Ayats Found (2)
Surah 95 : Ayat 4
لَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ فِىٓ أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ
ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا1
1 | یہ ہے وہ بات جس پر انجیر و زیتون کے علاقے یعنی شام و فلسطین اور کوہ طور اور مکہ کے پر امن شہر کی قسم کھائی گئی ہے۔ انسان کے بہترین ساخت پر پیدا کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو وہ ا علی درجہ کا جسم عطا کیا گیا ہے جو کسی دوسری جاندار مخلوق کو نہیں دیا گیا۔ اور اسے فکر و فہم اور علم و عقل کی وہ بلند پایہ قابلیتیں بخشی گئی ہیں جو کسی دوسری مخلوق کو نہیں بخشی گئیں۔ پھر چونکہ نوع انسانی کے اس فضل و کمال کا سب سے زیادہ بلند نمونہ انبیاء علیہم السلام ہیں اور کسی مخلوق کے لیے اس سے اونچا کوئی مرتبہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالی نے اسے منصب نبوت عطا کرنے کے لیے منتخب فرمائے۔ اس لیے انسان کے احسن تقویم پر ہونے کی شہادت میں ان مقامات کی قسم کھائی گئی ہے جو خدا کے پیغمبروں سے نسبت رکھتے ہیں۔ شام و فلسطین کا علاقہ وہ علاقہ ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسی علیہ السلام تک بکثرت انبیاء مبعوث ہوئے۔ کوہ طور وہ مقام ہے جہاں حضرت موسی علیہ السلام کو نبوت عطا کی گئی۔ رہا مکہ معظمہ تو اس کی بنا ہی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے ہاتھوں پڑی، انہی کی بدولت وہ عرب کا مقدس ترین مرکزی شہر بنا، حضرت ابراہیم ہی نے یہ دعا مانگی تھی کہ ’’رَبِّ اجْعَلْ هَـٰذَا بَلَدًا آمِنًا‘‘’’اے میرے رب اس کو ایک پر امن شہر بنا‘‘ (البقرہ ۔ 126) اور اسی دعا کی یہ برکت تھی کہ عرب میں ہر طرف پھیلی ہوئی بد امنی کے درمیان صرف یہی ایک شہر ڈھائی ہزار سال سے امن کا گہوارہ بنا ہوا تھا پس کلام کا مقصود یہ ہے کہ ہم نے نوع انسانی کو ایسی بہترین ساخت پر بنایا کہ اس میں نبوت جیسے عظیم مرتبے کے حامل انسان پیدا ہوئے |
Surah 95 : Ayat 6
إِلَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ
سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے کہ ان کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے1
1 | جن مفسرین نے اسفل سافلین سے مراد بڑھاپے کی وہ حالت کی ہے جس میں ا نسان اپنے ہوش حواس کھو بیٹھتا ہے وہ اس آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’مگر جن لوگوں نے اپنی جوانی اور تندرستی کی حالت میں ایمان لا کر نیک اعمال کیے ہوں ان کے لیے بڑھاپے کی اس حالت میں بھی وہی نیکیاں لکھی جا ئیں گی اور انہی کے مطابق وہ اجر پائیں گے۔ ان کے اجر میں اس بات پر کوئی کمی نہ کی جائے گی کہ عمر کے اس دور میں ان سے وہ نیکیاں صادر نہیں ہوئیں‘‘۔ اور جو مفسرسین اسفل سا فلین کی طرف پھیرے جانے کا مطلب جہنم کے ادنی ترین درجہ میں پھینک دیا جانا لیتے ہیں ان کے نزدیک اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ ’’ایمان لا کر عمل صالح کرنے والے لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں، وہ اس درجہ کی طرف سے مناسبت نہیں رکھتے جو جزا و سزا کے برحق ہونے پر اس سورت میں کیا گیا ہے ہمارے نزدیک آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جس طرح انسانی معاشرے میں یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ ا خلاقی پستی میں جو گرنے والے لوگ گرتے گرتےسب نیچوں سے نیچ ہو جاتے ہیں، اسی طرح یہ بھی ہر زمانے کا عام مشاہدہ ہے کہ جو لوگ خدا اور آخرت اور رسالت پر ایمان لائے اور جنہوں نے اپنی زندگی عمل صالح کے سانچے میں ڈھال لی وہ اس پستی میں گرنے سے بچ گئے اور اسی ا حسن تقویم پر قائم رہے جس پر اللہ نے ا نسان کو پیدا کیا تھا، اس لیے وہ ا جر غیر ممنون کے مستحق ہیں، یعنی ایسے اجر کے جو نہ ان کے استحقاق سے کم دیا جائے گا، اور نہ اس کا سلسلہ کبھی منقطع ہو گا |