Ayats Found (28)
Surah 3 : Ayat 14
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ ٱلشَّهَوَٲتِ مِنَ ٱلنِّسَآءِ وَٱلْبَنِينَ وَٱلْقَنَـٰطِيرِ ٱلْمُقَنطَرَةِ مِنَ ٱلذَّهَبِ وَٱلْفِضَّةِ وَٱلْخَيْلِ ٱلْمُسَوَّمَةِ وَٱلْأَنْعَـٰمِ وَٱلْحَرْثِۗ ذَٲلِكَ مَتَـٰعُ ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَاۖ وَٱللَّهُ عِندَهُۥ حُسْنُ ٱلْمَـَٔـابِ
لوگوں کے لیے مرغوبات نفس، عورتیں، اولا د، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی او ر زرعی زمینیں بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے، وہ تو اللہ کے پاس ہے
Surah 5 : Ayat 1
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَوْفُواْ بِٱلْعُقُودِۚ أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ ٱلْأَنْعَـٰمِ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّى ٱلصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌۗ إِنَّ ٱللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بندشوں کی پوری پابندی کرو1 تمہارے لیے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کیے گئے2، سوائے اُن کے جو آگے چل کر تم کو بتائے جائیں گے لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لیے حلال نہ کر لو3، بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے4
4 | یعنی اللہ حاکمِ مطلق ہے ، اسے پُورا اختیار ہے کہ جو چاہے حکم دے۔ بندوں کو اُس کے احکام میں چون و چرا کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگرچہ اس کے تمام احکام حکمت و مصلحت پر مبنی ہیں ، لیکن بندۂ مسلم اس کے حکم کی اطاعت اس حیثیت سے نہیں کرتا کہ وہ اسے مناسب پاتا ہے یا مبنی بر مصلحت سمجھتا ہے، بلکہ صرف اس بنا پر کرتا ہے کہ یہ مالک کا حکم ہے۔ جو چیز اس نے حرام کر دی ہے وہ صرف اس لیے حرام ہے کہ اس نے حرام کی ہے، اور اسی طرح جو اس نے حلال کر دی ہے وہ بھی کسی دُوسری بنیاد پر نہیں بلکہ صر ف اس بُنیاد پر حلال ہے کہ جو خدا ان ساری چیزوں کا مالک ہے، وہ اپنے غلاموں کو اس چیز کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔ لہٰذا قرآن پُورے زور کے ساتھ یہ اُصُول قائم کرتا ہے کہ اشیاء کی حُرمت و حِلّت کے لیے مالک کی اجازت و عدم اجازت کے سوا کسی اور بُنیاد کی قطعاً ضرورت نہیں ، اور اسی طرح بندے کے لیے کسی کام کے جائز ہونے یا نہ ہونے کا مدار بھی اس کے سوا اَور کچھ نہیں کہ خدا جس کو جائز رکھے وہ جائز ہے اور جسے ناجائز قرار دے وہ ناجائز |
3 | احرام“ اُس فقیرانہ لباس کو کہتے ہیں جو زیارت کعبہ کے لیے پہنا جاتا ہے ۔ کعبہ کے گرد کئی کئی منزل کے فاصلہ پر ایک حد مقرر کر دی گئی ہے جس سے آگے بڑھنے کی کسی زائر کو اجازت نہیں جب تک کہ وہ اپنا معمُولی لباس اُتار کر احرام کا لباس نہ پہن لے۔ اس لباس میں صرف ایک تَہمت ہوتا ہے اور ایک چادر جو اُوپر سے اوڑھی جاتی ہے۔ اسے احرام اس لیے کہتے ہیں کہ اسے باندھنے کے بعد آدمی پر بہت سی وہ چیزیں حرام ہو جاتی ہیں جو معمُولی حالات میں حلال ہیں، مثلاً حجامت، خوشبوکا استعمال، ہر قسم کی زینت و آرائش اور قضا ء شہوت وغیرہ۔ انہی پابندیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی جاندار کو ہلاک نہ کیا جائے، نہ شکار کیا جائے اور نہ کسی کو شکار کا پتہ دیا جائے |
2 | اَنعام“ (مویشی) کا لفظ عربی زبان میں اُونٹ ، گائے ، بھیڑ اور بکری پر بولا جاتا ہے۔ اور ”بہیمہ“ کا اطلاق ہر چَرنے والے چوپائے پر ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالٰی نے یہ فرمایا ہوتا کہ انعام تمہارے لیے حلال کیے گئے ، تو اس سے صرف وہی چار جانور حلال ہوتے جنہیں عربی میں”انعام “ کہتے ہیں۔ لیکن حکم اِن الفاظ میں دیا گیا ہے کہ”مویشی کی قسم کے چرند ہ چوپائے تم پر حلال کیے گئے “۔ اس سے حکم وسیع ہو جاتا ہے اور وہ سب چرندہ جانور اس کےدائرے میں آجاتے ہیں جو مویشی کی توعیّت کے ہوں۔ یعنی جو کچلیاں نہ رکھتے ہوں، حیوانی غذا کے بجائے نباتی غذا کھاتے ہوں، اور دُوسری حیوانی خصُوصیات میں اَنعامِ عرب سے مماثلت رکھتے ہوں۔ نیز اس سے اشارۃً یہ بات بھی مترشح ہو تی ہے کہ وہ چوپائے جو مویشیوں کے بر عکس کچلیاں رکھتے ہوں اور دُوسرے جانوروں کو مار کر کھاتے ہوں، حلال نہیں ہیں۔ اسی اشارے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کر کے حدیث میں صاف حکم دے دیا کہ درندے حرام ہیں۔ اسی طرح حضور نے اُن پرندوں کو بھی حرام قرار دیا ہے جن کے پنجے ہوتے ہیں اور جو دوسرے جانوروں کا شکار کرکے کھاتے ہیں یا مُردار خور ہوتے ہیں۔ ابن عباس کی روایت ہے کہ نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن کل ذی ناب من ا لسباع و کل ذی مخلب من الطیر۔ دُوسرے متعدّد صحابہ سے بھی اس کی تائید میں روایات منقول ہیں |
1 | یعنی اُن حُدُود اور قیُود کی پابندی کرو جو اس سُورۃ میں تم پر عائد کی جا رہی ہیں، اور جو بالعمُوم خدا کی شریعت میں تم پر عائد کی گئی ہیں۔ اس مختصر سے تمہیدی جملہ کے بعد ہی اُس بندشوں کا بیان شروع ہو جاتا ہے جن کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے |
Surah 6 : Ayat 136
وَجَعَلُواْ لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ ٱلْحَرْثِ وَٱلْأَنْعَـٰمِ نَصِيبًا فَقَالُواْ هَـٰذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَـٰذَا لِشُرَكَآئِنَاۖ فَمَا كَانَ لِشُرَكَآئِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى ٱللَّهِۖ وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَىٰ شُرَكَآئِهِمْۗ سَآءَ مَا يَحْكُمُونَ
اِن لوگوں 1نے اللہ کے لیے خود اُسی کی پیدا کی ہوئی کھیتیوں اور مویشیوں میں سے ایک حصہ مقرر کیا ہے اور کہتے ہیں یہ اللہ کے لیے ہے، بزعم خود، اور یہ ہمارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کے لیے2 پھر جو حصہ ان کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کے لیے ہے وہ تو اللہ کو نہیں پہنچتا مگر جو اللہ کے لیے ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچ جاتا ہے3 کیسے برے فیصلے کرتے ہیں یہ لوگ!
3 | یہ لطیف طنز ہے اُن کی اس حرکت پر کہ وہ خدا کے نام سے جو حصّہ نکالتے تھے اس میں بھی طرح طرح کی چالبازیاں کر کے کمی کرتے رہتے تھے اور ہر صُورت سے اپنے خود ساختہ شریکوں کا حصّہ بڑھانے کی کوشش کرتے تھے ، جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ جو دلچسپی انھیں اپنے ان شریکوں سے ہے وہ خدا سے نہیں ہے ۔ مثلاً جو غلّے یا پھل وغیرہ خدا کے نام پر نکالے جاتے ان میں سے اگر کچھ گِر جاتا تو وہ شریکوں کے حصّہ میں شامل کر دیا جاتا تھا ، اور اگر شریکوں کے حصّہ میں سے گرتا، یا خدا کے حصّے میں مِل جاتا تو اُسے انہی کے حصّہ میں واپس کیا جاتا۔ کھیت کا جو حصّہ شریکوں کی نذر کے لیے مخصُوص کیا جاتا تھا اگر اس میں سے پانی اُس حصّہ کی طرف پُھوٹ بہتا جو خدا کی نذر کے لیے مختص ہوتا تھا تو اس کی ساری پیداوار شریکوں کے حصّہ میں داخل کر دی جاتی تھی ، لیکن اگر اس کے برعکس صُورت پیش آتی تو خدا کے حصّہ میں کوئی اضافہ نہ کیا جاتا۔ اگر کبھی خشک سالی کی وجہ سے نذر و نیاز کا غلّہ خود استعمال کرنے کی ضرورت پیش آجاتی تو خدا کا حصّہ کھالیتے تھے مگر شریکوں کے حصّہ کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں کوئی بلا نازل نہ ہو جائے۔ اگر کسی وجہ سے شریکوں کے حصّہ میں کچھ کمی آجاتی تو وہ خدا کے حصّہ سے پُوری کی جاتی تھی لیکن خدا کے حصّہ میں کمی ہوتی تو شریکوں کے حصّہ میں سے ایک حبّہ بھی اس میں نہ ڈالا جاتا۔ اس طرزِ عمل پر کوئی نکتہ چینی کرتا تو جواب میں طرح طرح کی دل فریب توجیہیں کی جاتی تھیں ۔ مثلاً کہتے تھے کہ خدا تو غنی ہے، اس کے حصّہ میں سے کچھ کمی بھی ہو جائے تو اُسے کیا پروا ہو سکتی ہے۔ رہے یہ شریک ، تو یہ بندے ہیں ، خدا کی طرح غنی نہیں ہیں، اس لیے ذرا سی کمی بیشی پر بھی ان کے ہاں گرفت ہو جاتی ہے۔ اِن توہّمات کی اصل جڑ کیا تھی، اس کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ جُہلائے عرب اپنے مال میں سے جو حصّہ خدا کے لیے نکالتے تھے ، وہ فقیروں ، مسکینوں ، مسافروں اور یتیموں وغیرہ کی مدد میں صَرف کیا جاتا تھا، اور جو حصّہ شریکوں کی نذر و نیاز کے لیے نکالتے تھے وہ یا تو براہِ راست مذہبی طبقوں کے پیٹ میں جاتا تھا یا آستانوں پر چڑھاوے کی صُورت میں پیش کیا جاتا اور اس طرح بالواسطہ مجاوروں اور پوجاریوں تک پہنچ جاتا تھا۔ اسی لیے ان خود غرض مذہبی پیشواؤں نے صدیوں کی مسلسل تلقین سے ان جاہلوں کے دل میں یہ بات بٹھائی تھی کہ خدا کے حصّہ میں کمی ہو جائے تو کچھ مضائقہ نہیں ، مگر”خدا کے پیاروں“ کے حصّہ میں کمی نہ ہونی چاہیے بلکہ حتی الامکان کچھ بیشی ہی ہوتی رہے تو بہتر ہے |
2 | اِس بات کے وہ خود قائل تھے کہ زمین اللہ کی ہے اور کھیتیاں وہی اُگاتا ہے۔ نیز اُن جانوروں کا خالق بھی اللہ ہی ہے جن سے وہ اپنی زندگی میں خدمت لیتے ہیں۔ لیکن ان کا تصوّر یہ تھا کہ ان پر اللہ کا یہ فضل اُن دیویوں اور دیوتاؤں اور فرشتوں اور جِنّات ، اور آسمانی ستاروں اور بزرگانِ سلف کی ارواح کے طفیل و برکت سے ہے جو ان پر نظر ِ کرم رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنے کھیتوں کی پیداوار اور اپنے جانوروں میں سے دو حصّے نکالتے تھے۔ ایک حِصّہ اللہ کے نام کا، اس شکریہ میں کہ اس نے یہ کھیت اور یہ جانور انھیں بخشے۔ اور دُوسرا حصّہ اپنے قبیلہ اور خاندان کے سرپرست معبُودوں کی نذر و نیاز کا تاکہ اُن کی مہربانیاں ان کے شامِل حال رہیں۔ اللہ تعالیٰ سب سے پہلے ان کے اسی ظلم پر گرفت فرماتا ہے کہ یہ سب مویشی ہمارے پیدا کیے ہوئے اور ہمارے عطا کردہ ہیں، ان میں یہ دُوسروں کی نذر و نیاز کیسی؟ یہ نمک حرامی نہیں تو کیا ہے کہ تم اپنے محسن کے احسان کو، جو اس نے سراسر خود اپنے فضل و کرم سے تم پر کیا ہے ، دُوسروں کی مداخلت اور ان کے توسّط کا نتیجہ قرار دیتے ہو اور شکریہ کے استحقاق میں انھیں اُس کے ساتھ شریک کرتے ہو۔ پھر اشارۃً دُوسری گرفت اس بات پر بھی فرمائی ہے کہ یہ اللہ کا حصّہ جو انھوں نے مقرر کیا ہے یہ بھی بزعمِ خود کر لیا ہے، اپنے شارع خود بن بیٹھے ہیں ، آپ ہی جو حصّہ چاہتے ہیں اللہ کے لیے مقر کر لیتے ہیں اور جو چاہتے ہیں دُوسروں کے لیے طے کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اپنی بخشش کا اصل مالک و مختار خود اللہ ہے اور یہ بات اسی کی شریعت کے مطابق طے ہونی چاہیے کہ اس بخشش میں سے کتنا حصّہ اس کے شکریہ کے لیے نکالا جائے اور باقی میں کون کون حق دار ہیں۔ پس درحقیقت اس خودمختارانہ طریقہ سے جو حصّہ یہ لوگ اپنے زعمِ باطل میں خدا کے لیے نکالتے ہیں اور فقراء و مساکین وغیرہ پر خیرات کرتے ہیں وہ بھی کوئی نیکی نہیں ہے۔ خدا کے ہاں اس کے مقبول ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں |
1 | اُوپر کا سلسلہ ٔ تقریر اس بات پر تمام ہوا تھا کہ اگر یہ لوگ نصیحت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اپنی جاہلیّت پر اصرار کیے جاتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ اچھا ، تم اپنے طریقہ پر عمل کرتے رہو اور میں اپنے طریقہ پر عمل کروں گا، قیامت ایک دن ضرور آنی ہے ، اس وقت تمھیں معلوم ہو جائے گا کہ اس روش کا کیا انجام ہوتا ہے، بہر حال یہ خوب سمجھ لو کہ وہاں ظالموں کو فلاح نصیب نہ ہوگی۔ اس کے بعد اب اُس جاہلیّت کی کچھ تشریح کی جاتی ہے جس پر وہ لوگ اصرار کر رہے تھے اور جسے چھوڑنے پر کسی طرح آمادہ نہ ہوتے تھے۔ انھیں بتا یا جارہا ہے کہ تمہارا وہ ”ظلم “ کیا ہے جس پر قائم رہتے ہوئے تم کسی فلاح کی اُمید نہیں کر سکتے |
Surah 6 : Ayat 142
وَمِنَ ٱلْأَنْعَـٰمِ حَمُولَةً وَفَرْشًاۚ كُلُواْ مِمَّا رَزَقَكُمُ ٱللَّهُ وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٲتِ ٱلشَّيْطَـٰنِۚ إِنَّهُۥ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
پھر وہی ہے جس نے مویشیوں میں سے وہ جانور بھی پیدا کیے جن سے سواری و بار برداری کا کام لیا جاتا ہے اور وہ بھی جو کھانے اور بچھانے کے کام آتے ہیں1 کھاؤ اُن چیزوں میں سے جو اللہ نے تمہیں بخشی ہیں اور شیطان کی پیرو ی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے2
2 | سلسلۂ کلام پر نظر کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ تین باتیں ذہن نشین کرانا چاہتا ہے ۔ ایک یہ کہ یہ باغ اور کھیت اور یہ جانور جو تم کو حاصل ہیں ، یہ سب اللہ کے بخشے ہوئے ہیں، کسی دُوسرے کا اس بخشش میں کوئی حصّہ نہیں ہے، اس لیے بخشش کے شکریہ میں بھی کسی کا کوئی حصّہ نہیں ہو سکتا۔ دوسرے یہ کہ جب یہ چیزیں اللہ کی بخشش ہیں تو ان کے استعمال میں اللہ ہی کے قانون کی پیروی ہونی چاہیے۔ کسی دُوسرے کو حق نہیں پہنچتا کہ ان کے استعمال پر اپنی طرف سے حدود مقرر کر دے۔ اللہ کے سوا کسی اَ ور کی مقرر کردہ رسموں کی پابندی کرنا اور اللہ کے سوا کسی اَور کے آگے شُکرِ نعمت کی نذر پیش کرنا ہی حد سے گزرنا ہے اور یہی شیطان کی پیروی ہے۔ تیسرے یہ کہ یہ سب چیزیں اللہ نے انسان کے کھانے پینے اور استعمال کرنے ہی کے لیے پیدا کی ہیں، اس لیے پیدا نہیں کیں کہ انھیں خواہ مخواہ حرام کر لیا جائے۔ اپنے اوہام اور قیاسات کی بنا پر جو پابندیاں لوگوں نے خدا کے رزق اور اس کی بخشی ہوئی چیزوں کے استعمال پر عائد کر لی ہیں وہ سب منشاءِ الہٰی کے خلاف ہیں |
1 | اصل میں لفظ فَرْش استعمال ہوا ہے ۔ جانوروں کو فرش کہنا یا تو اس رعایت سے ہےکہ وہ چھوٹے قد کے ہیں اور زمین سے لگے ہوئے چلتے ہیں۔ یا اس رعایت سے کہ وہ ذبح کے لیے زمین پر لٹائے جاتے ہیں، یا اس رعایت سے کہ ان کی کھالوں اور ان کے بالوں سے فرش بنائے جاتے ہیں |
Surah 16 : Ayat 5
وَٱلْأَنْعَـٰمَ خَلَقَهَاۗ لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَـٰفِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ
اس نے جانور پیدا کیے جن میں تمہارے لیے پوشاک بھی ہے اور خوراک بھی، اور طرح طرح کے دوسرے فائدے بھی
Surah 16 : Ayat 8
وَٱلْخَيْلَ وَٱلْبِغَالَ وَٱلْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةًۚ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ
اُس نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کیے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور وہ تمہاری زندگی کی رونق بنیں وہ اور بہت سی چیزیں (تمہارے فائدے کے لیے) پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم تک نہیں ہے1
1 | یعنی بکثرت ایسی چیزیں ہیں جو انسان کی بھلائی کے لیے کام کر رہی ہیں اور انسان کو خبر تک نہیں ہے کہ کہاں کہاں کتنے خُدّام اُس کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور کیا خدمت انجام دے رہے ہیں۔ |
Surah 16 : Ayat 66
وَإِنَّ لَكُمْ فِى ٱلْأَنْعَـٰمِ لَعِبْرَةًۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِى بُطُونِهِۦ مِنۢ بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشَّـٰرِبِينَ
اور تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے اُن کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں، یعنی خالص دودھ،1 جو پینے والوں کے لیے نہایت خو ش گوار ہے
1 | ’’گوبر اورخون کے درمیان“ کا مطلب یہ ہے کہ جانور جو غذا کھاتے ہیں اُس سے ایک طرف تو خون بنتا ہے، اور دوسری طرف فضلہ، مگر انہی جانوروں کی صنفِ اُناث میں اُسی غذا سے ایک تیسری چیز بھی پیدا ہو جاتی ہے جو خاصیت، رنگ و بو، فائدے اور مقصد میں ان دونوں سے بالکل مختلف ہے۔ پھر خاص طور پر مویشیوں میں اس چیز کی پیداوار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ضرورت پوری کرنے کے بعد انسان کے لیے بھی یہ بہترین غذا کثیر مقدار میں فراہم کرتے رہتے ہیں۔ |
Surah 16 : Ayat 80
وَٱللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّنۢ بُيُوتِكُمْ سَكَنًا وَجَعَلَ لَكُم مِّن جُلُودِ ٱلْأَنْعَـٰمِ بُيُوتًا تَسْتَخِفُّونَهَا يَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَيَوْمَ إِقَامَتِكُمْۙ وَمِنْ أَصْوَافِهَا وَأَوْبَارِهَا وَأَشْعَارِهَآ أَثَـٰثًا وَمَتَـٰعًا إِلَىٰ حِينٍ
اللہ نے تمہارے لیے تمہارے گھروں کو جائے سکون بنایا اس نے جانوروں کی کھالوں سے تمہارے لیے ایسے مکان پیدا کیے1 جنہیں تم سفر اور قیام، دونوں حالتوں میں ہلکا پاتے ہو2 اُس نے جانوروں کے صوف اور اون اور بالوں سے تمہارے لیے پہننے اور برتنے کی بہت سی چیزیں پیدا کر دیں جو زندگی کی مدت مقررہ تک تمہارے کام آتی ہیں
2 | یعنی آپ کوچ کرنا چاہتے ہو توانہیں آسانی سے تہ کر کے اُٹھا لےجاتے ہواور جب قیام کرنا چاہتے ہو تو آسانی سے اُن کو کھول کر ڈیرا جما لیتے ہو۔ |
1 | یعنی چمڑے کے خیمے جن کا رواج عرب میں بہت ہے |
Surah 20 : Ayat 53
ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُمُ ٱلْأَرْضَ مَهْدًا وَسَلَكَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلاً وَأَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَخْرَجْنَا بِهِۦٓ أَزْوَٲجًا مِّن نَّبَاتٍ شَتَّىٰ
وہی جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، اور اُس میں تمہارے چلنے کو راستے بنائے، اور اوپر سے پانی برسایا، پھر اُس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کی پیداوار نکالی
Surah 20 : Ayat 54
كُلُواْ وَٱرْعَوْاْ أَنْعَـٰمَكُمْۗ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ لِّأُوْلِى ٱلنُّهَىٰ
کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چَراؤ یقیناً اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کے لیے1
1 | یعنی جو لوگ عقل سلیم سے کام لے کر جستجوۓ حق کرنا چاہتے ہوں وہ ان نشانات کی مدد سے منزلِ حقیقت تک پہنچنے کا راست معلوم کر سکتے ہیں۔ یہ نشانات ان کو بتا دیں گے کہ اس کائنات کا ایک رب ہے اور ربوبیت ساری کی ساری اسی کی ہے۔ کسی دوسرے رب کے لیے یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے |