Ayats Found (1)
Surah 76 : Ayat 1
هَلْ أَتَىٰ عَلَى ٱلْإِنسَـٰنِ حِينٌ مِّنَ ٱلدَّهْرِ لَمْ يَكُن شَيْــًٔا مَّذْكُورًا
کیا انسان پر لا متناہی زمانے کا ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا1؟
1 | پہلا فقرہ ہے ھل اتی علی الانسان۔ اکثر مفسرین و مترجمین نے یہاں ھل کو قد کے معنی میں لیا ہے۔ اور وہ اس کے معنی یہ لیتے ہیں کہ بے شک یا بلا شبہ انسان پر ایسا ایک وقت آیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ لفظ ھل عربی زبان میں ’’کیا‘‘ کے معنی ہی میں استعمال ہوتا ہے، اور اس سے مقصود ہر حال میں سوال ہی نہیں ہوتا بلکہ مختلف مواقع پر یہ بظاہر سوالیہ لفظ مختلف معنوں میں بولا جاتا ہے۔ مثلاً کبھی تو ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ فلاں واقعہ پیش آیا ہے یا نہیں اورکسی سے پوچھتے ہیں ’’کیا یہ واقعہ پیش آیا ہے؟‘‘ کبھی ہمارا مقصود سوال کرنا نہیں ہوتا بلکہ کسی بات کا انکار کرنا ہوتا ہے اور یہ انکار ہم اس انداز میں کرتے ہیں کہ ’’کیا یہ کام کوئی اور بھی کرسکتا ہے؟‘‘ کبھی ہم ایک شخص سے کسی بات کا اقرارکرانا چاہتے ہیں اوراس غرض کے لیے اس سے پوچھتے ہیں کہ ’’کیا میں نے تمہاری رقم ادا کر دی ہے؟‘‘ اورکبھی ہمارا مقصود محض اقرار ہی کرانا نہیں ہوتا بلکہ سوال ہم اس غرض کے لیے کرتے ہیں کہ مخاطب کے ذہن کو ایک اور بات سوچنے پر مجبور کر دیں جولازماً اس کے اقرار سے بطور نتیجہ پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً ہم کسی سے پوچھتے ہیں’’کیا میں نے تمہارے ساتھ کوئی برائی کی ہے؟‘‘ اس سے مقصود صرف یہی نہیں ہوتا کہ وہ اس بات کا اقرار کرے کہ آپ نے اس کے ساتھ کوئی برائی نہیں کی ہے، بلکہ اسے یہ سوچنے پر مجبور کرنا بھی مقصود ہوتا ہے کہ جس نے میریے ساتھ کوئی برائی نہیں کی ہے اس کے ساتھ میں برائی کرنے میں کہاں تک حق بجانب ہوں۔آیت زیر بحث میں سوالیہ فقرہ دراصل اسی آخری معنی میں ارشاد ہوا ہے۔ اس سے مقصود انسان سے صرف یہی اقرارکرانا نہیں ہےکہ فی الواقع اس پر ایک وقت ایسا گزرا ہے، بلکہ اسے یہ سوچنے پر مجبور کرنا بھی ہے کہ جس خدا نے اس کی تخلیق کا آغاز ایسی حقیر سی حالت سے کر کے اسے پورا انسان بنا کھڑا کیا وہ آخر اسے دوبارہ پیدا کرنے سے کیوں عاجز ہو گا؟ دوسرا فقرہ ہے حین من الدھر۔ دھر سے مراد وہ لامتناہی زمانہ ہے جس کی نہ ابتدا انسان کو معلوم ہے نہ انتہا، اور حین سے مراد وہ خاص وقت ہے جو اس لا متناہی زمانے کے اندر کبھی پیش آیا ہو۔ کلام کا مدعا یہ ہے کہ اس لا متناہی زمانے کے اندر ایک طویل مدت تو ایسی گزری ہے جب سرے سے نوعِ انسانی ہی موجود نہ تھی۔ پھر اس میں ایک وقت ایسا آیا جب انسان نام کی ایک نوع کا آغاز کیا گیا۔ اور اسی زمانے کے اندر ہرشخص پرایک ایسا وقت آیا ہے جب اسےعدم سے وجود میں لانے کی ابتدا کی گئی۔ تیسرا فقرہ ہے لم یکن شیئا مذکوراً، یعنی اس وقت وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔اس کا ایک حصہ بات کے نطفے میں ایک خوردبینی کیڑے کی شکل میں اوردوسرا حصہ ماں کے نطفے میں ایک خوردبینی بیضے کی شکل میں موجود تھا۔ مدتہائے دراز تک تو انسان یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ دراصل وہ اس کیڑے اور بیضے کے ملنے سے وجود میں آتا ہے۔ اب طاقت ور خورد بینوں سے ان دونوں کو دیکھ تو لیا گیا ہے لیکن اب بھی کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ کتنا انسان باپ کے اس کیڑے میں اور کتنا ماں کے اس بیضے میں موجود ہوتاہے۔ پھر استقرار حمل کے وقت ان دونوں کے ملنے سے جو ابتدائی خلیہ (Cell) وجود میں آتاہے وہ ایک ایسا ذرہ بے مقدار ہوتا ہے کہ بہت طاقت ور خوردبین ہی سے نظرآ سکتا ہے کہ اس حقیر سی ابتداء سے نشو نما پا کر کوئی انسان اگر بنے گا بھی تو وہ کس قد و قامت، کس شکل و صورت، کس قابلیت اور شخصیت کا انسان ہو گا۔ یہی مطلب ہے اس ارشاد کا کہ اس وقت وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا اگرچہ انسان ہونے کی حیثیت سے اس کے و جود کا آغاز ہو گیا تھا |