Ayats Found (14)
Surah 2 : Ayat 35
وَقُلْنَا يَـٰٓـــَٔادَمُ ٱسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ ٱلْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَـٰذِهِ ٱلشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
پھر ہم نے آدمؑ سے کہا کہ 1"تم اور تمہاری بیوی، دونوں جنت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھاؤ، مگر اس درخت کا رُخ نہ کرنا، ورنہ ظالموں میں شمار ہو گے2"
2 | ظالم کا لفظ نہایت معنی خیز ہے۔”ظلم“ دراصل حق تلفی کو کہتے ہیں۔ ظالم وہ ہے جو کسی کا حق تلف کرے۔ جو شخص خدا کی نافرمانی کرتا ہے، وہ درحقیقت تین بڑے بُنیادی حقوق تلف کرتا ہے۔ اوّلاً خدا کا حق، کیونکہ وہ اس کا مستحق ہے کہ اس کی فرماں برداری کی جاءے۔ ثانیاً اُن تمام چیزوں کے حقوق جن کو اس نے اس نافرمانی کے ارتکاب میں استعمال کیا۔ اس کے اعضا ئے جسمانی، اس کے قوائے نفس، اس کے ہم معاشرت انسان، وہ فرشتے جو اس کے ارادے کی تکمیل کا انتظام کرتے ہیں، اور وہ اشیاء جو اس کام میں استعمال ہوتی ہیں، ان سب کا اس پر یہ حق تھا کہ وہ صرف ان کے مالک ہی کی مرضی کے مطابق ان پر اپنے اختیارات استعمال کرے۔ مگر جب اس کی مرضی کے خلاف اس نے ان پر اختیارات استعمال کیے، تو درحقیقت ان پر ظلم کیا۔ ثَا لثًا خود اپنا حق ، کیونکہ اس پر اس کی ذات کا یہ حق ہے کہ وہ اسے تباہی سے بچائے، مگر نافرمانی کر کے جب وہ اپنے آپ کو اللہ کی سزا کا مستحق بناتا ہے ، تو دراصل اپنی ذات پر ظلم کرتا ہے۔ انہی وجُوہ سے قرآن میں جگہ جگہ گناہ کے لیے ظلم اور گناہ گار کے لیے ظالم کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے |
1 | اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین، یعنی اپنی جائے تقرّر پر خلیفہ کی حیثیت سے بھیجے جانے سے پہلے ان دونوں کو امتحان کی غرض سے جنت میں رکھا گیا تھا تاکہ ان کے رُحجانات کی آزمائش ہوجائے۔ اس آزمائش کے لیے ایک درخت کو چُن لیا گیا اور حکم دیا گیا کہ اس کے قریب نہ پھٹکنا، اور اس کا انجام بھی بتا دیا گیا کہ ایسا کرو گے تو ہماری نگاہ میں ظالم قرار پا ؤ گے۔ یہ بحث غیر ضروری ہے کہ وہ درخت کونسا تھا اور اس میں کیا خاص بات تھی کہ اس سے منع کیا گیا۔ منع کرنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ اس درخت کی خاصیّت میں کوئی خرابی تھی اور اس سے آدم و حوّا کو نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا۔ اصل غرض اس بات کی آزمائش تھی کہ یہ شیطان کی ترغیبات کے مقابلے میں کس حد تک حکم کی پیروی پر قائم رہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے کسی ایک چیز کا منتخب کر لینا کافی تھا۔ اسی لیے اسی لیے اللہ نے درخت کے نام اور اس کی خاصیت کا کوئی ذکر نہیں فرمایا۔ اس امتحان کے لیے جنت ہی کا مقام سب سے زیادہ موزوں تھا۔ دراصل اسے امتحان گاہ بنانے کا مقصُود یہ حقیقت انسان کے ذہن نشین کر نا تھا کہ تمہارے لیے تمہارے مرتبہء انسانیت کے لحاظ سے جنت ہی لائق و مناسب مقام ہے ۔ لیکن شیطانی ترغیبات کے مقابلے میں اگر تم اللہ کی فرمانبرداری کے راستے سے منحرف ہو جا ؤ، تو جس طرح ابتدا میں اس سے محرُوم کیے گئے تھے اسی طرح آخر میں بھی محرُوم ہی رہو گے۔ اپنے اِس مقامِ لائق ، اپنی اِس فردو سِ گم گشتہ کی بازیافت تم صرف اسی طرح کر سکتے ہو کہ اپنے اس دُشمن کا کامیابی سے مقابلہ کرو جو تمہیں فرماں برداری کے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے |
Surah 7 : Ayat 19
وَيَـٰٓــَٔـادَمُ ٱسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ ٱلْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَـٰذِهِ ٱلشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
اور اے آدمؑ، تو اور تیری بیوی، دونوں اس جنت میں رہو، جہاں جس چیز کو تمہارا جی چاہے کھاؤ، مگر اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤ گے"
Surah 7 : Ayat 22
فَدَلَّـٰهُمَا بِغُرُورٍۚ فَلَمَّا ذَاقَا ٱلشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْءَٲتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ ٱلْجَنَّةِۖ وَنَادَٮٰهُمَا رَبُّهُمَآ أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا ٱلشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَآ إِنَّ ٱلشَّيْطَـٰنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ
اس طرح دھو کا دے کر وہ ان دونوں کو رفتہ رفتہ اپنے ڈھب پرلے آیا آخرکار جب انہوں نے اس درخت کا مزا چکھا تو ان کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے تب ان کے رب نے انہیں پکارا، " کیا میں نے تمہیں اس درخت سے نہ روکا تھا اور نہ کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟"
Surah 16 : Ayat 10
هُوَ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءًۖ لَّكُم مِّنْهُ شَرَابٌ وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ
وہی ہے جس نے آسمان سے تمہارے لیے پانی برسایا جس سے تم خود بھی سیراب ہوتے ہو اور تمہارے جانوروں کے لیے بھی چارہ پیدا ہوتا ہے
Surah 23 : Ayat 20
وَشَجَرَةً تَخْرُجُ مِن طُورِ سَيْنَآءَ تَنۢبُتُ بِٱلدُّهْنِ وَصِبْغٍ لِّلْأَكِلِينَ
اور وہ درخت بھی ہم نے پیدا کیا جو طور سیناء سے نکلتا ہے1، تیل بھی لیے ہوئے اگتا ہے اور کھانے والوں کے لیے سالن بھی
1 | مراد زیتون، جو بحر روم کے گرد و پیش کے علاقے کی پیداوار میں سب سے زیادہ اہم چیز ہے۔ اس کا درخت ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو ہزار برس تک چلتا ہے ، حتّیٰ کہ فلسطین کے بعض درختوں کا قد و قامت اور پھیلاؤ دیکھ کر اندازہ کیا گیا ہے کہ وہ حضرت عیسیٰؑ کے زمانے سے اب تک چلے آ رہے ہیں۔ طور سیناء کی طرف اس کو منسوب کرنے کی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہی علاقہ جس کا مشہور ترین اور نمایاں ترین مقام طور سیناء ہے ، اس درخت کا وطن اصلی ہے |
Surah 24 : Ayat 35
۞ ٱللَّهُ نُورُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۚ مَثَلُ نُورِهِۦ كَمِشْكَوٲةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌۖ ٱلْمِصْبَاحُ فِى زُجَاجَةٍۖ ٱلزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّىٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَـٰرَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِىٓءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌۚ نُّورٌ عَلَىٰ نُورٍۗ يَهْدِى ٱللَّهُ لِنُورِهِۦ مَن يَشَآءُۚ وَيَضْرِبُ ٱللَّهُ ٱلْأَمْثَـٰلَ لِلنَّاسِۗ وَٱللَّهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌ
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے1 (کائنات میں) اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو، چراغ ایک فانوس میں ہو، فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا، اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت2 کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو شرقی ہو نہ غربی3، جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے، (اِس طرح) روشنی پر روشنی (بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہو گئے ہوں)4 اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی فرماتا ہے5، وہ لوگوں کو مثالوں سے بات سمجھاتا ہے، وہ ہر چیز سے خوب واقف ہے6
6 | اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ وہ جانتا ہے کس حقیقت کو کس مثال سے بہترین طریقہ پر سمجھایا جا سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ جانتا ہے کون اس نعمت کا مستحق ہے اور کون نہیں ہے۔ جو شخص نور حق کا طالب ہی نہ ہو اور ہمہ تن اپنی دنیوی اغراض ہی میں گم اور مادی لذتوں اور منفعتوں ہی کی جستجو میں منہمک ہو ، اسے زبردستی نور حق دکھانے کی اللہ کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس عطیے کا مستحق تو وہی ہے جسے اللہ جانتا ہے کہ وہ اس کا طالب اور مخلص طالب ہے |
5 | یعنی اگرچہ اللہ کا یہ نور مطلق سارے جہان کو منور کر رہا ہے ، مگر اس کا ادراک ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا۔ اس کے ادراک کی توفیق، اور اس کے فیض سے مستفیض ہونے کی نعمت اللہ ہی جس کو چاہتا ہے بخشتا ہے۔ ورنہ جس طرح اندھے کے لیے دن اور رات برابر ہیں ، اسی طرح بے بصیرت انسان کے لیے بجلی اور سورج اور چاند اور تاروں کی روشنی تو روشنی ہے مگر اللہ کا نور اس کو سجھائی نہیں دیتا۔ اس پہلو سے اس بد نصیب کے لیے کائنات میں ہر طرف تاریکی ہی تاریکی ہے۔ آنکھوں کا اندھا اپنے پاس کی چیز نہیں دیکھ سکتا، یہاں تک کہ جب اس سے ٹکرا کر چوٹ کھاتا ہے تب اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ چیز یہاں موجود تھی۔ اسی طرح بصیرت کا اندھا ان حقیقتوں کو بھی نہیں دیکھ سکتا جو عین اس کے پہلو میں اللہ کے نور سے جگمگا رہی ہوں۔ اسے ان کا پتہ صرف اس وقت چلتا ہے جب وہ ان سے ٹکرا کر اپنی شامت میں گرفتار ہو چکا ہوتا ہے |
4 | اس تمثیل میں چراغ سے اللہ تعالیٰ کی ذات کو اور طاق سے کائنات کو تشبیہ دی گئی ہے ، اور فانوس سے مراد وہ پردہ ہے جس میں حضرت حق نے اپنے آپ کو نگاہ خلق سے چھپا رکھا ہے۔ گویا یہ پردہ فی الحقیقت خِفا کا نہیں ، شدت ظہور کا پردہ ہے۔ نگاہ خلق جو اس کو دیکھنے سے عاجز ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ درمیان میں تاریکی حائل ہے ، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ درمیان کا پردہ شفاف ہے اور اس شفاف پردے سے گزر کر آنے والا نور ایسا شدید اور بسیط اور محیط ہے کہ محدود طاقت رکھنے والی بینائیاں اس کا ادراک کرنے سے عاجز رہ گئی ہیں ، یہ کمزور بینائیاں صرف ان محدود روشنیوں کا ادراک کر سکتی ہیں جن کے نادر کمی و بیشی ہوتی رہتی ہے ، جو کبھی زائل ہوتی ہیں اور کبھی پیدا ہو جاتی ہیں ،جن کے مقابلے میں کوئی تاریکی موجود ہوتی ہے اور اپنی ضد کے سامنے آ کر وہ نمایاں ہوتی ہیں۔ لیکن نور مطلق جس کا کوئی مد مقابل نہیں ، جو کبھی زائل نہیں ہوتا، جو سدا ایک ہی شان سے ہر طرف چھایا رہتا ہے ، اس کا ادراک ان کے بس سے باہر ہے۔ رہا یہ مضمون کہ ’’ چراغ ایک ایسے درخت زیتون کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی ‘‘، تو یہ صرف چراغ کی روشنی کے کمال اور اس کی شدت کا تصور دلانے کے لیے ہے۔ قدیم زمانے میں زیادہ سے زیادہ روشنی روغن زیتوں کے چراغوں سے حاصل کی جاتی تھی ، اور ان میں روشن ترین چراغ وہ ہوتا تھا جو بلند اور کھلی جگہ کے درخت سے نکالے ہوۓ تیل کا ہو۔ تمثیل میں اس مضمون کا مدعا یہ نہیں ہے کہ اللہ کی ذات ، جسے چراغ سے تشبیہ دی گئی ہے ، کسی اور چیز سے طاقت (Energy) حاصل کر رہی ہے ، بلکہ مقصود یہ کہنا ہے کہ مثال میں معمولی چراغ نہیں بلکہ اس روشن ترین چراغ کا تصور کرو جو تمہارے مشاہدے میں آتا ہے۔ جس طرح ایسا چراغ سارے مکان کو جگمگا دیتا ہے اسی طرح اللہ کی ذات نے ساری کائنات کو بقعۂ نور بنا رکھا ہے۔ اور یہ جو فرمایا کہ ’’ اس کا تیل آپ سے آپ بھڑکا پڑتا ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے ‘‘، اس سے بھی چراغ کی روشنی کے زیادہ سے زیادہ تیز ہونے کا تصور دلانا مقصود ہے۔ یعنی مثال میں اس انتہائی تیز روشنی کے چراغ کا تصور کرو جس میں ایسا لطیف اور ایسا سخت اشتعال پذیر تیل پڑا ہوا ہو۔ یہ تینوں چیزیں ، یعنی زیتون، اور اس کا غیر شرقی و غربی ہونا، اور اسکے تیل کا آگ لگے بغیر ہی آپ سے آپ بھڑکا پڑنا، مستقل اجزاۓ تمثیل نہیں ہیں بلکہ پہلے جزء تمثیل یعنی چراغ کے ضمنی متعلقات ہیں اصل اجزاۓ تمثیل تین ہیں ، چراغ ، طاق، اور فانوسِ شفاف۔ آیت کا یہ فقرہ بھی لائق توجہ ہے کہ ’’ اس کے نور کی مثال ایسی ہے ‘‘۔ اس سے وہ غلط فہمی رفع ہو جاتی ہے جو ’’ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے ‘‘ کے الفاظ سے کسی کو ہو سکتی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کو ’’ نور‘‘ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ اس کی حقیقت ہی بس ’’نور ‘‘ ہونا ہے۔ حقیقت میں تو وہ ایک ذات کامل و اکمل ہے جو صاحب علم، صاحب قدرت، صاحب حکمت وغیرہ ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب نور بھی ہے۔ لیکن خود اس کو نور محض اس کے کمال نورانیت کی وجہ سے کہا گیا ہے جیسے کسی کے کمال فیاضی کا حال بیان کرنے کے لیے اس کو خود فیض کہہ دیا جاۓ ، یا اس کے کمال خوبصورتی کا وصف بیان کرنے کے لیے خود اسی کو حسن کے لفظ سے تعبیر کر دیا جاۓ |
3 | یعنی جو کھلے میدان میں یا اونچی جگہ واقع ہو ، جہاں صبح سے شام تک اس پر دھوپ پڑتی ہو۔ کسی آڑ میں نہ ہو کہ اس پر صرف صبح کی یا صرف شام کی دھوپ پڑے۔ زیتون کے ایسے درخت کا تیل زیادہ لطیف ہوتا ہے اور زیادہ تیز روشنی دیتا ہے۔ محض شرقی یا محض غربی رخ کے درخت نسبۃً غلیظ تیل دیتے ہیں اور چراغ میں ان کی روشنی ہلکی رہتی ہے |
2 | مبارک، یعنی کثیر المنافع، بہت سے فائدوں کا حامل |
1 | آسمانوں اور زمین کا لفظ قرآن مجید میں بالعموم ’’ کائنات ‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ لہٰذا دوسرے الفاظ میں آیت کا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ ساری کائنات کا نور ہے۔ نور سے مراد وہ چیز ہے جس کی بدولت اشیاء کا ظہور ہوتا ہے ، یعنی جو آپ سے آپ ظاہر ہو اور دوسری چیزوں کو ظاہر کرے۔ انسان کے ذہن میں نور اور روشنی کا اصل مفہوم یہی ہے۔ کچھ نہ سوجھنے کی کیفیت کا نام انسان نے اندھیرا اور تاریکی اور ظلمت رکھا ہے ، اور اس کے برعکس جب سب کچھ سمجھائی دینے لگے اور ہر چیز ظاہر ہو جاۓ تو آدمی کہتا ہے کہ روشنی ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ ’’نور‘‘ کا استعمال اسی بنیادی مفہوم کے لحاظ سے کیا گیا ہے ، نہ اس معنی میں کہ معاذ اللہ وہ کوئی شعاع ہے جو ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلتی ہے اور ہماری آنکھ کے پردے پر پڑ کر دماغ کے مرکز بینائی کو متاثر کرتی ہے۔ روشنی کی یہ مخصوص کیفیت اس معنی کی حقیقت میں شامل نہیں ہے جس کے لیے انسانی ذہن نے یہ لفظ اختراع کیا ہے ، بلکہ اس پر اس لفظ کا اطلاق ہم ان روشنیوں کے لحاظ سے کرتے ہیں جواس مادی دنیا کے اندر ہمارے تجربے میں آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے لیے انسانی زبان کے جتنے الفاظ بھی بولے جاتے ہیں وہ اپنے اصل بنیادی مفہوم کے اعتبار سے بولے جاتے ہیں نہ کہ ان کے مادی مدلولات کے اعتبار سے۔ مثلاً ہم اس کے لیے دیکھنے کا لفظ بولتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ انسان اور حیوان کی طرح آنکھ نامی ایک عضو کے ذریعہ سے دیکھتا ہے۔ ہم اس کے لیے سننے کا لفظ بولتے ہیں۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہو ہماری طرح کانوں کے ذریعہ سے سنتا ہے۔ اس کے لیے ہم پکڑ اور گرفت کے الفاظ بولتے ہیں۔ یہ اس معنی میں نہیں ہے کہ ہو ہاتھ ناک کے ایک آلہ سے پکڑتا ہے۔ یہ سب الفاظ اس کے لیے ہمیشہ ایک اطلاقی شان میں بولے جاتے ہیں اور صرف ایک کم عقل آدمی ہی اس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ سماعت اور بینائی اور گرفت کی کوئی دوسری صورت اس محدود اور مخصوص قسم کی سماعت و بینائی اور گرفت کے سوا ہونی غیر ممکن ہے جو ہمارے تجربے میں آتی ہے۔ اسی طرح ’’نور‘‘ کے متعلق بھی یہ خیال کرنا محض ایک تنگ خیالی ہے کہ اس کے معنی کا مصداق صرف اس شعاع ہی کی صورت میں پایا جا سکتا ہے جو کسی چمکنے والے جِرم سے نکل کر آنکھ کے پردے پر منعکس ہو۔ اللہ تعالیٰ اس کا مصداق اس محدود معنی میں نہیں ہے بلکہ مطلق معنی میں ہے ، یعنی اس کائنات میں وہی ایک اصل ’’سبب ظہور‘‘ ہے ، باقی یہ ان تاریکی اور ظلمت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دوسری روشنی دینے والی چیزیں بھی اسی کی بخشی ہوئی روشنی سے روشن اور روشن گر ہیں ، ورنہ ان کے پاس اپنا کچھ نہیں جس سے وہ یہ کرشمہ دکھا سکیں۔ نور کا لفظ علم کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ، اور اس کے برعکس جہل کو تاریکی اور ظلمت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس معنی میں بھی کائنات کا نور ہے کہ یہاں حقائق کا علم اور راہ راست کا علم اگر مل سکتا ہے تو اسی سے مل سکتا ہے۔ اس سے فیض حاصل کیے بغیر جہالت کی تاریکی اور نتیجۃً ضلالت و گمراہی کے سوا اور کچھ ممکن نہیں ہے |
Surah 27 : Ayat 60
أَمَّنْ خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَنۢبَتْنَا بِهِۦ حَدَآئِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَّا كَانَ لَكُمْ أَن تُنۢبِتُواْ شَجَرَهَآۗ أَءِلَـٰهٌ مَّعَ ٱللَّهِۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ
بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعہ سے وہ خوشنما باغ اگائے جن کے درختوں کا اگانا تمہارے بس میں نہ تھا؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا خدا بھی (اِن کاموں میں شریک) ہے؟1 (نہیں)، بلکہ یہی لوگ راہِ راست سے ہٹ کر چلے جا رہے ہیں
1 | مشرکوں میں سے کوئی بھی اس سوال کایہ جواب نہ دےسکتا تھا کہ یہ کام اللہ کے سوا کسی اورکے ہیں، یا اللہ کےساتھ کوئی اوربھی ان میں شریک ہے۔ قرآن مجید دوسرے مقامات پرکفارمکہ اورمشرکین عرب کے متعلق کہتا ہے:والین سالتھم من خلق السموت والارض لیقولن خلقھن العزیز العلیم، ’’ اگر تم ان سے پوچھو کہ کس نے آسمانوں اورزمین کو پیدا کیا ہے تو وہ ضرورکہیں گے اُس زبردست، علم والے نے ہی ان کو پیدا کیا ہے‘‘ (الزخرف آیت ۹) ولئن سالتھم من خلقھم لیقلن اللہ، ’’اور اگر ان سے پوچھو کہ خود انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے‘‘(الزخرف آیت۸۷)ولئن سالتھم من نزل من السماء ماء فاحیابھ الارض بعد موتھا لیقولن اللہ،’’اوراگر ان سے پو چھو کہ کس نے آسمان سے پانی برسایا اورمردہ پڑی زمین کو جلااُٹھایا تووہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے‘‘(العنکبوت۔آیت ۶۳)۔ قل من یرزقکم من اسماء والارض۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ومن یدبرالامر فسیقولون اللہ، ’’ان سے پوچھو کون تم کو آسمان اورزمین مین رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اوربینائی کی قوتیں کس کے میں ہیں؟ کون جاندار کو بےجان میں سے اوربےجان کو جاندار میں سے نکالتا ہے؟ کون اس نظام عالم کی تدبیر کررہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ ــ (یونس۔آیت ۳۱)۔ عرب کے مشرکین ہی نہیں، دنیا بھرکے مشرکین بلعموم یہی مانتےتھے اورآج بھی مانتے ہیں کہ کائنات کاخالق اورنظام کائنات کا مدبر اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس لیے قرآن مجید کے اس سوال کا یہ جواب ان میں سے کوئی شخص ہٹ دھرمی کی بنا پربرائےبحث نہ دے سکتا تھا کہ ہمارے معبود خدا کے ساتھ ان کاموں میں شریک ہیں، کیونکہ اگر وہ ایسا کہتا تو اس کی اپنی قوم کے ہزار ہا آدمی اس کو جھٹلادیتے اورصاف کہتے کہ ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے۔ اس سوال اوراس کے بعد کے سوالات میں صرف مشرکین ہی کے شرک کا ابطال نہیں ہے بلکہ دہریوں کی دہریت کا ابطال بھی ہے۔ مثلا اسی پہلے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ یہ بارش برسانے والا اوراس کے زریعہ سے ہرطرح کی نباتات اُگانے والا کون ہے؟ اب غور کیجئے، زمین میں اُس مواد کا ٹھیک سطح پریا سطح سے متصل موجود ہونا جوبےشمار مختلف اقسام کی نباتی زندگی کےلیے درکار ہے، اورپانی کے اند ٹھیک وہ اوصاف موجود ہونا جو حیوانی اورنباتی زندگی کی ضروریات کے مطابق ہیں، اوراس پانی کا پےدرپےسمندروں سے اُٹھایا اورزمین کے مختلف حصوں میں وقتافوقت ایک باقاعدگی کے ساتھ برسایا جانا، اور زمین ہوا، پانی اوردرجہ حرارت وغیرہ مختلف قوتوں کےدرمیان ایسا متناسب تعاون قائم کرنا کہ اس سے نباتی زندگی کو نشوونما نصیب ہو اور وہ ہرطرح کی حیوانی زندگی کےلیے اس کی بے شمار ضروریات پوری کرے، کیا یہ سب کچھ ایک حکیم کی منصوبہ بندی اوردانشمندانہ تدبیراورغالب قدرت واراداہ کے بغیر خود بخود اتفاقاََ ہوسکتا ہے؟ اورکیا یہ ممکن ہے کہ یہ اتفاقی حادثہ مسلسل ہزار برس بلکہ لاکھوں کروڑوں برس تک اسی باقاعدگی سے رونما ہوتا چلاجائے؟ صرف ایک ہٹ دھرم آدمی ہی، جو تعصب میں اندھا ہوچکا ہو، اسے ایک امراتفاقی کہہ سکتا ہے۔ کسی راستی پسند عاقل انسان کےلیے ایسا لغو دعویٰ کرنا اورماننا ممکن نہیں ہے۔ |
Surah 36 : Ayat 80
ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُم مِّنَ ٱلشَّجَرِ ٱلْأَخْضَرِ نَارًا فَإِذَآ أَنتُم مِّنْهُ تُوقِدُونَ
وہی جس نے تمہارے لیے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کر دی اور تم اس سے اپنے چولہے روشن کرتے ہو1
1 | یا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ہرے بھرے درختوں میں وہ آتش گیر مادہ رکھا ہے جس کی بدولت تم لکڑیوں سے آگ جلاتے ہو۔یا پھر یہ اشارہ ہے مرْخ اور عَفَار نامی ان دو درختوں کی طرف جن کی ہری بھری ٹہنیوں کو لے کر اہل عرب ایک دوسرے پر مارتے تھے تو ان سے آگ جھڑنے لگتی تھی۔قدیم زمانہ میں عرب کے بدّو آگ جلانے کے لیے یہی چقماق استعمال کیا کرتے تھے اور ممکن ہے آج بھی کرتے ہوں۔ |
Surah 37 : Ayat 62
أَذَٲلِكَ خَيْرٌ نُّزُلاً أَمْ شَجَرَةُ ٱلزَّقُّومِ
بولو، یہ ضیافت اچھی ہے یا زقوم کا درخت1؟
1 | زَقّوم ایک قسم کا درخت ہے جو تہامہ کے علاقے میں ہوتا ہے۔مزہ اس کا تلخ ہوتا ہے،بو ناگوار ہوتی ہے،اور توڑنے پر اس میں سے دودھ کا سارس نکلتا ہے جو اگر جسم کو لگ جائے تو ورم ہو جاتا ہے۔ غالباً یہ وہی چیز ہے جسے ہمارے ملک میں تھوہر کہتے ہیں۔ |
Surah 37 : Ayat 146
وَأَنۢبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِّن يَقْطِينٍ
اور اُس پر ایک بیل دار درخت اگا دیا1
1 | اصل الفاظ ہیں شَجَرَۃً مِّنْ یَّقْطِیْن۔ یقطین عربی زبان میں ایسے درخت کو کہتے ہیں جو کسی تنے پر کھڑا نہیں ہوتا بلکہ بیل کی شکل میں پھیلتا ہے، جیسے،کدو، تربوز، ککڑی وغیرہ بہرحال وہاں کوئی ایسی بیل معجزانہ طریقہ پر پیدا کر دی گئی تھی جس کے پتے حضرت یونس پر سایہ بھی کریں اور جس کے پھل ان کے لیے بیک وقت غذا کا کام بھی دیں اور پانی کا کام بھی۔ |