Ayats Found (3)
Surah 18 : Ayat 57
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِـَٔـايَـٰتِ رَبِّهِۦ فَأَعْرَضَ عَنْهَا وَنَسِىَ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُۚ إِنَّا جَعَلْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ وَفِىٓ ءَاذَانِهِمْ وَقْرًاۖ وَإِن تَدْعُهُمْ إِلَى ٱلْهُدَىٰ فَلَن يَهْتَدُوٓاْ إِذًا أَبَدًا
اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہے جسے اس کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جائے اور وہ اُن سے منہ پھیرے اور اُس برے انجام کو بھول جائے جس کا سر و سامان اس نے اپنے لیے خود اپنے ہاتھوں کیا ہے؟ (جن لوگوں نے یہ روش اختیار کی ہے) ان کے دلوں پر ہم نے غلاف چڑھا دیے ہیں جو انہیں قرآن کی بات نہیں سمجھنے دیتے، اور اُن کے کانوں میں ہم نے گرانی پیدا کر دی ہے تم انہیں ہدایت کی طرف کتنا ہی بلاؤ، وہ اس حالت میں کبھی ہدایت نہ پائیں گے1
1 | یعنی جب کوئی شخص یا گروہ دلیل و حجت اور خیر خواہانہ نصیحت کے مقابلے میں جھگڑالو پن پر اتر آتا ہے، اور حق کا مقابلہ جھوٹ اور مکر وہ فریب کے ہتھیاروں سے کرنے لگتا ہے، اور اپنے کرتوتوں کا برا انجام دیکھنے سے پہلے کسی کے سمجھانے سے اپنی غلطی ماننے پر تیار نہیں ہوتا، تو اللہ تعالٰی پھر اس کے دل پر قفل چڑھا دیتا ہے اور اس کے کان ہر صدائے حق کے لیے بہرے کر دیتا ہے۔ ایسے لوگ نصیحت سے نہیں مانا کرتے بلکہ ہلاکت کے گڑھے میں گر کر ہی انہیں یقین آتا ہے کہ وہ ہلاکت تھی جس کی راہ پر وہ بڑھے چلے جا رہے تھے۔ |
Surah 32 : Ayat 22
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِـَٔـايَـٰتِ رَبِّهِۦ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَآۚ إِنَّا مِنَ ٱلْمُجْرِمِينَ مُنتَقِمُونَ
اور اُس سے بڑا ظالم کون ہو گا جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعہ سے نصیحت کی جائے اور پھر وہ ان سے منہ پھیر لے1 ایسے مجرموں سے تو ہم انتقام لے کر رہیں گے
1 | ’’رب کی آیات‘‘ یعنی اُس کی نشانیوں کے الفاظ بہت جامع ہیں جن کے اندر تمام اقسام کی نشانیاں آجاتی ہیں۔ قرآن مجید کے جملہ بیانات کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نشانیاں حسب ذیل چھ قسموں پر مشتمل ہیں: ۱۔ وہ نشانیاں جو زمین سے لے کرآسمان تک ہر چیز میں اورکائنات کے مجموعی نظام میں پائی جاتی ہیں۔ ۲۔وہ نشانیاں جوانسان کی اپنی پیدائش اوراس کی ساخت اوراس کے وجود میں پائی جاتی ہے۔ ۳۔وہ نشانیاں جو انسان کے وجدان میں، اسکے لاشعور میں، اور اُس کے اخلاقی تصوّرات میں پائی جاتی ہیں۔ ۴۔ وہ نشانیاں جو انسانی تاریخ کے مسلسل تجربات میں پائی جاتی ہیں۔ ۵۔وہ نشانیاں جو انسان پرآفاتِ ارضی و سماوی کے نزول میں پائی جاتی ہیں۔ ۶۔ اوران سب کے بعد وہ آیات جواللہ تعالٰی نے اپنے انبیاء کے ذریعہ سے بھیجیں تاکہ معقول طریقے انسان کو انہی حقائق سے آگاہ کیا جائے جن کی طرف اوپر کی تمام نشانیاں اشارہ کر رہی ہیں۔ یہ ساری نشانیاں پوری ہم آہنگی اور بلند آہنگی کے ساتھ انسان کو یہ بتا رہی ہیں کہ تو بے خدا نہیں ہے، نہ بہت سے خداؤں کا بندہ ہے، بلکہ تیرا خُدا صرف ایک ہی ہے جس کی عبادت واطاعت کے سِوا تیرے لیے کوئی دوسرا راستہ صحیح نہیں ہے۔ تو اس دُنیا میں آزاد و خود مختاراورغیر ذمہ دار بنا کر نہیں چھوڑ دیا گیا ہے بلکہ تجھے اپنا کارنامۂ حیات ختم کرنے کے بعد اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو کر جواب دہی کرنی ہے اور اپنے عمل کے لحاظ سے جزا اور سزا پانی ہے۔ پس تیری اپنی خیراسی میں ہے کہ تیرے خدا نے تیری رہنمائی کے لیے اپنے انبیاء اوراپنی کتابوں کے ذریعہ سے جو ہدایت بھیجی ہے اس کی پیروی کراور خود مختاری کی روش سے بازآجا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جس انسان کو اتنے مختلف طریقوں سے سمجھایا گیا ہو، جس کی فہمائش کے لیے طرح طرح کی اتنی بے شمار نشانیاں فراہم کی گئی ہوں، اور جسے دیکھنے کے لیے آنکھیں سننے کے لیے کان، اور سوچنے سمجھنے کے لیے دِل کی نعمتیں بھی دی گئی ہوں، وہ اگر ان ساری نشانیوں کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتا ہے، سمجھانے والوں کی تذکیر و نصیحت کے لیے بھی اپنے کان بند کر لیتا ہے، اور اپنے دِل و دِماغ سے بھی اوندھے فلسفے ہی گھڑنے کا کام لیتا ہے، اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں ہو سکتا۔ وہ پھر اسی کا مستحق ہے کہ دُنیا میں اپنے امتحان کی مدّت ختم کرنے کے بعد جب وہ اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو تو بغاوت کی بھر پور سزا پائے۔ |
Surah 40 : Ayat 63
كَذَٲلِكَ يُؤْفَكُ ٱلَّذِينَ كَانُواْ بِـَٔـايَـٰتِ ٱللَّهِ يَجْحَدُونَ
اِسی طرح وہ سب لوگ بہکائے جاتے رہے ہیں جو اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے1
1 | یعنی ہر زمانے میں عوام الناس صرف اس وجہ سے ان بہکانے والوں کے فریب میں آتے رہے ہیں کہ اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے حقیقت سمجھانے کے لیے جو آیات نازل کیں، لوگوں نے ان کو نہ مانا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ان خود غرض فریبیوں کے جال میں پھنس گۓ جو اپنی دُکان چمکانے کے لیے جعلی خداؤں کے آستانے بناۓ بیٹھے تھے۔ |