Ayats Found (2)
Surah 103 : Ayat 1
وَٱلْعَصْرِ
زمانے کی قسم
Surah 103 : Ayat 3
إِلَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ وَتَوَاصَوْاْ بِٱلْحَقِّ وَتَوَاصَوْاْ بِٱلصَّبْرِ
سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے1
1 | اس سورۃ میں زمانے کی قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ انسان بڑے خسارے میں ہے، اور اس خسارے سے صرف وہی لوگ بچے ہوئے ہیں جن کے اندر چار صفتیں پائی جاتی ہیں: (1) ایمان (2) عملِ صالح (3) ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنا (4) ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنا۔ اب اس کے ایک ایک جز کو الگ لے کر اس پر غور کرنا چاہیے تاکہ اس ارشاد کا پورا مطلب واضح ہو جائے۔ جہاں تک قسم کا تعلق ہے، اس سے پہلے بارہا ہم اس بات کی وضاحت کر چکے ہیں کہ اللہ تعالی نے مخلوقات میں سے کسی چیز کی قسم اس کی عظمت یا اس کے کاکمالات و عجائب کی بنا پر نہیں کھائی ، بلکہ اس بنا پر کھائی ہے کہ وہ اس بات پر دلالت کرتی ہے جسے ثابت کرنا مقصود ہے۔ پس زمانے کی قسم کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ انسان بڑے خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جن میں یہ چار صفتیں پائی جاتی ہوں۔ زمانے کا لفظ گزرے ہوئے زمانے کے لیے بھی استعمال ہوتاہے، اور گزرتے ہوئے زمانے کے لیے بھی جس میں حال درحقیقت کسی لمبی مدت کا نام نہیں ہے۔ ہر آن گزر کر ماضی بتنی چلی جا رہا ہے، اور ہر آن آ کر مستقبل کو حال اور جا کر حال کو ماضی بنا رہی ہے۔ یہاں چونکہ مطلقاً زمانے کی قسم کھائی گئی ہے، اس لیے دونوں طرح کے زمانے اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔ گزرے ہوئے زمانے کی قسم کھانے کا مطلب یہ ہے کہ انسانی تاریخ اس بات پر شہادت دے رہی ہے کہ جو لوگ بھی ان صفات سے خالی تھے وہ بالاخر خسارے میں پڑ کر رہے۔ اور گزرتے ہوئے زمانے کی قسم کھانے کا مطلب سمجھنے کے لیے پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ جو زمانہ اب گزر رہا ہے وہ دراصل وہ وقت ہے جو ایک ایک شخص اور ایک ایک قوم کو دنیا میں کام کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔ اس کی مثال اس وقت کی سی ہے جو امتحان گاہ میں طالبعلم کو پرچے حل کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ یہ وقت جس تیز رفتاری کے ساتھ گزر رہا ہے اس کا اندازہ تھوڑی دیر کے لیے اپنی گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی کو حرکت کرتے ہوئے دیکھنے سے آپ کو ہو جائے گا۔ حالانکہ ایک سیکنڈ بھی وقت کی بہت بڑی مقدار ہے۔ اسی ایک سیکنڈ میں روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کا راستہ طے کر لیتی ہے، اور خدا کی خدائی میں بہت سی چیزیں ایسی بھی ہو سکتی ہیں جو اس سے بھی زیادہ تیز رفتار ہوں خواہ وہ ابھی تک ہمارے علم میں نہ آئی ہوں۔ تاہم اگر وقت کے گزرنے کی رفتار وہی سمجھ لی جائے جو گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی کے چلنے سے ہم کو نظر آتی ہے، اور اس بات پر غور کیا جائے کہ ہم جو کچھ بھی اچھا یا برا فعل کرتے ہیں اور جن کاموں میں بھی ہم مشغول رہتے ہیں، سب کچھ اس محدود مدت عمر ہی میں وقوع پذیر ہوتا ہے جو دنیا میں ہم کو کام کرنے کے لیے دی گئی ہے، تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا اصل سرمایہ تو یہی وقت ہے جو تیزی سے گزر رہا ہے۔ امام رازی نے کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے کہ ‘‘میں نے سورہ عصر کا مطلب ایک برف فروش سے سمجھا جو بازار میں آواز لگا رہا تھا کہ رحم کرو اس شخص پر جس کا سرمایہ پگھلا جا رہا ہے، رحم اس شخص پر جس کا سرمایہ گھلا جا رہا ہے اس کی یہ بات سن کر میں نے کہا یہ ہے والعصر ان الانسان لفی خسر، کا مطلب۔عمر کی جو مدت انسان کی دی گئی ہے وہ برف کے گھلنے کی طرح تیزی سے گزر رہی ہے۔ اس کو اگر ضائع کیا جائے، یا غلط کاموں میں صرف کر ڈالا جائے تو یہی انسان کا خسارہ ہے’’۔پس گزرتے ہوئے زمانے کی قسم کھا کر جو بات اس سورہ میں کی گئی ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ تیز رفتار زمانہ شہادت دے رہا ہے کہ ان چار صفات سے خالی ہو کر انسان جن کاموں میں بھی اپنی مہلت عمر کو صرف کر رہا ہے وہ سب کے سب خسارے کے سودے ہیں۔ نفع میں صرف وہ لوگ ہیں جو ان چار صفات سے متصف ہو کر دنیا میں کام کریں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ہم اس طالب علم سے جو امتحان کے مقررہ وقت کو اپنا پرچہ حل کرنے کے بجائے کسی اور کام میں گزار رہا ہو، کمرے کے اندر لگے ہوئے گھنٹے کی طرف اشارہ کر کےکہیں کہ یہ گزرتا ہوا وقت بنا رہا ہے کہ تم اپنا نقصان کر رہے ہو، نفع میں صرف وہ طالب علم ہے جو اس وقت کا ہر لمحہ اپنا پرچہ حل کرنے میں صرف کر رہا ہے۔ انسان کا لفظ اگرچہ واحد ہے، لیکن بعد کے فقرے میں اس سےان لوگوں کو متسثنی کیا گیا ہے جو چار صفات سے متصف ہوں، اس لیے لا محالہ یہ ماننا پڑے گا کہ یہاں لفظ انسان اسم جنس کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور اس کا اطلاق افراد، گروہوں ، اقوام اور پوری نوع انسانی پر یکساں ہوتا ہے۔ پس یہ حکم کہ مذکورہ چار صفات سے جو بھی خ الی ہو وہ خسارے میں ہے، ہر حالت میں ثابت ہو گا، خواہ ان سے خالی کوئی شخص ہو، یا کوئی قوم، دیا دنیا بھر کے انسان۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہم اگر یہ حکم لگائیں کہ زہر انسان کےلیے مہلک ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ زہر بہرحال مہلک ہے خواہ ایک فرد اس کو کھائے یا ایک پوری قوم، یا ساری دنیا کے انسان مل کر اسے کھا جائیں۔ زہر کی مہلکِ خاصیت اپنی جگہ اٹل ہے، اس میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک شخص نے اس کو کھایا ہے، یا ایک قوم نے اسے کھانے کا فیصلہ کیا ہے، یا دنیا بھر کے انسانوں کا اجماع اس پر ہو گیا ہے کہ زہر کھانا چاہیے۔ ٹھیک اسی طرح یہ بات اپنی جگہ اٹل ہے ک چار مذکورہ بالا صفات سے خالی ہونا انسان کے لیے خسارے کا موجب ہے۔ اس قاعدہ کلیہ میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی شخص ان سے خالی ہے، یا کسی قوم نے ، یا دنیا بھر کے انسانوں نے کفر ، بد عملی، اور ایک دوسرے کو باطل کی ترغیب دینے اور بندگی نفس کی تلقین کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ اب دیکھیے کہ خسارے کا لفظ قرآن مجید کس معنی میں استعمال کرتا ہے۔ لغت کے اعتبار سے خسارہ نفع کی ضد ہے اور جب تجارت میں اس لفظ کا استعمال اس حالت میں بھی ہوتا ہے جب کسی ایک سودے میں گھاٹا آئے ، اور اس حالت میں بھی جب سارا کاروبار گھاٹے میں جا رہا ہو، اور اس حالت میں بھی جب اپنا سارا سرمایہ کھو کر آدمی دیوالیہ ہو جائے، قرآن مجید اسی لفظ کو اپنی خاص اصطلاح بنا کر فلاح کے مقابلے میں استعمال کرتا ہے اور جس طرح اس کا تصور فلاح محض دنیوی خوشحالی کا ہم معنی نہیں ہے بلکہ دنیا سے لے کر آخرت تک انسان کی حقیقی کامیابی پر حاوی ہے، اسی طرح اس کا تصور خسران بھی محض دنیوی ناکامی یا خستہ حالی کا ہم معنی نہیں ہے بلکہ دنیا سے لے کر آخرت تک انسان کی حقیقی ناکامی و نامرادی پر حاوی ہے۔ فلاح اور خسران دونوں کے قرآنی تصور کی تشریح اس سے پہلے ہم متعدد مقامات پر کر چکے ہیں اس لیے ان کے اعادے کی حاجت نہیں ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف ، حاشیہ 9۔ الانفال ۔ حاشیہ 30۔ یونس ، حاشیہ 23۔ بنی اسرائیل ، حاشیہ 102۔ جلد سوم ، الحج، حاشیہ 17۔ المومنون ، حواشی 1۔2۔11۔50۔ جلد چہارم ، لقمان، حاشیہ 4۔ الزمر ، حاشیہ 34)۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اگرچہ قرآن کے نزدیک حقیقی فلاح آخرت میں انسان کی کامیابی اور حقیقی خسارہ وہاں اس کی ناکامی ہے لیکن اس دنیا میں بھی جس چیز کا نام لوگوں نے فلاح رکھ چھوڑا ہے وہ در اصل فلاح نہیں ہے بلکہ اس کا انجام خود اسی دنیا میں خسارہ ہے، اور جس چیز کو لوگ خسارہ سمجھتے ہیں وہ در اصل خسارہ ہیں ہے بلکہ اس دنیا میں بھی وہی فلاح کا ذریعہ ہے ۔ اس حقیقت کو قرآن مجید میں کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے اور ہر جگہ ہم نے اس کی تشریح کر دی ہے (ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن، جلد دوم، النحل، حاشیہ 99۔ جلد سوم، مریم، حاشیہ 53، طہٰ، حاشیہ 105۔ جلد ششم ، الیل ، حواشی 3۔5)۔ پس جب قرآن پورے زور اور قطعیت کے ساتھ کہتا ہے کہ ‘‘در حقیقت انسان بڑے خسارے میں ہے’’ تو اس کا مطلب دنیا اور آخرت دونوں کا خسارہ ہے، اور جب وہ کہتا ہے کہ اس خسارے سے صرف وہ لوگ بچے ہوئے ہیں جن کے اندر حسب ذیل چار صفات پائی جاتی ہیں، تو اس کا مطلب دونوں جہانوں میں خسارے سے بچنا اور فلاح پانا ہے۔ اب ہمیں ان چاروں صفات کو دیکھنا چاہیے جن کے پائے جانے پر اس سورۃ کی رو سے انسان کا خسارے سے محفوظ رہنا موقوف ہے۔ ان میں پہلی صفت ایمان ہے۔ یہ لفظ ارچہ بعض مقامات پر قرآن مجید میں محض زبانی اقرارِ ایمان کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا ہے (مثلاً النساء، آیت 137، المائدہ آیت 54، الانفال، آیت 20۔27، التوبہ، آیت 38۔ اور الصف، آیت 2 میں)لیکن اس کا اصل استعمال سچے دل سے ماننے اور یقین کرنے کے معنی ہی میں کیا گیا ہے، اور عربی زبان میں بھی اس لفظ کے یہی معنی ہیں، لغت میں امن لہ کے معنی صدقہ و اعتمد علیہ )اس کی تصدیق کی اور اس پر اعتماد کیا)اور امن بہ کے معنی ہیں ایقن بہ (اس پر یقین کیا)۔ قرآن در اصل جس ایمان کو حقیقی ایمان قرار دیتا ہے، اس کو ان آیات میں پوری طرح واضح کر دیا گیا ہے: ’’ اِنَّمَا الْمُؤْ مِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا بِا للہِ وَرَسُوْلِہِ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا۔ ‘‘ (الحجرات ۔ 15) مومن تو حقیقت میں وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ا یمان لائے اور پھر شک میں نہ پڑے۔ ’’ اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَا مُوْا۔ ‘‘ (حٰم السجدہ ۔ 30) جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اس پر ڈٹ گئے۔ ’’ اِنَّمَا الْمُؤْ مِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ۔ ‘‘ (الانفال 2) مومن تو حقیقت میں وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل لرز جاتے ہیں۔ ’’ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ۔ ‘‘ (البقرۃ 165) اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت رکھتے ہیں۔ ’’ فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔ ‘‘ (النساء 65) پس نہیں (اے نبی)تمہارے رب کی قسم وہ ہر گز مومن نہیں ہیں جب تک اپنے باہمی اختلاف میں تمہیں فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں۔ ان سے بھی زیادہ اس آیت میں زبانی اقرارِ ایمان اور حقیقی ایمان کا فرق ظاہر کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اصل مطلوب حقیقی ایمان ہے نہ کہ زبانی اقرار۔ ’’ یٰآَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْ بِا للہِ وَ رَسُوْلِہٖ۔ ‘‘ (النساء 136) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لائے اللہ اور اس کے رسول پر۔ اب رہا یہ سوال کہ ایمان لانے سے کن چیزوں پر ایمان لانا مراد ہے، تو قرآن مجید میں پوری طرح اس بات کو بھی کھول کھول کر بیان کر دیا گیا ہے۔ اس سے مراد اولاً ، اللہ کو ماننا ہے۔ محض اس کے وجود کو ماننا نہیں بلکہ اسے اس حیثیت سے ماننا ہے کہ وہی ایک خدا ہے۔ خدائی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ وہی اس کا مستحق ہے کہ انسان اس کی عبادت ، بندگی اور اطاعت بجا لائے۔ وہی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے والا ہے۔ بندے کو اسی سے دعا مانگنی چاہیے اور اسی پر توکل کرنا چاہیے۔ وہی حکم دینے ا ور منع کرنے والا ہے۔ بندے کا فرض ہے کہ اس کے حکم کی اطاعت کرے اور جس چیز سے اس نے منع کیا ہے اس سے رک جائے۔ وہ سب کچھ دیکھنے اور سننے والا ہے ۔ اس سے انسان کا کوئی فعل تو درکنار ، وہ مقصد اور نیت بھی مخفی نہیں ہے جس کے ساتھ اس نے کوئی فعل کیا ہے۔ ثانیاً ، رسول کو ماننا ، اس حیثیت سے کہ وہ اللہ تعالی کا مامور کیا ہوا ہادی و رہنما ہے، اور جس چیز کی تعلیم بھی اس نے دی ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے، برحق ہے، اور واب التسلیم ہے۔ اسی ایمان بالرسالت میں ملائکہ ، انبیاء اور کتب الہیہ پر، اور خود قرآن پر بھی ایمان لانا شامل ہے، کیونکہ یہ ان تعلیمات میں سے ہے جو اللہ کے رسول نے دی ہیں۔ ثالثاً آخرت کو ماننا ، اس حیثیت سے کہ انسان کی موجودہ زندگی پہلی اور آخری زندگی نہیں ہے بلکہ مرنے کے بعد انسان کو دوبارہ زندہ ہو کر اٹھنا ہے، اپنے ان اعمال کا جو اس نے دنیا کی اس زندگی میں کیے ہیں خدا کو حساب دینا ہے، اور اس محاسبہ میں جو لوگ نیک قرار پائیں انہیں جزاء ، اور جو بد قرار پائیں ان کو سزا ملنی ہے۔ یہ ایمان اخلاق اور سیرت و کردار کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کر دیتا ہے جس پر ایک پاکیزہ زندگی کی عمارت قائم ہو سکتی ہے۔ ورنہ جہاں سرے سے یہ ایمان ہی موجود نہ ہو وہاں انسان کی زندگی خواہ کتنی ہی خوشنما کیوں نہ ہو، اس کا حال ایک بے لنگر کے جہاز کا سا ہوتا ہے جو موجود کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے اور کہیں قرار نہیں پکڑ سکتا۔ ایمان کے بعد دوسری صف جو انسان کو خسارے سے بچانے کے لیے ضروری ہے وہ صالحات (نیک کاموں) پر عمل کرنا ہے۔ صالحات کا لفظ تمام نیکیوں کا جامع ہے جس سے نیکی اور بھلائی کی کوئی قسم چھوٹی نہیں رہ جاتی۔ لیکن قرآن کی رو سے کوئی عمل بھی اس وقت تک عمل و صالح نہیں ہو سکتا جب تک اس کی جڑ میں ایمان موجود نہ ہو، اور وہ اس ہدایت کی پیروی میں نہ کیا جائے جو اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے۔ اسی لیے قرآن مجید میں ہر جگہ عمل صالح سے پہلے ایمان کا ذکر کیا گیا ہے اور اس عمل بلا ایمان پر کسی اجر کی امید دلائی گئی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایمان وہی معتبر اور مفید ہے جس کے صادق ہونے کا ثبوت انسان اپنے عمل سے پیش کرے۔ ورنہ ایمان بلا عمل صالح محض ایک دعویٰ ہے جس کی تردید آدمی خود ہی کر دیتا ہے جب وہ اس دعوے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقےسے ہٹ کر چلتا ہے۔ ایمان اور عمل صالح کا تعلق بیج اور درخت کا سا ہے ۔ جب تک بیج زمین میں نہ ہو، کوئی درخت پیدا نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر بیج زمین میں ہو اور کوئی درخت پیدا نہ ہو رہا ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ بیج زمین میں دفن ہو کر رہ گیا۔ اور یہ بات اس سورہ میں کہی گئی ہے کہ انسان کو خسارے سے بچانے کے لیے جو دوسری صفت ضروری ہے وہ ایمان کے بعد صالحات پر عمل کرنا ہے۔ بالفاظ دیگر عمل صالح کے بغیر محض ایمان آدمی کو خسارے سے نہیں بچا سکتا۔ مذکورہ بالا دو صفتیں تو وہ ہیں جو ایک ایک فرد میں ہونی چاہئیں۔ اس کے بعد یہ سورۃ دو مزید صفتیں بیان کرتی ہے جو خسارے سے بچنے کے لیے ضروری ہیں، اور وہ یہ ہیں کہ یہ ایمان لانے اور عمل صالح کرنے والے لوگ ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کریں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اول تو ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والوں کو فرد فرد بن کر نہیں چاہیے بلکہ ان کے ا جتماع سے ایک مومن و صالح معاشرہ وجود میں آنا چاہیے۔ دوسرے، اس معاشرے کے ہر فرد کو اپنی یہ ذ مہ داری محسوس کرنی چاہیے کہ وہ معاشرے کو بگڑنے نہ دے، اس لیے اس کے تمام افراد پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں۔ حق کا لفظ باطل کی ضد ہے اور بالعموم یہ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک ، صحیح اور سچی اور مطابق عدل و انصاف اور مطابق حقیقت بات، خواہ وہ عقیدہ و ایمان سے تعلق رکھتی ہو یا دنیا کے معاملات سے۔ دوسرے ، وہ حق جس کا ا دا کرنا انسان پر واجب ہو، خواہ وہ خدا کا حق ہو یا بندوں کا حق یا خود اپنے نفس کا حق۔ پس ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کا یہ معاشرہ ایسا بے حس نہ ہو کہ اس میں باطل سر اٹھا رہا ہو اور حق کے خلاف کام کیے جا رہے ہوں، مگر لوگ خاموشی کے ساتھ اس کا تماشا دیکھتے رہیں، بلکہ اس معاشرے میں یہ روح جاری و ساری رہے کہ جب اور جہاں بھی باطل سر اٹھائے کلمہ حق کہنے والے اس کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں، اور معاشرے کا ہر فرد صرف خود ہی حق پرستی اور راستبازی اور عدل و انصاف پر قائم رہنے اور حق داروں کے حقوق ادا کرنے پر اکتفا نہ کرے بلکہ دوسروں کو بھی اس طرز عمل کی نصیت کرے۔ یہ وہ چیز ہے جو معاشرے کو اخلاقی زوال و انحطاط سے بچانے کی ضامن ہے۔ اگر یہ روح کسی معاشرے میں موجود نہ رہے تو وہ خسران سے نہیں بچ سکتا اور اس خسران میں وہ لوگ بھی آخر کار مبتلا ہو کر رہتے ہیں جو اپنی جگہ حق پر قائم ہوں مگر اپنے معاشرے میں حق کو پامال ہوتے دیکھتے رہیں۔ یہی بات ہے جو سورہ مائدہ میں فرمائی گئی ہے کہ بنی اسرائیل پر حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی اور اس لعنت کی وجہ یہ تھی کہ ان کے معاشرے میں گناہوں اور زیادتیوں کا ارتکاب عام ہو رہا تھا اور لوگوں نے ایک دوسرے کو برے افعال سے روکنا چھوڑ دیا تھا (آیات 78۔79) پھر اسی بات کو سورہ اعراف میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے جب کھلم کھلا سبت کے احکام کی خلاف ورزی کر کے مچھلیاں پکڑنی شروع کر دیں تو ان پر عذاب نازل کر دیا گیا اور اس عذاب سے صرف وہی لوگ بچائے گئے جو اس گناہ سے روکنے کی کوشش کرتے تھے (آیات 163 تا 166) اور اسی بات کو سورہ انفال میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو ۔(آیت 25)ا۔ اسی لی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو امتِ مسلمہ کا فریضہ قرار دیا گیا ہے (آلِ عمران۔104) اور اس امت کو بہترین امت کہا گیا ہے جو یہ فریضہ انجام دے (آلِ عمران۔ 110)۔ حق کی نصیحت کے ساتھ دوسری چیز جو اہل ایمان اور ان کے معاشرے کو خسارے سے بچانے کے لیے شرط لازم قرار دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس معاشرے کے افراد ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے رہیں۔ یعنی حق کی پیروی اور اس کی حمایت میں جو مشکلات پیش آتی ہیں، اور اس راہ میں جن تکالیف سے، جن مشقتوں سے، جن مصائب سے، اور جن نقصانات اور محرومیوں سے انسان کو سابقہ پیش آتا ہے ان کے مقابلے میں وہ ایک دوسرے کو ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتے رہیں۔ ان کا ہر فرد دوسرے کی ہمت بندھاتا رہے کہ وہ ان حالات کو صبر کے ساتھ برداشت کرے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد ششم ، الدھر ، حاشیہ 16۔ البلد ، حاشیہ 14) |