Ayats Found (4)
Surah 18 : Ayat 55
وَمَا مَنَعَ ٱلنَّاسَ أَن يُؤْمِنُوٓاْ إِذْ جَآءَهُمُ ٱلْهُدَىٰ وَيَسْتَغْفِرُواْ رَبَّهُمْ إِلَّآ أَن تَأْتِيَهُمْ سُنَّةُ ٱلْأَوَّلِينَ أَوْ يَأْتِيَهُمُ ٱلْعَذَابُ قُبُلاً
اُن کے سامنے جب ہدایت آئی تو اسے ماننے اور اپنے رب کے حضور معافی چاہنے سے آخر اُن کوکس چیز نے روک دیا؟ اِس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ منتظر ہیں کہ اُن کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو جو پچھلی قوموں کے ساتھ ہو چکا ہے، یا یہ کہ وہ عذاب کو سامنے آتے دیکھ لیں!1
1 | یعنی جہاں تک دلیل و حجت کا تعلق ہے،قرآن نے حق واضح کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی ہے۔دل اور دماغ کو اپیل کرنے کے جتنے مئوثر طریقے اختیار کرنے ممکن تھے،وہ سب بہترین انداز میں یہاں اختیارکیے جا چکے ہیں۔اب وہ کیا چیز ہےجو انہیں قبولِ حق میں مانع ہو رہی ہے؟صرف یہ کہ انہیں عذاب کا انتظار ہے۔جوتے کھائے بغیر سیدھے نہیں ہونا چاہتے۔ |
Surah 76 : Ayat 3
إِنَّا هَدَيْنَـٰهُ ٱلسَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا
ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا1
1 | یعنی ہم نے اسے محض علم و عقل کی قوتیں دے کر ہی نہیں چھوڑ دیا ، بلکہ ساتھ ساتھ اس کی رہنمائی بھی کی تاکہ اسے معلوم ہو جائے کہ شکر کا راستہ کونسا ہے اور کفر کاراستہ کونسا، اور اس کے بعد جو راستہ بھی وہ اختیار کرے اس کا ذمہ د اروہ خود ہو۔ سورہ بلد میں یہی مضمون ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے وھدینہ النجدین۔ ’’اور ہم نے اسے دونوں راستے (یعنی خیر و شر کے راستے) نمایاں کر کے بتا دیے‘‘۔ اور سورہ شمس میں یہی بات اس طرح بیان کی گئی ہے و نفس و ما سوھا فالھمھا فجورھا و تقوھا، ’’اور قسم ہے (نسان کے)نفس کو اور اس ذات کی جس نے اسے (تمام ظاہری و باطنی قوتوں کے ساتھ) استوارکیا، پھراس کا فجوراوراس کا تقوی دونوں اس پر الہام کر دیے‘‘۔ ان تمام تصریحات کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے اورساتھ ساتھ قرآن مجید کے ان تفصیلی بیانات کو بھی نگاہ میں رکھا جائے جن میں بتایا گیا ہے کہ ا للہ تعالی نے انسان کی ہدایت کے لیےدنیا میں کیا کیا انتظامات کیے ہیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس آیت میں ’’ راستہ دکھانے‘‘ سے مراد رہنمائی کی کوئی ایک ہی صورت نہیں ہے بلکہ بہت سی صورتیں ہیں جن کی کوئی حدود نہایت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر: (1) ہر انسان کو علم و عقل کی صلاحیتیں دینے کے ساتھ ایک اخلاقی حس بھی دی گئی ہے جس کی بدولت وہ فطری طور پر بھلائی اور برائی میں امتیاز کرتا ہے بعض افعال اوراوصاف کو براجانتا ہے اگرچہ وہ خود ان میں مبتلا ہو، اور بعض افعال واوصاف کواچھا جانتا ہے اگرچہ وہ خود ان سے اجتناب کر رہا ہو۔ حتی کہ جن لوگوں نے اپنی اغراض وخواہشات کی خاطر ایسے فلسفے گھڑ لیے ہیں جن کی بنا پر بہت سی برائیوں کو انہوں نے اپنے لیے حلال کر لیا ہے، ان کا حال بھی یہ ہے کہ و ہی برائیاں اگر کوئی دوسرا ان کے ساتھ کرے تو وہ اس پر چیخ اٹھتے ہیں اوراس وقت معلوم ہوجاتا ہے کہ اپنے جھوٹے فلسفوں کے باوجود حقیقت میں وہ ان کو برا ہی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح نیک اعمال واوصاف کو خواہ کسی نے جہالت اور حماقت اور دقیانوسیت ہی قرار دے رکھا ہو، لیکن جب کسی انسان سے خود اس کی ذات کوکسی نیک سلوک کا فائدہ پہنچتا ہے تواس کی فطرت اسے قابل قدر سمجھنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ (2) ہر انسان کے اندر اللہ تعالی نے ضمیر (نفس لوامہ) نام کی ایک چیز رکھ دی ہے جو اسے ہر اس موقع پر ٹوکتی ہے جب وہ کوئی برائی کرنے والا ہو یا کر رہا ہو یا کر چکا ہو۔ اس ضمیر کو خواہ انسان کتنی ہی تھپکیاں دے کر سلائے، اور اس کو بے حس بنانے کی چاہے کتنی ہی کوشش کر لے، لیکن وہ اسے بالکل فنا کر دینے پر قادر نہیں ہے۔ وہ دنیا میں ڈھیٹ بن کر اپنے آپ کو قطعی بے ضمیر ثابت کر سکتا ہے، وہ حجتیں بگھار کر دنیا کو دھوکا دینے کی بھی ہر کوشش کر سکتا ہے، وہ اپنے نفس کو بھی فریب دینے کے لیے اپنے افعال کے لیے بے شمار عذرات تراش سکتا ہے، مگر اس کے باوجود ا للہ نے اس کی فطرت میں جو محاسب بٹھا رکھا ہے وہ اتنا جاندار ہے کہ کسی برے انسان سے یہ بات چھپی نہیں رہتی کہ وہ حقیقت میں کیا ہے۔ یہی بات ہے جو سورہ قیامہ میں فرمائی گئی ہے کہ ’’انسان خود اپنے آپ کو خوب جانتا ہے خواہ وہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے‘‘۔ (آیت 15)۔ (3) انسان کے اپنے وجودمیں اور اس کے گرد و پیش زمین سے لے کر آسمان تک ساری کائنات میں ہر طرف ایسی بے شمار نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں جو خبردے ر ہی ہیں کہ ی سب کچھ کسی خدا کے بغیر نہیں ہو سکتا، نہ بہت سے خدا اس کارخانہ ہستی کے بنانے والے اور چلانے والے ہو سکتے ہیں۔ اس طرح آفاق اور انفس کی یہی نشانیاں قیامت اور آخرت پر بھی صریح دلالت کر رہی ہیں۔ انسان اگر ان سے آنکھیں بند کر لے، یا اپنی عقل سے کام لے کر ان پر غور نہ کرے، یا جن حقائق کی نشاندہی یہ کررہی ہیں ان کو تسلیم کرنے سے جی چرائے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے۔ اللہ تعالی نے اپنی طرف سے تو حقیقت کی خبر دینے والے نشانات اس کے سامنے رکھ دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔ (4) انسان کی اپنی زندگی میں، اس کی ہم عصر دنیا میں، اور اس سے پہلے گزری ہوئی تاریخ کے تجربات میں بے شمار واقعات ایسے پیش آتے ہیں اور آتے رہے ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ ایک بالا تر حکومت اس پر ا ور ساری کائنات پر فرمانروائی کر رہی ہے، جس کے آگے وہ بالکل بے بس ہے، جس کی مشیت ہر چیز پرغالب ہے، اورجس کی مدد کا وہ محتاج ہے۔ یہ تجربات و مشاہدات صرف خارج ہی میں اس حقیقت کی خبر دینے والے نہیں ہیں، بلکہ انسان کی اپنی فطرت میں بھی اس بالاترحکومت کے وجود کی شہادت موجود ہے جس کی بنا پر بڑے سے بڑا دہریہ بھی برا وقت آنے پر خدا کےآگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیتا ہے، اورسخت سے سخت مشرک بھی سارے جھوٹے خداؤں کو چھوڑ کر ایک خدا کو پکارنے لگتا ہے۔ (5) انسان کی عقل اور اس کی فطرت قطعی طور پر حکم لگاتی ہے کہ جرم کی سزا اور عمدہ خدمات کا صلہ ملنا ضروری ہے۔ اسی بنا پر تو دنیا کے ہر معاشرے میں عدالت کا نظام کسی نہ کسی صورت میں قائم کیا جاتا ہے اور جن خدمات کو قابل تحسین سمجھا جاتا ہے ان کا صلہ دینے کی بھی کوئی نہ کوئی شکل اختیار کی جاتی ہے۔ یہ اس بات کا صریہ ثبوت ہے کہ اخلاق اورقانونِ مکافات کے درمیان ایک ایسا لازمی تعلق ہے جس سے انکار کرنا انسان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اب اگر یہ مسلم ہے کہ اس دنیا میں بے شمار جرائم ایسے ہیں جن کی پوری سزا تو درکنار سرے سے کوئی سزا ہی نہیں دی جا سکتی، اور بے شمار خدمات بھی ایسی ہیں جن پورا صلہ تو کیا، کوئی صلہ بھی خدمت کرنے والے کو نہیں مل سکتا، تو آخرت کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، الا یہ کہ کوئی بے وقوف یہ فرض کر لے، یا کوئی ہٹ دھرم یہ رائے قائم کرنے پر ا صرار کرے کہ انصاف کا تصور رکھنے والا انسان ایک ا یسی دنیا میں پیدا ہو گیا ہے جو بجاسے خود انصاف کے تصور سے خالی ہے۔ اور پھر اس سوال کا جواب اس کے ذمہ رہ جاتا ہے کہ ایسی دنیا میں پیدا ہونے والے انسان کے اندر یہ انصاف کا تصور آخر کہاں سے گیا؟ (6) ان تمام ذرائع رہنمائی کی مدد کے لیے اللہ تعالی نے انسان کو صریح اور واضح رہنمائی کے لیے دنیا میں انبیاء بھیجے اورکتابیں نازل کیں جن میں صاف صاف بتا دیا گیا کہ شکر کی راہ کون سی ہے اور کفر کی راہ کونسی اوران دونوں راہوں پر چلنے کے نتائج کیا ہیں۔ انبیاء اورکتابوں کی لائی ہوئی یہ تعلیمات، بے شمار محسوس اور غیر محفوس طریقوں سے اتنے بڑے پیمانے پر ساری دنیا میں پھیلی ہیں کہ کوئی انسانی آبادی بھی خدا کے تصور، آخرت کے تصور، نیکی اور بدی کے فرق، اوران کے پیش کردہ اخلاقی اصولوں اور قانونی احکام سے ناواقف نہیں رہ گئی ہے، خواہ اسے یہ معلوم ہو یا نہ ہو کہ یہ علم اسے انبیاء اور کتابوں کی لائی ہوئی تعلیمات ہی سے حاصل ہوا ہے۔ آج جو لوگ انبیاء اور کتابوں کے منکر ہیں، یا ان سے بالکل بے خبر ہیں، وہ بھی ان بہت سی چیزوں کی پیروی کررہے ہیں جو دراصل انہی کی تعلیمات سے چھن چھن کر ان تک پہنچی ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ ان چیزوں کا اصل ماخذ کونسا ہے |
Surah 90 : Ayat 10
وَهَدَيْنَـٰهُ ٱلنَّجْدَيْنِ
اور دونوں نمایاں راستے اُسے (نہیں) دکھا دیے1؟
1 | یعنی ہم نے محض عقل و فکر کی طاقتیں عطا کر کے اسے چھوڑ نہیں دیا کہ اپنا راستہ خود تلاش کرے، بلکہ اس کی رہنمائی بھی کی اور اس کے سامنے بھلائی اور برائی، نیکی اوربدی کے دونوں راستے نمایاں کر کے رکھ دیے تاکہ وہ خوب سوچ سمجھ کر ان میں سے جس کو چاہے اپنی ذمہ داری پر اختیار کر لے۔ یہ وہی بات ہے جو سرہ دھر میں فرمائی گئی ہے کہ ‘‘ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا مخواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا ’’۔ (آیات 2۔3) تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد ششم، الدھر ، حواشی 3 تا 5 |
Surah 91 : Ayat 8
فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَٮٰهَا
پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیز گاری اس پر الہام کر دی1
1 | الہام کا لفظ’’ لَہْمَ ‘‘ سے ہے جس کے معنی نگلنے کے ہیں۔ ’’ لَھَمَ الْشَّیََٔ وَ الْتَھَمَہٗ ‘‘ کے معنی ہیں فلاں شخص نے اس چیز کو نگل لیا۔ اور’’ اَلْھَمْتُہُ الْشَّیََٔ ‘‘ کے معنی ہیں میں نے فلاں چیز اس کو نگلوا دی یا اس کے حلق سے اتار دی ۔ اسی بنیادی مفہوم کے لحاظ سے الہام کا لفظ اصلاحاً اللہ تعالی کی طرف سے کسی تصور یا کس خیال کو غیر شعوری طور پر بندے کے دل و دماغ میں اتار دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نفسِ انسانی پر اس کی بدی اور اس کی نیکی و پرہیز گاری الہام کر دینے کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اس کے اندر خالق نے نیکی اور بدی دونوں کے رجحانات و میلات رکھ دیے ہیں، اور یہ وہ چیز ہے جس کو ہر شخص اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کے لاشعور میں اللہ تعالی نے یہ تصورات و دیعت کر دیے ہیں کہ اخلاق میں کوئی چیز بھلائی ہے ا ور کوئی چیز برائی، اچھے ا خلاق و اعمال اور برے اخلاق و اعمال یکساں نہیں ہیں، فجور (بد کر داری) ایک قبیح چیز ہے اور تقویٰ (برائیوں سے اجتناب) ایک اچھی چیز۔ یہ تصورات انسان کے لیے اجنبی نہیں ہیں بلکہ اس کی فطرت ان سے آشنا ہے اور خالق نے برے اور بھلے کی تمیز پیدائی طور پر اس کو عطا کر دی ہے۔ یہی بات سورہ بلد میں فرمائی گئی ہے کہ ’’ وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ ‘‘ ’’اور ہم نے اس کو خیر و شر کے دونوں نمایاں راستے دکھا دیے‘‘(آیت 10)۔ اسی کو سورہ دھر میں یوں بیان کیا گیا ہے: ’’ إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا‘‘’’ہم نے اس کو راستہ دکھایا خواہ شاکر بن کر رہے یا کافر‘‘(آیت 3)۔ اور اسی بات کو سورہ قیامہ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ انسان کے اندر ایک نفس لوامہ (ضمیر) موجود ہے جو برائٍ کرنے پر اسے ملامت کرتا ہے (آیت 2) اور ہر انسان خواہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے مگر وہ اپنے آپ کو خوب جانتا ہے کہ وہ کیا ہے (آیات 14۔15)۔ اس جگہ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیےکہ فطری الہام اللہ تعالی نے ہر مخلوق پر اس کی حیثیت اور نوعیت کے لحاظ سے کیا ہے، جیسا کہ سورہ طٰہٰ میں ارشاد ہوا ہے کہ ’’ الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ‘‘ ’’جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت عطا کی پھر راہ دکھائی‘‘۔ (آیت 50) مثلاً حیوانات کی ہر نوع کو اس کی ضروریات کے مطابق الہامی علم دیا گیا ہے جس کی بنا پر مچھلی کو آپ سے آپ تیرنا ، پرندے کو اڑنا، شہد کی مکھی کو چھتہ بنانا اور بئے کو گھونسلا تیار کرنا آ جاتا ہے۔ انسان کو بھی اس کی مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے الگ الگ قسم کے الہامی علوم دیے گئے ہیں۔ انسان کی ایک حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک حیوانی وجود ہے اور اس حیثیت سے جو الہامی علم اس کو دیا گیا ہے اس کی ایک نمایں ترین مثال بچے کا پیدا ہوتے ہی ماں کا دودھ چوسنا ہے جس کی تعلیم اگر خدا نے فطری طور پر اسے نہ دی ہوتی تو کوئی اسے یہ فن نہ سکھا سکتا تھا۔ اس کی دوسری حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک عقلی وجود ہے۔ اس حیثیت سے خدا نے انسان کی آفرینش کے آغاز سے مسلسل اس کو الہامی رہنمائی دی ہے جس کی بدولت وہ پے در پے اکتشافات اور ایجادات کر کے تمدن میں ترقی کرتا رہا ہے۔ ان ایجادات و اکتشافات کی تاریخ کا جو شخص بھی مطالعہ کرے گا وہ محسوس کرے گا کہ ان میں سے شاہد ہی کوئی ایسی جو محض انسانی فکر و کاوش کا نتیجہ ہو، ورنہ ہر ایک کی ابتدا اسی طرح ہوئی ہے کہ یکایک کسی شخص کے ذہن میں ایک بات آ گئی اور اس کی بدولت اس نے کسی چیز کا اکتشاف کیا یا کوئی چیز ایجاد کر لی۔ ان دونوں حیثیتوں کے علاوہ انسان کی ایک اور حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک اخلاقی وجود ہے، اور اس حیثیت سے بھی اللہ تعالی نے اسے خیر و شر کا امتیاز، اور خیر کے خیر اور شر کے شر ہونے کا احساس الہامی طور پر عطا کیا ہے۔ یہ امتیاز و احساس ایک عالمگیر حقیقت ہے جس کی بنا پر دنیا میں کبھی کوئی انسانی معاشرہ خیر و شر کے تصورات سے خالی نہیں رہا ہے، اور کوئی ایسا معاشرہ تاریخ میں کبھی پایا گیا ہے نہ اب پایا جاتا ہے جس کے نظام میں بھلائی اور برائی پر جزا اور سزا کی کوئی نہ کوئی صورت اختیار نہ کی گئی ہو۔ اس چیز کا ہر مانے ہر جگہ اور ہر مرحلہ تہذیب و تمدن میں پایا جانا اس کے فطری ہونےکا صریح ثبوت ہے اور مزید براں یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ایک خالقِ حکیم و دانا نے اسے انسان کی فطرت میں ودیعت کیا ہے، کیونکہ جن اجزاء سے انسان مرکب ہے اور جن قوانین کے تحت دنیا کا مادی نظام چل رہا ہے ان کے اندر کہیں اخلاق کے ماخذ کی نشاندی نہیں کی جا سکتی |