Ayats Found (18)
Surah 2 : Ayat 170
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ٱتَّبِعُواْ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَآ أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ ءَابَآءَنَآۗ أَوَلَوْ كَانَ ءَابَآؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْــًٔا وَلَا يَهْتَدُونَ
ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کیے ہیں اُن کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے1 اچھا اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا ہو اور راہ راست نہ پائی ہو تو کیا پھر بھی یہ انہیں کی پیروی کیے چلے جائیں گے؟
1 | یعنی ان پابندیوں کے لیے ان کے پاس کوئی سَنَد اور کوئی حجّت اس کے سوا نہیں ہے کہ باپ دادا سے یُوں ہی ہوتا چلا آیا ہے۔ نادان سمجھتے ہیں کہ کسی طریقے کی پیروی کے لیے یہ حجّت بالکل کافی ہے۔ |
Surah 5 : Ayat 104
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَىٰ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ وَإِلَى ٱلرَّسُولِ قَالُواْ حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ ءَابَآءَنَآۚ أَوَلَوْ كَانَ ءَابَآؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْــًٔا وَلَا يَهْتَدُونَ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اُس قانون کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور آؤ پیغمبرؐ کی طرف تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہمارے لیے تو بس وہی طریقہ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے کیا یہ باپ دادا ہی کی تقلید کیے چلے جائیں گے خواہ وہ کچھ نہ جانتے ہوں اور صحیح راستہ کی انہیں خبر ہی نہ ہو؟
Surah 7 : Ayat 28
وَإِذَا فَعَلُواْ فَـٰحِشَةً قَالُواْ وَجَدْنَا عَلَيْهَآ ءَابَآءَنَا وَٱللَّهُ أَمَرَنَا بِهَاۗ قُلْ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَأْمُرُ بِٱلْفَحْشَآءِۖ أَتَقُولُونَ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
یہ لوگ جب کوئی شرمناک کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریقہ پر پایا ہے اور اللہ ہی نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا 1ہے اِن سے کہو اللہ بے حیائی کا حکم کبھی نہیں دیا کرتا2 کیا تم اللہ کا نام لے کر وہ باتیں کہتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے (وہ اللہ کی طرف سے ہیں)؟
2 | بظاہر یہ ایک بہت ہی مختصر سا جملہ ہے مگر درحقیقت اس میں قرآن مجید نے ان لوگوں کے جا ہلانہ عقائد کے خلاف ایک بہت بڑی دلیل پیش کی ہے۔ اس طرزِ استدلال کو سمجھنے کے لیے دو باتیں بظور مقدمہ کے پہلے سمجھ لینی چاہییں: ایک یہ کہ اہل عرب اگرچہ اپنی بعض مذہبی رسموں میں برہنگی اختیار کرتے تھےاور اسےایک مقدس مذہبی فعل سمجھتے تھے، لیکن بر ہنگی کا بجائے خود ایک شرمناک فعل ہونا خود ان کے نزدیک بھی مسلَّم تھا، چناچہ کوئی شریف اور ذی عزت عرب اس بات کو پسند نہ کرتا تھا کہ کسی مہذب مجلس میں ، یا بازار میں ، یا اپنے اعزّہ اور اقربا کے درمیان برہنہ ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ لوگ برہنگی کو شرمنا ک جاننے کے باوجود ایک مذہبی رسم کی حیثیت سے اپنی عبادت کے موقع پر اختیار کرتے تھے اور چونکہ اپنے مذہب کو خدا کی طرف سے سمجھتے تھے اس لیے کہ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ رسم بھی خدا ہی کی طرف سے مقرر کی ہوئی ہے۔ اس پر قرآن مجید یہ استد لال کرتا ہے کہ جو کام فحش ہے اور جسے تم خود بھی جانتے اور مانتے ہو کہ فحش ہے اس کے متعلق تم یہ کیسے باور کر لیتے ہو کہ خدا نے اس کا حکم دیا ہوگا۔ کسی فحش کا م کا حکم خدا کی طرف سے ہر گز نہیں ہو سکتا، اور اگر تمہارے مذہب میں ایسا حکم پایا جاتا ہے تو یہ اس بات کی صریح علامت ہے کہ تمہارا مذہب خدا کی طرف سے نہیں ہے |
1 | اشارہ ہے اہل عرب کے برہنہ طواف کی طرف ، جس کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں۔ وہ لوگ اس کو ایک مذہبی فعل سمجھ کر کرتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ خدا نے یہ حکم دیا ہے |
Surah 7 : Ayat 70
قَالُوٓاْ أَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ ٱللَّهَ وَحْدَهُۥ وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ ءَابَآؤُنَاۖ فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ إِن كُنتَ مِنَ ٱلصَّـٰدِقِينَ
انہوں نے جواب دیا 1"کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہم اکیلے اللہ ہی کی عبادت کریں اور اُنہیں چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں؟ اچھا تو لے آ وہ عذاب جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے اگر تو سچا ہے"
1 | یہاں یہ بات پھر نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ یہ قوم بھی اللہ سے منکر یا نا واقف نہ تھی اور نہ اُسے اللہ کی عبادت سے انکا ر تھا۔ دراصل وہ حضرت ہود کی جس بات کو ماننے سے انکار کرتی تھی وہ صرف یہ تھی کہ اکیلے اللہ کی بندگی کی جائے، کسی دوسرے کی بندگی اس کے ساتھ شامل نہ کی جائے |
Surah 7 : Ayat 71
قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ رِجْسٌ وَغَضَبٌۖ أَتُجَـٰدِلُونَنِى فِىٓ أَسْمَآءٍ سَمَّيْتُمُوهَآ أَنتُمْ وَءَابَآؤُكُم مَّا نَزَّلَ ٱللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَـٰنٍۚ فَٱنتَظِرُوٓاْ إِنِّى مَعَكُم مِّنَ ٱلْمُنتَظِرِينَ
اس نے کہا 1"تمہارے رب کی پھٹکار تم پر پڑ گئی اور اس کا غضب ٹوٹ پڑا کیا تم مجھ سے اُن ناموں پر جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں، جن کے لیے اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی ہے2 اچھا تو تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں"
2 | یعنی اللہ جس کو تم خود بھی ربِ اکبر کہتے ہو، اس نے کوئی سند تمہارے اِن بناوٹی خدا ؤ ں کی الٰہیت و ربوبیت کے حق میں عطا نہیں کی ہے۔ اس نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ میں نے فلاں فلاں کی طرف اپنی خدا ئی کا اتنا حِصّہ منتقل کر دیا ہے۔ کوئی پروانہ اس نے کسی کو مشکل کشائی یا گنج بخشی کا نہیں دیا ۔ تم نے آپ ہی اپنے و ہم گمان سے اس کی خدا ئی کا جتنا حصّہ جس کو چاہا ہے دے ڈالا ہے |
1 | یعنی تم کسی کو بارش کا اور کسی کو ہوا کا اور کسی کو دولت کا اور کسی کو بیماری کا رب کہتے ہو، حالانکہ ان میں سے کوئی بھی فی الحقیقت کسی چیز کا رب نہیں ہے۔ اس کی مثالیں موجود ہ زمینہ میں بھی ہمیں ملتی ہیں۔ کسی انسان کو لوگ مشکل کُشا کہتے ہیں، حالانکہ مشکل کشائی کی کوئی طاقت اس کے پاس نہیں ہے۔ کسی کو گنج بخش کے نام سے پکارتے ہیں، حالانکہ اس کے پاس کوئی گنج نہیں کہ کسی کو بخشے۔ کسی کے لیے داتا کا لفظ بولتے ہیں، حالانکہ وہ کسی شے کا مالک نہیں کہ داتا بن سکے۔ کسی کو غریب نواز کے نام سے موسوم کر دیا گیا ہے حالانکہ وہ غریب اُس اقتدار میں کوئی حصہ نہیں رکھتا جس کی بنا پر وہ کسی غریب کو نواز سکے۔ کسی کو غوث(فریاد رس) کہا جاتا ہے، حالانکہ وہ کوئی زور نہیں رکھتا کہ کسی کی فریاد کو پہنچ سکے۔ پس در حقیقت ایسے سب نام محض نام ہی ہیں جن کے پیچھے کوئی مسمّٰی نہیں ہے۔ جو ان کے لیے جھگڑتا ہے وہ دراصلِ چند ناموں کے لیے جھگڑتا ہے نہ کہ کسی حقیقت کے لیے |
Surah 7 : Ayat 173
أَوْ تَقُولُوٓاْ إِنَّمَآ أَشْرَكَ ءَابَآؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّنۢ بَعْدِهِمْۖ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ ٱلْمُبْطِلُونَ
یا یہ نہ کہنے لگو کہ 1"شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوئے، پھر کیا آپ ہمیں اُس قصور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا"
1 | اس آیات میں وہ غرض بیان کی گئی ہے جس کے لیے ازل میں پوری نسلِ آدم سے اقرار لیا گیا تھا۔ اور وہ یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو لوگ اپنے خدا سے بغاوت اختیار کریں وہ اپنے اِس جرم کے پوری طرح ذمہ دار قرار پائیں ۔ اُنہیں اپنی صفائی میں نہ تو لاعلمی کا عذر پیش کرنے کا موقع ملے اور نہ وہ سابق نسلوں پر اپنی گمراہی کی ذمہ داری ڈال کر خود بری الذمہ ہو سکیں گویا بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ اس ازلی عہد و میثاق کو اس بات پر دلیل قرار دیتا ہے کہ نوعِ انسانی میں سے ہر شخص انفرادی طور پر اللہ کے الٰہِ واحد اور ربِّ واحد ہونے کی شہادت اپنے اندر لیے ہوئے ہے اور اس بنا پر یہ کہنا غلط ہے کہ کوئی شخص کامل بے خبری کے سبب سے، یا ایک گمراہ ماحول میں پر ورش پانے کے سبب سے اپنی گمراہی کی ذمہ داری سے بالکل یہ بری ہو سکتا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ازلی میثاق فی الواقع عمل میں آیا بھی تھا تو کیا اس کی یاد ہمارے شعور اور حافظہ میں محفوظ ہے؟ کیا ہم میں سے کوئی شخص بھی یہ جانتا ہے کہ آغازِ آفرنیش میں وہ اپنے خدا کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور اس سے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کا سوال ہوا تھا اور اس نے بلیٰ کہا تھا؟ اگر نہیں تو پھر اُس اقرار کو جس کی یاد ہمارے شعور و حافظہ سے محو ہو چکی ہے ہمارے خلاف حجت کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اُس میثاق کا نقش انسان کے شعور اور حافظہ میں تازہ رہنے دیا جاتا تو انسان کا دنیا کی موجودہ امتحان گاہ میں بھیجا جانا سرے سے فضول ہو جاتا کیونکہ اس کے بعد تو اس آزمائشِ و امتحان کے کوئی معنی ہی باقی نہ رہ جاتے۔ لہٰذا اس نقش کو شعور و حافظہ میں تو تازہ نہیں رکھا گیا، لیکن وہ تحت الشعور(Sub-conscious mind ) اور وِجدان(Intuition ) میں یقیناً محفوظ ہے۔ اس کا حال وہی ہے جو ہمارے تمام دوسرے تحت الشعوری اور وجدانی علوم کا حال ہے۔ تہذیب و تمدّن اور اخلاق و معلاملات کے تمام شعبوں میں انسان سے آج تک جو کچھ بھی ظہور میں آیا ہے وہ سب درحقیقت انسان کے اندر بالقوة(Potentially ) موجود تھا۔ خارجی محرکات اور داخلی تحریکات نے مل جل کر اگر کچھ کیا ہے تو صرف اتنا کہ جو کچھ بالقوة تھا اُسے بالفعل کر دیا ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی تعلیم، کوئی تربیت ، کوئی ماحول تا ثیر اور کوئی داخلی تحریک انسان کے اندر کوئی چیز بھی، جو اُس کے اندر بالقوة موجود نہ ہو، ہر گز پیدا نہیں کر سکتی۔ اور اسی طرح یہ سب موثرات اگر اپنا تمام زور بھی صرف کردیں تو ان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اُن چیزوں میں سے ، جو انسان کے اندر بالقوة موجود ہیں، کسی چیز کو قطعی محو کر دیں۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ کر سکتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ اسے اصل فطرت سے منحرف(Pervert ) کر دیں ۔ لیکن وہ چیز تمام تحریفات و تمسیخات کے باوجود اندر موجود رہے گی، ظہور میں آنے کے لیے زور لگاتی رہے گی، اور خارجی اپیل کا جواب دینے کے لیے مستعد رہے گی۔ یہ معاملہ جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا، ہمارے تمام تحت الشعوری اور وجدانی علوم کے ساتھ عام ہے: وہ سب ہمارے اندر بالقوة موجود ہیں، اور ان کے موجود ہونے کا یقینی ثبوت اُن چیزوں سے ہمیں ملتا ہےجو بالفعل ہم سے ظاہر ہوتی ہیں۔ ان سب کے ظہو رمیں آنے کے لیے خارجی تذکیر (یاد دہانی)، تعلیم، تربیت اور تشکیل کی ضرورت ہوتی ہے ، اور جو کچھ ہم سے ظاہر ہوتا ہے وہ گویا درحقیقت خارجی اپیل کا وہ جواب ہے جو ہمارے اندر کی بالقوة موجودات کی طرف سے ملتا ہے۔ ان سب کو اندر کی غلط خواہشات اور باہر کی غلط تا ثیرات دبا کر، پردہ ڈال کر ، منحرف اور مسخ کر کے کالعدم کر سکتی ہیں مگر بالکل معدوم نہیں کر سکتیں، اور اسی لیے اندرونی احساس اور بیرونی سعی دونوں سے اصلاح اور تبدیلی(Conversion ) ممکن ہوتی ہے۔ ٹھیک ٹھیک یہی کیفیت اُس وجدانی علم کی بھی ہے جو ہمیں کائنات میں اپنی حقیقی حیثیت، اور خالقِ کائنات کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں حاصل ہے: اس موجود ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ وہ انسانی زندگی کے ہر دور میں، زمین کے ہر خطہ میں، ہر بستی، ہر پشت اور ہر نسل میں اُبھرتا رہا ہے اور کبھی دنیا کی کوئی طاقت اسے محو کر دینے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ اس کے مطابقِ حقیقت ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ جب کبھی وہ اُبھر کر بالفعل ہماری زندگی میں آ کر فرما ہوا ہے اس نے صالح ار مفید نتائج ہی پیدا کیے ہیں۔ اس کو اُبھر نے اور ظہور میں آنے اور عملی صورت اختیار کرنے کے لیے ایک خارجی اپیل کی ہمیشہ ضروت رہی ہے ، چنانچہ انبیاء علیہم السلام اور کتبِ آسمانی اور ان کی پیروی کرنے والے داعیانِ حق سب کے سب یہی خدمت انجام دیتے رہے ہیں۔ اسی لیے اُن کو قرآن میں مذکِّر(یاد دلانے والے)ذِکر (یاد)تذکرہ(یادداشت) اور اب ان کے کام کوتذکیر(یاد دہانی)کے الفاظ سے تعبیر گیا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ انبیاء اور کتابیں اور داعیانِ حق انسان کے اندر کوئی نئی چیز پیدا نہیں کرتے بلکہ اُسی چیز کو اُبھارتے اور تازہ کرتے ہیں جو ان کے اندر پہلے سے موجود تھی۔ نفسِ انسانی کی طرف سے ہر زمانہ میں اِس تذکیر کا جواب بصورتِ لبیک ملنا اس بات کا مزید ایک ثبوت ہے کہ اندر فی الواقع کوئی علم چھپا ہوا تھا جو اپنے پکارنے والے کی آواز پہچان کر جواب دینے کے لیے اُبھر آیا۔ پھر اسے جہالت اور جاہلیت اور خواہشات نفس اور تعصبات اور شیا طینِ جن و انس کی گمراہ کن تعلیمات و ترغیبات نے ہمیشہ دبانے اور چھپانے اور منحرف اور مسخ کرنے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں شرک، وہریت، الحاد ، زندقہ اور اخلاقی و عملی فساد رونما ہوتا رہا ہے۔ لیکن ضلالت کی ان ساری طاقتوں کے متحدہ عمل کے باوجود اس علم کا پیدائشی نقش انسان کی لوح دل پر کسی نہ کسی حد تک موجود رہا ہے اور اسی لیے تذکیر و تجدید کی کوششیں اُسے اُبھارنے میں کامیاب ہوتی رہی ہیں۔ بلاشبہ دنیا کی موجودہ زندگی میں حق اور حقیقت کے انکار پر مصر ہیں وہ اپنی حجت بازیوں سے اس پیدائیشی نقش کے وجود کا انکار کر سکتے ہیں یا کم از کم اسے مشتبہ ثابت کر سکتے ہیں۔ لیکن جس روز یوم الحساب برپا ہو گا اس روز ان کا خالق ان کے شعور وحافظہ میں روزِ ازل کے اُس اجتماع کی یاد تازہ کر دے گا جبکہ انہوں نے اس کو اپنا واحد معبود اور واحد رب تسلیم کیا تھا۔ پھر وہ اس بات کا ثبوت بھی ان کے اپنے نفس ہی سے فراہم کر دے گا کہ اس میثاق کا نقش ان کے نفس میں برابر موجود رہا اور یہ بھی وہ ان کی اپنی زندگی ہی کے ریکارڈ سے علیٰ رؤس الا شہاد دکھاوے گا کہ انہوں نے کس کس طرح اس نقش کو دبایا، کب کب اور کن کن مواقع پر ان کے قلب سے تصدیق کی آوازیں اُٹھیں، اپنی اور اپنے گردوبیش کی گمراہیوں پر ان کے وجدان نے کہاں کہاں اور کس کس وقت صدائے انکار بلند کی، داعیانِ حق کی دعوت کا جواب دینے کے لیے ان کے اندر کا چھپا ہوا علم کتنی کتنی مرتبہ اور کس کس جگہ اُبھرنے پر آمادہ ہوا، اور پھر وہ اپنے تعصبات اور اپنی خواہشات نفس کی بنا پر کیسے کیسے حیلوں اور بہانوں سے اس کو فریب دیتے اور خاموش کر دیتے رہے۔ وہ وقت جبکہ یہ سارے راز فاش ہوں گے، حجت بازیوں کا نہ ہوگا بلکہ صاف صاف اقرار جرم کا ہوگا۔ اسی لیے قرآن مجید کہتا ہے کہ اس وقت مجرمین یہ نہیں کہیں گے کہ ہم جاہل تھے یا غافل تھے، بلکہ یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ ہم کافر تھے۔ یعنی ہم نے جان بوجھ کر حق کا انکار کیا۔ وَ شَھِدُوْا عَلٓیٰ اَنْفُسِہِمْ اَنَّھُمْ کَانُوْ ا کَا فِرِیْنَ (الاَنعام، ١۳۰) |
Surah 10 : Ayat 78
قَالُوٓاْ أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ ءَابَآءَنَا وَتَكُونَ لَكُمَا ٱلْكِبْرِيَآءُ فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِينَ
اُنہوں نے جواب میں کہا “کیا تواس لیے آیا ہے کہ ہمیں اُ س طریقے سے پھیر دے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور زمین میں بڑائی تم دونوں کی قائم ہو جائے؟1 تمہارے بات تو ہم ماننے والے نہیں ہیں"
1 | ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ و ہارون کا اصل مطالبہ رہائی بنی اسرائیل ہوتا تو فرعون اور اس کےدرباریوں کو یہ اندیشہ کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ ان دونوں بزرگوں کی دعوت پھیلنے سے سرزمینِ مصر کا دین بدل جائے گا اور ملک میں ہمارے بجائے ان کی بڑائی قائم ہو جائے گی۔ ان کے اس اندیشے کی وجہ تو یہی تھی کہ حضرت موسیٰؑ اہلِ مصر کو بندگی حق کی طرف دعوت دے رہے تھے اور اس سے وہ مشرکانہ نظام خطرےمیں تھا جس پر فرعون کی بادشاہی اور اس کے سرداروں کی سرداری اور مذہبی پیشواؤں کی پیشوائی قائم تھی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف، حاشیہ نمبر ۶۶۔ المومن، حاشیہ نمبر ۴۳) |
Surah 11 : Ayat 109
فَلَا تَكُ فِى مِرْيَةٍ مِّمَّا يَعْبُدُ هَـٰٓؤُلَآءِۚ مَا يَعْبُدُونَ إِلَّا كَمَا يَعْبُدُ ءَابَآؤُهُم مِّن قَبْلُۚ وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنقُوصٍ
پس اے نبیؐ، تو ان معبودوں کی طرف سے کسی شک میں نہ رہ جن کی یہ لوگ عبادت کر رہے ہیں یہ تو (بس لکیر کے فقیر بنے ہوئے) اُسی طرح پوجا پاٹ کیے جا رہے ہیں جس طرح پہلے ان کے باپ دادا کرتے تھے، اور ہم اِن کا حصہ اِنہیں بھرپور دیں گے بغیر اس کے کہ اس میں کچھ کاٹ کسر ہو
Surah 21 : Ayat 53
قَالُواْ وَجَدْنَآ ءَابَآءَنَا لَهَا عَـٰبِدِينَ
انہوں نے جواب دیا "ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے پایا ہے"
Surah 23 : Ayat 24
فَقَالَ ٱلْمَلَؤُاْ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ مِن قَوْمِهِۦ مَا هَـٰذَآ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُرِيدُ أَن يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَأَنزَلَ مَلَـٰٓئِكَةً مَّا سَمِعْنَا بِهَـٰذَا فِىٓ ءَابَآئِنَا ٱلْأَوَّلِينَ
اس کی قوم کے جن سرداروں نے ماننے سے انکار کیا وہ کہنے لگے کہ "یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر ایک بشر تم ہی جیسا اِس کی غرض یہ ہے کہ تم پر برتری حاصل کرے 2اللہ کو اگر بھیجنا ہوتا تو فرشتے بھیجتا13 یہ بات تو ہم نے کبھی اپنے باپ دادا کے وقتوں میں سنی ہی نہیں (کہ بشر رسول بن کر آئے)
3 | یہ بھی مخالفین حق کا قدیم ترین حربہ ہے کہ جو شخص بھی اصلاح کے لیے کوشش کرنے اٹھے اس پر فوراً یہ الزام چسپاں کر دیتے ہیں کہ کچھ نہیں ، بس اقتدار کا بھوکا ہے۔ یہ الزام فرعون نے حضرت موسیٰ اور ہارون پر لگایا تھا کہ تم اس لیے اٹھے ہو کہ تمہیں بلکہ میں بڑائی حاصل ہو جاۓ ، تکون لکما الکبر یاء فی الارض (یونس آیت 78)۔ یہی حضرت عیسیٰ پر لگایا گیا کہ یہ شخص یہودیوں کا بادشاہ بننا چاہتا ہے۔ اور اسی کا شبہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق سرداران قریش کو تھا، چنانچہ کئی مرتبہ انہوں نے آپ سے یہ سودا کرنے کی کوشش کی کہ اگر اقتدار کے طالب ہو تو ’’ اپوزیشن ‘‘ چھوڑ کر‘‘ حزب اقتدار‘‘ میں شامل ہو جاؤ، تمہیں ہم بادشاہ بناۓ لیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ ساری عمر دنیا اور اس کے مادی فائدوں اور اس کی شان و شوکت ہی کے لیے اپنی جان کھپاتے رہتے ہیں ان کے لیے یہ تصور کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے کہ اسی دنیا میں کوئی انسان نیک نیتی اور بے غرض یہ کے ساتھ فلاح انسانیت کی خاطر بھی اپنی جان کھپا سکتا ہے۔ وہ خود چونکہ اپنا اثر و اقتدار جمانے کے لیے دلفریب نعرے اور اصلاح کے جھوٹے دعوے شب و روز استعمال کرتے رہتے ہیں ، اس لیے مکاری و فریب کاری ان کی نگاہ میں بالکل ایک فطری چیز ہوتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اصلاح کا نام مکر و فریب کے سوا کسی صداقت اور خلوص کے ساتھ کبھی لیا ہی نہیں جا سکتا یہ نام جو بھی لیتا ہے ضرور وہ انکا اپنا ہم جنس ہی ہو گا۔ اور لطف یہ ہے کہ مصلحین کے خلاف ’’ اقتدار کی بھوک‘‘ کا یہ الزام ہمیشہ بر سر اقتدار لوگ اور ان کے خوشامدی حاشیہ نشین ہی استعمال کرتے رہے ہیں۔ گویا خود انہیں اور ان کے آقایانِ نامدار کو جو اقتدار حاصل ہے وہ تو ان کا پیدائشی حق ہے ، اس کے حاصل کرنے اور اس پر قابض رہنے میں وہ کسی الزام کے مستحق نہیں ہیں ، البتہ نہایت ابل ملامت ہے وہ جس کے لیے یہ ’’غذا‘‘ پیدائشی حق نہ تھی اور اب یہ لوگ اس کے اندر اس چیز کی ’’بھوک‘‘ محسوس کر رہے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ 36)۔ اس جگہ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو شخص بھی رائج الوقت نظام زندگی کی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے اٹھے گا اور اس کے مقابلے میں اصلاحی نظریہ و نظام پیش کرے گا، اس کے لیے بہر حال یہ بات ناگزیر ہو گی کہ اصلاح کی راہ میں جو طاقتیں بھی سد راہ ہوں انہیں ہٹانے کے کوشش کرے اور ان طاقتوں کو بر سر اقتدار لاۓ جو اصلاحی نظریہ وہ نظام کو عملاً نافذ کر سکیں۔ نیز ایسے شخص کی دعوت جب بھی کامیاب ہو گی، اس کا قدرتی نتیجہ یہی ہو گا کہ وہ لوگوں کا مقتدا و پیشوا بن جاۓ گا اور نۓ نظام میں اقتدار کی باگیں یا تو اس کے اپنے ہی ہاتھوں میں ہوں گی، یا اس کے حامیوں اور پیروؤں کے ہاتھ ان پر قابض ہوں گے۔ آخر انبیاء اور مصلحین عالم میں سے کون ہے جس کی کوششوں کا مقصد اپنی دعوت کو عملاً نافذ کرنا نہ تھا، اور کون ہے جس کی دعوت کی کامیابی نے فی الواقع اس کو پیشوا نہیں بنا دیا؟ پھر کیا یہ امر واقعی کسی پر یہ الزام چسپاں کر دینے کے لیے کافی ہے کہ وہ در اصل اقتدار کا بھوکا تھا، اور اس کی اصل غرض وہی پیشوائی تھی جو اس نے حاصل کر لی ؟ ظاہر ہے کہ بد طینت دشمنان حق کے سوا س سوال کا جواب کوئی بھی اثبات میں نہ دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کے بجاۓ خود مطلوب ہونے اور کسی مقصد خیر کے لیے مطلوب ہونے میں زمین و آسمان کا فرق ہے ، اتنا ہی بڑا فرق جتنا ڈاکو کے خنجر اور ڈاکٹر کے نشتر میں ہے۔ اگر کوئی شخص صرف اس بنا پر ڈاکو اور ڈاکٹر کو ایک کر دے کہ دونوں بلارادہ جسم چیرتے ہیں اور نتیجہ میں مال دونوں کے ہاتھ آتا ہے ، تو یہ صرف اس کے اپنے ہی دماغ یا دل کا قصور ہے۔ ورنہ دونوں کی نیت دونوں کی نیت دونوں کے طریق کار اور دونوں کے مجموعی کر دار میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ کوئی صاحب عقل آدمی ڈاکو کو ڈاکو اور ڈاکٹر کو ڈاکٹر سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا |
2 | یہ بھی مخالفین حق کا قدیم ترین حربہ ہے کہ جو شخص بھی اصلاح کے لیے کوشش کرنے اٹھے اس پر فوراً یہ الزام چسپاں کر دیتے ہیں کہ کچھ نہیں ، بس اقتدار کا بھوکا ہے۔ یہ الزام فرعون نے حضرت موسٰیؑ اور ہارونؑ پر لگایا تھا کہ تم اس لیے اٹھے ہو کہ تمہیں ملک میں بڑائی حاصل ہو جاۓ ، تکون لکما الکبر یاء فی الارض (یونس آیت 78)۔ یہی حضرت عیسٰیؑ پر لگایا گیا کہ یہ شخص یہودیوں کا بادشاہ بننا چاہتا ہے۔ اور اسی کا شبہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق سرداران قریش کو تھا، چنانچہ کئی مرتبہ انہوں نے آپ سے یہ سودا کرنے کی کوشش کی کہ اگر اقتدار کے طالب ہو تو ’’ اپوزیشن ‘‘ چھوڑ کر‘‘ حزب اقتدار‘‘ میں شامل ہو جاؤ، تمہیں ہم بادشاہ بنائے لیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ ساری عمر دنیا اور اس کے مادی فائدوں اور اس کی شان و شوکت ہی کے لیے اپنی جان کھپاتے رہتے ہیں ان کے لیے یہ تصور کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے کہ اسی دنیا میں کوئی انسان نیک نیتی اور بے غرضی کے ساتھ فلاح انسانیت کی خاطر بھی اپنی جان کھپا سکتا ہے۔ وہ خود چونکہ اپنا اثر و اقتدار جمانے کے لیے دلفریب نعرے اور اصلاح کے جھوٹے دعوے شب و روز استعمال کرتے رہتے ہیں ، اس لیے مکاری و فریب کاری ان کی نگاہ میں بالکل ایک فطری چیز ہوتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اصلاح کا نام مکر و فریب کے سوا کسی صداقت اور خلوص کے ساتھ کبھی لیا ہی نہیں جا سکتا یہ نام جو بھی لیتا ہے ضرور وہ انکا اپنا ہم جنس ہی ہو گا۔ اور لطف یہ ہے کہ مصلحین کے خلاف ’’ اقتدار کی بھوک‘‘ کا یہ الزام ہمیشہ بر سر اقتدار لوگ اور ان کے خوشامدی حاشیہ نشین ہی استعمال کرتے رہے ہیں۔ گویا خود انہیں اور ان کے آقایانِ نامدار کو جو اقتدار حاصل ہے وہ تو ان کا پیدائشی حق ہے ، اس کے حاصل کرنے اور اس پر قابض رہنے میں وہ کسی الزام کے مستحق نہیں ہیں ، البتہ نہایت ابل ملامت ہے وہ جس کے لیے یہ ’’غذا‘‘ پیدائشی حق نہ تھی اور اب یہ لوگ اس کے اندر اس چیز کی ’’بھوک‘‘ محسوس کر رہے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ 36)۔ اس جگہ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو شخص بھی رائج الوقت نظام زندگی کی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے اٹھے گا اور اس کے مقابلے میں اصلاحی نظریہ و نظام پیش کرے گا، اس کے لیے بہر حال یہ بات ناگزیر ہو گی کہ اصلاح کی راہ میں جو طاقتیں بھی سد راہ ہوں انہیں ہٹانے کے کوشش کرے اور ان طاقتوں کو بر سر اقتدار لائےجو اصلاحی نظریہ وہ نظام کو عملاً نافذ کر سکیں۔ نیز ایسے شخص کی دعوت جب بھی کامیاب ہو گی، اس کا قدرتی نتیجہ یہی ہو گا کہ وہ لوگوں کا مقتدا و پیشوا بن جائے گا اور نۓ نظام میں اقتدار کی باگیں یا تو اس کے اپنے ہی ہاتھوں میں ہوں گی، یا اس کے حامیوں اور پیروؤں کے ہاتھ ان پر قابض ہوں گے۔ آخر انبیاء اور مصلحین عالم میں سے کون ہے جس کی کوششوں کا مقصد اپنی دعوت کو عملاً نافذ کرنا نہ تھا، اور کون ہے جس کی دعوت کی کامیابی نے فی الواقع اس کو پیشوا نہیں بنا دیا؟ پھر کیا یہ امر واقعی کسی پر یہ الزام چسپاں کر دینے کے لیے کافی ہے کہ وہ در اصل اقتدار کا بھوکا تھا، اور اس کی اصل غرض وہی پیشوائی تھی جو اس نے حاصل کر لی ؟ ظاہر ہے کہ بد طینت دشمنان حق کے سوا س سوال کا جواب کوئی بھی اثبات میں نہ دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کے بجائے خود مطلوب ہونے اور کسی مقصد خیر کے لیے مطلوب ہونے میں زمین و آسمان کا فرق ہے ، اتنا ہی بڑا فرق جتنا ڈاکو کے خنجر اور ڈاکٹر کے نشتر میں ہے۔ اگر کوئی شخص صرف اس بنا پر ڈاکو اور ڈاکٹر کو ایک کر دے کہ دونوں بلارادہ جسم چیرتے ہیں اور نتیجہ میں مال دونوں کے ہاتھ آتا ہے ، تو یہ صرف اس کے اپنے ہی دماغ یا دل کا قصور ہے۔ ورنہ دونوں کی نیت دونوں کے طریق کار اور دونوں کے مجموعی کر دار میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ کوئی صاحب عقل آدمی ڈاکو کو ڈاکو اور ڈاکٹر کو ڈاکو سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا |
1 | یہ بھی مخالفین حق کا قدیم ترین حربہ ہے کہ جو شخص بھی اصلاح کے لیے کوشش کرنے اٹھے اس پر فوراً یہ الزام چسپاں کر دیتے ہیں کہ کچھ نہیں ، بس اقتدار کا بھوکا ہے۔ یہ الزام فرعون نے حضرت موسٰیؑ اور ہارونؑ پر لگایا تھا کہ تم اس لیے اٹھے ہو کہ تمہیں ملک میں بڑائی حاصل ہو جاۓ ، تکون لکما الکبر یاء فی الارض (یونس آیت 78)۔ یہی حضرت عیسٰیؑ پر لگایا گیا کہ یہ شخص یہودیوں کا بادشاہ بننا چاہتا ہے۔ اور اسی کا شبہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق سرداران قریش کو تھا، چنانچہ کئی مرتبہ انہوں نے آپ سے یہ سودا کرنے کی کوشش کی کہ اگر اقتدار کے طالب ہو تو ’’ اپوزیشن ‘‘ چھوڑ کر‘‘ حزب اقتدار‘‘ میں شامل ہو جاؤ، تمہیں ہم بادشاہ بنائے لیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ ساری عمر دنیا اور اس کے مادی فائدوں اور اس کی شان و شوکت ہی کے لیے اپنی جان کھپاتے رہتے ہیں ان کے لیے یہ تصور کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے کہ اسی دنیا میں کوئی انسان نیک نیتی اور بے غرضی کے ساتھ فلاح انسانیت کی خاطر بھی اپنی جان کھپا سکتا ہے۔ وہ خود چونکہ اپنا اثر و اقتدار جمانے کے لیے دلفریب نعرے اور اصلاح کے جھوٹے دعوے شب و روز استعمال کرتے رہتے ہیں ، اس لیے مکاری و فریب کاری ان کی نگاہ میں بالکل ایک فطری چیز ہوتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اصلاح کا نام مکر و فریب کے سوا کسی صداقت اور خلوص کے ساتھ کبھی لیا ہی نہیں جا سکتا یہ نام جو بھی لیتا ہے ضرور وہ انکا اپنا ہم جنس ہی ہو گا۔ اور لطف یہ ہے کہ مصلحین کے خلاف ’’ اقتدار کی بھوک‘‘ کا یہ الزام ہمیشہ بر سر اقتدار لوگ اور ان کے خوشامدی حاشیہ نشین ہی استعمال کرتے رہے ہیں۔ گویا خود انہیں اور ان کے آقایانِ نامدار کو جو اقتدار حاصل ہے وہ تو ان کا پیدائشی حق ہے ، اس کے حاصل کرنے اور اس پر قابض رہنے میں وہ کسی الزام کے مستحق نہیں ہیں ، البتہ نہایت ابل ملامت ہے وہ جس کے لیے یہ ’’غذا‘‘ پیدائشی حق نہ تھی اور اب یہ لوگ اس کے اندر اس چیز کی ’’بھوک‘‘ محسوس کر رہے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ 36)۔ اس جگہ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو شخص بھی رائج الوقت نظام زندگی کی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے اٹھے گا اور اس کے مقابلے میں اصلاحی نظریہ و نظام پیش کرے گا، اس کے لیے بہر حال یہ بات ناگزیر ہو گی کہ اصلاح کی راہ میں جو طاقتیں بھی سد راہ ہوں انہیں ہٹانے کے کوشش کرے اور ان طاقتوں کو بر سر اقتدار لائےجو اصلاحی نظریہ وہ نظام کو عملاً نافذ کر سکیں۔ نیز ایسے شخص کی دعوت جب بھی کامیاب ہو گی، اس کا قدرتی نتیجہ یہی ہو گا کہ وہ لوگوں کا مقتدا و پیشوا بن جائے گا اور نۓ نظام میں اقتدار کی باگیں یا تو اس کے اپنے ہی ہاتھوں میں ہوں گی، یا اس کے حامیوں اور پیروؤں کے ہاتھ ان پر قابض ہوں گے۔ آخر انبیاء اور مصلحین عالم میں سے کون ہے جس کی کوششوں کا مقصد اپنی دعوت کو عملاً نافذ کرنا نہ تھا، اور کون ہے جس کی دعوت کی کامیابی نے فی الواقع اس کو پیشوا نہیں بنا دیا؟ پھر کیا یہ امر واقعی کسی پر یہ الزام چسپاں کر دینے کے لیے کافی ہے کہ وہ در اصل اقتدار کا بھوکا تھا، اور اس کی اصل غرض وہی پیشوائی تھی جو اس نے حاصل کر لی ؟ ظاہر ہے کہ بد طینت دشمنان حق کے سوا س سوال کا جواب کوئی بھی اثبات میں نہ دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کے بجائے خود مطلوب ہونے اور کسی مقصد خیر کے لیے مطلوب ہونے میں زمین و آسمان کا فرق ہے ، اتنا ہی بڑا فرق جتنا ڈاکو کے خنجر اور ڈاکٹر کے نشتر میں ہے۔ اگر کوئی شخص صرف اس بنا پر ڈاکو اور ڈاکٹر کو ایک کر دے کہ دونوں بلارادہ جسم چیرتے ہیں اور نتیجہ میں مال دونوں کے ہاتھ آتا ہے ، تو یہ صرف اس کے اپنے ہی دماغ یا دل کا قصور ہے۔ ورنہ دونوں کی نیت دونوں کے طریق کار اور دونوں کے مجموعی کر دار میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ کوئی صاحب عقل آدمی ڈاکو کو ڈاکو اور ڈاکٹر کو ڈاکو سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا |