Ayats Found (2)
Surah 17 : Ayat 11
وَيَدْعُ ٱلْإِنسَـٰنُ بِٱلشَّرِّ دُعَآءَهُۥ بِٱلْخَيْرِۖ وَكَانَ ٱلْإِنسَـٰنُ عَجُولاً
انسان شر اُس طرح مانگتا ہے جس طرح خیر مانگنی چاہیے انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے1
1 | یہ جواب ہے کفار مکہ کی اُن احمقانہ باتوں کا جو وہ بار بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےکہتے تھے کہ بس لے آؤ وہ عذاب جس سے تم ہمیں ڈرایا کرتے ہو۔ اوپر کے بیان کے بعد معاً یہ فقرہ ارشاد فرمانے کی غرض اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ بیوقوفو! خیر مانگنے کے بجائے عذاب مانگتے ہو؟ تمہیں کچھ اندازہ بھی ہے خدا کا عذاب جب کسی قوم پر آتا ہے تو اس کی کیا گت بنتی ہے؟ اس کے ساتھ اس فقرے میں ایک لطیف تنبیہ مسلمانوں کے لیے بھی تھی جو کفار کے ظلم و ستم اور ان کی ہٹ دھرمیوں سے تنگ آ کر کبھی کبھی ان کے حق میں نزول عذاب کی دعا کرنے لگتے تھے، حالانکہ ابھی انہی کفار میں بہت سے وہ لوگ موجود تھے جوآگے چل کر ایمان لانے والے اور دنیا بھر میں اسلام کا جھنڈا بلند کرنے والے تھے۔ اس پر اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ انسان بڑا بے صبر واقع ہوا ہے۔، ہر وہ چیز مانگ بیٹھتا ہے جس کی بر وقت ضرورت محسوس ہوتی ہے، حالانکہ بعد میں اسے خود تجربہ سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اگر اُس وقت اُس کی دعا قبول کر لی جاتی تووہ اس کے حق میں خیر نہ ہوتی۔ |
Surah 21 : Ayat 37
خُلِقَ ٱلْإِنسَـٰنُ مِنْ عَجَلٍۚ سَأُوْرِيكُمْ ءَايَـٰتِى فَلَا تَسْتَعْجِلُونِ
انسان جلد باز مخلوق ہے1 ابھی میں تم کو اپنی نشانیاں دکھائے دیتا ہوں، جلدی نہ مچاؤ2
2 | بعد کی تقریر صاف بتا رہی ہے کہ یہاں ’’ نشانیوں ‘‘ سے کیا مراد ہے ۔ وہ لوگ جن باتوں کا مذاق اڑاتے تھے ان میں سے ایک عذاب الہٰی ، اور قیامت اور جہنم کا مضمون بھی تھا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ شخص آئے دن ہمیں ڈراوے دیتا ہے کہ میرا انکار کرو گے تو خدا کا عذاب ٹوٹ پڑے گا ، اور قیامت میں تم پر یہ بنے گی اور تم لوگ یوں جہنم کے ایندھن بناۓ جاؤ گے ۔ مگر ہم روز انکار کرتے ہیں اور دندناتے پھر رہے ہیں ۔ نہ کوئی عذاب آتا دکھائی دیتا ہے اور نہ کوئی قیامت ہی ٹوٹی پڑ رہی ہے ۔ اسی کا جوب ان آیات میں دیا گیا ہے |
1 | اصل میں : خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ کے الفاظ استعمال ہوۓ ہیں جن کا لفظی ترجمہ ہے ’’ انسان جلد بازی سے بنایا گیا ہے ، یا پیدا کیا گیا ہے ‘‘ ۔ لیکن یہ لفظی معنی اصل مقصود کلام نہیں ہیں ۔ جس طرح ہم اپنی زبان میں کہتے ہیں فلاں شخص عقل کا پُتلا ہے ، اور فلاں شخص حرفوں کا بنا ہوا ہے ، اسی طرح عربی زبان میں کہتے ہیں کہ وہ فلاں چیز سے پیدا کیا گیا ہے ، اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ فلاں چیز اس کی سرشت میں ہے ۔ یہی بات جس کو یہاں : خُلِقَ الْاِنْسَنُ مِنْ عَجَلٍ کہہ کر ادا کیا گیا ہے ، دوسری جگہ : وَکَانَ الْاِنْسَنُ عَجُوْلًا ، ’’ انسان جلد باز واقع ہوا ہے ، ‘‘ (بنی اسرائیل آیت 11 ) کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے |