Ayats Found (18)
Surah 16 : Ayat 4
خَلَقَ ٱلْإِنسَـٰنَ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ
اُس نے انسان کو ایک ذرا سی بوند سے پیدا کیا اور دیکھتے دیکھتے صریحاً وہ ایک جھگڑالو ہستی بن گیا1
1 | اس کےدو معنی ہو سکتے ہیں اور غالبًا دونوں ہی مراد ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ نے نطفے کی حقیر سی بوند سے وہ انسان پیدا کیا جو بحث واستدلال کی قابلیت رکھتا ہے اور اپنے مدّعا کے لیے حجتیں پیش کر سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جس انسان کو خدا نے نطفے جیسی حقیر چیز سے پیدا کیا ہے، اس کی خودی کا طغیان تو دیکھو کہ وہ خود خدا ہی کے مقابلہ میں جھگڑنے پراُتر آیا ہے۔ پہلے مطلب کے لحاظ سے یہ آیت اُسی استدلال کی ایک کڑی ہے جو آگے مسلسل کئی آیتوں میں پیش کیا گیا ہے(جس کی تشریح ہم اس سلسلۂ بیان کےآخر میں کریں گے)۔ اور دوسرے مطلب کے لحاظ سے یہ آیت انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ بڑھ بڑھ کر باتیں کرنے سے پہلے ذرا اپنی ہستی کو دیکھ۔ کس شکل میں تو کہاں سے نکل کر کہاں پہنچا، کس جگہ تو نے ابتداء ًپرورش پائی، پھر کس راستے سے تو برآمد ہو کر دنیا میں آیا، پھر کن مرحلوں سے گزرتا ہوا تُو جوانی کی عمر کو پہنچا اور اب اپنے آپ کو بھول کر تُو کس کے منہ آرہا ہے۔ |
Surah 23 : Ayat 13
ثُمَّ جَعَلْنَـٰهُ نُطْفَةً فِى قَرَارٍ مَّكِينٍ
پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا
Surah 23 : Ayat 14
ثُمَّ خَلَقْنَا ٱلنُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا ٱلْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا ٱلْمُضْغَةَ عِظَـٰمًا فَكَسَوْنَا ٱلْعِظَـٰمَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَـٰهُ خَلْقًا ءَاخَرَۚ فَتَبَارَكَ ٱللَّهُ أَحْسَنُ ٱلْخَـٰلِقِينَ
پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا1، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا2
2 | یعنی کوئی خالی الذہن آدمی بچے کو ماں کے رحم میں پرورش پاتے تدیکھ کر یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہاں وہ انسان تیار ہو رہا ہے جو باہر جا کر عقل اور دانائی اور صنعت کے یہ کچھ کمالات دکھاۓ گا اور ایسی ایسی حیرت انگیز قوتیں اور صلاحیتیں اس سے ظاہر ہوں گی۔ وہاں وہ ہڈیوں اور گوشت پوت کا ایک پلندا سا ہوتا ہے جس میں وضع حمل کے آغاز تک زندگی کی ابتدائی خصوصیات کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ نہ سماعت، نہ بصارت ، نہ گویائی، نہ عقل و خرد، نہ اور کوئی خوبی۔ مگر باہر آ کر وہ چیز ہی کچھ اور بن جاتا ہے جس کو پیٹ والے جنین سے کوئی مناسبت نہیں ہوتی۔ اب وہ ایک سمیع و بصیر اور ناطق وجود ہوتا ہے۔ اب وہ تجربے اور مشاہدے سے علم حاصل کرتا ہے۔ اب اس کے اندر ایک ایسی خودی ابھرنی شروع ہوتی ہے جو بیداری کے پہلے ہی لمحہ سے اپنی دسترس کی ہر چیز پر تحکم جتاتی اور اپنا زور منوانے کی کوشش کرتی ہے۔ پھر وہ جوں جوں بڑھتا جاتا ہے ، اس کی ذات میں یہ ’’چیزے دیگر ‘‘ ہونے کی کیفیت نمایاں تر اور افزوں تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ جوان ہوتا ہے تو بچپن کی بہ نسبت کچھ اور ہوتا ہے۔ ادھیڑ ہوتا ہے تو جوانی کے مقابلے میں کوئی اور چیز ثابت ہوتا ہے۔ بڑھاپے کو پہنچتا ہے تو نئی نسلوں کے لیے یہ اندازہ کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ اس کا بچپن کیا تھا اور جوانی کیسی تھی۔ اتنا بڑا تغیر کم از کم اس دنیا کی کسی دوسری مخلوق میں واقع نہیں ہوتا۔ کوئی شخص ایک طرف کسی پختہ عمر کے انسان کی طاقتیں اور قابلیتیں اور کام دیکھے ، اور دوسری طرف یہ تصور کرے کہ پچاس ساٹھ برس پہلے ایک روز جو بوند ٹپک کر رحم مادر میں گری تھی اس کے اندر یہ کچھ بھرا ہوا تھا، تو بے اختیار اس کی زبان سے وہی بات نکلے گی جو آگے کے فقرے میں آ رہی ہے |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہوں سورہ حج کے حواشی 5۔ 6۔9 |
Surah 32 : Ayat 8
ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُۥ مِن سُلَـٰلَةٍ مِّن مَّآءٍ مَّهِينٍ
پھر اُس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے1
1 | یعنی پہلے اس نے براہ راست اپنے تخلیقی عمل(Direct Creation) سے انسان کو پیدا کیا،اور اس کے بعد خود اسی انسان کے اندر تناسل کی یہ طاقت رکھ دی کہ اس کے نطفہ سے ویسے ہی انسان پیدا ہوتے چلے جائیں۔ ایک کمال یہ تھا کہ زمین کے مواد کو جمع کر کے ایک تخلیقی حکم سے اُس میں وہ زندگی اور وہ شعور و تعقل پیدا کر دیا جس سے انسان جیسی ایک حیرت انگیز مخلوق وجود میں آ گئی۔اور دوسرا کمال یہ ہے کہ آئندہ مزید انسانوں کی پیدائش کے لیے ایک ایسی عجیب مشینری خود انسانی ساخت کے اندر رکھ دی جس کی ترکیب اور کارگزاری کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یہ آیت قرآن مجید کی اُن آیات میں سے ہے جو انسان اوّل کی براہ راست تخلیق کی تصریح کرتی ہیں۔ ڈارون کے زمانہ سے سائنس داں حضرات اس تصور پر بہت ناک بھوں چَڑھاتے ہیں اور بڑی حقارت کے ساتھ وہ اس کو ایک غیر سائنٹیفک نظریہ قرار دے کر گویا پھینک دیتے ہیں۔ لیکن انسان کی نہ سہی، تمام انواعِ حیوانی کی نہ سہی، اوّلین جرثومۂ حیات کی براہِ راست تخلیق سے تو وہ کسی طرح پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ اس تخلیق کو نہ مانا جائے تو پھر یہ انتہائی لغو بات ماننی پڑے گی کہ زندگی کی ابتدا محض ایک حادثہ کے طور پر ہوئی ہے، حالاں کہ صرف ایک خُلیّہ (Cell)والے حیوان میں زندگی کی سادہ ترین صورت بھی اتنی پیچیدہ اور نازک حکمتوں سے لبریز ہے کہ اسے حادثہ کا نتیجہ قرار دینا اُس سے لاکھوں درجہ غیر سائنٹیفک بات ہے جتنا نظریۂ ارتقاء کے قائلین نظریۂ تخلیق کو ٹھیراتے ہیں۔ اور اگر ایک دفعہ آدمی یہ مان لے کہ حیات کا پہلا جرثومہ براہِ راست تخلیق سے وجود میں آیا تھا، پھر آخر یہی ماننے میں کیا قباحت ہے کہ ہر نوعِ حیوانی کا پہلا فرد خالق کے تخلیقی عمل سے پیدا ہوا ہے، اور پھر اس نسل تناسُل (Procreation)کی مختلف صورتوں سے چلی ہے۔ اس بات کو مان لینے سے وہ بہت سی گتھیاں حل ہو جاتی ہیں جو ڈارونیت کے علمبرداروں کی ساری سائنٹیفک شاعری کے باوجود ان کے نظریۂ ارتقاء میں غیر حل شدہ رہ گئی ہیں ۔(مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل ، صفحات ۲۵۹۔۳۱۹۔۵۶۶۔جلد دوم، صفحات ۱۰۔۱۱۔۱۰۶۔۵۰۴۔ جلد سوّم ، صفحات ۲۰۱۔ ۲۶۹) |
Surah 32 : Ayat 9
ثُمَّ سَوَّٮٰهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِۦۖ وَجَعَلَ لَكُمُ ٱلسَّمْعَ وَٱلْأَبْصَـٰرَ وَٱلْأَفْــِٔدَةَۚ قَلِيلاً مَّا تَشْكُرُونَ
پھر اس کو نِک سُک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی1، اور تم کو کان دیے، آنکھیں دیں اور دِل دیے2 تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو3
3 | یعنی یہ عظیم القدر انسانی روح اِتنے بلند پایہ اوصاف کے ساتھ تم کو اس لیے تم کو اس لیے تو عطا نہیں کی گئی تھی کہ تم دنیا میں جانوروں کی طرح رہو اور اپنے لیے بس وہی زندگی کا نقشہ بنا لو جو کوئی حیوان بنا سکتا ہے۔ یہ آنکھیں تمہیں چشم بصیرت سے دیکھنے کے لیے دی گئی تھیں نہ کہ اندھے بن کر رہنے کے لیے۔ یہ کان تمہیں گوش ہوش سے سننے کے لیے دیے گئے تھے نہ کہ بہرے بن کر رہنے کے لیے۔ یہ دِل تمہیں اس لیے دیے گئے تھے کہ حقیقت کو سمجھو اور صحیح راہِ فکر و عمل اختیار کرو، نہ اِس لیے کہ اپنی ساری صلاحیتیں صرف اپنی حیوانیت کی پرورش کے وسائل فراہم کرنے میں صرف کر دو، اور اس سے کچھ اونچے اُٹھو تو اپنے خالق سے بغاوت کے فلسفے اور پروگرام بنانے لگو۔ یہ بیش قیمت نعمتیں خدا سے پانے کے بعد جب تم دہریّت یا شرک اختیار کرتے ہو، جب تم خود خدا یا دوسرے خداؤں کے بندے بنتے ہو، جب تم خواہشات کے غلام بن کر جسم و نفس کی لذّتوں میں غرق ہو جاتے ہو، تو گویا اپنے خدا سے یہ کہتے ہو کہ ہم ان نعمتوں کے لائق نہ تھے، ہمیں انسان بنانے کے بجائے تجھے ایک بندر، یا ایک بھیڑیا، یا ایک مگر مچھ یا ایک کوّا بنانا چاہیے تھا۔ |
2 | یہ ایک لطیف انداز بیان ہے۔ روح پھونکنے سے پہلے انسان کا سارا ذکر صیغۂ غائب میں کیا جاتا رہا ۔’’اُس کی تخلیق کی‘‘، ’’ اُس کی نسل چلائی‘‘،’’اُس کو نِک سُک سے درست کیا ‘‘،’’ اُس کے اندر روح پھونکی‘‘۔ اس لیے اُس وقت تک وہ خطاب کے لائق نہ تھا۔ پھر جب رُوح پھونک دی گئی تو اب اُس سے فرمایا جا رہا ہے کہ ’’تم کو کان دیے‘‘،’’ تم کو آنکھیں دیں‘‘،’’ تم کو دِل دیے‘‘ اس لیے کہ حامِل رُوح ہو جانے کے بعد ہی وہ اس قابل ہوا کہ اُسے مخاطب کیا جائے۔ کان اور آنکھوں سے مُراد وہ ذرائع ہیں جن سے انسان علم حاصل کرتا ہے۔ اگرچہ حصُولِ علم کے ذرائع ذائقہ اور لامسہ اور شامّہ بھی ہیں، لیکن سماعت و بینائی تمام دوسرے حواس سے زیادہ بڑے اور اہم ذرائع ہیں، اس لیے قرآن جگہ جگہ انہی دو کو خدا کے نمایاں عطیّوں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ اس کے بعد ’’دِل‘‘سے مُراد وہ ذہن (Mind)ہے جو حواس کے ذریعہ سے حاصل شدہ معلومات کو مرتب کر کے ان سے نتائج نکالتا ہے اور عمل کی مختلف اِمکانی راہوں میں سے کوئی ایک راہ منتخب کرتا اور اس پر چلنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ |
1 | روح سے مراد محض وہ زندگی نہیں ہے جس کی بدولت ایک ذی حیات جسم کی مشین متحرک ہوتی ہے، بلکہ اس سے مُراد وہ خاص جوہر ہے جو فکر و شعور اور عقل و تمیز اور فیصلہ و اختیار کا حامل ہوتا ہے، جس کی بدولت انسان تمام دوسری مخلوقاتِ ارضی سے ممتاز ایک صاحبِ شخصیّت ہستی، صاحبِ اَنا ہستی، اور حامِل خلافت ہستی بنتا ہے۔اِس روح کو اللہ تعالٰی نے اپنی روح یا تو اس معنی میں فرمایا ہے کہ وہ اُسی کی مِلک ہے اور اس کی ذاتِ پاک کی طرف اس کا انتساب اُسی طرح کا ہے جس طرح ایک چیز اپنے مالک کی طرف منسُوب ہو کر اُس کی چیز کہلاتی۔ یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر علم، فکر، شعور، ارادہ، فیصلہ،اختیار اور ایسے ہی دوسرے جو اوصاف پیدا ہوئے ہیں وہ سب اللہ تعالٰی کی صفات کے پرتُو ہیں۔ ان کا سر چشمہ مادّے کی کوئی ترکیب نہیں ہے بلکہ اللہ تعالٰی کی ذات ہے۔ اللہ کے علم سے اس کو علم ملا ہے، اللہ کی حکمت سے اس کو دانائی ملی ہے، اللہ کے اختیار سے اس کو اختیار ملا ہے۔ یہ اوصاف کسی بے علم ،بے دانش اور بے اختیار ماخذ سے انسان کے اندر نہیں آئے ہیں۔ (مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جِلد دوّم ، صفحات ۵۰۴۔۵۰۵) |
Surah 35 : Ayat 11
وَٱللَّهُ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَٲجًاۚ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِۚۦ وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلَا يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِۦٓ إِلَّا فِى كِتَـٰبٍۚ إِنَّ ذَٲلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِيرٌ
اللہ نے1 تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے2، پھر تمہارے جوڑے بنا دیے (یعنی مرد اور عورت) کوئی عورت حاملہ نہیں ہوتی اور نہ بچہ جنتی ہے مگر یہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہوتا ہے کوئی عمر پانے والا عمر نہیں پاتا اور نہ کسی کی عمر میں کچھ کمی ہوتی ہے مگر یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھا ہوتا ہے3 اللہ کے لیے یہ بہت آسان کام ہے4
4 | یعنی اتنی بے شمار مخلوق کے بارے میں اتنا تفصیلی علم اور فرد فرد کے بارے میں اتنے مفصل احکام اور فیصلے کرنا اللہ کے لیے کوئی دشوار کام نہیں ہے۔ |
3 | یعنی جو شخص بھی دنیا میں پیدا ہوتا ہے اس کے متعلق پہلے ہی یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ اسے دنیا میں کتنی عمر پانی ہے۔ کسی کی عمر دراز ہوتی ہے تو اللہ کے حکم سے ہوتی ہے، اور چھوٹی ہوتی ہے تو وہ بھی اللہ ہی کے فیصلے کی بنا پر ہوتی ہے۔بعض نادان لوگ اس کے جواب میں یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ پہلے نو زائیدہ بچوں کی موتیں بکثرت واقع ہوتی تھیں اور اب علم طب کی ترقی نے ان اموات کو روک دیا ہے۔ اور پہلے لوگ کم عمر پاتے تھے، اب وسائل علاج بڑھ جانے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ عمریں طویل ہوتی جا رہی ہیں۔ لیکن یہ دلیل قرآن مجید کے اس بیان کی تردید میں صرف اس وقت پیش کی جا سکتی تھی جبکہ کسی ذریعہ سے ہم کو یہ معلوم ہو جاتا کہ اللہ تعالٰی نے تو فلاں شخص کی عمر مثلاً دو سال لکھی تھی اور ہمارے طبی وسائل نے اس میں ایک دن کا اضافہ کر دیا۔ اس طرح کا کوئی علم اگر کسی کے پاس نہیں ہے تو وہ کسی معقول بنیاد پر قرآن کے اس ارشاد کا معارضہ نہیں کر سکتا۔ محض یہ بات کہ اعداد و شمار کی رو سے اب بچوں کی شرح اموات گھٹ گئی ہے، یا پہلے کے مقابلہ میں اب لوگ زیادہ عمر پا رہے ہیں، اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ انسان اب اللہ تعالٰی کے فیصلوں کو بدلنے پر قادر ہو گیا ہے۔ آخر اس میں کیا عقلی استبعاد ہے کہ اللہ تعالٰی نے مختلف زمانوں میں پیدا ہونے والے انسانوں کی عمریں مختلف طور پر فرمائی ہوں، اور یہ بھی اللہ عزوجل ہی کا فیصلہ ہو کہ فلاں زمانے میں انسان کو فلاں امراض کے علاج کی قدرت عطا کی جائے گی اور فلاں دور میں انسان کو بقائے حیات کے فلاں ذرائع بخشے جائیں گے۔ |
2 | عنی انسان کی آفرینش پہلے براہ راست مٹی سے کی گئی، پھر اس کی نسل نطفے سے چلائی گئی |
1 | یہاں سے پھر روئے سخن عوام الناس کی طرف پھرتا ہے |
Surah 36 : Ayat 77
أَوَلَمْ يَرَ ٱلْإِنسَـٰنُ أَنَّا خَلَقْنَـٰهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ
کیا انسان دیکھتا نہیں ہے1 کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا اور پھر وہ صریح جھگڑالو بن کر کھڑا ہو گیا2؟
2 | یعنی وہ نطفہ جس میں محض ایک ابتدائی جرثومہ حیات کے سوا کچھ نہ تھا،اس کو ترقی دے کر ہم نے اس حد تک پہنچایا کہ وہ نہ صرف جانوروں کی طرح چلنے پھرنے اور کھانے پینے لگا،بلکہ اس سے آگے پڑھ کر اس میں شعور و تعقُّل اور بحث و استدلال اور تقریر و خطابت کی وہ قابلیتیں پیدا ہو گئیں جو کسی حیوان کو نصیب نہیں ہیں،حتٰی کہ اب وہ اپنے خالق کے بھی منہ آنے لگا ہے۔ |
1 | اب کفار کے اس سوال کا استدلالی جواب دیا جا رہا ہے جو آیت 48 میں نقل کیا گیا تھا۔ان کو یہ سوال کہ ’’قیامت کی دھمکی کب پوری ہو گی‘‘ کچھ اس غرض کے لیے نہ تھا کہ وہ قیامت کے آنے کی تاریخ معلوم کرنا چاہتے تھے، بلکہ اس بنا پر تھا کہ وہ مرنے کے بعد انسانوں کے دوبارہ اٹھائے جانے کو بعید از امکان، بلکہ بعید ازعقل سمجھتے تھے۔اسی لیے ان کے سوال کے جواب میں امکان آخرت کے دلائل ارشاد ہو رہے ہیں۔ ابن عباس، قتادہ اور سعید بن جُبیر کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر کفار مکہ کے سرداروں میں سے ایک شخص قبرستان سے کسی مردے کی ایک بوسیدہ ہڈی لیے ہوئے آگیا اور اس نے نبی صلی اللہ و علیہ و سلم کے سامنے اسے توڑ کر اور اس کے منتشر اجزا ہوا میں اڑا کر آپ سے کہا، اے محمدؐ تم کہتے ہو کہ مردے پھر زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔بتاؤ، ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا؟ اس کا جواب فوراً ان آیات کی صورت میں دیا گیا۔ |
Surah 40 : Ayat 67
هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلاً ثُمَّ لِتَبْلُغُوٓاْ أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُواْ شُيُوخًاۚ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ مِن قَبْلُۖ وَلِتَبْلُغُوٓاْ أَجَلاً مُّسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر وہ تمہیں بچے کی شکل میں نکالتا ہے، پھر تمہیں بڑھاتا ہے تاکہ تم اپنی پوری طاقت کو پہنچ جاؤ، پھر اور بڑھاتا ہے تاکہ تم بڑھاپے کو پہنچو اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے1 یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ تم اپنے مقرر وقت تک پہنچ جاؤ، اور اس لیے کہ تم حقیقت کو سمجھو2
2 | یعنی زندگی کے ان مختلف مراحل سے تم کو اس لیے نہیں گزارا جاتا کہ تم جانوروں کی طرح جیو اور انہی کی طرح مر جاؤ، بلکہ اس لیے گزارا جاتا ہے کہ تم اس عقل سے کام لو جو اللہ نے تمہیں عطا کی ہے اور اس نظام کو سمجھو جس میں خود تمہارے اپنے وجود پر یہ احوال گزرتے ہیں۔ زمین کے بے جان مادوں میں زندگی جیسی عجیب و غریب چیز کا پیدا ہونا، پھر نطفے کے ایک خورد بینی کیڑے سے انسان جیسی حیرت انگیز مخلوق کا سجود میں آنا، پھر ماں کے پیٹ میں استقرار حمل کے وقت سے وضع حمل تک اندر ہی اندر اس کا اس طرح پرورش پانا کہ اس کی جنس، اس کی شکل و صورت، اس کے جسم کی ساخت، اس کے ذہن کی خصوصیات، اور اس کی قوتیں اور صلاحیتیں سب کچھ وہیں متعین ہو جائیں اور ان کی تشکیل پر دنیا کی کوئی طاقت اثر انداز نہ ہو سکے، پھر یہ بات کہ جسی اسقاط حمل کا شکار ہونا ہے اس کا اسقاط ہی ہو کر رہتا ہے، جسے بچپن میں مرنا ہے وہ بچپن ہی میں مرتا ہے خواہ وہ کسی بادشاہ ہی کا بچہ کیوں نہ ہو، اور جسے جوانی یا بڑھاپے کی کسی عمر تک پہنچنا ہے وہ خطرناک سے خطرناک حالات سے گزر کر بھی، جن میں بظاہر موت یقینی ہونی چاہیے، اس عمر کو پہنچ کر رہتا ہے، اور جسے عمر کے جس خاص مرحلے میں مرنا ہے اس میں وہ دنیا کے کسی بہترین ہسپتال کے اندر بہترین ڈاکٹروں کے زیر علاج رہتے ہوۓ بھی مر کر رہتا ہے، یہ ساری باتیں کیا اس حقیقت کی نشاندہی نہیں کر رہی ہیں کہ ہماری اپنی حیات و ممات کا سر رشتہ کسی قادر مطلق کے ہاتھ میں ہے؟ اور جب امر واقعہ یہی ہے کہ ایک قادر مطلق ہماری موت و زیست پر حکمراں ہے تو پھر کوئی نبی یا ولی یا فرشتہ یا ستارہ اور سیارہ آخر کیسے ہماری بندگی و عبادت کا مستحق ہو گیا؟ کسی بندے کو یہ مقام کب سے حاصل ہوا کہ ہم اس سے دعائیں مانگیں اور اپنی قسمت کے بننے اور بگڑنے کا مختار اس کو مان لیں؟ اور کسی انسانی طاقت کا یہ منصب کیسے ہو گیا کہ ہم اس کے قانون اور اس کے امر و نہی اور اس کے خود ساختہ حلال و حرام کی بے چون و چرا اطاعت کریں؟ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد سوم، ص 203۔204) |
1 | وقت مقرر سے مراد یا تو موت کا وقت ہے، یا وہ وقت جب تمام انسانوں کو دوبارہ اٹھ کر اپنے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے پہلی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالٰی ہر انسان کو زندگی کے مختلف مرحلوں سے گزارتا ہوا اس ساعت خاص تک لے جاتا ہے جو اس نے ہر ایک کی واپسی کے لیے مقرر کر رکھی ہے۔ اُس وقت سے پہلے ساری دنیا مل کر بھی کسی کو مارنا چاہے تو نہیں مار سکتی، اور وہ وقت آ جانے کے بعد دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی کسی کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں تو کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ دوسرے معنی لینے کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ یہ ہنگامہ ہستی اس لیے برپا نہیں کیا گیا ہے کہ تم مر کر مٹی میں مل جاؤ اور فنا ہو جاؤ، بلکہ زندگی کے ان مختلف مرحلوں سے اللہ تم کو اس لیے گزارتا ہے کہ تم سب اس وقت پر جو اس نے مقرر کر رکھا ہے، اس کے سامنے حاضر ہو۔ |
Surah 70 : Ayat 39
كَلَّآۖ إِنَّا خَلَقْنَـٰهُم مِّمَّا يَعْلَمُونَ
ہرگز نہیں ہم نے جس چیز سے اِن کو پیدا کیا ہے اُسے یہ خود جانتے ہیں1
1 | اس مقام پر اس فقرے کے دومعنی ہو سکتے ہیں۔ مضمون سابق کے ساتھ اس کا تعلق مانا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ جس مادے سے یہ لوگ بنے ہیں اس کے لحاظ سے تو سب انسان یکساں ہیں۔ اگر وہ مادہ ہی انسان کے جنت میں جانے کا سبب ہو تو نیک و بد ، ظالم و عادل مجرم اور بے گناہ، سب ہی کو جنت میں جانا چاہیے۔ لیکن معمولی عقل ہی یہ فیصلہ کرنے کے لے کافی ہے کہ جنت کا استحقاق انسان کے مادہ تخلیق کی بنا پرہیں بلکہ صرف اس کے اوصاف کے لحاظ سے پیدا ہو سکتا ہے۔ اور اگر اس فقرے کو بعد کے مضمون کی تمہید سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو ہمارے عذاب سے محفوظ سمجھ رہے ہیں اور جو شخص انہیں ہماری پکڑ سے ڈراتا ہے اس کا مذاق اڑاتے ہیں ، حالانکہ ہم ان کو دنیا میں بھی جب چاہیں عذاب دے سکتے ہیں اور موت کے بغد دوبارہ زندہ کر کے بھی جب چاہیں اٹھا سکتے ہیں۔ یہ خود جانتے ہیں کہ نطفے کی ایک حقیر سی بوند سے ان کی تخلیق کی ا بتدا کر کے ہم نے ان کو چلتا پھرتا انسان بنایا ہے۔ اگر اپنی اس خلقت پر یہ غور کرتے تو انہیں کبھی یہ غلط فہمی لاحق نہ ہوتی کہ اب یہ ہماری گرفت سے باہر ہو گئے ہیں، یا ہم انہیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہیں |
Surah 75 : Ayat 37
أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِىٍّ يُمْنَىٰ
کیا وہ ایک حقیر پانی کا نطفہ نہ تھا جو (رحم مادر میں) ٹپکایا جاتا ہے؟