Ayats Found (8)
Surah 2 : Ayat 67
وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِۦٓ إِنَّ ٱللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تَذْبَحُواْ بَقَرَةًۖ قَالُوٓاْ أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًاۖ قَالَ أَعُوذُ بِٱللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ ٱلْجَـٰهِلِينَ
پھر وہ واقعہ یاد کرو، جب موسیٰؑ نے اپنے قوم سے کہا کہ، اللہ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے کہنے لگے کیا تم ہم سے مذاق کرتے ہو؟ موسیٰؑ نے کہا، میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں کی سی باتیں کروں
Surah 2 : Ayat 68
قَالُواْ ٱدْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا هِىَۚ قَالَ إِنَّهُۥ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانُۢ بَيْنَ ذَٲلِكَۖ فَٱفْعَلُواْ مَا تُؤْمَرُونَ
بولے اچھا، اپنے رب سے درخواست کرو کہ وہ ہمیں گائے کی کچھ تفصیل بتائے موسیٰؑ نے کہا، اللہ کا ارشاد ہے کہ وہ ایسی گائے ہونی چاہیے جو نہ بوڑھی ہو نہ بچھیا، بلکہ اوسط عمر کی ہو لہٰذا جو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرو
Surah 2 : Ayat 69
قَالُواْ ٱدْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا لَوْنُهَاۚ قَالَ إِنَّهُۥ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَآءُ فَاقِعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ ٱلنَّـٰظِرِينَ
پھر کہنے لگے اپنے رب سے یہ اور پوچھ دو کہ اُس کا رنگ کیسا ہو موسیٰؑ نے کہا وہ فرماتا ہے زرد رنگ کی گائے ہونی چاہیے، جس کا رنگ ایسا شوخ ہو کہ دیکھنے والوں کا جی خوش ہو جائے
Surah 2 : Ayat 70
قَالُواْ ٱدْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا هِىَ إِنَّ ٱلْبَقَرَ تَشَـٰبَهَ عَلَيْنَا وَإِنَّآ إِن شَآءَ ٱللَّهُ لَمُهْتَدُونَ
پھر بولے اپنے رب سے صاف صاف پوچھ کر بتاؤ کیسی گائے مطلوب ہے، ہمیں اس کی تعین میں اشتباہ ہو گیا ہے اللہ نے چاہا، تو ہم اس کا پتہ پالیں گے
Surah 2 : Ayat 71
قَالَ إِنَّهُۥ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُولٌ تُثِيرُ ٱلْأَرْضَ وَلَا تَسْقِى ٱلْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَّا شِيَةَ فِيهَاۚ قَالُواْ ٱلْـَٔـٰنَ جِئْتَ بِٱلْحَقِّۚ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُواْ يَفْعَلُونَ
موسیٰؑ نے جواب دیا: اللہ کہتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہے جس سے خدمت نہیں لی جاتی، نہ زمین جوتتی ہے نہ پانی کھینچتی ہے، صحیح سالم اور بے داغ ہے، اس پر وہ پکار اٹھے کہ ہاں، اب تم نے ٹھیک پتہ بتایا ہے پھر انہوں نے اسے ذبح کیا، ورنہ وہ ایسا کرتے معلوم نہ ہوتے تھے1
1 | چونکہ ان لوگوں کو اپنی ہمسایہ قوموں سے گائے کی عظمت و تقدیس اور گا ؤ پرستی کے مرض کی چُھوت لگ گئی تھی اس لیے ان کو حکم دیا گیا کہ گائے ذبح کریں۔ ان کے ایمان کا امتحان ہی اسی طرح ہو سکتا تھا کہ اگر وہ واقعی اب خدا کے سوا کسی کو معبُود نہیں سمجھتے، تو یہ عقیدہ اختیار کرنے سے پہلے جس بُت کو معبُود سمجھتے رہے ہیں اُسے اپنے ہاتھ سے توڑ دیں۔ یہ امتحان بہت کڑا امتحان تھا۔ دلوں میں پُوری طرح ایمان اُترا ہوا تھا، اس لیے اُنہوں نے ٹالنے کی کوشش کی اور تفصیلات پُوچھنے لگے۔ مگر جتنی جتنی تفصیلات وہ پُوچھتے گئے اتنے ہی گھِرتے چلے گئے یہاں تک کہ آخر کار اسی خاص قسم کی سنہری گائے پر، جسے اس زمانے میں پرستش کے لیے مختص کیا جاتا تھا، گویا اُنگلی رکھ کر بتا یا گیا کہ اِسے ذِبح کرو۔ بائیبل میں بھی اس واقعے کی طرف اشارہ ہے، مگر وہاں یہ ذکر نہیں ہے کہ بنی اسرائیل نے اس حکم کو کس کس طرح ٹالنے کی کوشش کی تھی۔ (ملاحظہ ہو گنتی ، باب ۱۹- آیت ۱۰-۱) |
Surah 6 : Ayat 144
وَمِنَ ٱلْإِبِلِ ٱثْنَيْنِ وَمِنَ ٱلْبَقَرِ ٱثْنَيْنِۗ قُلْ ءَآلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ ٱلْأُنثَيَيْنِ أَمَّا ٱشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ ٱلْأُنثَيَيْنِۖ أَمْ كُنتُمْ شُهَدَآءَ إِذْ وَصَّـٰكُمُ ٱللَّهُ بِهَـٰذَاۚ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ ٱفْتَرَىٰ عَلَى ٱللَّهِ كَذِبًا لِّيُضِلَّ ٱلنَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
اور اسی طرح دو اونٹ کی قسم سے ہیں اور دو گائے کی قسم سے پوچھو، اِن کے نر اللہ نے حرام کیے ہیں یا مادہ، یا وہ بچے جو اونٹنی اور گائے کے پیٹ میں ہوں؟1 کیا تم اُس وقت حاضر تھے جب اللہ نے ان کے حرام ہونے کا حکم تمہیں دیا تھا؟ پھر اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ کی طرف منسوب کر کے جھوٹی بات کہے تاکہ علم کے بغیر لوگوں کی غلط راہ نمائی کرے یقیناً اللہ ایسے ظالموں کو راہ راست نہیں دکھاتا
1 | یہ سوال اس تفصیل کے ساتھ ان کے سامنے اس لیے پیش کیا گیا ہے کہ اُن پر خود اپنے ان توہّمات کی غیر معقولیّت واضح ہو جائے۔ یہ بات کہ ایک ہی جانور کا نر حلال ہو اور مادہ حرام، یا مادہ حلال ہو اور نر حرام، یا جانور خود حلال ہو مگر اس کا بچہ حرام، یہ صریحاً ایسی نامعقول بات ہے کہ عقلِ سلیم اِسے ماننے سے انکار کرتی ہے اور کوئی ذی عقل انسان یہ تصوّر نہیں کر سکتا کہ خدا نے ایسی لغویّات کا حکم دیا ہو گا۔ پھر جس طریقہ سے قرآن نے اہلِ عرب کو اُن کے اِن توہّمات کی غیر معقولیّت سمجھانے کی کوشش کی ہے بعینہٖ اسی طریقہ پر دُنیا کی اُن دُوسری قوموں کو بھی اُن کے توہّمات کی لغویّات پر متنبہ کیا جا سکتا ہے جن کے اندر کھانے پینے کی چیزوں میں حُرمت و حِلّت کی غیر معقول پابندیاں اور چھُوت چھات کی قیُود پائی جاتی ہیں |
Surah 12 : Ayat 43
وَقَالَ ٱلْمَلِكُ إِنِّىٓ أَرَىٰ سَبْعَ بَقَرَٲتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعَ سُنۢبُلَـٰتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَـٰتٍۖ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْمَلَأُ أَفْتُونِى فِى رُءْيَـٰىَ إِن كُنتُمْ لِلرُّءْيَا تَعْبُرُونَ
ایک روز1 بادشاہ نے کہا 2"میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں، اور اناج کی سات بالیں ہری ہیں اور دوسری سات سوکھی اے اہل دربار، مجھے اس خواب کی تعبیر بتاؤ اگر تم خوابوں کا مطلب سمجھتے ہو"
2 | بائیبل اور تلمود کا بیا ن ہے کہ ان خوابوں سے بادشاہ بہت پریشان ہوگیا تھا اور اس نے اعلان عام کے ذریعہ سے اپنے ملک کے تمام دانشمندوں ، کا ہنوں، مذہبی پیشواؤں اور جادوگروں کو جمع کر کے ان سب کے سامنے یہ سوال پیش کیا تھا |
1 | بیچ میں کئی سال کے زمانہ قید کا حال چھوڑ کر اب سر رشتہ بیان اس مقام سے جوڑا جاتا ہے جہاں سے حضرت یوسف ؑ کے دنیوی عروج شروع ہوا |
Surah 12 : Ayat 46
يُوسُفُ أَيُّهَا ٱلصِّدِّيقُ أَفْتِنَا فِى سَبْعِ بَقَرَٲتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنۢبُلَـٰتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَـٰتٍ لَّعَلِّىٓ أَرْجِعُ إِلَى ٱلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُونَ
اس نے جا کر کہا 1"یوسفؑ، اے سراپا راستی، مجھے اس خواب کا مطلب بتا کہ سات موٹی گائیں جن کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات بالیں ہری ہیں اور سات سوکھی شاید کہ میں اُن لوگوں کے پاس جاؤں اور شاید کہ وہ جان لیں2"
2 | سُوْرَةُ یُوْسُف حاشیہ نمبر |
1 | متن میں لفظ”صدیق“استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں سچائی اور راستبازی کے انتہائی مرتبے کہ لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس سے اندازہ کی جاسکتا ہے کہ قید خانے کے زمانہ قیام میں اس شخص نےیوسف علیہ السلام کی سیرت پاک سے کیسا گہرا اثر لیا تھا اور یہ اثر ایک مدت وار گزر جانے کے بعد بھی کتنا را سخ تھا۔ صدیق کی مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، جلد اول سورہ نساء، حاشیہ نمبر |