Ayats Found (3)
Surah 28 : Ayat 60
وَمَآ أُوتِيتُم مِّن شَىْءٍ فَمَتَـٰعُ ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا وَزِينَتُهَاۚ وَمَا عِندَ ٱللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰٓۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
تم لوگوں کو جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ محض دُنیا کی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس سے بہتر اور باقی تر ہے کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے؟
Surah 28 : Ayat 61
أَفَمَن وَعَدْنَـٰهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَـٰقِيهِ كَمَن مَّتَّعْنَـٰهُ مَتَـٰعَ ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا ثُمَّ هُوَ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ مِنَ ٱلْمُحْضَرِينَ
بھلا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہو اور وہ اسے پانے والا ہو کبھی اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جسے ہم نے صرف حیات دنیا کا سروسامان دے دیا ہو اور پھر وہ قیامت کے روز سزا کے لیے پیش کیا جانے والا ہو؟1
1 | یہ ان کے عزرکاچوتھاجواب ہے۔ اس جواب کوسمجھنے کےلیے پہلے دوباتیں اچھی طرح ذہن نشین ہوجانی چاہییں: اول یہ کہ دنیا کی موجودہ ذندگی، جس کی مقدار کسی کےلیے بھی چند سالوں سے زیادہ نہیں ہوتی، محض ایک سفر کا عارضی مرحلہ ہے۔ اصل زندگی جوہمیشہ قاہم رہنے والی ہے آگےآنی ہے۔ موجودہ عارضی زندگی میں انسان خواہ کتناہی سروسامان جمع کرلےاورچند سال کیسے ہی عیش کےساتھ بسرکرلے، بہرحال اسےختم ہوناہےاوریہاں کاسب سروسامان آدمی کویونہی چھوڑ کراُٹھ جانا ہے۔ اس مختصر سے عرصہ حیات کا عیش اگر آدمی کواس قیمت پرحاصل ہوتا ہوکہ آئندہ کی ابدی زندگی میں وہ دائمََا خستہ حال اورمبتلائے مصیبت رہے، توکوئی صاحب عقل آدمی یہ خسارے کاسودا نہیں کرسکتااس لےمقابلہ میںایک عقل مند آدمی اس کوترجیح دےگا کہ یہاں چند سال مصیبتیں بھگت لےمگر یہاں سے وہ بھلائیاں کماکرلےجائے جوبعد کی دائمی زندگی میں اس کےلیے ہمیشگی کےعیش کی موجب بنیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ کادین انسان سے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ وہ اس دنیا کی متاع حیات سےاستفادہ نہ کرے اوراس کی زینت کوخواہ مخواہ لات ہی ماردے۔ اس کا مطالبہ صرف یہ یے کہ وہ دنیا پرآخرت کوترجیح دے، کیونکہ دنیافانی ہے،اورآخرت باقی، اوردنیا کاعیش کم تر ہےاورآخرت کاعیش بہتار۔ اس لیے دنیا کی وہ متاع اورزینت توآدمی کوضرورحاصل کرنی چاہیے جوآخرت کی باقی رہنے والی زندگی میںاسے سُرخروکرے، یاکم ازکم یہ کہ اسےوہاں کے ابدی خسارے میں مبتلا نہ کرے۔ لیکن جہاں مطالبہ انسان سےیہ ہے، اوریہی عقل سلیم کامطالبہ بھی ہے، کہ آدمی دنیا کوآخرت پرقربان کردے اوراس دنیا کی عارضی متاع وزینت کی خاطر وہ راہ ہرگز اختیار نہ کرے جس سے ہمیشہ کےلیے اس کی عاقبت خراب ہوتی ہو۔ ان دوباتوں کونگاہ میں رکھ کر دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ اوپرکےفقروں میں کفارمکہ سے کیافرماتا ہے۔ وہ یہ نہیں فرماتا کہ تم اپنی تجارت لپیٹ دو، اپنےکاروبار ختم کردو، اورہمارے پیغمبر کومان کرفقیر ہوجاؤ۔ بلکہ وہ یہ فرماتا ہے کہ یہ دنیا کی جہالت پرتم ریجھے ہوئے ہو، بہت تھوڑی دولت ہےاوربہت تھوڑے دنوں کےلیے تم اس کافائدہ اس حیات دنیا میں اُتھا سکتے وہ۔ اس کےبرعکس اللہ کے ہاں جوکچھ ہےوہ اس کی بہ نسبت کم وکیف( Quality اورQuantity)میں بھی بہتر ہےاورہمیشہ باقی رہنے والابھی ہے۔اس لیے تم سخت حماقت نہ کروگے اگراس عارضی زندگی کی محدود نعمتوں سے متمتع ہونے کی خاطر وہ روش اختیار کرو جس کا نتیجہ آخرت کے دائمی خسارے میںتمہیں بھگتنا پڑے۔ تم خود مقابلہ کرکے دیکھ لوکہ کامیاب آیا دہ شخص ہے جومحنت وجانفشانی کے ساتھ اپنے رب کی خدمت بجالائے اورپھر ہمیشہ کےلیے اس کے انعام سے سرفراز ہو، یاوہ شخص جوگرفتار ہوکر مجرم کی حیثیت سے خدا کی عدالت میں پیش کیاجانے والا ہواورگرفتاری سے پہلے محض چند روز حرام کی دولت سے مزے لوٹ لینے کااس کو موقع مل جائےْ |
Surah 29 : Ayat 64
وَمَا هَـٰذِهِ ٱلْحَيَوٲةُ ٱلدُّنْيَآ إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌۚ وَإِنَّ ٱلدَّارَ ٱلْأَخِرَةَ لَهِىَ ٱلْحَيَوَانُۚ لَوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ
اور یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل کا بہلاوا 1اصل زندگی کا گھر تو دار آخرت ہے، کاش یہ لوگ جانتے2
2 | یعنی اگر یہ لوگ اس حقیقت کو جانتے کہ دنیا کی جوجود زندگی صرف ایک مہلت امتحان ہے اور انسان کے لیے اصل زندگی جو ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے، آخرت کی زندگی ہے، تو وہ یہاں امتحان کی مدت کو اس لہوو لعب میں ضائع کرنے کی بجائے اس کا ایک ایک لمحہ اُن کاموں میں استعمال کرتے جو اُس ابدی زندگی میں بہتر نتائج پیدا کرنے والے ہوں۔ |
1 | یعنی اس کی حقیقت بس اتنی ہی ہے جیسے بچے تھوڑی دیر کے لیے کھیل کود لیں اور پھر اپنے اپنے گھر کو سدھاریں، یہاں جو بادشاہ بن گیا ہے وہ حقیقت میں بادشاہ نہیں بن گیا ہے بلکہ صرف بادشاہی کا ڈراما کر رہا ہے ایک وقت آتا ہے جب اس کا یہ کھیل ختم ہو جاتا ہے اور اسی بے سروسامانی کے ساتھ وہ تخت شاہی سے رخصت ہوتا ہے جس کے ساتھ وہ اس دنتا میں آیا تھا۔ اسی طرح زندگی کی کوئی شکل بھی یہاں مستقل اور پائیدار نہیں ہے جو جس حال میں بھی ہے عارضی طور پر ایک محدود مدت کے لیے ہے، اس چند روزہ زندگی کی کامرانیوں پر جو لوگ مرے مٹتے ہیں اور انہی کے لیے ضمیر وایمان کی بازی لگا کر کچھ عیش و عشرت کا سامان اور کچھ شوکت و حشمت کے ٹھاٹھ فراہم کر لیتے ہیں ان کی یہ ساری حرکتیں دل کے بہلاوے سے زیادہ کچھ نہیں ہیں، ان کھلونوں سے اگر وہ دس بیس یا ساٹھ ستر سال دل بہلالیں اور پھر موت کے دروازے سے خالی ہاتھ گزر کر اُس عالم میں پہنچیں جہاں کی دائمی و ابدی زندگی میں ان کا یہی کھیل بلائے بے درماں ثابت ہو تو آخراس طفل تسلی کا فائدہ کیا ہے؟ |