Ayats Found (3)
Surah 6 : Ayat 108
وَلَا تَسُبُّواْ ٱلَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ فَيَسُبُّواْ ٱللَّهَ عَدْوَۢا بِغَيْرِ عِلْمٍۗ كَذَٲلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
اور (اے ایمان لانے والو!) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں ہم نے اسی طرح ہر گروہ کے لیے اس کے عمل کو خوشنما بنا دیا ہے1 پھر انہیں اپنے رب ہی کی طرف پلٹ کر آنا ہے، اُس وقت وہ اُنہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں
1 | یہا ں پھر اُس حقیقت کے ملحوظ رکھنا چاہیے جس کی طرف اس سے پہلے بھی ہم اپنے حواشی میں اشارہ کر چکے ہیں کہ جو اُمُور قوانین ِ فطرت کے تحت رُونما ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ انھیں اپنا فعل قرار دیتا ہے ، کیونکہ وہی ان قوانین کا مقرر کرنے والا ہے اور جو کچھ ان قوانین کے تحت رُونما ہوتا ہے وہ اسی کے امر سے رُونما ہوتا ہے۔ جس بات کو اللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتا ہے کہ ہم نے ایسا کیا ہے اسی کو اگر ہم انسان بیان کریں تو اس طرح کہیں گے کہ فطرۃً ایسا ہی ہوا کرتا ہے |
Surah 23 : Ayat 53
فَتَقَطَّعُوٓاْ أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ زُبُرًاۖ كُلُّ حِزْبِۭ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ
مگر بعد میں لوگوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لیا ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے اُسی میں وہ مگن ہے1
1 | یہ محض بیان واقعہ ہی نہیں ہے بلکہ اس استدلال کی ایک کڑی بھی ہے جو آغاز سورہ سے چلا آ رہا ہے۔ دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جب نوح علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ تک تمام انبیاء یہی توحید اور عقیدہ آخرت کی تعلیم دیتے رہے ہیں ،تو لا محالہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نوع انسانی کا اصل دین یہی اسلام ہے ، اور دوسرے تمام مذاہب جو آج پائے جاتے ہیں وہ اسی کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں جو اس کی بعض صداقتوں کو مسخ کر کے اور اس کے اندر بعض من گھڑت باتوں کا اضافہ کر کے بنا لی گئی ہیں۔ اب اگر غلطی پر ہیں تو وہ لوگ ہیں جو ان مذاہب کے گرویدہ ہو رہے ہیں ، نہ کہ وہ جو ان کو چھوڑ کر اصل دین کی طرف بلا رہا ہے |
Surah 23 : Ayat 54
فَذَرْهُمْ فِى غَمْرَتِهِمْ حَتَّىٰ حِينٍ
اچھا، تو چھوڑو انہیں، ڈوبے رہیں اپنی غفلت میں ایک وقت خاص تک1
1 | پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک خلا ہے جسے بھرنے کے بجائے سامع کے تخیل پر چھوڑ دیا گیا ہے ، کیونکہ اس کو تقریر کا پس منظر خود بھر رہا ہے۔ پس منظر یہ ہے کہ خدا کا ایک بندہ پانچ چھ سل سے لوگوں کو اصل دین کی طرف بلا رہا ہے ، دلائل سے بات سمجھا رہا ہے ، تاریخ سے نظیر پیش کر رہا ہے ، اس کی دعوت کے اثرات و نتائج عملاً نگاہوں کے سامنے آ رہے ہیں ، اور پھر اس کا ذاتی کردار بھی اس امر کی ضمانت دے رہا ہے کہ وہ ایک قابل اعتماد آدمی ہے۔ مگر اس کے باوجود لوگ صرف یہی نہیں کہ اس باطل میں مگن ہیں جو ان کو باپ دادا سے ورثے میں ملا تھا، اور صرف اس حد تک بھی نہیں کہ وہ اس حق کو مان کر نہیں دیتے جو روشن دلائل کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے ،بلکہ وہ ہاتھ دھو کر اس داعی حق کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور ہٹ دھرمی، طعن، ملامت، ظلم ، جھوٹ ، غرض کوئی بری سے بُری تدبیر بھی اس کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال کر نے سے نہیں چوکتے۔ اس صورت حال میں اصل دین حق کی وحدت، اور بعد کے ایجاد کردہ مذاہب کی حقیقت بیان کرنے کے بعد یہ کہنا کہ ’’ چھوڑو انہیں ، ڈوبے رہیں اپنی غفلت میں ، ’’ خود بخود اس معنی پر دلالت کرتا ہے کہ ’’ اچھا، اگر یہ لوگ نہیں مانتے اور اپنی گمراہیوں ہی میں مگن رہنا چاہتے ہیں تو چھوڑو انہیں۔‘‘ اس ’’ چھوڑو ‘‘ کو بالکل لفظی معنوں میں لے کر یہ سمجھ بیٹھنا کہ ’’ اب تبلیغ ہی نہ کر‘‘، کلام کے تیوروں سے نا آشنائی کا ثبوت ہو گا۔ ایسے مواقع پر یہ بات تبلیغ و تلقین سے روکنے کے لیے انہیں بلکہ غافلوں کو جھنجھوڑنے کے لیے کہ جا یا کرتی ہے۔ پھر ’’ ایک وقت خاص تک‘‘ کے الفاظ میں ایک بڑی گہری تنبیہ ہے جو یہ بتا رہی ہے کہ غفلت کا یہ استغراق زیادہ دیر تک نہیں رہ سکے گا، ایک وقت آنے والا ہے جب یہ چونک پڑیں گے اور انہیں پتہ چل جائے گا کہ بلانے والا جس چیز کی طرف بلا رہا تھا وہ کیا تھی اور یہ جس چیز میں مگن تھے وہ کیسی تھی |