Ayats Found (5)
Surah 6 : Ayat 38
وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِى ٱلْأَرْضِ وَلَا طَـٰٓئِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّآ أُمَمٌ أَمْثَالُكُمۚ مَّا فَرَّطْنَا فِى ٱلْكِتَـٰبِ مِن شَىْءٍۚ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ
زمین میں چلنے والے کسی جانور اور ہوا میں پروں سے اڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو، یہ سب تمہاری ہی طرح کی انواع ہیں، ہم نے ان کی تقدیر کے نوشتے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، پھر یہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جاتے ہیں
Surah 24 : Ayat 45
وَٱللَّهُ خَلَقَ كُلَّ دَآبَّةٍ مِّن مَّآءٍۖ فَمِنْهُم مَّن يَمْشِى عَلَىٰ بَطْنِهِۦ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِى عَلَىٰ رِجْلَيْنِ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِى عَلَىٰٓ أَرْبَعٍۚ يَخْلُقُ ٱللَّهُ مَا يَشَآءُۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
اور اللہ نے ہر جاندار ایک طرح کے پانی سے پیدا کیا، کوئی پیٹ کے بل چل رہا ہے تو کوئی دو ٹانگوں پر اور کوئی چار ٹانگوں پر جو کچھ وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے
Surah 35 : Ayat 28
وَمِنَ ٱلنَّاسِ وَٱلدَّوَآبِّ وَٱلْأَنْعَـٰمِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَٲنُهُۥ كَذَٲلِكَۗ إِنَّمَا يَخْشَى ٱللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ ٱلْعُلَمَـٰٓؤُاْۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ
اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف ہیں1 حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اُس سے ڈرتے ہیں2 بے شک اللہ زبردست اور درگزر فرمانے والا ہے3
3 | یعنی وہ زبردست تو ایسا ہے کہ نافرمانوں کو جب چاہے پکڑ لے، کسی میں یارا نہیں کہ اس کی پکڑ سے بچ نکلے، مگر یہ اس کی شان عفو و درگزر ہے جس کی بنا پر ظالموں کو مہلت ملے جا رہی ہے۔ |
2 | یعنی جو شخص اللہ کی صفات سے جتنا زیادہ نا واقف ہو گا اور اس کے برعکس جس شخص کو اللہ کی قدرت، اس کے علم، اس کی حکمت، اس کی قہاری و جبّاری، اور اس کی دوسری صفات کی جتنی معرفت حاصل ہوگی اتنا ہی وہ اس کی نافرمانی سے خوف کھائے گا۔ پس درحقیقت کس آیت میں علم سے مراد فلسفہ و سائنس اور تاریخ و ریاضی وغیرہ درسی علوم نہیں ہیں بلکہ صفات الہٰی کا علم ہے قطع نظر اس سے کہ آدمی خواندہ ہو یا نا خواندہ۔ جو شخص خدا سے بے خوف ہے وہ علّامہ دہر بھی ہو تو اس علم کے لحاظ سے جاہل محض ہے۔ اور جو شخص خدا کی صفات کو جانتا ہے اور اس کی خشیت اپنے دل میں رکھتا ہے وہ اَن پڑھ بھی ہو تو ذی علم ہے۔ اسی سلسلے میں یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ اس آیت میں لفظ ’’علماء‘‘ سے وہ اصطلاحی علماء بھی مراد نہیں ہیں جو قرآن و حدیث اور فقہ و کلام کا علم رکھنے کی بنا پر علمائے دین کہے جاتے ہیں۔ وہ اس آیت کے مصداق صرف اسی صورت میں ہوں گے جبکہ ان کے اندر خدا ترسی موجود ہو۔ یہی بات حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمائی ہے کہ لیس العلم عن کثرۃ الحدیث و لٰکن العلم عن کثرۃ الخشیۃ۔‘‘ علم کثرت حدیث کی بنا پر نہیں ہے بلکہ خوف خدا کی کثرت کے لحاظ سے ہے‘‘ اور یہی بات حضرت حسن بصریؒ نے فرمائی ہے کہ العلم من خشی الحمٰن بالغیب و رغب فیما رغب اللہ فیہ و زھد فیما سخط اللہ فیہ۔ ’’علم وہ ہے جو اللہ سے بے دیکھے ڈرے، جو کچھ اللہ کو پسند ہے اس کی طرف وہ راغب ہو‘اور جس چیز سے اللہ ناراض ہے اس سے وہ کوئی دلچسپی نہ رکھے۔ |
1 | اس سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ خدا کی پیدا کردہ کائنات میں کہیں بھی یک رنگی و یکسانی نہیں ہے۔ ہر طرف تنُّوع ہی تنُّوع ہے ایک ہے زمین اور ایک ہی پانی سے طرح طرح کے درخت نکل رہے ہیں اور ایک درخت کے دو پھل تک اپنے رنگ، جسامت اور مزے میں یکساں نہیں ہیں۔ ایک ہی پہاڑ کو دیکھو تو اس میں کئی کئی رنگ تمہیں نظر آئیں گے اور اس کے مختلف حصوں کی مادی ترکیب میں بڑا فرق پایا جائے گا۔ انسانوں اور جانوروں میں ایک ماں باپ کے دو بچے تک یکساں نہ ملیں گے۔ اس کائنات میں اگر کوئی مزاجوں اور طبیعتوں اور ذہنیتوں کی یکسانی ڈھونڈے اور وہ اختلافات دیکھ کر گھبرا اٹھے جن کی طرف اوپر(آیت نمبر 19 تا 22 میں)اشارہ کیا گیا ہے تو یہ اس کے اپنے فہم کی کوتاہی ہے۔ یہی تنوع اور اختلاف تو پتہ دے رہا ہے کہ اس کائنات کو کسی زبردست حکیم نے بے شمار حکمتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس کا بنانے والا کوئی بے نظیر خلاّق اور بے مثل صنّاع ہے جو ہر چیز کا کوئی ایک ہی نمونہ لے کر نہیں بیٹھ گیا ہے، بلکہ اس کے پاس ہر شے کے لیے نئے سے نئے ڈیزائن اور بے حد و حساب ڈیزائن ہیں۔ پھر خاص طور پر انسانی طبائع اور اذہان کے اختلاف پر کوئی شخص غور کرے تو اسے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ در حقیقت حکمت تخلیق کا شاہ کار ہے۔ اگر تمام انسان پیدائشی طور پر اپنی افتاد طبع اور اپنی خواہشات، جذبات، میلانات اور طرز فکر کے لحاظ سے یکساں بنا دیے جاتے اور کسی اختلاف کی کوئی گنجائش نہ رکھی جاتی تو دنیا میں انسان کی قوم کی ایک نئی مخلوق پیدا کرنا ہی میرے سے لا حاصل ہو جاتا۔ خالق نے جب اس زمین پر ایک ذمہ دار مخلوق اور اختیارات کی حامل مخلوق وجود میں لانے کا فیصلہ کیا تو اس فیصلے کی نوعیت کا لازمی تقاضا یہی تھا کہ اس کی ساخت میں ہر قسم کے اختلافات کی گنجائش رکھی جاتی۔ یہ چیز اس بات کی سب سے بڑی شہادت ہے کہ انسان کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ایک عظیم الشان حکیمانہ منصوبے کا نتیجہ ہے اور ظاہر ہے کہ حکیمانہ منصوبہ جہاں بھی پایا جائے گا وہاں لازماً اس کے پیچھے ایک حکیم ہستی کار فرما ہوگی۔ حکیم کے بغیر حکمت کا وجود صرف ایک احمق ہی فرض کر سکتا ہے۔ |
Surah 42 : Ayat 29
وَمِنْ ءَايَـٰتِهِۦ خَلْقُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ وَمَا بَثَّ فِيهِمَا مِن دَآبَّةٍۚ وَهُوَ عَلَىٰ جَمْعِهِمْ إِذَا يَشَآءُ قَدِيرٌ
اُس کی نشانیوں میں سے ہے یہ زمین اور آسمانوں کی پیدائش، اور یہ جاندار مخلوقات جو اُس نے دونوں جگہ پھیلا رکھی ہیں1 وہ جب چاہے انہیں اکٹھا کر سکتا ہے2
2 | یعنی جس طرح وہ انہیں پھیلا دینے پر قادر ہے اسی طرح وہ انہیں جمع کر لینے پر بھی قادر ہے ، لہٰذا یہ خیال کرنا غلط ہے کہ قیامت نہیں آ سکتی اور تمام اولین و آخرین کو بیک وقت اٹھا کر اکٹھا نہیں کیا جا سکتا |
1 | یعنی زمین میں بھی اور آسمانوں میں بھی۔ یہ کھلا اشارہ ہے اس طرف کہ زندگی صرف زمین پر ہی نہیں پائی جاتی، بلکہ دوسرے سیاروں میں بھی جاندار مخلوقات موجود ہیں |
Surah 45 : Ayat 4
وَفِى خَلْقِكُمْ وَمَا يَبُثُّ مِن دَآبَّةٍ ءَايَـٰتٌ لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ
اور تمہاری اپنی پیدائش میں، اور اُن حیوانات میں جن کو اللہ (زمین میں) پھیلا رہا ہے، بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو یقین لانے والے ہیں1
1 | یعنی جو لوگ انکار کا فیصلہ کر چکے ہیں، یا جنہوں نے شک ہی کی بھول بھلیوں میں بھٹکنا اپنے لیے پسند کر لیا ہے ان کا معاملہ تو دوسرا ہے، مگر جن لوگوں کے دل کے دروازے یقین کے لیے بند نہیں ہوۓ ہیں وہ جب اپنی پیدائش پر، اور اپنے وجود کی ساخت پر، اور زمین میں پھیلے ہوۓ انواع و اقسام کے حیوانات پر غور کی نگاہ ڈالیں گے تو انہیں بے شمار علامات ایسی نظر آئیں گی جنہیں دیکھ کر یہ شبہ کرنے کی ادنیٰ سی گنجائش بھی نہ رہے گی کہ شاید یہ سب کچھ کسی خدا کے بغیر بن گیا ہو، یا شاید اس کے بنانے میں ایک سے زیادہ خداؤں کا دخل ہو۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد اول، ص 537۔ 538۔جلد دوم، ص 526۔ 527۔ جلد سوم، ص 201 تا 204۔ 269۔ 458۔ 502۔503۔593۔594۔742 تا 746۔ 765۔ 766۔ جلد چہارم، السجدہ، حواشی 14 تا 18۔یٰس، آیات 71 تا 73۔ الزمر، آیت 6۔المومن، حواشی97۔ 98۔ 110) |