Ayats Found (8)
Surah 25 : Ayat 4
وَقَالَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ إِنْ هَـٰذَآ إِلَّآ إِفْكٌ ٱفْتَرَٮٰهُ وَأَعَانَهُۥ عَلَيْهِ قَوْمٌ ءَاخَرُونَۖ فَقَدْ جَآءُو ظُلْمًا وَزُورًا
جن لوگوں نے نبیؐ کی بات ماننے سے انکار کر دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ فرقان ایک من گھڑت چیز ہے جسے اِس شخص نے آپ ہی گھڑ لیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اِس کام میں اس کی مدد کی ہے بڑا ظلم1 اور سخت جھوٹ ہے جس پر یہ لوگ اتر آئے ہیں
1 | دوسرا ترجمہ ’’بڑی بے انصافی کی بات ‘‘ بھی ہو سکتا ہے |
Surah 25 : Ayat 5
وَقَالُوٓاْ أَسَـٰطِيرُ ٱلْأَوَّلِينَ ٱكْتَتَبَهَا فَهِىَ تُمْلَىٰ عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلاً
کہتے ہیں یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کرتا ہے اور وہ اِسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں
Surah 32 : Ayat 3
أَمْ يَقُولُونَ ٱفْتَرَٮٰهُۚ بَلْ هُوَ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّآ أَتَـٰهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ
کیا یہ لوگ کہتے ہیں1 کہ اس شخص نے اِسے خود گھڑ لیا ہے2؟ نہیں، بلکہ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے3 تاکہ تو متنبہ کرے ایک ایسی قوم کو جس کے پاس تجھ سے پہلے کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا، شاید کہ وہ ہدایت پا جائیں4
4 | یعنی جس کا حق ہونا اور مِن جانب اللہ ہونا قطعی و یقینی امر ہے اُسی طرح اِس کا مبنی بر حکمت ہونا اور خود تم لوگوں کے لیے خدا کی ایک رحمت ہونا بھی ظاہر ہے۔ تم خود جانتے ہو کہ صد ہا برس سے تمہارے اندر کوئی پیغمبر نہیں آیا ہے۔ تم خود جانتے ہو کہ تمہاری ساری قوم جہالت اور اخلاقی پستی اور سخت پسماندگی میں مبتلا ہے۔ اس حالت میں اگر تمہیں بیدار کرنے اور راہ راست دکھانے کے لیے ایک پیغمبر تمہارے درمیان بھیجا گیا ہے تو اس پر حیران کیوں ہوتے ہو۔ یہ تو ایک بڑی ضرورت ہے جسے اللہ تعالٰی نے پورا کیا ہے اور تمہاری اپنی بھلائی کے لیے کیا ہے۔ واضح رہے کہ عرب میں دینِ حق کی روشنی سب سے پہلے حضرت ہودؑ اور حضرت صالحؑ کے ذریعہ سے پہنچی تھی جو زمانۂ قبل تاریخ میں گزرے ہیں۔ پھر حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام آئے جن کا زمانہ حضورؐ سے ڈھائی ہزار برس قبل گزرا ہے۔ اس کے بعد آخری پیغمبر جو عرب کی سر زمین میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے بھیجے گئے وہ حضرت شعیب علیہ السّلام تھے۔اور ان کی آمد پر بھی دو ہزار برس گزر چکے تھے۔ یہ اتنی طویل مدّت ہے کہ اس کے لحاظ سے یہ کہنا بالکل بجا تھا کہ اس قوم کے اندر کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا۔ اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس قوم میں کبھی کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا تھا۔ بلکہ اس کامطلب یہ ہے کہ ایک مدّتِ دراز سے یہ قوم ایک متنبہ کرنے والے کی محتاج چلی آ رہی ہے۔ یہاں ایک اور سوال سامنے آجاتا ہے جس کو صاف کر دینا ضروری ہیں۔ اس آیت کو پڑھتے ہوئے آدمی کے ذہن میں یہ کھٹک پیدا ہوتی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے صدہا برس تک عربوں میں کوئی نبی نہیں آیا تو اُس جاہلیت کے دور میں گزرے ہوئے لوگوں سے آخر باز پُرس کس بنیاد پر ہوگی؟ انہیں معلوم ہی کب تھا کہ ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا ہے؟ پھر اگر وہ گمراہ تھے تو اپنی اس گمراہی کے ذمہ دار وہ کیسے قرار دیے جا سکتے ہیں؟اس کا جواب یہ ہے کہ دین کا تفصیلی علم چاہے اُس جاہلیّت کے زمانہ میں لوگوں کے پاس نہ رہا ہو، مگر یہ بات اُس زمانے میں بھی لوگوں سے پوشیدہ نہ تھی کہ اصل دین توحید ہے اور انبیاء علیہم السلام نے کبھی بُت پرستی نہیں سکھائی ہے۔ یہ حقیقت اُن روایات میں بھی محفوظ تھی جو عرب کے لوگوں کو اپنی سر زمین کے انبیاء سے پہنچی تھیں، اور اسے قریب کی سرزمین میں آئی ہوئے انبیاء حضرت موسیٰ ،حضرت داؤد، حضرت سلیمان اور حضرت عیسٰی علیہم السلام کی تعلیمات کے واسطے سے بھی وہ جانتے تھے۔ عرب کی روایات میں یہ بات بھی مشہور و معروف تھی کہ قدیم زمانہ میں اہل عرب کا اصل دین، دینِ اِبراہیمیؐ تھا اور بُت پرستی اُن کے ہاں عُمرو بن لُحیّ نامی ایک شخص نے شروع کی تھی۔ شرک و بُت پرستی کے رواج عام کے باوجود عرب کے مختلف حصّوں میں جگہ جگہ ایسے لوگ موجود تھے جو شرک سے انکار کرتے تھے، توحید کا اعلان کرتے تھے اور بُتوں پر قُربانیاں کرنے کی علانیہ مذمّت کرتے تھے خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد سے بالکل قریب زمانے میں قُسّ بن ساعِد ۃالایاوی ،اُمَیَّہ بن ابی الصَّلْت، سُوْید بن عُمرو المُصْطَلِقی، وکیع بن سَعَمہ بن زُہَیر الاِیاوی، عُمرو بن جُندُب الجُہنِی، ابو قیس صَرمہ بن ابی انَس، زید بن عُمروبن نُُفَیل، ورقہ بن نَو فَل، عثمان بن الحُوَیزِث، عبیداللہ بن جَحش، عامر بن الظَّرب العَدْوانی، عَلّاف بن شہاب التَّمیمی ، المُتَلَمِسّ بن اُمَیّۃالکنانی ، زُہَیربن ابی سَلْمیٰ ، خالد بن سِنان بن غَیث، العَبُسی، عبداللہ القُضَاعِی اور ایسے ہی بہت سے لوگوں کے حالات ہمیں تاریخوں میں ملتے ہیں جنہیں حُنَفَاء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ سب لوگ علی الا علان توحید کو اصل دین کہتے تھے اور مشرکین کے مذہب سے اپنی بے تعلقی کا صاف صاف اظہار کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے ذہن میں یہ تخیل انبیاء علیہم السلام کی سابقہ تعلیمات کے باقی ماندہ اثرات ہی سے آیا تھا۔ اس کے علاوہ یمن میں چوتھی پانچویں صدی عیسوی کے جو کتبات آثار قدیمہ کی جدید تحقیقات کے سلسلے میں برآمد ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس دَور میں وہاں ایک توحیدی مذہب موجود تھا جس کے پیروالرحمان اور ربّ السّماء والارض ہی کو اِلٰہ واحِد تسلیم کرتے تھے۔ ۳۷۸ عیسوی کا ایک کتبہ ایک عبادت گاہ کے کھنڈر سے ملا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ یہ معبد’’الٰہ ذدسَموی‘‘ یعنی الٰہ السماء کی عبادت کے لئے بنایا گیا ہے۔۴۶۵ عیسوی کے ایک کتبہ میں بنصرورا الٰھن بعل سمین وارضین(بنصر و بعون الالٰہ ربّ السماء والارْض)کے الفاظ لکھے ہیں جو عقیدۂ توحید پر صریح دلالت کرتے ہیں۔اسی دور کا ایک اور کتبہ ایک قبر پر ملا ہے جس میں بِخَیل رحمنن(یعنی استعین بحولالرحمٰن)کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں، اِسی طرح شمال عرب میں دریائے فُرات اور قِنَّسرین کے درمیان زَہَد کے مقام پر ۵۱۲ عیسوی کا ایک کتبہ ملا ہے جس میں بسْم الا لٰہٗ لَاعِزَّاِلَّا لَہٗ لَاشُکرَاِلَّالَہٗ کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔ یہ ساری باتیں بتاتی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے انبیاء سابقین کی تعلیمات کے آثار عرب سے بالکل مٹ نہیں گئے تھے اور کم از کم اِتنی بات یاد دلانے کے لیے بہت سے ذرائع موجود تھے کہ ’’تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے ‘‘۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، صفحات ۴۶۴۔۴۶۵) |
3 | جس طرح پہلی آیت میں لَا رَیْبَ فِیْہِ،کہنا کافی سمجھا گیا تھا اور اس سے بڑھ کر کوئی استدلال قرآن کے کلام اِلٰہی ہونے کے حق میں پیش کر نے کی ضرورت نہ سمجھی گئی تھی، اُسی طرح اب اِس آیت میں بھی کفّارِ مکہ کے الزامِ افترا پر صرف اتنی بات ہی کہنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے کہ ’’ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے‘‘ اس کی وجہ وہی ہے جو اوپر حاشیہ نمبر ۱ میں ہم بیان کر چکے ہیں۔ کون، کس ماحول میں، کس شان کے ساتھ یہ کتاب پیش کر رہا تھا، یہ سب کچھ سامعین کے سامنے موجود تھا۔ اور یہ کتاب بھی اپنی زبان اور اپنے ادب اور مضامین کے ساتھ سب کے سامنے تھی۔ اور اس کے اثرات و نتائج بھی مکہ اُس سوسائٹی میں سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ اس صورت حال میں اس کتاب کا ربّ العالمین سے آیا ہوا حق ہونا ایسا صریح امر واقعہ تھا جسے صرف نعمتی طور پر بیان کر دینا ہی کفّار کے الزام کی تردید کے لیے کافی تھا۔ ا س پر کسی استدلال کی کوشش بات کو مضبوط کرنے کے بجائے الٹی اسے کمزور کرنے کی موجب ہوتی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے دن کے وقت سورج چمک رہا ہو اور کوئی ڈھیٹ آدمی کہے کہ یہ اندھیری رات ہے۔ اس کے جواب میں صرف یہی کہنا کافی ہے کہ تم اسے رات کہتے ہو؟ یہ روز روشن تو سامنے موجود ہے۔ اس کے بعد دن کے موجود ہونے پر اگر آپ منطقی دلیلیں قائم کریں گے تو اپنے جواب کے زور میں کوئی اضافہ نہیں کریں گے بلکہ درحقیقت اس کے زور کو کچھ کم ہی کر دیں گے۔ |
2 | یہ محض سوال واستفہام نہیں ہے بلکہ اس میں سخت تعجب کا انداز پایا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اُن ساری باتوں کے باوجود، جن کی بنا پر اس کتاب کا مُنزَّل من اللہ ہونا ہر شک وشبہ سے بالا تر ہے، کیا یہ لوگ ایسی صریح ہٹ دھرمی کی بات کہہ رہے ہیں کہ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) اسے خود تصنیف کرکے جھوٹ موٹ اللہ ربّ العالمین کی طرف منسُوب کردیا ہے؟ اتنا لغو اور بے سر و پا الزام رکھتے ہوئے کوئی شرم ان کو نہیں آتی؟ انہیں کچھ محسوس نہیں ہوتا کہ جو لوگ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) کو اور اُن کے کام اور کلام کو جانتے ہیں اوراس کتاب کو بھی سمجھتے ہیں، وہ اس بیہودہ الزام کو سُن کرکیا رائے قائم کریں گے؟ |
1 | اوپر کے تمہیدی فقرے کے بعد مشرکینِ مکہ کے پہلے اعتراض کو لیا جا رہا ہے جو وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر کرتے تھے۔ |
Surah 34 : Ayat 43
وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ ءَايَـٰتُنَا بَيِّنَـٰتٍ قَالُواْ مَا هَـٰذَآ إِلَّا رَجُلٌ يُرِيدُ أَن يَصُدَّكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ ءَابَآؤُكُمْ وَقَالُواْ مَا هَـٰذَآ إِلَّآ إِفْكٌ مُّفْتَرًىۚ وَقَالَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لِلْحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمْ إِنْ هَـٰذَآ إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ
اِن لوگوں کو جب ہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ "یہ شخص تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو اُن معبودوں سے برگشتہ کر دے جن کی عبادت تمہارے باپ دادا کرتے آئے ہیں" اور کہتے ہیں کہ "یہ (قرآن) محض ایک جھوٹ ہے گھڑا ہوا" اِن کافروں کے سامنے جب حق آیا تو انہیں نے کہہ دیا کہ "یہ تو صریح جادو ہے"
Surah 34 : Ayat 44
وَمَآ ءَاتَيْنَـٰهُم مِّن كُتُبٍ يَدْرُسُونَهَاۖ وَمَآ أَرْسَلْنَآ إِلَيْهِمْ قَبْلَكَ مِن نَّذِيرٍ
حالانکہ نہ ہم نے اِن لوگوں کو پہلے کوئی کتاب دی تھی کہ یہ اسے پڑھتے ہوں اور نہ تم سے پہلے ان کی طرف کوئی متنبہ کرنے والا بھیجا تھا1
1 | یعنی اس سے پہلے نہ کوئی کتاب خدا کی طرف سے ایسی آئی ہے اور نہ کوئی رسول ایسا آیا ہے جس نے آ کر ان کو یہ تعلیم دی ہو کہ یہ اللہ کے سوا دوسروں کی بندگی و پرستش کیا کریں۔ اس لیے یہ لوگ کسی علم کی بنا پر نہیں بلکہ سراسر جہالت کی بنا پر قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوتِ توحید کا انکار کر رہے ہیں۔ اس کے لیے ان کے پاس کوئی سند نہیں ہے |
Surah 52 : Ayat 33
أَمْ يَقُولُونَ تَقَوَّلَهُۥۚ بَل لَّا يُؤْمِنُونَ
کیا یہ کہتے ہیں کہ اِس شخص نے یہ قرآن خود گھڑ لیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ ایمان نہیں لانا چاہتے1
1 | دوسرے الفاظ میں اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ قریش کے جو لوگ قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنا تصنیف کردہ کلام کہتے ہیں خود ان کا دل یہ جانتا ہے کہ یہ آپ کا کلام نہیں ہو سکتا، اور دوسرے وہ لوگ بھی جو اہل زبان ہیں نہ صرف یہ کہ اسے سن کر صاف محسوس کر لیتے ہیں کہ یہ انسانی کلام سے بہت اعلیٰ و ارفع ہے بلکہ ان میں سے جو شخص بھی محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے واقف ہے وہ کبھی یہ گمان نہیں کر سکتا کہ یہ واقعی آپ ہی کا کلام ہے ۔ پس صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ قرآن کو آپ کی تصنیف قرار دینے والے در اصل ایمان نہیں لانا چاہتے اسلیے وہ طرح طرح کے جھوٹے بہانے گھڑ رہے ہیں جن میں سے ایک بہانہ یہ بھی ہے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، یونس، حاشیہ 21۔ جلد سوم، الفرقان، حاشیہ 12۔ القصص، حاشیہ 64۔ العنکبوت، حاشیہ 88۔ 89۔ جلد چہارم، السجدہ حاشیہ 1 تا 4۔ حٰم السجدہ، حاشیہ۔ 54۔ الاحقاف، حاشیہ 8 تا 10) |
Surah 11 : Ayat 35
أَمْ يَقُولُونَ ٱفْتَرَٮٰهُۖ قُلْ إِنِ ٱفْتَرَيْتُهُۥ فَعَلَىَّ إِجْرَامِى وَأَنَا۟ بَرِىٓءٌ مِّمَّا تُجْرِمُونَ
اے محمدؐ، کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اِس شخص نے یہ سب کچھ خود گھڑ لیا ہے؟ ان سے کہو 1"اگر میں نے یہ خود گھڑا ہے تو مجھ پر اپنے جرم کی ذمہ داری ہے، اور جو جرم تم کر رہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بری ہوں"
1 | اندازِ کلام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے حضرت نوح کا یہ قصہ سنتے ہوئے مخالفین نے اعتراض کیا ہو گا کہ محمد ؐ یہ قصے بنا بنا کر اس لیے پیش کرتا ہے کہ انہیں ہم پر چسپاں کرے۔ جو چوٹیں وہ ہم پر براہِ راست نہیں کرنا چاہتا ان کے لیے ایک قصہ گھڑتتا ہے اور اس طرح ”درحدیث دیگراں“ کے انداز میں ہم پر چوٹ کرتا ہے ۔ لہٰذا سلسلۂ کلام توڑ کر ان کے اعتراض کا جواب اِس فقرے میں دیا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ گھٹیا قسم کے لوگوں کا ذہن ہمیشہ بات کے بُرےپہلو کی طرف جایا کرتا ہے اور اچھائی سے اُنہیں کوئ دلچسپی نہیں ہوتی کہ بات کے اچھے پہلو پر ان کی نظر جا سکے۔ ایک شخص نے اگر کوئی حکمت کی بات کہی ہے یا وہ تمہیں کوئی مفید سبق دے رہا ہے یا تمہاری کسی غلطی پر تم کو متنبہ کر رہا ہے تو اُس سے فائدہ اٹھاؤ اور اپنی اصلاح کرو۔ مگر گھٹیا آدمی ہمیشہ اس میں برائی کا کوئی ایسا پہلو تلاش کرے گا جس سے حکمت اور نصیحت پر پانی پھیر دے اور نہ صرف خود اپنی برائی پر قائم رہے بلکہ قائل کے ذمّے بھی اُلٹی کچھ برائی لگا دے۔ بہتر سے بہتر نصیحت بھی ضائع کی جا سکتی ہے اگر سننے والا اسے خیر خواہی کے بجائے”چوٹ“ کے معنی میں لے لے اور اس کا ذہن اپنی غلطی کے احساس و ادراک کے بجائے برا ماننے کی طرف چل پڑے ۔ پھر اس قسم کے لوگ ہمیشہ اپنی فکر کی بنا پر ایک بنیادی بدگمانی پر رکھتے ہیں۔ جس بات کے حقیقت واقعی ہونے اور این بناوٹی داستان ہونے کا یکساں امکان ہو، مگر وہ ٹھیک ٹھیک تمہارے حال پر چسپاں ہو رہی ہو اور اس میں تمہاری کسی غلطی کی نشان دہی ہوتی ہو، تو تم ایک دانش مند آدمی ہوگے اگر اُسے ایک واقعی حقیقت سمجھ کر اُس کے سبق آموز پہلو سے فائدہ اُٹھاؤ گے، اور محض ایک بدگمان و کج نظر آدمی ہو گے اگر کسی ثبوت کے بغیر یہ الزام لگا دو گے کہ قائل نے محض ہم پر چسپاں کرنے کے لیے یہ قصہ تصنیف کر لیا ہے ۔ اسی بنا پر یہ فرمایا کہ اگر یہ داستان میں نے گھڑی ہے تو اپنے جرم کا میں ذمہ دار ہوں، لیکن جس جرم کا تم ارتکاب کر رہے ہو وہ تو اپنی جگہ قائم ہے اور اس کی ذمہ داری میں تم ہی پکڑے جاؤ گے نہ کے میں |
Surah 74 : Ayat 25
إِنْ هَـٰذَآ إِلَّا قَوْلُ ٱلْبَشَرِ
یہ تو یہ ایک انسانی کلام ہے1
1 | یہ اس واقعہ کا ذکر ہے جو کفار مکہ کی مذکورہ بالا کانفرنس میں پیش آیا تھا۔ اس کی جوتفصیلات ہم دیباچے میں نقل کر چکے ہیں ان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ شخص دل میں قرآن کے کلام الہی ہونے کا قائل ہو چکا تھا۔ لیکن اپنی قوم میں محض اپنی وجاہت و ریاست برقرار رکھنے کے لیے ایمان لانے پر تیار نہ تھا۔ جب کفار کی اس کانفرنس میں پہلے اس نے خود ان تمام الزامات کو رد کر دیا جو قریش کے سردار رسول اللہ ﷺ پر لگا رہے تھے تو اسے مجبور کیا گیا کہ وہ خود کوئی ایسا الزام تراشے جسے عرب کے لوگوں میں پھیلا کر حضورؐ کو بد نام کیا جا سکتا ہو۔ اس موقع پر جس طرح وہ اپنے ضمیر سے لڑا ہے اور جس شدید ذہنی کشمکش میں کافی دیر مبتلا رہ کر آخر کار اس نے ایک الزام گھڑا ہے اس کی پوری تصویر یہاں کھینچ دی گئی ہے |