Ayats Found (8)
Surah 15 : Ayat 26
وَلَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ مِن صَلْصَـٰلٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ
ہم نے انسان کو سٹری ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا1
1 | یہاں قرآن اِس امر کی صاف تصریح کرتا ہے کہ انسان حیوانی منازل سے ترقی کرتا ہوا بشریت کے حدود میں نہیں آیا ہے ، جیسا کہ نئے دَور کے ڈارونییت سے متاثر مفسرینِ قرآن ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں، بلکہ اُس کی تخلیق کی ابتداء براہِ راست ارضی مادّوں سے ہوئی ہے کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَأِ ٍ مَّسْنُوْنٍ کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ حَمأ عربی زبان میں ایسی سیاہ کیچڑ کو کہتے ہیں جس کے اندر بُو پیدا ہو چکی ہو ، یا بالفاظِ دیگر خمیر اُٹھ آیا ہو۔ مسنون کے دومعنی ہیں۔ ایک معنی ہیں متغیر، مُنتِن اور املس، یعنی ایسی سڑی ہوئی جس میں سڑنے کی وجہ سے چکنائی پیدا ہو گئی ہو۔ دوسرے معنی میں مصوَّر اور مصبوب ، یعنی قالب میں ڈھلی ہوئی جس کو ایک خاص صورت دے دی گئی ہو۔ صلصال اُس سوکھے گارے کو کہتے ہیں جو خشک ہو جانے کے بعد بجنے لگے۔ یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ خمیر اُٹھی ہوئی مٹی کا ایک پُتلا بنایا گیا تھا جو بننے کے بعد خشک ہوا اور پھر اس کے اندر رُوح پھونکی گئی |
Surah 15 : Ayat 28
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَـٰٓئِكَةِ إِنِّى خَـٰلِقُۢ بَشَرًا مِّن صَلْصَـٰلٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ
پھر یاد کرو اُس موقع کو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ "میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں
Surah 23 : Ayat 12
وَلَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ مِن سُلَـٰلَةٍ مِّن طِينٍ
ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا
Surah 32 : Ayat 7
ٱلَّذِىٓ أَحْسَنَ كُلَّ شَىْءٍ خَلَقَهُۥۖ وَبَدَأَ خَلْقَ ٱلْإِنسَـٰنِ مِن طِينٍ
جو چیز بھی اس نے بنائی خوب ہی بنائی1 اُ س نے انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی
1 | یعنی اس عظیم الشان کائنات میں اس نے بے حد و حساب چیزیں بنائی ہیں، مگر کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جو بے ڈھنگی اور بے تُکی ہو۔ ہر شے اپنا ایک الگ حسن رکھتی ہے۔ ہر شے اپنی جگہ متناسب اور موزوں ہے۔ جو چیز جس کام کے لیے بھی اُس نے بنائی ہے اس کے لیے موزوں ترین ہے۔ جو چیز جس کام کے لیے بھی اس نے بنائی ہے اُس کے لیے موزوں ترین شکل پر، مناسب ترین صفات کے ساتھ بنائی ہے۔ دیکھنے کے لیے آنکھ اور سننے کے لیے کان کی ساخت سے زیادہ موزوں کسی ساخت کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ ہوا اور پانی جن مقاصد کے لیے بنائے گئے ہیں ان کے لئے ہوا ٹھیک ویسی ہی ہے جیسی ہونی چاہیے،اور پانی وہی اوصاف رکھتا ہے جیسے ہونے چاہییں۔ تم خدا کی بنائی ہوئی کسی چیز کے نقشے میں کسی کوتاہی کی نشاندہی نہیں کر سکتے ہو۔ |
Surah 35 : Ayat 11
وَٱللَّهُ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَٲجًاۚ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِۚۦ وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلَا يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِۦٓ إِلَّا فِى كِتَـٰبٍۚ إِنَّ ذَٲلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِيرٌ
اللہ نے1 تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے2، پھر تمہارے جوڑے بنا دیے (یعنی مرد اور عورت) کوئی عورت حاملہ نہیں ہوتی اور نہ بچہ جنتی ہے مگر یہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہوتا ہے کوئی عمر پانے والا عمر نہیں پاتا اور نہ کسی کی عمر میں کچھ کمی ہوتی ہے مگر یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھا ہوتا ہے3 اللہ کے لیے یہ بہت آسان کام ہے4
4 | یعنی اتنی بے شمار مخلوق کے بارے میں اتنا تفصیلی علم اور فرد فرد کے بارے میں اتنے مفصل احکام اور فیصلے کرنا اللہ کے لیے کوئی دشوار کام نہیں ہے۔ |
3 | یعنی جو شخص بھی دنیا میں پیدا ہوتا ہے اس کے متعلق پہلے ہی یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ اسے دنیا میں کتنی عمر پانی ہے۔ کسی کی عمر دراز ہوتی ہے تو اللہ کے حکم سے ہوتی ہے، اور چھوٹی ہوتی ہے تو وہ بھی اللہ ہی کے فیصلے کی بنا پر ہوتی ہے۔بعض نادان لوگ اس کے جواب میں یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ پہلے نو زائیدہ بچوں کی موتیں بکثرت واقع ہوتی تھیں اور اب علم طب کی ترقی نے ان اموات کو روک دیا ہے۔ اور پہلے لوگ کم عمر پاتے تھے، اب وسائل علاج بڑھ جانے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ عمریں طویل ہوتی جا رہی ہیں۔ لیکن یہ دلیل قرآن مجید کے اس بیان کی تردید میں صرف اس وقت پیش کی جا سکتی تھی جبکہ کسی ذریعہ سے ہم کو یہ معلوم ہو جاتا کہ اللہ تعالٰی نے تو فلاں شخص کی عمر مثلاً دو سال لکھی تھی اور ہمارے طبی وسائل نے اس میں ایک دن کا اضافہ کر دیا۔ اس طرح کا کوئی علم اگر کسی کے پاس نہیں ہے تو وہ کسی معقول بنیاد پر قرآن کے اس ارشاد کا معارضہ نہیں کر سکتا۔ محض یہ بات کہ اعداد و شمار کی رو سے اب بچوں کی شرح اموات گھٹ گئی ہے، یا پہلے کے مقابلہ میں اب لوگ زیادہ عمر پا رہے ہیں، اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ انسان اب اللہ تعالٰی کے فیصلوں کو بدلنے پر قادر ہو گیا ہے۔ آخر اس میں کیا عقلی استبعاد ہے کہ اللہ تعالٰی نے مختلف زمانوں میں پیدا ہونے والے انسانوں کی عمریں مختلف طور پر فرمائی ہوں، اور یہ بھی اللہ عزوجل ہی کا فیصلہ ہو کہ فلاں زمانے میں انسان کو فلاں امراض کے علاج کی قدرت عطا کی جائے گی اور فلاں دور میں انسان کو بقائے حیات کے فلاں ذرائع بخشے جائیں گے۔ |
2 | عنی انسان کی آفرینش پہلے براہ راست مٹی سے کی گئی، پھر اس کی نسل نطفے سے چلائی گئی |
1 | یہاں سے پھر روئے سخن عوام الناس کی طرف پھرتا ہے |
Surah 37 : Ayat 11
فَٱسْتَفْتِهِمْ أَهُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَم مَّنْ خَلَقْنَآۚ إِنَّا خَلَقْنَـٰهُم مِّن طِينٍ لَّازِبِۭ
اب اِن سے پوچھو، اِن کی پیدائش زیادہ مشکل ہے یا اُن چیزوں کی جو ہم نے پیدا کر رکھی ہیں1؟ اِن کو تو ہم نے لیس دار گارے سے پیدا کیا ہے2
2 | یعنی یہ انسان کوئی بڑی چیز تو نہیں ہے۔ مٹی سے بنایا گیا ہے اور پھر اسی مٹی سے بنایا جا سکتا ہے۔ لیس دار گارے سے انسان کی پیدائش کا مطلب یہ بھی ہے کہ انسان اول کی پیدائش مٹی سے ہوئی تھی اور پھر آگے نسل انسانی اُسی پہلے انسان کے نطفے سے وجود میں آئی۔ اور یہ بھی ہے کہ ہر انسان لیس دار گارے سے بنا ہے۔ اس لیے کہ انسان کا سارا مادّہ وجود زمین ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ جس نطفے سے وہ پیدا ہوا ہے وہ غذا ہی سے بنتا ہے، اور استقرارِ حمل کے وقت سے مرتے دم تک اس کی پوری ہستی جن اجزاء سے مرکب ہوتی ہے وہ سب بھی غذا ہی سے فراہم ہوتے ہیں۔ یہ غذا خواہ حیوانی ہو یا نباتی، آخرکاراس کا ماخذ وہ مٹی ہے جو پانی کے ساتھ مل کر اس قابل ہوتی ہے کہ انسان کی خوراک کے لیے غلے اور ترکاریاں اور پھل نکالے، اور ان حیوانات کو پرورش کرے جن کا دودھ اور گوشت انسان کھاتا ہے۔ پس بنائے استدلال یہ ہے کہ یہ مٹی اگر حیات قبول کرنے کے لائق نہ تھی تو تم آج کیسے زندہ موجود ہو؟ اگر اس میں زندگی پیدا کیے جانے کا آج امکان ہے، جیسا کہ تمہارا موجود ہونا خود اس کے امکان کو صریح طور پر ثابت کر رہا ہے، توکل دوبارہ اسی مٹی سے تمہاری پیدائش کیوں ممکن نہ ہو گی۔ |
1 | یہ کفار مکہ کے اس شبہ کا جواب ہے جو وہ آخرت کے بارے میں پیش کرتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ آخرت ممکن نہیں ہے، کیونکہ مرے ہوئے انسانوں کا دوبارہ پیدا ہونا محال ہے۔ اس کے جواب میں امکانِ آخرت کے دلائل پیش کرتے ہوئے اللہ تعالٰی سب سے پہلے ان کے سامنے یہ سوال رکھتا ہے کہ اگر تمہارے نزدیک مرے ہوئے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنا بڑا سخت کام ہے جس کی قدرت تمہارے خیال میں ہم کو حاصل نہیں ہے تو بتاؤ کہ یہ زمین و آسمان، اور یہ بے شمار اشیاء جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، ان کا پیدا کرنا کوئی آسان کام ہے؟ آخر تمہاری عقل کہاں ماری گئی ہے کہ خدا کے لیے یہ عظیم کائنات پیدا کرنا مشکل نہ تھا، اور جو خود تم کو ایک دفعہ پیدا کر چکا ہے، اس کے متعلق تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہاری دوبارہ تخلیق سے وہ عاجز ہے۔ |
Surah 40 : Ayat 67
هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلاً ثُمَّ لِتَبْلُغُوٓاْ أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُواْ شُيُوخًاۚ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ مِن قَبْلُۖ وَلِتَبْلُغُوٓاْ أَجَلاً مُّسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر وہ تمہیں بچے کی شکل میں نکالتا ہے، پھر تمہیں بڑھاتا ہے تاکہ تم اپنی پوری طاقت کو پہنچ جاؤ، پھر اور بڑھاتا ہے تاکہ تم بڑھاپے کو پہنچو اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے1 یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ تم اپنے مقرر وقت تک پہنچ جاؤ، اور اس لیے کہ تم حقیقت کو سمجھو2
2 | یعنی زندگی کے ان مختلف مراحل سے تم کو اس لیے نہیں گزارا جاتا کہ تم جانوروں کی طرح جیو اور انہی کی طرح مر جاؤ، بلکہ اس لیے گزارا جاتا ہے کہ تم اس عقل سے کام لو جو اللہ نے تمہیں عطا کی ہے اور اس نظام کو سمجھو جس میں خود تمہارے اپنے وجود پر یہ احوال گزرتے ہیں۔ زمین کے بے جان مادوں میں زندگی جیسی عجیب و غریب چیز کا پیدا ہونا، پھر نطفے کے ایک خورد بینی کیڑے سے انسان جیسی حیرت انگیز مخلوق کا سجود میں آنا، پھر ماں کے پیٹ میں استقرار حمل کے وقت سے وضع حمل تک اندر ہی اندر اس کا اس طرح پرورش پانا کہ اس کی جنس، اس کی شکل و صورت، اس کے جسم کی ساخت، اس کے ذہن کی خصوصیات، اور اس کی قوتیں اور صلاحیتیں سب کچھ وہیں متعین ہو جائیں اور ان کی تشکیل پر دنیا کی کوئی طاقت اثر انداز نہ ہو سکے، پھر یہ بات کہ جسی اسقاط حمل کا شکار ہونا ہے اس کا اسقاط ہی ہو کر رہتا ہے، جسے بچپن میں مرنا ہے وہ بچپن ہی میں مرتا ہے خواہ وہ کسی بادشاہ ہی کا بچہ کیوں نہ ہو، اور جسے جوانی یا بڑھاپے کی کسی عمر تک پہنچنا ہے وہ خطرناک سے خطرناک حالات سے گزر کر بھی، جن میں بظاہر موت یقینی ہونی چاہیے، اس عمر کو پہنچ کر رہتا ہے، اور جسے عمر کے جس خاص مرحلے میں مرنا ہے اس میں وہ دنیا کے کسی بہترین ہسپتال کے اندر بہترین ڈاکٹروں کے زیر علاج رہتے ہوۓ بھی مر کر رہتا ہے، یہ ساری باتیں کیا اس حقیقت کی نشاندہی نہیں کر رہی ہیں کہ ہماری اپنی حیات و ممات کا سر رشتہ کسی قادر مطلق کے ہاتھ میں ہے؟ اور جب امر واقعہ یہی ہے کہ ایک قادر مطلق ہماری موت و زیست پر حکمراں ہے تو پھر کوئی نبی یا ولی یا فرشتہ یا ستارہ اور سیارہ آخر کیسے ہماری بندگی و عبادت کا مستحق ہو گیا؟ کسی بندے کو یہ مقام کب سے حاصل ہوا کہ ہم اس سے دعائیں مانگیں اور اپنی قسمت کے بننے اور بگڑنے کا مختار اس کو مان لیں؟ اور کسی انسانی طاقت کا یہ منصب کیسے ہو گیا کہ ہم اس کے قانون اور اس کے امر و نہی اور اس کے خود ساختہ حلال و حرام کی بے چون و چرا اطاعت کریں؟ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد سوم، ص 203۔204) |
1 | وقت مقرر سے مراد یا تو موت کا وقت ہے، یا وہ وقت جب تمام انسانوں کو دوبارہ اٹھ کر اپنے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے پہلی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالٰی ہر انسان کو زندگی کے مختلف مرحلوں سے گزارتا ہوا اس ساعت خاص تک لے جاتا ہے جو اس نے ہر ایک کی واپسی کے لیے مقرر کر رکھی ہے۔ اُس وقت سے پہلے ساری دنیا مل کر بھی کسی کو مارنا چاہے تو نہیں مار سکتی، اور وہ وقت آ جانے کے بعد دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی کسی کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں تو کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ دوسرے معنی لینے کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ یہ ہنگامہ ہستی اس لیے برپا نہیں کیا گیا ہے کہ تم مر کر مٹی میں مل جاؤ اور فنا ہو جاؤ، بلکہ زندگی کے ان مختلف مرحلوں سے اللہ تم کو اس لیے گزارتا ہے کہ تم سب اس وقت پر جو اس نے مقرر کر رکھا ہے، اس کے سامنے حاضر ہو۔ |
Surah 55 : Ayat 14
خَلَقَ ٱلْإِنسَـٰنَ مِن صَلْصَـٰلٍ كَٱلْفَخَّارِ
انسان کو اُس نے ٹھیکری جیسے سوکھے سڑے ہوئے گارے سے بنایا1
1 | تخلیق انسانی کے ابتدائی مراتب جو قرآن مجید میں بیان کیے گیے ہیں ان کی سلسلہ وار ترتیب مختلف مقامات کی تصریحات کو جمع کرنے سے یہ معلوم ہوتی ہے : (1) تراب، یعنی مٹی یا خاک (2) طین، یعنی گارا جو مٹی میں پانی ملا کر بنایا جاتا ہے (3) طینِ لازِب، لیس دار گارا، یعنی وہ گارا جس کے اندر کافی دیر تک پڑے رہنے کے باعث لیس پیدا ہو جاۓ۔(4) حَمَأٍ مَسْنون، وہ گارا جس کے اندر بو پیدا ہو جاۓ (5) صلصال من حمامسنون کالفخار، یعنی وہ سڑا ہوا گارا جو سوکھنے کے بعد پکی ہوئی مٹی کے ٹھیکرے جیسا ہو جاۓ (6) بشر جو مٹی کی اس آخری صورت سے بنایا گیا، جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص روح پھونکی، جس کو فرشتوں سے سجدہ کرایا گیا، اور جس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا گیا۔ (7) ٹُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَآءٍ مَّھِیْنِ۔ پھر آگے اس کی نسل ایک حقیر پانی جیسے ست سے چلائی گئی جس کے لیے دوسرے مقامات پر نطفہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ان مدارج کے لیے قرآن مجید کی حسب ذیل آیات کو ترتیب وار ملاحظہ کیجیے : کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلْقَہٗ مِنْ تُرَابٍ (آل عمران۔59)۔ بَدَأَ خَلْقَ الْاِنْسَانِمِنْ طِیْنٍ۔ (السجدہ۔7)۔ اِنَّا خَلَقْنٰھُمْ مِّنْ طِیْنٍ لَّا زِبٍ (الصافّات۔ 11) چوتھا اور پانچواں مرتبہ آیت زیر تفسیر میں بیان ہو چکا ہے۔ اور اس کے بعد کے مراتب ان آیات زیر تفسیر میں بیان ہو چکا ہے۔ اور اس کے بعد کے مراتب ان آیات میں بیان کیے گۓ ہیں : اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَراً مِّنْ طِیْنٍ o فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سَا جِدِیْنَ (ص۔71۔72 ) خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَ بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالً کَثِیْراً وَّ نِسَآءً (النساء۔ 1) ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَہٗ مِنْ مَآءٍ مَّھِیْنٍ (السجدہ۔8)۔ فَاِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَۃٍ (الحج۔5) |