Ayats Found (2)
Surah 23 : Ayat 55
أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُم بِهِۦ مِن مَّالٍ وَبَنِينَ
کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو انہیں مال و اولاد سے مدد دیے جا رہے ہیں
Surah 23 : Ayat 56
نُسَارِعُ لَهُمْ فِى ٱلْخَيْرَٲتِۚ بَل لَّا يَشْعُرُونَ
تو گویا انہیں بھلائیاں دینے میں سرگرم ہیں؟ نہیں، اصل معاملے کا انہیں شعور نہیں ہے1
1 | اس مقام پر آغاز سورہ کی آیتوں پر پھر ایک نگاہ ڈال لیجیے۔ اسی مضمون کو اب پھر ایک دوسرے انداز سے دہرایا جا رہا ہے۔ یہ لوگ ’’ فلاح ‘‘ اور ’’خیر ‘‘ اور ’’ خوش حالی‘‘ کا ایک محدود مادی تصور رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک جس نے اچھا کھا نا، اچھا لباس، اچھا گھر پالیا ، جو مال و اولاد سے نواز دیا گیا، اور جسے معاشرے میں نام و نمود اور رسوخ و اثر حاصل ہو گیا ، اس نے بس فلاح پالی۔ اور جو اس سے محروم رہ گیا وہ ناکا م و نامراد رہا۔ اس بنیادی غل فہمی سے وہ پھر ایک اور اس سے بھی زیادہ بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہو گۓ ، اور وہ یہ تھی کہ جسے اس معنی میں فلاح نصیب ہے وہ ضرور راہ راست پر ہے ، بلکہ خدا کا محبوب ہے ، ورنہ کیسے ممکن تھا کہ اسے یہ کامیابیاں حاصل ہوتیں۔ اور اس کے برعکس جو اس فلاح سے ہم کو علانیہ محروم نظر آ رہا ہے وہ یقیناً عقیدے اور عمل میں گمراہ اور خدا(یا خداؤں ) کے غضب میں گرفتار ہے۔ اس غلط فہمی کو، جو در حقیقت مادہ پرستانہ نقطہ نظر رکھنے والوں کی ضلالت کے اہم ترین اسباب میں سے ہے ، قرآن میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے ، مختلف طریقوں سے اس کی تردید کی گئی ہے ، اور طرح طرح سے یہ بتایا گیا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو البرقہ ، آیت 126 ، 212۔ الاعراف 32۔ التوبہ 55۔ 69۔ 85۔ یونس 17۔ ہود 3۔ 27 تا 31۔ 38۔ 39۔ الرعد 26۔ الکہف 28۔ 32 تا 43۔ 103 تا 105۔ مریم 77تا 80۔ طٰہ ، 131 ، 132۔ الانبیاء 44۔ مع حواشی)۔ اس سلسلے میں چند اہم حقیقتیں ایسی ہیں کہ جب تک آدمی ان کو اچھی طرح نہ سمجھتے ، اس کا ذہن کبھی صاف نہیں ہو سکتا۔ اول یہ کہ ’’ انسان کی فلاح‘‘ اس سے وسیع تر اور بلند تر چیز ہے کہ اسے کسی فرد یا گروہ یا قوم کی محض مادی خوش حالی اور وقتی کامیابی کے معنی میں لے لیا جائے۔ دوم یہ فلاح کو اس محدود معنی میں لینے کے بعد اگر اسی کو حق و باطل اور خیر و شر کا معیار قرار دے لیا جائے تو یہ ایک ایسی بنیادی گمراہی بن جاتی ہے جس سے نکلے بغیر ایک انسان کبھی عقیدہ و فکر اور اخلاق و سیرت میں راہ راست پا ہی نہیں سکتا۔ سوم یہ کہ فی الاصل دار الجزا نہیں بلکہ دار الامتحان ہے۔یہاں اخلاقی جزا و سزا اگر ہے بھی تو بہت محدود پیمانے پر اور ناقص صورت میں ہے ، اور امتحان کا پہلو خود اس میں بھی موجود ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز کر کے یہ سمجھ لینا کہ یہاں جس کو جو نعمت بھی مل رہی ہے وہ ’’انعام‘‘ ہے اور اس کا ملنا انعام پانے والے کے بر حق اور صالح اور محبوب رب ہونے کا ثبوت ہے ، اور جس پر جو آفت بھی آ رہی ہے وہ ’’ سزا‘‘ ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ سزا پانے والا باطل پر ہے ، غیر صالح ہے ، اور مغضوب بار گاہ خداوندی ہے ، یہ سب کچھ در حقیقت ایک بہت بڑی غلط فہمی بلکہ حماقت ہے جس سے بڑھ کر شاید ہی کوئی دوسری چیز ہمارے تصور حق اور معیار اخلاق کو بگاڑ دینے والی ہو۔ ایک طالب حقیقت کو اول قدم پریہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دنیا در اصل ایک امتحان گاہ ہے اور یہاں بے شمار مختلف صورتوں سے افراد کا، قوموں کا اور تمام انسانوں کا امتحان ہو رہا ہے۔ اس امتحان کے دوران میں جو مختلف حالات لوگوں کو پیش آتے ہیں وہ جزا و سزا کے آخری فیصلے نہیں ہیں کہ انہی کو نظریات، اخلاق اور اعمال کی صحت اور غلطی کا معیار بنا لیا جائے ، اور ان ہی کو خدا کے ہاں محبوب یا مغضوب ہونے کی علامات قرار دے لیا جائے۔ چہارم یہ کہ فلاح کا دامن یقیناً حق اور نیکی کے ساتھ بندھا ہوا ہے ، اور بلا شک و ریب یہ ایک حقیقت ہے کہ باطل اور بدی کا انجام خسران ہے۔ لیکن اس دنیا میں چونکہ باطل اور بدی کے ساتھ عارضی و نمائشی فلاح ، اور اسی طرح حق اور نیکی کے ساتھ ظاہری اور وقتی خسران ممکن ہے ، اور اکثر و بیشتر یہ چیز دھوکہ دینے والی ثابت ہوتی ہے ، اس لیے حق و باطل اور خیر و شر کی جانچ کے لیے ایک مستقل کسوٹی کی ضرورت ہے جس میں دھوکے کا خطرہ نہ ہو۔ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات اور آسمانی کتابیں ہم کو وہ کسوٹی بہم پہنچاتی ہیں ،انسانی عقل عام (Commonsense) اس کی صحت کی تصدیق کرتی ہے اور معروف و منکر کے متعلق نوع انسانی کے مشرک وجدانی تصورات اس پر گواہی دیتے ہیں۔ پنجم یہ کہ جب کوئی شخص یا قوم ایک طرف تو حق سے منحرف اور فسق و فجور اور ظلم و طغیان میں مبتلا ہو ، اور دوسری طرف اس پر نعمتوں کی بارش ہو رہی ہو، تو عقل اوور قرآن دونوں کی رو سے یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ خد نے اس کو شدید تر آزمائش میں ڈال دیا ہے اور اس پر خدا کی رحمت نہیں بلکہ اس کا غضب مسلط ہو گیا ہے۔ اسے غلطی پر چوٹ لگتی تو اس کے معنی یہ ہوتے کہ خدا ابھی اس پر مہربان ہے ، اسے تنبیہ کر رہا ہے اور سنبھلنے کا موقع دے رہا ہے۔ لیکن غلطی پر ’’انعام ‘‘ یہ معنی رکھتا ہے کہ اسے سخت سزا دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس کی کشتی اس لیے تیر رہی ہے کہ خوب بھر کر ڈوبے۔ اس کے بر عکس جہاں ایک طرف سچی خدا پرستی ہو، اخلاق کی پاکیزگی ہو، معاملات میں راستبازی ہو، خلق خدا کے ساتھ حسن سلوک اور رحمت و شفقت ہو، اور دوسری طرف مصائب اور شدائد اس پر موسلا دھار برس رہے ہوں اور چوٹوں پر چوٹیں اسے لگ رہی ہوں ، تو یہ خدا کے غضب کی نہیں اس کی رحمت ہی کی علامت ہے۔ سنار اس سونے کو تپا رہا ہے تاکہ خوب نکھر جائے اور دنیا پراس کا کامل المعیار ہونا ثابت ہو جائے۔ دنیا کے بازار میں اس کی قیمت نہ بھی اٹھے تو پروا نہیں۔ سنار خود اس کی قیمت دے گا، بلکہ اپنے فضل سے مزید عطا کرے گا۔ اس کے مصائب اگر غضب کا پہلو رکھتے ہیں تو خود اس کے لیے نہیں بلکہ اس کے دشمنوں ہی کے لیے رکھتے ہیں ، یا پھر اس سوسائٹی کے لیے جس میں صالحین ستاۓ جائیں اور فساق نوازے جائیں |