Ayats Found (3)
Surah 84 : Ayat 21
وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ ٱلْقُرْءَانُ لَا يَسْجُدُونَ ۩
اور جب قرآن اِن کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے1؟
1 | یعنی ان کے دل میں خدا کا خوف پیدا نہیں ہو تا اور یہ اس کے آگے نہیں جھکتے۔ اس مقام پر سجدہ کرنا رسول اللہ ﷺ کے عمل سے ثابت ہے۔ امام مالک، مسلم اور نسائی نے حضرت ابو ہریرہؓ کے بارے میں یہ روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے نماز میں یہ سورۃ پڑھ کر اس مقام پر سجدہ کیا اور کہا کہ رسول اللہﷺ نے یہاں سجدہ کیا ہے۔ بخاری ، ابوداؤد اور نسائی نے ابو رافع کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ نے عشاء کی نماز میں یہ سورۃ پڑھی ہے اور حضورؐ نے اس مقام پر سجدہ کیا ہے، اس لیے میں مرتے دم تک یہ سجدہ کرتا رہوں گا۔ مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ نے ایک اور روایت نقل کی ہے جس میں حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے اس سورۃ میں اور اقراء باسم ربک الذی خلق میں سجدہ کیا ہے |
Surah 26 : Ayat 200
كَذَٲلِكَ سَلَكْنَـٰهُ فِى قُلُوبِ ٱلْمُجْرِمِينَ
اِسی طرح ہم نے اس (ذکر) کو مجرموں کے دلوں میں گزارا ہے1
1 | یعنی یہ اہل حق کے دلوں کی طرح تسکین روح اور شفائے قلب بن کر ان کے اندر نہیں اترتا بلکہ ایک گرم لوہے کہ سلاخ بن کر اس طرح گزر تا ہے کہ وہ سیخ پا ہو جاتے ہیں اور اس کے مضامین پر غور کرنے کے بجائے اس کی تردید کے لیے حربے دھونڈنے میں لگ جاتے ہیں۔ |
Surah 26 : Ayat 207
مَآ أَغْنَىٰ عَنْهُم مَّا كَانُواْ يُمَتَّعُونَ
تو وہ سامانِ زیست جو ان کو ملا ہوا ہے اِن کے کس کام آئے گا؟1
1 | اس فقرے اور اس سے پہلے کے فقرے کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جسے سامع کا ذہن تھوڑا سا غور کر کے خود بھر سکتا ہے۔ عذاب کے لیے ان کے جلدی مچانے کی وجہ یہ تھی کہ وہ عذاب کے آنے کا کوئی اندیشہ نہ رکھتے تھے۔ انہیں بھروسا تھا کہ جیسی چین کی بنسری آج تک ہم بجاتے رہے ہیں اسی طرح ہمیشہ بجاتے رہیں گے۔ اسی اعتماد پر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو چیلنج دیتے تھے کہ اگر واقعی تم خدا کے رسول ہو اور ہم تمہیں جھٹلا کر عذاب الٰہی کے مستحق ہو رہے ہیں تو لو ہم نے تمہیں جھٹلا دیا، اب لے آؤ اپنا وہ عذاب جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے ، اچھا اگر بالفرض ان کا یہ بھروسا صحیح ہی ہو، اگر ان پر فوراً عذاب نہ آئے ، اگر انہیں دنیا میں مزے کرنے کے لیے ایک لمبی ڈھیل بھی مل جائے جس کی توقع پر یہ پھول رہے ہیں ، تو سوال یہ ہے کہ جب بھی ان پر عاد و ثمود یا قوم لوط اور اصحاب الایکہ کی سی کوئی آفت ناگہانی ٹوٹ پڑی جس سے محفوظ رہنے کی کسی کے پاس کوئی ضمانت نہیں ہے یا اور کچھ نہیں تو موت کی آخری گھڑی آن پہنچی جس سے بہر حال کسی کو مفر نہیں ، تو اس وقت عیش دنیا کے یہ چند سال آخر ان کے لیے کیا مفید ثابت ہوں گے ؟ |