Ayats Found (3)
Surah 7 : Ayat 180
وَلِلَّهِ ٱلْأَسْمَآءُ ٱلْحُسْنَىٰ فَٱدْعُوهُ بِهَاۖ وَذَرُواْ ٱلَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِىٓ أَسْمَـٰٓئِهِۦۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے، اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو اور اُن لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کا بدلہ وہ پاکر رہیں گے1
1 | انسان اپنی زبان میں اشیاء کے جو نام رکھتا ہے وہ دراصل اس تصور پر مبنی ہوتے ہیں جو اس کے ذہن میں اُن اشیاء کے متعلق ہوا کرتا ہے۔ تصور کا نقص نام کے نقص کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور نام کا نقص تصوّر کے نقص پر دلالت کرتا ہے۔ پھر اشیاء کے ساتھ انسان کا تعلق اور معاملہ بھی لازماً اُس تصور پر ہی مبنی ہوا کرتا ہےجو اپنے ذہن میں اس کے متعلق رکھتا ہے۔ تصور کی خرابی تعلق کی خرابی میں رونما ہوتی ہے اور تصور کی صحت و درستی میں نمایاں ہو کر رہتی ہے۔ یہ حقیقت جس طرح دنیا کی تمام چیزوں کے معاملہ میں صحیح ہے اسی طرح اللہ کے معاملہ میں بھی صحیح ہے۔ اللہ کے لیے نام(خواہ وہ اسماء ذات ہوں یا اسماء صفات)تجویز کرنے میں انسان جو غلطی بھی کرتا ہے وہ دراصل اللہ کی ذات و صفات کے متعلق اس کے عقیدے کی غلطی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ پھر خدا کے متعلق اپنے تصورو اعتقاد میں انسان جتنی اور جیسی غلطی کرتا ہے، اتنی ہی اور ویسی ہی غلطی اس سے اپنی زندگی کے پورے اخلاقی رویہ کی تشکیل میں سرزد ہوتی ہے، کیونکہ انسان کے اخلاقی رویہ کی تشکیل تمام تر منحصر ہے اُس تصور پر جو اس نے خدا کے بارے میں اور خدا کے ساتھ اپنے اور کائنات کے تعلق کے بارے میں قائم کیا ہو۔ اسی لیے فرمایا کہ خدا کے نام رکھنے میں غلطی کرنے سے بچو، خدا کے لیے اچھے نام ہی موزوں ہیں اور اسے اُنہی نامو ں سے یاد کرنا چاہیے، اس کے نام تجویز کرنے میں الحاد کا انجام بہت بُرا ہے۔ ”اچھے ناموں“سے مراد وہ نام ہیں جن سے خدا کی عظمت و بر تری، اس کے تقدس اور پاکیزگی، اور اس کی صفات کمالیہ کا اظہار ہوتا ہو۔”الحاد“کے معنی ہیں وسط سے ہٹ جانا ، سیدھے رُخ سے منحرف ہو جانا۔ تیر جب ٹھیک نشانے پر بیٹھنے کی بجائٕے کسی دوسری طرف جا لگتا ہے تو عربی میں کہتے ہیں اَلحد السہمُ الھدفَ، یعنی تیرنے نشانے سے الحاد کیا۔ خدا کے نام رکھنے میں الحاد یہ ہے کہ خدا کو ایسے نام دیے جائیں گو اس کے مرتبے سے فروتر ہوں، جو اس کے ادب کے منافی ہوں ، جن سے عیوب اور نقائص اس کی طرف منسوب ہوتے ہوں، یا جن سے اس کی ذاتِ اقدس و اعلیٰ کے متعلق کسی غلط عقیدے کا اظہار ہوتا ہو۔ نیز یہ بھی الحاد ہی ہے کہ مخلوقات میں کسی کے لیے ایسا نام رکھا جائے جو صرف خدا ہی کے لیے موزوں ہو۔ پھر یہ فرمایا کہ اللہ کے نام رکھنے میں جو لوگ الحاد کرتے ہیں ان کو چھوڑدو۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ سیدھی طرح سمجھانے سے نہیں سمجھتے تو ان کی کج بحثیوں میں تم کو اُلجھنے کی کوئی ضرورت نہیں، اپنی گمراہی کا انجام وہ خود دیکھ لیں گے |
Surah 17 : Ayat 110
قُلِ ٱدْعُواْ ٱللَّهَ أَوِ ٱدْعُواْ ٱلرَّحْمَـٰنَۖ أَيًّا مَّا تَدْعُواْ فَلَهُ ٱلْأَسْمَآءُ ٱلْحُسْنَىٰۚ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَٱبْتَغِ بَيْنَ ذَٲلِكَ سَبِيلاً
اے نبیؐ، اِن سے کہو، اللہ کہہ کر پکارو یا رحمان کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو اُس کے لیے سب اچھے ہی نام ہیں1 اور اپنی نماز نہ بہت زیادہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ بہت پست آواز سے، ان دونوں کے درمیان اوسط درجے کا لہجہ اختیار کرو2
2 | ابن عباس کا بیان ہے کہ مکے میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا دوسرے صحابہ کرام ؓ نماز پڑھتے وقت بلند آواز سے قرآن پڑھتے تھے تو کفار شور مچانے لگتے اور بسا اوقات گالیوں کی بوچھاڑ شروع کردیتے تھے۔ اس پر حکم ہوا کہ نہ تو اتنے زور سے پڑھو کہ کفار سن کر ہجوم کریں، اور نہ اس قدر آہستہ پڑھو کہ تمہارے اپنے ساتھی بھی نہ سن سکیں۔ یہ حکم صرف انہی حالات کے لیے تھا۔ مدینے میں جب حالات بدل گئے تو یہ حکم باقی نہ رہا۔ البتہ جب کبھی مسلمانوں کو مکے کے سے حالات سے دوچار ہونا پڑے، انہیں اسی ہدایت کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ |
1 | یہ جواب ہے مشرکین کے اس اعتراض کا کہ خالق کے لیے ”اللہ“کا نام تو ہم نے سنا تھا، مگر یہ ”رحمان“ کا نام تم نے کہاں سے نکالا؟ ان کے ہاں چونکہ اللہ تعالٰی کے لیے یہ نام رائج نہ تھا اس لیے وہ اس پر ناک بَھوں چڑھاتے تھے۔ |
Surah 59 : Ayat 24
هُوَ ٱللَّهُ ٱلْخَـٰلِقُ ٱلْبَارِئُ ٱلْمُصَوِّرُۖ لَهُ ٱلْأَسْمَآءُ ٱلْحُسْنَىٰۚ يُسَبِّحُ لَهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۖ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ
وہ اللہ ہی ہے جو تخلیق کا منصوبہ بنانے والا اور اس کو نافذ کرنے والا اور اس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے1 اس کے لیے بہترین نام ہیں2 ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اُس کی تسبیح کر رہی3 ہے، اور وہ زبردست اور حکیم4 ہے
4 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ حدید، حاشیہ 2 |
3 | یعنی زبان قال یا زبان حال سے یہ بیان کر رہی ہے کہ اس کا خالق ہر عیب اور نقص اور کمزوری اور غلطی سے پاک ہے |
2 | ناموں سے مراد اسماۓ صفات ہیں۔ اور اس کے لیے بہترین نام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے لیے وہ اسماۓ صفات موزوں نہیں ہیں جن سے کسی نوعیت کے نقص کا اظہار ہوتا ہو، بلکہ اس کو ان ناموں سے یاد کرنا چاہیے جو اس کی صفات کمالیہ کا اظہار کرتے ہوں۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ اللہ تعالٰی کے یہ اسماۓ حسنیٰ بیان کیے گۓ ہیں، اور حدیث میں اس ذات پاک کے 99 نام گناے گۓ ہیں، جنہیں ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت ابو ہریرہؓ کی رویت سے بالتفصیل نقل کیا ہے۔ قرآن اور حدیث میں اگر آدمی ان اسماء کو بغور پڑھے تو وہ آسانی سمجھ سکتا ہے کہ دنیا کی کسی دوسری زبان میں اگر اللہ تعالٰی کو یاد کرنا ہو تو کون سے الفاظ اس کے لیے موزوں ہوں گے |
1 | یعنی پوری دنیا اور دنیا کی ہر چیز تخلیق کے ابتدائی منصوبے سے لے کر اپنی مخصوص صورت میں وجود پذیر ہونے تک بالکل اسی کی ساختہ پر داختہ ہے۔ کوئی چیز بھی نہ خود وجود میں آئی ہے، نہ اتفاقاً پیدا ہو گئی ہے، نہ اس کی ساخت و پرداخت میں کسی دوسرے کا ذرہ برابر کوئی دخل ہے۔ یہاں اللہ تعالٰی کے فعل تخلیق کو تین الگ مراتب میں بیان کیا گیا ہے جو یکے بعد دیگرے واقع ہوتے ہیں۔ پہلا مرتبہ خَلُق ہے جس کے معنی تقدیر یا منصوبہ سازی کے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی انجینیئر ایک عمارت بنانے سے پہلے یہ ارادہ کرتا ہے کہ اسے ایسی اور ایسی عمارت فلاں خاص مقصد کے لیے بنانی ہے اور اپنے ذہن میں اس کا نقشہ (Design) سوچتا ہے کہ اس مقصد کے لیے زیر تجویز عمارت کی تفصیلی صورت اور مجموعی شکل یہ ہونی چاہیے۔ دوسرا مرتبہ ہے برء، جس کے اصل معنی ہیں جدا کرنا، چاک کرنا، پھاڑ کر الت کرنا۔ خالق کے لیے باری کا لفظ اس معنی میں استعمال کیا گیا ہے کہ وہ اپنے سوچے ہوۓ نقشے کو نافذ کرتا اور اس چیز کو، جس کا نقشہ اس نے سوچا ہے، عدم سے نکال کر وجود میں لاتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے انجینیئر نے عمارت کا جو نقشہ ذہن میں بنایا تھا اس کے مطابق وہ ٹھیک ناپ تول کر کے زمین پر خط کشی کرتا ہے، پھر بنیادیں کھودتا ہے، دیواریں اٹھاتا ہے اور تعمیر کے سارے عملی مراحل طے کرتا ہے۔ تیسرا مرتبہ تصویر ہے جس کے معنی ہیں صورت بنانا، اور یہاں اس سے مراد ہے ایک شے کو اس کی آخری مکمل صورت میں بنا دینا۔ ان تینوں مراتب میں اللہ تعالٰی کے کام اور انسانی کاموں کے درمیان سے کوئی مشابہت نہیں ہے۔ انسان کا کوئی منصوبہ بھی ایسا نہیں ہے جو سابق نمونوں سے ماخوذ نہ ہو۔ مگر اللہ تعالٰی کا ہر منصوبہ بے مثال اور اس کی اپنی ایجاد ہے۔ انسان جو کچھ بھی بناتا ہے اللہ تعالٰی کے پیدا کردہ مادوں کو جوڑ جاڑ کر بناتا ہے۔ وہ کسی چیز کو عدم سے وجود میں نہیں لاتا بلکہ جو کچھ وجود میں لایا ہے اور وہ مادہ بھی بجاۓ خود اس کا پیدا کردہ ہے جس سے اس نے یہ دنیا بنائی ہے۔ اسی طرح سورت گری کے معاملہ میں بھی انسان موجد نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کی بنائی ہوئی صورتوں کا نقال اور بھونڈا نقال ہے۔ اصل مصور اللہ تعالٰی ہے جس نے ہر جنس، ہر نوع، اور ہر فرد کی صورت لا جواب بنائی ہے اور کبھی ایک صورت کی ہو بہو تکرار نہیں کی ہے |