Ayats Found (2)
Surah 6 : Ayat 108
وَلَا تَسُبُّواْ ٱلَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ فَيَسُبُّواْ ٱللَّهَ عَدْوَۢا بِغَيْرِ عِلْمٍۗ كَذَٲلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
اور (اے ایمان لانے والو!) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں ہم نے اسی طرح ہر گروہ کے لیے اس کے عمل کو خوشنما بنا دیا ہے1 پھر انہیں اپنے رب ہی کی طرف پلٹ کر آنا ہے، اُس وقت وہ اُنہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں
1 | یہا ں پھر اُس حقیقت کے ملحوظ رکھنا چاہیے جس کی طرف اس سے پہلے بھی ہم اپنے حواشی میں اشارہ کر چکے ہیں کہ جو اُمُور قوانین ِ فطرت کے تحت رُونما ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ انھیں اپنا فعل قرار دیتا ہے ، کیونکہ وہی ان قوانین کا مقرر کرنے والا ہے اور جو کچھ ان قوانین کے تحت رُونما ہوتا ہے وہ اسی کے امر سے رُونما ہوتا ہے۔ جس بات کو اللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتا ہے کہ ہم نے ایسا کیا ہے اسی کو اگر ہم انسان بیان کریں تو اس طرح کہیں گے کہ فطرۃً ایسا ہی ہوا کرتا ہے |
Surah 3 : Ayat 64
قُلْ يَـٰٓأَهْلَ ٱلْكِتَـٰبِ تَعَالَوْاْ إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَآءِۭ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا ٱللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِۦ شَيْــًٔا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ ٱللَّهِۚ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَقُولُواْ ٱشْهَدُواْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ
کہو1، "اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے 2یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے" اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں
2 | یعنی ایک ایسے عقیدے پر ہم سے اتفاق کر لو جس پر ہم بھی ایمان لائے ہیں اور جس کے صحیح ہونے سے تم بھی انکار نہیں کر سکتے۔ تمہارے اپنے انبیا سے یہی عقیدہ منقول ہے۔ تمہاری اپنی کتب مقدسہ میں اس کی تعلیم موجود ہے |
1 | یہاں سے ایک تیسری تقریر شروع ہوتی ہے جس کے مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنگِ بدر اور جنگِ اُحد کے درمیانی دَور کی ہے۔ لیکن ان تینوں تقریروں کے درمیان مطالب کی ایسی قریبی مناسبت پائی جاتی ہے کہ شروع سُورت سے لے کر یہاں تک کسی جگہ ربطِ کلام ٹوٹتا نظر نہیں آتا۔ اسی بنا پر بعض مفسّرین کو شبہہ ہوا ہے کہ یہ بعد کی آیات بھی وفدِ نجران والی تقریر ہی کے سلسلہ کی ہیں۔ مگر یہاں سے جو تقریر شروع ہو رہی ہے اس کا اندازہ صاف بتا رہا ہے کہ اس کے مخاطب یہُودی ہیں |