نے خیال کیا کہ یہ کوئی اجنبی مہمان ہیں اور ان کے آتے ہی فورًا ان کی ضیافت کا انتظا م فرمایا |
Surah 51 : Ayat 26
فَرَاغَ إِلَىٰٓ أَهْلِهِۦ فَجَآءَ بِعِجْلٍ سَمِينٍ
پھر وہ چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گیا1، اور ایک موٹا تازہ بچھڑا2 لا کر
2 | سورہ ہود میں عِجْلٍ حَنِیْذٍ (بھنے ہوۓ بچھڑے ) کے الفاظ ہیں۔ یہاں بتایا گیا کہ آپ نے خوب چھانٹ کر موٹا تازہ بچھڑا بھنوایا تھا |
1 | یعنی اپنے مہمانوں سے یہ نہیں کہا کہ میں آپ کے لیے کھانے کا انتظام کرتا ہوں بلکہ انہیں بٹھا کر خاموشی سے ضیافت کا انتظام کرنے چلے گۓ، تاکہ مہمان تکلفاً یہ نہ کہیں کہ اس تکلیف کی کیا حاجت ہے |