Ayats Found (18)
Surah 2 : Ayat 61
وَإِذْ قُلْتُمْ يَـٰمُوسَىٰ لَن نَّصْبِرَ عَلَىٰ طَعَامٍ وَٲحِدٍ فَٱدْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنۢبِتُ ٱلْأَرْضُ مِنۢ بَقْلِهَا وَقِثَّآئِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَاۖ قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ ٱلَّذِى هُوَ أَدْنَىٰ بِٱلَّذِى هُوَ خَيْرٌۚ ٱهْبِطُواْ مِصْرًا فَإِنَّ لَكُم مَّا سَأَلْتُمْۗ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ ٱلذِّلَّةُ وَٱلْمَسْكَنَةُ وَبَآءُو بِغَضَبٍ مِّنَ ٱللَّهِۗ ذَٲلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُواْ يَكْفُرُونَ بِـَٔـايَـٰتِ ٱللَّهِ وَيَقْتُلُونَ ٱلنَّبِيِّــۧنَ بِغَيْرِ ٱلْحَقِّۗ ذَٲلِكَ بِمَا عَصَواْ وَّكَانُواْ يَعْتَدُونَ
یاد کرو، جب تم نے کہا تھا کہ، 1"اے موسیٰؑ، ہم ایک ہی طرح کے کھانے پر صبر نہیں کرسکتے اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار ساگ، ترکاری، کھیرا، ککڑی، گیہوں، لہسن، پیاز، دال وغیرہ پیدا کرے" تو موسیٰؑ نے کہا: "کیا ایک بہتر چیز کے بجائے تم ادنیٰ درجے کی چیزیں لینا چاہتے ہو؟ اچھا، کسی شہری آبادی میں جا رہو جو کچھ تم مانگتے ہو، وہاں مل جائے گا2" آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلت و خواری اور پستی و بد حالی اُن پر مسلط ہو گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے یہ نتیجہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے3 یہ نتیجہ تھا ان کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ وہ حدود شرع سے نکل نکل جاتے تھے
3 | بنی اسرائیل نے اپنے اِس جُرم کو اپنی تاریخ میں خود تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر ہم بائیبل سے چند واقعات یہاں نقل کرتے ہیں: (۱) حضرت سلیمان ؑ کے بعد جب بنی اسرائیل کی سلطنت تقسیم ہو کر دو ریاستوں (یروشلم کی دولت یہودیہ اور سامریہ کی دولت اسرائیل ) میں بٹ گئی تو ان میں باہم لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہوا اور نوبت یہاں تک آئی کہ یہودیہ کی ریاست نے اپنی ہی بھائیوں کے خلاف دمشق کی ارامی سلطنت سے مدد مانگی۔ اس پر خدا کے حکم سے حنانی نبی نے یہودیہ کے فرمانروا آسا کو سخت تنبیہ کی۔ مگر آسا نے اس تنبیہ کو قبول کرنے کے بجائے خدا کے پیغبر کو جیل بھیج دیا( ۲- تواریخ، باب ۱۷- آیت ۱۰-۷) (۲) حضرت الیاس (ایلیاہ Elliah ) علیہ السّلام نے جب بَعْل کی پرستش پر یہودیوں کو ملامت کی اور ازسرِ نَو توحید کی دعوت کا صُور پُھونکنا شروع کیا تو سامریہ کا اسرائیلی بادشاہ اخی اب اپنی مشرک بیوی کی خاطر ہاتھ دھو کر ان کی جان کے پیچھے پڑگیا، حتّٰی کہ انہیں جزیرہ نمائے سینا کے پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی۔ اس موقع پر جو دُعا حضرت الیاس ؑ نے مانگی ہے ، اس کے الفاظ یہ ہیں: ”بنی اسرائیل نے تیرے عہد کو ترک کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیرے نبیوں کو تلوار سے قتل کیا اور ایک میں ہی اکیلا بچا ہوں ، سو وہ میری جان لینے کے درپے ہیں۔“(۱-سلاطین – باب ۱۹-آیت ۱۰-۱) (۳) ایک اور نبی حضرت میکا یا ہ کو اسی اخی اب نے حق گوئی سے جُرم میں جیل بھیجا اور حکم دیا کہ اس شخص کو مصیبت کی روٹی کھلانا اور مصیبت کا پانی پلانا۔ (۱-سلاطین-باب ۲۲-آیت۲۷-۲۶) (۴) پھر جب یہُودیہ کی ریاست میں علانیہ بُت پرستی اور بدکاری ہونے لگی اور زکریا ہ نبی نے اس کے خلاف آواز بلند کی، تو شاہ یہُوداہ یو آس کے حکم سے انہیں عین ہیکل ِ سلیمانی میں ”مَقْدِس“ اور ”قربان گاہ“ کے درمیان سنگسار کر دیا گیا(۲- تواریخ، باب ۲۴-آیت ۲۱) (۵) اس کے بعد جب سامریہ کی اسرائیلی ریاست اَشُوریُوں کے ہاتھوں ختم ہو چکی اور یروشلم کی یہودی ریاست کے سر پر تباہی کا طوفان تُلا کھڑا تھا ، تو ”یرمیاہ“ نبی اپنی قوم کے زوال پر ماتم کرنے اُٹھے اور کوچے کوچے انہوں نے پکارنا شروع کیا کہ سنبھل جا ؤ ، ورنہ تمہارا انجام سامریہ سے بھی بدتر ہوگا۔ مگر قوم کی طرف سے جو جواب مِلا وہ یہ تھا کہ ہر طرف سے ان پر لعنت اور پھٹکار کی بارش ہوئی ، پیٹے گئے، قید کیے گئے، رسّی سے باندھ کر کیچڑ بھرے حوض میں لٹکا دیے گئے تاکہ بھُوک اور پیاس سے وہیں سُوکھ سُوکھ کر مر جائیں اور ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ قوم کے غدّار ہیں ، بیرونی دشمنوں سے ملے ہوئے ہیں۔ (یرمیاہ،باب۱۵، آیت ۱۰- باب ۱۸، آیت ۲۳-۲۰- باب ۲۰، آیت ۱۸-۱- باب ۳۶ تا باب ۴۰) (۶) ایک اور نبی حضرت عاموس کے متعلق لکھا ہے کہ جب انہوں نے سامریہ کی اسرائیلی ریاست کو اس کی گمراہیوں اور بدکاریوں پر ٹوکا اور ان حرکات کے بُرے انجام سے خبردار کیا تو انہیں نوٹس دیا گیا کہ ملک سے نکل جا ؤ اور باہر جا کر نبوت کرو(عاموس ، باب ۷- آیت ۱۳-۱۰) (۷) حضرت یحیٰی (یُوحنا) علیہ السّلام نے جب ان بد اخلاقیوں کے خلاف آواز اُٹھائی جو یہودیہ کے فرمانروا ہیر و دیس کے دربار میں کھُلم کھُلا ہو رہی تھیں ، تو پہلے وہ قید کیے گئے، پھر بادشاہ نے اپنی معشوقہ کی فرمائش پر قوم کے اس صالح ترین آدمی کا سر قلم کر کے ایک تھال میں رکھ کر اس کی نذر کر دیا۔ (مرقس، باب ۶، آیت ۲۹-۱۷) (۸) آخر میں حضرت عیسیٰ ؑ پر بنی اسرائیل کے علماء اور سردارانِ قوم کا غصّہ بھڑکا کیونکہ وہ انہیں ان کے گناہوں اور ان کی ریاکاریوں پر ٹوکتے تھے اور ایمان و راستی کی تلقین کرتے تھے ۔ اس قصُور پر ان کے خلاف جھُوٹا مقدمہ تیار کیا گیا ، رومی عدالت سے ان کے قتل کا فیصلہ حاصل کیا گیا اور جب رُومی حاکم پیلاطس نے یہُود سے کہا کہ آج عید کے روز میں تمہاری خاطر یسُوع اور برابّا ڈاکو، دونوں میں سے کس کو رہا کروں، تو ان کے پُورے مجمع نے بالاتفاق پکار کر کہا کہ برابّا کو چھوڑ دے اور یسُوع کو پھانسی پر لٹکا۔ ( متٰی، باب ۲۷- آیت ۲۶-۲۰) یہ ہے اس قوم کی داستانِ جرائم کا ایک نہایت شرمناک باب جس کی طرف قرآن کی اس آیت میں مختصراً اشارہ کیا گیا ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جس قوم نے اپنے فُسّاق و فُجّار کو سرداری و سربراہ کاری کے لیے اور اپنے صُلَحا و اَبْرار کو جیل اور دار کے لیے پسند کیا ہو، اللہ تعالیٰ اس کو اپنی لعنت کے لیے پسند نہ کرتا تو آخر اَور کیا کرتا |
2 | آیات سے کفر کرنے کی مختلف صورتیں ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ خدا کی بھیجی ہوئی تعلیمات میں سے جو بات اپنے خیالات یا خواہشات کے خلاف پائی ، اس کو ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ دوسرے یہ کہ ایک بات کو یہ جانتے ہوئے کہ خدا نے فرمائی ہے، پوری ڈھٹائی اور سرکشی کے ساتھ اس کی خلاف ورزی کی اور حکم ِ الہٰی کی کچھ پروا نہ کی۔ تیسرے یہ کہ ارشادِ الہٰی کے مطلب و مفہُوم کو اچھی طرح جاننے اور سمجھنے کے باوجود اپنی خواہش کے مطابق اسے بدل ڈال |
1 | یہ مطلب نہیں ہے کہ مَنّ و سلویٰ چھوڑ کر ، جو بے مشقّت مِل رہا ہے، وہ چیزیں مانگ رہے ہو، جِن کےلیے کھیتی باڑی کرنی پڑے گی، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس بڑے مقصد کے لیے یہ صحرا نوردی تم سے کرائی جارہی ہے ، اس کے مقابلےمیں کیا تم کو کام و دہن کی لذّت اتنی مرغوب ہے کہ اُس مقصد کے چھوڑنے کے لیے تیار ہو اور ان چیزوں سے محرُومی کچھ مدّت کے لیے بھی برداشت نہیں کر سکتے؟ (تقابل کے لیے ملاحظہ ہو گنتی، باب ۱۱، آیت ۹-۴) |
Surah 36 : Ayat 36
سُبْحَـٰنَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلْأَزْوَٲجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنۢبِتُ ٱلْأَرْضُ وَمِنْ أَنفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ
پاک ہے وہ ذات1 جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود اِن کی اپنی جنس (یعنی نوع انسانی) میں سے یا اُن اشیاء میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں ہیں2
2 | یہ توحید کے حق میں ایک اور استدلال ہے،اور یہاں پھر پیش پا افتادہ حقائق ہی میں سے بعض کو لے کر بتایا جا رہا ہے کہ سب و روز جن اشیاء کا تم مشاہدہ کرتے اور یوں ہی غور و خوض کیے بغیر گزر جاتے ہو ان ہی کے اندر حقیقت کا سراغ دینے والے نشانات موجود ہیں۔ عورت اور مرد کا جوڑ تو خود انسان کا اپنا سبب پیدائش ہے۔حیوانات کی نسلیں بھی نر و مادہ کے ازدواج سے چل رہی ہیں۔ نباتات کے متعلق بھی انسان جانتا ہے کہ ان میں تزویج کا اصول کام کر رہا ہے۔حتیٰ کہ بے جان مادوں تک میں مختلف اشیاء جب ایک دوسرے سے جوڑ کھاتی ہیں تب کہیں ان سے طرح طرح کے مرکبات وجود میں آتے ہیں۔ خود مادے کی بنیادی ترکیب منفی اور مثبت برقی توانائی کے ارتباط سے ہوئی ہے۔یہ تزویج، جس کی بدولت یہ ساری کائنات وجود میں آئی ہے،حکمت و صنّاعی کی ایسی باریکیاں اور پیچیدگیاں رکھتی ہے اور اس کے اندر ہر دو زوجین کے درمیان ایسی مناسبتیں پائی جاتی ہیں کہ بے لاگ عقل رکھنے والا کوئی شخص نہ تو اس چیز کو ایک اتفاقی حادثہ کہہ سکتا ہے کہ مختلف خداؤں نے ان بے شمار ازواج کو پیدا کر کے ان کے درمیان اس حکمت کے ساتھ جوڑ لگائے ہوں گے۔ازواج کا ایک دوسرے کے لیے جوڑ ہونا اور ان کے ازدواج سے نئی چیزوں کا پیدا ہونا خود وحدت خالق کی صریح دلیل ہے۔ |
1 | یعنی ہر شائبہ نقص و عیب سے پاک، ہر غلطی اور کمزوری سے پاک، اور اس بات سے پاک کہ کوئی اس کا شریک و سہیم ہو۔ مشرکین کے عقائد کی تردید کرتے ہوئے بالعموم قرآن مجید میں یہ الفاظ اس لیے استعمال کیے جاتے ہیں کہ شرک کا ہر عقیدہ اپنی حقیقت میں اللہ تعالٰی پر کسی نہ کسی نقص اور کسی نہ کسی کمزوری اور عیب کا الزام ہے۔اللہ کے لیے شریک تجویز کرنے کے معنی ہی یہ ہیں کہ ایسی بات کہنے والا دراصل یہ سمجھتا ہے کہ یا تو اللہ تعالٰی تنہا اپنی خدائی کا کام چلانے کے قابل نہیں ہے،یا وہ مجبور ہے کہ اپنی خدائی میں کسی دوسرے کو شریک کرے،یا کچھ دوسری ہستیاں آپ سے آپ ایسی طاقتور ہیں کہ وہ خدائی کے نظام میں دخل دے رہی ہیں اور خدا ان کی مداخلت برداشت کر رہا ہے،یا معاذ اللہ وہ انسانی بادشاہوں کی سی کمزوریاں رکھتا ہے جن کی بنا پر وزیروں، درباریوں منہ چڑھے مصاحبوں، اور چہیتے شہزادوں اور شہزادیوں کا ایک لشکر کا لشکر اسے گھیرے ہوئے ہے اور خدائی کے بہت سے اختیارات ان کے درمیان ہٹ کر رہ گئے ہیں۔اللہ تعالٰی کے متعلق یہ جاہلانہ تصورات اگر ذہنوں میں موجود نہ ہوتے تو سرے سے شرک کا خیال پیدا ہی نہ ہو سکتا تھا۔ اسی لیے قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ بات فرمائی گئی ہے کہ اللہ تعالٰی ان تمام عیوب و نقائص اور کمزوریوں سے پاک اور منزہ ہے جو مشرکین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ |
Surah 6 : Ayat 99
وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَخْرَجْنَا بِهِۦ نَبَاتَ كُلِّ شَىْءٍ فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا وَمِنَ ٱلنَّخْلِ مِن طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ وَجَنَّـٰتٍ مِّنْ أَعْنَابٍ وَٱلزَّيْتُونَ وَٱلرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَغَيْرَ مُتَشَـٰبِهٍۗ ٱنظُرُوٓاْ إِلَىٰ ثَمَرِهِۦٓ إِذَآ أَثْمَرَ وَيَنْعِهِۦٓۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكُمْ لَأَيَـٰتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعہ سے ہر قسم کی نباتات اگائی، پھر اس سے ہرے ہرے کھیت اور درخت پیدا کیے، پھر ان سے تہ بہ تہ چڑھے ہوئے دانے نکالے اور کھجور کے شگوفوں سے پھلوں کے گچھے کے گچھے پیدا کیے جو بوجھ کے مارے جھکے پڑتے ہیں، اور انگور، زیتون اور انار کے باغ لگائے جن کے پھل ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں اور پھر اُن کے پکنے کی کیفیت ذرا غور کی نظر سے دیکھو، اِن چیزوں میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں
Surah 7 : Ayat 58
وَٱلْبَلَدُ ٱلطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُۥ بِإِذْنِ رَبِّهِۦۖ وَٱلَّذِى خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًاۚ كَذَٲلِكَ نُصَرِّفُ ٱلْأَيَـٰتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ
جو زمین اچھی ہوتی ہے وہ اپنے رب کے حکم سے خوب پھل پھول لاتی ہے اور جو زمین خراب ہوتی ہے ا س سے ناقص پیداوار کے سوا کچھ نہیں نکلتا1 اس طرح ہم نشانیوں کو بار بار پیش کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو شکر گزار ہونے والے ہیں
1 | یہاں ایک لطیف مضمون ارشاد ہوا ہے جس پر متنبہ ہو جا نا اصل مدعا کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے ۔ بارش اور اس کی بر کتوں کے ذکر سے اِس مقام پر خدا کی قدرت کا بیا ن اور حیات بعد الممات کا اثبات بھی مقصوع ہے او اس کے ساتھ ساتھ تمثیل کے پیرا یہ میں رسالت اور اس کی بر کتوں کا اور اس کے ذریعہ سے خوب وزشت میں فرق اور خبیث و طیّب میں امتیازنمایا ں ہو جانے کا نقشہ دکھانا بھی پیش نظر ہے۔ رسول کی آمد اور خدا ئی تعلیم و ہدایت کے نزول کو بارانی ہواؤں کے چلنے اور ابرِ رحمت کے چھا جانے اور امرت بھری بوندوں کے برسنے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ پھر بارش کے ذریدہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کےیکا یک جی اُٹھنے اور اس کے بطن سے زندگی کے خزانے اُبل پڑنے کو اُس حالت کے لیے بطور مثال پیش کیا گیا ہے جو نبی کی تعلیم و تربیت اور رہنمائی سے مردہ پڑی ہوئی انسانیت کے یکا یک جاگ اُٹھنے اور اس کے سینے سے بھلائیوں کے خزانے اُبل پڑنے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور پھر یہ بتا یا گیا ہےکہ جس طرح بارش کے نزول سے یہ ساری برکتیں صرف اسی زمین کو حاصل ہوتی ہیں جو حقیقت ذر خیز ہو تی ہےاور محض پانی نہ ملنے کی وجہ سےجس کی صلاحیتیں دبی رہتی ہیں، اسی طرح رسالت کی ان برکتوں سے بھی صرف وہی انسان فائدہ اُٹھاتے ہیں جو حقیقت میں صالح ہوتے ہیں اور جن کی صلاحیتوں ک محض رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے نمایا ں ہونے اور برسر کار آنے کا موقع نہیں ملتا۔ رہے شرارت پسند اور خبیث انسان تو جس طرح شوریلی زمین بارانِ رحمت سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتی بلکہ پانی پڑتے ہی اپنے پیٹ کے چھپے ہوئے زہر کو کانٹوں اور جھاڑیوں کی صورت میں اُگل دیتی ہے، اسی طرح رسالت کے ظہور سے انہیں بھی کوئی نفع نہیں پہنچتا بلکہ اس کے بر عکس ان کے اندر دبی ہوئی تمام خباثتیں اُبھر کر پوری طرف بر سر کار آجا تی ہیں۔ اسی تمثیل کو بعد کے کئی رکوعوں میں مسلسل تاریخی شواہد پیش کر کے واضح کیا گیا ہے کہ ہر زمانے میں نبی کی بعثت کے بعد انسانیت دو حِصّوں میں تقسیم ہوتی رہی ہے ۔ ایک طیّب حصہ جو فیضِ رسالت سے پھلا اور پھولا اور بہتر برگ و بار لایا۔ دوسرا خبیث حصہ جس نے کسوٹی کے سامنے آتے ہی اپنی ساری کھوٹ نمایا ں کر کے رکھ دی اور آخر کار اس کو ٹھیک اسی طرح چھانٹ کر پھینک دیا گیا جس طرح سنار چاندی سونے کے کھوٹ کو چھانٹ پھینکتا ہے |
Surah 10 : Ayat 24
إِنَّمَا مَثَلُ ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا كَمَآءٍ أَنزَلْنَـٰهُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ فَٱخْتَلَطَ بِهِۦ نَبَاتُ ٱلْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ ٱلنَّاسُ وَٱلْأَنْعَـٰمُ حَتَّىٰٓ إِذَآ أَخَذَتِ ٱلْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَٱزَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَآ أَنَّهُمْ قَـٰدِرُونَ عَلَيْهَآ أَتَـٰهَآ أَمْرُنَا لَيْلاً أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَـٰهَا حَصِيدًا كَأَن لَّمْ تَغْنَ بِٱلْأَمْسِۚ كَذَٲلِكَ نُفَصِّلُ ٱلْأَيَـٰتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
دنیا کی یہ زندگی (جس کے نشے میں مست ہو کر تم ہماری نشانیوں سے غفلت برت رہے ہو) اس کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایا تو زمین کی پیداوار، جسے آدمی اور جانور سب کھاتے ہیں، خوب گھنی ہو گئی، پھر عین اُس وقت جبکہ زمین اپنی بہار پر تھی اور کھیتیاں بنی سنوری کھڑی تھیں اور ان کے مالک یہ سمجھ رہے تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اُٹھانے پر قادر ہیں، یکایک رات کو یا دن کو ہمارا حکم آ گیا اور ہم نے اسے ایسا غارت کر کے رکھ دیا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں اس طرح ہم نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو سوچنے سمجھنے والے ہیں
Surah 18 : Ayat 45
وَٱضْرِبْ لَهُم مَّثَلَ ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا كَمَآءٍ أَنزَلْنَـٰهُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ فَٱخْتَلَطَ بِهِۦ نَبَاتُ ٱلْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ ٱلرِّيَـٰحُۗ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ مُّقْتَدِرًا
اور اے نبیؐ! اِنہیں حیات دنیا کی حقیقت اِس مثال سے سمجھاؤ کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسا دیا تو زمین کی پَود خُوب گھنی ہو گئی، اور کل وہی نباتات بھُس بن کر رہ گئی جسے ہوائیں اڑائے لیے پھرتی ہیں اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے1
1 | یعنی وہ زندگی بھی بخشتا ہے اور موت بھی۔ وہ عروج بھی عطا کرتا ہے اور زوال بھی۔ اس کے حکم سے بہار آتی ہے تو خزاں بھی آ جاتی ہے۔ اگر آج تمہیں عیش اور خوشحالی میسر ہے تو اس غرے میں نہ رہو کہ یہ حالت لازوال ہے۔ جس خدا کے حکم سے یہ کچھ تمہیں ملا ہے اسی کے حکم سے سب کچھ تم سے چھن بھی سکتا ہے۔ |
Surah 15 : Ayat 19
وَٱلْأَرْضَ مَدَدْنَـٰهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَٲسِىَ وَأَنۢبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ شَىْءٍ مَّوْزُونٍ
ہم نے زمین کو پھیلایا، اُس میں پہاڑ جمائے، اس میں ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار کے ساتھ اگائی1
1 | اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے ایک اور اہم نشان کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔ نباتات اور ہر نوع میں تناسُل کی اِس قدر زبردست طاقت ہے کہ اگر اس کے صرف ایک پودے ہی کی نسل کو زمین میں بڑھنے کا موقع مل جاتا تو چند سال کے اندر روئے زمین پر بس وہی وہ نظر آتی، کسی دوسری قسم کی نباتات کے لیے کوئی جگہ نہ رہتی ۔ مگر یہ ایک حکیم اور قادرِ مطلق کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کے مطابق بے حد و حساب اقسام کی نباتا ت اِس زمین پر اُگ رہی ہیں اور ہر نوع کی پیداوار اپنی ایک مخصوص حد پر پہنچ کر رُک جاتی ہے ۔ اِسی منظر کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ ہر نوع کی جسامت ، پھیلاؤ ، اٹھان اور نشونما کی ایک حد مقرر ہے جس سے نبات کی کوئی قسم بھی تجاوز نہیں کر سکتی ۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے ہر درخت ، ہر پودے اور ہر بیل بوٹے کے لیے جسم ، قد ، شکل ، برگ و بار اور پیداوار کی ایک مقدار پورے ناپ تول اور حساب و شما ر کے ساتھ مقرر کر رکھی ہے |
Surah 20 : Ayat 53
ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُمُ ٱلْأَرْضَ مَهْدًا وَسَلَكَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلاً وَأَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَخْرَجْنَا بِهِۦٓ أَزْوَٲجًا مِّن نَّبَاتٍ شَتَّىٰ
وہی جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، اور اُس میں تمہارے چلنے کو راستے بنائے، اور اوپر سے پانی برسایا، پھر اُس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کی پیداوار نکالی
Surah 22 : Ayat 5
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِن كُنتُمْ فِى رَيْبٍ مِّنَ ٱلْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَـٰكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِن مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْۚ وَنُقِرُّ فِى ٱلْأَرْحَامِ مَا نَشَآءُ إِلَىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلاً ثُمَّ لِتَبْلُغُوٓاْ أَشُدَّكُمْۖ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰٓ أَرْذَلِ ٱلْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْــًٔاۚ وَتَرَى ٱلْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَآ أَنزَلْنَا عَلَيْهَا ٱلْمَآءَ ٱهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنۢبَتَتْ مِن كُلِّ زَوْجِۭ بَهِيجٍ
لوگو، اگر تمہیں زندگی بعد موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے، پھر نطفے سے1، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی2 (یہ ہم اس لیے بتا رہے ہیں) تاکہ تم پر حقیقت واضح کر دیں ہم جس (نطفے) کو چاہتے ہیں ایک وقت خاص تک رحموں میں ٹھیرائے رکھتے ہیں، پھر تم کو ایک بچّے کی صورت میں نکال لاتے ہیں (پھر تمہیں پرورش کرتے ہیں) تاکہ تم اپنی پُوری جوانی کو پہنچو اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے اور کوئی بدترین عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے3 اور تم دیکھتے ہو کہ زمین سوکھی پڑی ہے، پھر جہاں ہم نے اُس پر مینہ برسایا کہ یکایک وہ پھبک اٹھی اور پھول گئی اور اس نے ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگلنی شروع کر دی
3 | یعنی بڑھاپے کی وہ حالت جس میں آدمی کو اپنے تن بدن کا ہوش بھی نہیں رہتا۔ وہی شخص جو دوسروں کو عقل بتاتا تھا ، بوڑھا ہو کر اس حالت کو پہنچ جاتا ہے جو بچے کی حالت سے مشابہ ہوتی ہے۔ جس علم و واقفیت اور تجربہ کاری و جہاں دیدگی پر اس کو ناز تھا وہ ایسی بے خبری میں تبدیل ہو جاتی ہے کہ بچے تک اس کی باتوں پرہنسنے لگتے ہیں |
2 | یہ اشارہ ہے ان مختلف اطوار کی طرف جن سے ماں کے پیٹ میں بچہ گزرتا ہے۔ ان کی وہ تفصیلات بیان نہیں کی گئیں جو آج کل صرف طاقت ور خورد بینوں ہی سے نظر آسکتی ہیں ، بلکہ ان بڑے بڑے نمایاں تغیرات کا ذکر کیا گیا ہے جن سے اس زمانے کے عام بدو بھی واقف تھے۔ یعنی نطفہ قرار پانے کے بعد ابتداءً جمے ہوئے خون کا ایک لوتھڑا سا ہوتا ہے ، پھر وہ گوشت کی ایک بوٹی میں تبدیل ہوتا ہے جس میں پہلے شکل صورت کچھ نہیں ہوتی اور آگے چل کر انسانی شکل نمایاں ہوتی چلی جاتی ہے۔ اِسقاط کی مختلف حالتوں میں چونکہ تخلیق انسانی کے یہ سب مراحل لوگوں کے مشاہدے میں آتے تھے ، اس ہے انہی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے علم الجنین کی تفصیلی تحقیقات کی نہ اس وقت ضرورت تھی نہ آج ہے |
1 | اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ ہر انسان ان مادوں سے پیدا کیا جاتا ہے جو سب کے سب زمین سے حاصل ہوتے ہیں اور اس تخلیق کی ابتدا نطفے سے ہوتی ہے۔ یا یہ کہ نوع انسانی کا آغاز آدم علیہ السلام سے کیا گیا جو براہ راست مٹی سے بنائے گۓ تھے ، اور پھر آگے نسل انسانی کی سلسلہ نطفے سے چلا ، جیسا کہ سورہ سجدہ میں فرمایا : وَبَدَءَ خَلْقَ الْاِنْسَا نِ مِنْ طِیْنٍ ہ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّآ ءٍ مَّھِیْنٍ O (آیات 7۔8) ’’ انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی، پھر اس کی نسل ایک سَت سے چلائی جو حقیر پانی کی شکل میں نکلتا ہے |
Surah 26 : Ayat 7
أَوَلَمْ يَرَوْاْ إِلَى ٱلْأَرْضِ كَمْ أَنۢبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ
اور کیا انہوں نے کبھی زمین پر نگاہ نہیں ڈالی کہ ہم نے کتنی کثیر مقدار میں ہر طرح کی عمدہ نباتات اس میں پیدا کی ہیں؟