Ayats Found (11)
Surah 6 : Ayat 99
وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَخْرَجْنَا بِهِۦ نَبَاتَ كُلِّ شَىْءٍ فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا وَمِنَ ٱلنَّخْلِ مِن طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ وَجَنَّـٰتٍ مِّنْ أَعْنَابٍ وَٱلزَّيْتُونَ وَٱلرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَغَيْرَ مُتَشَـٰبِهٍۗ ٱنظُرُوٓاْ إِلَىٰ ثَمَرِهِۦٓ إِذَآ أَثْمَرَ وَيَنْعِهِۦٓۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكُمْ لَأَيَـٰتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعہ سے ہر قسم کی نباتات اگائی، پھر اس سے ہرے ہرے کھیت اور درخت پیدا کیے، پھر ان سے تہ بہ تہ چڑھے ہوئے دانے نکالے اور کھجور کے شگوفوں سے پھلوں کے گچھے کے گچھے پیدا کیے جو بوجھ کے مارے جھکے پڑتے ہیں، اور انگور، زیتون اور انار کے باغ لگائے جن کے پھل ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں اور پھر اُن کے پکنے کی کیفیت ذرا غور کی نظر سے دیکھو، اِن چیزوں میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں
Surah 6 : Ayat 141
۞ وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَنشَأَ جَنَّـٰتٍ مَّعْرُوشَـٰتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَـٰتٍ وَٱلنَّخْلَ وَٱلزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُۥ وَٱلزَّيْتُونَ وَٱلرُّمَّانَ مُتَشَـٰبِهًا وَغَيْرَ مُتَشَـٰبِهٍۚ كُلُواْ مِن ثَمَرِهِۦٓ إِذَآ أَثْمَرَ وَءَاتُواْ حَقَّهُۥ يَوْمَ حَصَادِهِۦۖ وَلَا تُسْرِفُوٓاْۚ إِنَّهُۥ لَا يُحِبُّ ٱلْمُسْرِفِينَ
وہ اللہ ہی ہے جس نے طرح طرح کے باغ اور تاکستان1 اور نخلستان پیدا کیے، کھیتیاں اگائیں جن سے قسم قسم کے ماکولات حاصل ہوتے ہیں، زیتون اور انار کے درخت پیدا کیے جن کے پھل صورت میں مشابہ اور مزے میں مختلف ہوتے ہیں کھاؤ ان کی پیداوار جب کہ یہ پھلیں، اور اللہ کا حق ادا کرو جب اس کی فصل کاٹو، اور حد سے نہ گزرو کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
1 | اصل میں جَنّٰتٍ مَّعْرُوْ شٰتٍ وّ غَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن سے مراد دو طرح کے باغ ہیں، ایک وہ جن کی بیلیں ٹٹیوں پر چڑھائی جاتی ہیں ، دُوسرے وہ جن کے درخت خود اپنے تنوں پرکھڑے رہتے ہیں۔ ہماری زبان میں باغ کا لفظ صرف دُوسری قسم کے باغوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اس لیے ہم نے جَنّٰتٍّ غَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ کا ترجمہ”باغ“ کیا ہے اور جَنّٰتٍ مَّعْرُوْ شٰتٍ کے لیے ”تاکستان“(یعنی انگوری باغ) کا لفظ اختیار کیا ہے |
Surah 13 : Ayat 4
وَفِى ٱلْأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَـٰوِرَٲتٌ وَجَنَّـٰتٌ مِّنْ أَعْنَـٰبٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَانٌ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ يُسْقَىٰ بِمَآءٍ وَٲحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَىٰ بَعْضٍ فِى ٱلْأُكُلِۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
اور دیکھو، زمین میں الگ الگ خطے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں 1انگور کے باغ ہیں، کھیتیاں ہیں، کھجور کے درخت ہیں جن میں سے کچھ اکہرے ہیں اور کچھ دوہرے2 سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزے میں ہم کسی کو بہتر بنا دیتے ہیں اور کسی کو کمتر ان سب چیزوں میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں3
3 | اس آیت میں اللہ کی توحید اور اس کی قدرت و حکمت کے نشانات دکھانے کے علاوہ ایک اور حقیقت کی طرف بھی لطیف اشار ہ کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے اِس کائنات میں کہیں بھی یکسانی نہیں رکھی ہے۔ ایک ہی زمین ہے ، مگر اس کےقطعے اپنے اپنے رنگوں ، شکلوں اور خاصیتوں میں جدا ہیں۔ ایک ہی زمین اور ایک ہی پانی ہے مگر اس سے طرح طرح کے غلے اور پھل پیدا ہو رہے ہیں۔ ایک ہی درخت اور اس کا ہر پھل دوسرے پھل سے نوعیت میں متحد ہونے کے باوجود شکل اور جسامت اور دوسری خصوصیات میں مختلف ہے۔ ایک ہی جڑ ہے اور اس سے دو الگ تنے نکلتے ہیں جن میں سے ہر ایک اپنی الگ انفرادی خصوصیات رکھتا ہے۔ ان باتوں پر جو شخص غور کرے گا وہ کبھی یہ دیکھ کر پریشان نہ ہو گا کہ انسانی طبائع او ر میلانات اور مزاجوں میں اتنا اختلاف پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ آگے چل کر اسی سورۃ میں فرمایا گیا ہے ، اگر اللہ چاہتا تو سب انسانو ں کو یکساں بنا سکتا تھا، مگر جس حکمت پر اللہ نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے وہ یکسانی کی نہیں بلکہ تنوع اور رنگار نگی کی متقاضی ہے۔ سب کو یکساں بنادینے کے بعد تو یہ سارا ہنگامہ ٔ وجود ہی بے معنی ہو کر رہ جاتا |
2 | کھجور کے درختوں میں بعض ایسے ہوتے ہیں جن کی جڑ سے ایک ہی تنا نکلتا ہے اور بعض میں ایک جڑ سے دو یا زیادہ تنے نکلتے ہیں |
1 | یعنی ساری زمین کو اس نے یکساں بنا کر نہیں رکھ دیا ہے بلکہ اس میں بے شمار خطّے پید ا کر دیے ہیں جو متصل ہونے کے باوجود شکل میں ، رنگ میں ، مادّہ ٔ ترکیب میں، خاصیتوں میں، قوتوں اور صلاحیتوں میں، پیداوار اور کیمیاوی یا معدنی خزانوں میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ان مختلف خطّوں کی پیدائش اور ان کے اندر طرح طرح کے اختلافات کی موجودگی اپنے اندر اتنی حکمتیں اور مصلحتیں رکھتی ہے کہ ان کا شمار نہیں ہو سکتا۔ دوسری مخلوقات سے قطعِ نظر ، صرف ایک انسان ہی کے مفاد کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انسان کی مختلف اغراض و مصالح اور زمین کے اِن خطّوں کی گونا گونی کے درمیان جو مناسبتیں اور مطابقتیں پائی جاتی ہیں ، اور ان کی بدولت انسانی تمدن کو پھلنے پھولنے کے جو مواقع بہم پہنچے ہیں، وہ یقینًا کسی حکیم کی فکر اور اس کے سوچے سمجھے منصوبے اور اس کے دانشمند انہ ارادے کا نتیجہ ہیں۔ اسے محض ایک اتفاقی حادثہ قرار دینے کےلیے بڑی ہٹ دھرمی درکار ہے |
Surah 16 : Ayat 11
يُنۢبِتُ لَكُم بِهِ ٱلزَّرْعَ وَٱلزَّيْتُونَ وَٱلنَّخِيلَ وَٱلْأَعْنَـٰبَ وَمِن كُلِّ ٱلثَّمَرَٲتِۗ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
وہ اس پانی کے ذریعہ سے کھیتیاں اگاتا ہے اور زیتون اور کھجور اور انگور اور طرح طرح کے دوسرے پھل پیدا کرتا ہے اِس میں ایک بڑی نشانی ہے اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں
Surah 16 : Ayat 67
وَمِن ثَمَرَٲتِ ٱلنَّخِيلِ وَٱلْأَعْنَـٰبِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًاۗ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَةً لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
(اسی طرح) کھجور کے درختوں اور انگور کی بیلوں سے بھی ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں جسے تم نشہ آور بھی بنا لیتے ہو اور پاک رزق بھی1 یقیناً اس میں ایک نشانی ہے عقل سے کام لینے والوں کے لیے
1 | اس میں ایک ضمنی اشارہ اس مضمون کی طرف بھی ہے کہ پھلوں کے اِس عرق میں وہ مادہ بھی موجود ہے جو انسان کے لیے حیات بخش غذا بن سکتا ہے، اور وہ مادّہ بھی موجود ہے جو سڑ کر الکوہل میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اب یہ انسان کی اپنی قوتِ انتخاب پر منحصر ہے کہ وہ اس سرچشمے سے پاک رزق حاصل کرتا ہے یا عقل و خرد زائل کر دینے والی شراب۔ ایک اور ضمنی اشارہ شراب کی حرمت کی طرف بھی ہے کہ وہ پاک رزق نہیں ہے۔ |
Surah 23 : Ayat 19
فَأَنشَأْنَا لَكُم بِهِۦ جَنَّـٰتٍ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَـٰبٍ لَّكُمْ فِيهَا فَوَٲكِهُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ
پھر اس پانی کے ذریعہ سے ہم نے تمہارے لیے کھجور اور انگور کے باغ پیدا کر دیے، تمہارے لیے ان باغوں میں بہت سے لذیذ پھل ہیں1 اور ان سے تم روزی حاصل کرتے ہو2
2 | یعنی ان باغوں کی پیداوار سے ، جو پھل ، غلے ، لکڑی اور دوسری مختلف صورتوں میں حاصل ہوتی ہے ، تم اپنی معاش پیدا کرتے ہو۔ مِنْھَا تَا کُلُوْنَ میں منھا کی ضمیر جنّات کی طرف پھرتی ہے نہ کہ پھلوں کی طرف۔ اور تاکلون کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ ان باغوں کے پھل تم کھاتے ہو، بلکہ یہ بحیثیت مجموعی روزی حاصل کرنے کے مفہوم پر حاوی ہے۔ جس طرح ہم اردو زبان میں کہتے ہیں کہ فلاں شخص اپنے فلاں کام کی روٹی کھاتا ہے ، اسی طرح عربی زبان میں بھی کہتے ہیں فلان یا کل من حرفتہٖ |
1 | یعنی کھجوروں اور انگوروں کے علاوہ بھی طرح طرح کے میوے اور پھل |
Surah 36 : Ayat 24
إِنِّىٓ إِذًا لَّفِى ضَلَـٰلٍ مُّبِينٍ
اگر میں ایسا کروں1 تو میں صریح گمراہی میں مبتلا ہو جاؤں گا
1 | یعنی یہ جانتے ہوئے بھی اگر میں ان کو معبود بناؤں |
Surah 50 : Ayat 10
وَٱلنَّخْلَ بَاسِقَـٰتٍ لَّهَا طَلْعٌ نَّضِيدٌ
اور بلند و بالا کھجور کے درخت پیدا کر دیے جن پر پھلوں سے لدے ہوئے خوشے تہ بر تہ لگتے ہیں
Surah 50 : Ayat 11
رِّزْقًا لِّلْعِبَادِۖ وَأَحْيَيْنَا بِهِۦ بَلْدَةً مَّيْتًاۚ كَذَٲلِكَ ٱلْخُرُوجُ
یہ انتظام ہے بندوں کو رزق دینے کا اِس پانی سے ہم ایک مُردہ زمین کو زندگی بخش دیتے ہیں 1(مرے ہوئے انسانوں کا زمین سے) نکلنا بھی اِسی طرح ہو گا2
2 | استدلال یہ ہے کہ جس خدا نے زمین کے اس کرے کو زندہ مخلوقات کی سکونت کے لیے موزوں مقام بنا یا، اور جس نے زمین کی بے جان مٹی کو آسمان کے بے جان پانی کے ساتھ ملا کر اتنی اعلیٰ درجے کی نباتی زندگی پیدا کر دی جسے تم اپنے باغوں اور کھیتوں کی شکل میں لہلہاتے دیک رہے ہو، اور جس نے اس نباتات کو انسان و حیوان سب کے لیے رزق کا ذریعہ بنا دیا، اس کے متعلق تمہارا یہ گمان کہ وہ تمہیں مرنے کے بعد دو بارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے، سراسر بے عقلی کا گمان ہے۔ تم اپنی آنکھوں سے آۓ دن دیکھتے ہو کہ ایک علاقہ بالکل خشک اور بے جان پڑا ہوا ہے۔ بارش کا ایک چھینٹا پڑتے ہی اس کے اندر یکایک زندگی کے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں، مدتوں کی مری ہوئی جڑیں یک لخت جی اٹھتی ہیں، اور طرح طرح کے حشرات الارض زمین کی تہوں سے نکل کر اچھل کود شروع کر دیتے ہیں۔ یہ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ موت کے بعد دوبارہ زندگی نا ممکن نہیں ہے۔ اپنے اس صریح مشاہدے کو جب تم نہیں جھٹلا سکتے تو اس بات کو کیسے جھٹلاتے ہو کہ جب خدا چاہے گا تم خود بھی اسی طرح زمین سے نکل آؤ گے جس طرح نباتات کی کونپلیں نکل آتی ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عرب کی سر زمین میں بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں بسا اوقات پانچ پانچ برس بارش نہیں ہوتی، بلکہ کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ مدت گزر جاتی ہے اور آسمان سے ایک خطرہ تک نہیں ٹپکتا۔ اتنے طویل زمانے تک تپتے ہوۓ ریگستانوں میں گھاس کی جڑوں اور حشرات الارض کا زندہ رہنا قابل تصور نہیں ہے۔ اس کے باوجود جب وہاں کسی وقت تھوڑی سی بارش بھی ہو جاتی ہے تو گھاس نکل آتی ہے اور حشرات الارض جی اٹھتے ہیں۔ اس لیے عرب کے لوگ اس استدلال کو ان لوگوں کی بہ نسبت زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جنہیں اتنی طویل خشک سالی کا تجربہ نہیں ہوتا |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، النمل، حواشی 73۔74۔81۔الروم، حواشی 25۔33۔35۔جلد چہارم الزخرف حاشیہ۷ |
Surah 80 : Ayat 27
فَأَنۢبَتْنَا فِيهَا حَبًّا
پھر اُس کے اندر اگائے غلے