Ayats Found (7)
Surah 7 : Ayat 206
إِنَّ ٱلَّذِينَ عِندَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِۦ وَيُسَبِّحُونَهُۥ وَلَهُۥ يَسْجُدُونَ ۩
جو فرشتے تمہارے رب کے حضور تقرب کا مقام رکھتے ہیں وہ کبھی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آ کر اس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے1 اور اس کی تسبیح کرتے ہیں2، اور اس کے آگے جھکے رہتے ہیں3
3 | اس مقام پر حکم ہے کہ جو شخص اس آیت کو پڑھے یا سنے وہ سجدہ کرے تا کہ اس کا حال ملائکہ مقر بین کے حال سے مطابق ہو جائے اور ساری کائنات کا انتظام چلانے والے کارکن جس خدا کے آگے جھکے ہوئے ہیں اسی کے آگے وہ بھی اس سب کے ساتھ جھک جائے اور اپنے عمل سے فوراً یہ ثابت کر دے کہ وہ نہ تو کسی گھمنڈ میں مبتلا ہے اور نہ خدا کی بندگی سے منہ موڑنے والا ہے۔ قرآن مجید میں ایسے ١۴ مقامات ہیں جہاں آیات سجدہ آئی ہیں۔ ان آیات پر سجدہ کا مشروع ہونا تو متفق علیہ ہے مگر اس کے وجوب میں اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سجدہ تلاوت کو واجب کہتے ہیں اور دوسرے علماء نے اس کو سنت قرار دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات ایک بڑے مجمع میں قرآن پڑھتے اور اس میں جب آیت سجدہ آتی تو آپ خود بھی سجدہ میں گر جاتے تھے اور جو شخص جہاں ہوتا وہیں سجدہ ریز ہوجاتا تھا، حتیٰ کہ کسی کو سجدہ کرنے کے لیے جگہ نہ ملتی تو وہ اپنے آگے والے شخص کی پیٹھ پر سر رکھ دیتا ۔ یہ بھی روایات میں آیا ہے کہ آپ نے فتح مکہ کے موقع پر قرآن پڑھا اور اس میں جب آیت سجدہ آئی تو جو لوگ زمین پرکھڑے تھے انہوں نے زمین پر سجدہ کیا اور جو گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار تھے وہ اپنی سواریوں پر ہی جھک گئے۔ کبھی آپ نے دوران خطبہ میں آیت سجدہ پڑتھی ہے تو منبر سے اتر کر سجدہ کیا ہے اور پھر اوپر جا کر خطبہ شروع کر دیا ہے۔ اس سجدہ کے لیے جمہور اُنہی شرائط کے قائل ہیں جو نماز کی شرطیں ہیں، یعنی یا وضو ہونا، قبلہ رُخ ہونا ، اور نماز کی طرح سجدے میں سر زمین پر رکھنا ۔ لیکن جتنی احایث سجود تلاوة کے باب میں ہم کو ملی ہیں ان میں کہیں ان شرطوں کے لئے کو ئی دلیل موجود نہیں ہے۔ اُن سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آیت سجدہ سن کر جو شخص جہاں جس حال میں ہو جھک جائے، خواہ با وضو ہو یا نہ ہو، خواہ استقبالِ قبلہ ممکن ہو یا نہ ہو، خواہ زمین پر سر رکھنے کا موقع ہو یا نہ ہو،سلف میں بھی ہم کو ایسی شخصیتیں ملتی ہیں جن کا عمل اس طریقے پر تھا۔ چنانچہ امام بخاری نے حضرت عبداللہ بن عمر کے متعلق لکھا ہے کہ وہ وضو کے بغیر سجدہ تلاوت کرتے تھے۔ اور ابو عبدالرحمٰن سُلّمی کے متعلق فتح الباری میں لکھا ہے کہ وہ راستہ چلتے ہوئے قرآن مجید پڑھتے جاتے تھے اور اگر کہیں آیت سجدہ آجاتی تو بس سر جھکا لیتے تھے، خواہ وضو ہو ں یا نہ ہوں، اور خواہ قبلہ رُخ ہو ں یا نہ ہوں۔ان وجوہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ اگرچہ زیادہ مبنی براحتیاط مسلک جمہوری کا ہے، لیکن اگر کوئی شخص جمہور کے مسلک کے خلاف عمل کرے تو اسے ملامت بھی نہیں کی جا سکتی ، کیونکہ جمہور کی تائید میں کوئی سنت ثابتہ موجود نہیں ہے ، اور سلف میں ایسے لوگ پائے گئے ہیں جن کا عمل جمہور کے مسلک سے مختلف تھا |
2 | تسبیح کرتے ہیں ، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا بے عیب اور بے تقص اور بے خطا ہونا، ہر قسم کی کمزوریوں سے اس کا منزہ ہونا، اور اس کا لا شریک اور بے مثل اور ہمتا ہونا دل سے مانتے ہیں، اس کا اقرار واعتراف کرتے ہیں اور دائماً اس کے اظہار و اعلان میں مشعول رہتے ہیں |
1 | مطلب یہ ہے کہ بڑائی کا گھمنڈ اور بندگی سے منہ موڑنا شیاطین کا کام ہے اور اس کا نتیجہ پستی و تنزل ہے۔ بخلاف اس کے خدا کے آگے جھکنا اور بندگی میں ثابت قدم رہنا ملکوتی فعل ہے اور اس کا نتیجہ ترقی و بلندی اور خدا سے تقرب ہے۔ اگر تم اس ترقی کے خواہشمند ہو تو اپنے طرزِعمل کو شیاطین کے بجائے ملائکہ کے طرزِعمل کے مطابق بناؤ |
Surah 13 : Ayat 13
وَيُسَبِّحُ ٱلرَّعْدُ بِحَمْدِهِۦ وَٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِۦ وَيُرْسِلُ ٱلصَّوَٲعِقَ فَيُصِيبُ بِهَا مَن يَشَآءُ وَهُمْ يُجَـٰدِلُونَ فِى ٱللَّهِ وَهُوَ شَدِيدُ ٱلْمِحَالِ
بادلوں کی گرج اس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتی ہے1 اور فرشتے اس کی ہیبت سے لرزتے ہوئے اُس کی تسبیح کرتے ہیں2 وہ کڑکتی ہوئی بجلیوں کو بھیجتا ہے اور (بسا اوقات) اُنہیں جس پر چاہتا ہے عین اس حالت میں گرا دیتا ہے جبکہ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں فی الواقع اس کی چال بڑی زبردست ہے3
3 | یعنی اس کے پاس بے شمار حربے ہیں اور وہ جس وقت جس کے خلاف جس حربے سے چاہے ایسے طریقے سے کام لے سکتا ہے کہ چوٹ پڑنے سے ایک لمحہ پہلے بھی اسے خبر نہیں ہوتی کہ کدھر سے کب چوٹ پڑنے والی ہے۔ ایسی قادرِ مطلق ہستی کے بارے میں یوں بے سوچے سمجھے جو لوگ الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں انہیں کون عقلمند کہہ سکتا ہے |
2 | فرشتوں کے جلال خداوندی سے لرزنے اور تسبیح کر نے کا ذکر خصُوصیت کے ساتھ یہاں اس لیے کیا کہ مشرکین ہر زمانے میں فرشتوں کو دیوتا اور معبود قرار دیتے رہے ہیں اور اُن کا یہ گمان رہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اُس کی خدائی میں شریک ہیں ۔ اس غلط خیال کی تردید کے لیے فرمایا گیا کہ وہ اقتدارِ اعلیٰ میں خدا کے شریک نہیں ہیں بلکہ فرمانبردار خادم ہیں اور اپنے آقا کے جلال سے کانپتے ہوئے اس کی تسبیح کررہے ہیں |
1 | یعنی بادلوں کی گرج یہ ظاہر کرتی ہے کہ جس خدا نے یہ ہوائیں چلائیں، یہ بھاپیں اُٹھائیں، یہ کثیف بادل جمع کیے، اِس بجلی کو بارش کا ذریعہ بنایا اور اس طرح زمین کی مخلوقات کے لیے پانی کی بہم رسانی کا انتظام کیا، وہ سبوح و قدوس ہے ، اپنی حکمت اور قدرت میں کامل ہے، اپنی صفت میں بے عیب ہے، اور اپنی خدائی میں لاشریک ہے۔ جانوروں کی طرح سُننے والے تو ان بادلوں میں صرف گرج کی آواز ہی سُنتے ہیں۔ مگر جو ہوش کے کان رکھتے ہیں وہ بادلوں کی زبان سے توحید کا یہ اعلان سنتے ہیں |
Surah 21 : Ayat 20
يُسَبِّحُونَ ٱلَّيْلَ وَٱلنَّهَارَ لَا يَفْتُرُونَ
شب و روز اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، دَم نہیں لیتے
Surah 39 : Ayat 75
وَتَرَى ٱلْمَلَـٰٓئِكَةَ حَآفِّينَ مِنْ حَوْلِ ٱلْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْۖ وَقُضِىَ بَيْنَهُم بِٱلْحَقِّ وَقِيلَ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ
اور تم دیکھو گے کہ فرشتے عرش کے گرد حلقہ بنائے ہوئے اپنے رب کی حمد اور تسبیح کر رہے ہوں گے، اور لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ چکا دیا جائے گا، اور پکار دیا جائے گا کہ حمد ہے اللہ ربّ العالمین کے لیے1
1 | یعنی پوری کائنات اللہ کی حمد پکار اُٹھے گی۔ |
Surah 40 : Ayat 7
ٱلَّذِينَ يَحْمِلُونَ ٱلْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُۥ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِۦ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَىْءٍ رَّحْمَةً وَعِلْمًا فَٱغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُواْ وَٱتَّبَعُواْ سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ ٱلْجَحِيمِ
عرش الٰہی کے حامل فرشتے اور وہ جو عرش کے گرد و پیش حاضر رہتے ہیں، سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں1 وہ کہتے ہیں: 2"اے ہمارے رب، تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے، پس معاف کر دے اور عذاب دوزخ سے بچا لے3 اُن لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے4
4 | یعنی نافرمانی چھوڑ دی ہے، سرکشی سے باز آ گۓ ہیں اور فرمانبرداری اختیار کر کے زندگی کے اس راستے پر چلنے لگے ہیں جو تو نے خود بتایا ہے |
3 | معاف کرنا اور عذاب دوزخ سے بچا لینا اگرچہ صریحاً لازم و ملزوم ہیں اور ایک بات کا ذکر کر دینے کے بعد دوسری بات کہنے کی بظاہر کوئی حاجت نہیں رہتی۔ لیکن اس طرز بیان سے دراصل اہل ایمان کے ساتھ فرشتوں کی گہری دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے۔ قاعدے کی بات ہے کہ کسی معاملے میں جس شخص کے دل کو لگی ہوئی ہوتی ہے وہ جب حاکم سے گزارش کرنے کا موقع پا لیتا ہے تو پھر وہ اِلحاح کے ساتھ ایک ہی درخواست کو بار بار طرح طرح سے پیش کرتا ہے اور ایک بات بس ایک دفعہ عرض کرکے اسکی تسلی نہیں ہوتی۔ |
2 | یعنی اپنے بندوں کی کمزوریاں اور لغزشیں اور خطائیں تجھ سے چھپی ہوئی نہیں ہیں، بے شک تو سب کچھ جانتا ہے مگر تیرے علم کی طرح تیرا دامن رحمت بھی تو وسیع ہے، اس لیے ان کی خطاؤں کو جاننے کے باوجود ان غریبوں کو بخش دے۔دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بربناۓ رحمت ان سے لوگوں کو بخش دے جن کو بربنائے علم تو جانتا ہے کہ انہوں نے سچے دل سے توبہ کی ہے فی الواقع تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ |
1 | یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھیوں کی تسلی کے لیے ارشاد ہوئی ہے۔ وہ اس وقت کفار مکہ کی زبان درازیاں اور چیرہ دستیاں، اور ان کے مقابلہ میں اپنی بے بسی دیکھ دیکھ کر سخت دل شکستہ ہو رہے تھے۔اس پر فرمایا گیا کہ ان گھٹیا اور رذیل لوگوں کی باتوں پر تم رنجیدہ کیوں ہوتے ہو، تمہارا مرتبہ تو وہ ہے کہ عرش الہیٰ کے حامل فرشتے، اور عرش کے گرد و پیش حاضر رہنے والے ملائکہ تک تمہارے حامی ہیں اور تمہارے حق میں اللہ تعالٰی کے حضور سفارشیں کر رہے ہیں۔ عام فرشتوں کے بجائے عرش الٰہی کے حمل اور اس کے گردو پیش رہنے والے فرشتوں کا ذکر یہ تصور دلانے کے لیے کیا گیا ہے کہ سلطنت خداوند ی کے عام اہل کار تو درکنار وہ ملائکہ مقربین بھی جو اس سلطنت کے ستون ہیں اور جنہیں فرمانروائے کائنات کے ہاں قرب کا مقام حاصل ہے، تمہارے ساتھ گہری دلچسپی و ہمدردی رکھتے ہیں۔پھر یہ جو فرمایا گیا کہ یہ ملائکہ اللہ تعالٰی پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان کا رشتہ ہی وہ اصل رشتہ ہے جس نے عرشیوں اور فرشیوں کو ملا کر ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے اور اسی تعلق کی وجہ سے عرش کے قریب رہنے والے فرشتوں کو زمین پر بسنے والے اُن خاکی انسانوں سے دلچسپی پیدا ہوئی ہے جو انہی کی طرح اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ فرشتوں کے اللہ پر ایمان رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کفر کر سکتے تھے، مگر انہوں نے اسے چھوڑ کر ایمان اختیار کیا، بلکہ اس کا مطلب یہ کہ وہ اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کا اقتدار مانتے ہیں، کوئی دوسری ہستی ایسی نہیں ہے جو انہیں حکم دینے والی ہو اور وہ اس کے آگے سر اطاعت جھکاتے ہوں۔ یہی مسلک جب ایمان لانے والے انسانوں نے بھی اختیار کر لیا تو اتنے بڑے اختلافِ جنس اور بُعدِ مقام کے باوجود ان کے اور فرشتوں کے درمیان ہم مشربی کا مضبوط تعلق قائم ہو گیا۔ |
Surah 41 : Ayat 38
فَإِنِ ٱسْتَكْبَرُواْ فَٱلَّذِينَ عِندَ رَبِّكَ يُسَبِّحُونَ لَهُۥ بِٱلَّيْلِ وَٱلنَّهَارِ وَهُمْ لَا يَسْــَٔمُونَ ۩
لیکن اگر یہ لوگ غرور میں آ کر اپنی ہی بات پر اڑے رہیں1 تو پروا نہیں، جو فرشتے تیرے رب کے مقرب ہیں وہ شب و روز اس کی تسبیح کر رہے ہیں اور کبھی نہیں تھکتے2
2 | مطلب یہ ہے کہ پوری کائنات کا نظام، جو ان فرشتوں کے ذریعہ سے چل رہا ہے، اللہ کی توحید اور اسی کی بندگی میں رواں دواں ہے، اس نظام کے منتظم فرشتے ہر آن یہ شہادت دے رہے ہیں کہ ان کا رب اس سے پاک اور منزہ ہے کہ کوئی خداوندی اور معبودیت میں اس کا شریک ہو۔ اب اگر چند احمق سمجھانے پر نہیں مانتے اور ساری کائنات جس راستے پر چل رہی ہے اس سے منہ موڑ کر شرک ہی کی راہ پر چلنے پر اصرار کیے جاتے ہیں تو پڑا رہنے دو ان کو اپنی اس حماقت میں۔ اس مقام کے متعلق یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ یہاں سجدہ لازم آتا ہے، مگر اس امر میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہو گیا ہے کہ اوپر کی دونوں آئتوں میں سے کس پر سجدہ کرنا چاہیے۔ حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما : اِنْ کُنْتُمْ اِیَّا ہُ تَعْبُدُوْنَ پر سجدہ کرتے تھے۔ اسی قول کو امام مالک نے اختیار کیا ہے، اور ایک قول امام شافعی سے بھی اسی کی تائید میں منقول ہے۔ لیکن حضرات ابن عباس، ابن عمر، سعید بن المسیّب، مسرق، قتادہ، حسن بصری، ابو عبدالرحمٰن السُّلَمِی، ابن سیرین، ابراہیم بَخَعی اور متعدد دوسرے اکابر : وَھُمْ لَا یَسْئَمُوْنَ پر سجدے کے قائل ہیں ۔ یہی امام ابو حنیفہؒ کا قسل بھی ہے اور شافعیوں کے ہاں بھی مرجَّح قول یہی ہے |
1 | غرور میں آ کر‘‘ سے مراد یہ ہے کہ اگر یہ تمہاری بات مان لینے میں اپنی ذلت سمجھ کر اسی جہالت پر اصرار کیے چلے جائیں جس میں یہ مبتلا ہیں |
Surah 42 : Ayat 5
تَكَادُ ٱلسَّمَـٰوَٲتُ يَتَفَطَّرْنَ مِن فَوْقِهِنَّۚ وَٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَن فِى ٱلْأَرْضِۗ أَلَآ إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلْغَفُورُ ٱلرَّحِيمُ
قریب ہے کہ آسمان اوپر سے پھٹ پڑیں1 فرشتے اپنے رب کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کر رہے ہیں اور زمین والوں کے حق میں درگزر کی درخواستیں کیے جاتے ہیں2 آگاہ رہو، حقیقت میں اللہ غفور و رحیم ہی ہے3
3 | یعنی یہ اس کی حلیمی و رحیمی اور چشم پوشی و در گزر ہی تو ہے جس کی بدولت کفر اور شرک اور دہریت اور فسق و فجور اور ظلم و ستم کی انتہا کر دینے والے لوگ بھی سالہا سال تک ، بلکہ اس طرح کے پورے پورے معاشرے صدیوں تک مہلت پر مہلت پاتے چلے جاتے ہیں ، اور ان کو صرف رزق ہی نہیں ملے جاتا بلکہ دنیا میں ان کی بڑائی کے ڈنکے بجتے ہیں اور زینت حیات دنیا کے وہ سرو سامان انہیں ملتے ہیں جنہیں دیکھ دیکھ کر نادان لوگ اس غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں کہ شاید اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے |
2 | مطلب یہ ہے کہ فرشتے انسانوں کی یہ باتیں سن سن کر کانوں پر ہاتھ رکھتے ہیں کہ یہ کیا بکواس ہے جو ہمارے رب کی شان میں کی جا رہی ہے ، اور یہ کیسی بغاوت ہے جو زمین کی اس مخلوق نے برپا کر رکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں ، سبحان اللہ ، کس کی یہ حیثیت ہو سکتی ہے کہ رب العالمین کے ساتھ الوہیت اور حکم میں شریک ہو سکے ، اور کون اس کے سوا ہمارا اور سب بندوں کا محسن ہے کہ اس کی حمد کے ترانے گاۓ جائیں اور اس کا شکر ادا کیا جاۓ۔ پھر وہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ایسا جرم عظیم دنیا میں کیا جا رہا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہر وقت بھڑک سکتا ہے ، اس لیے وہ زمین پر بسنے والے ان خود فراموش و خدا فراموش بندوں کے حق میں بار بار رحم کی درخواست کرتے ہیں کہ ابھی ان پر عذاب نازل نہ کیا جاۓ اور انہیں سنبھلنے کا کچھ موقع دیا جاۓ |
1 | یعنی یہ کوئی معمولی بات تو نہیں ہے کہ کسی مخلوق کا نسب خدا سے جا ملایا گیا اور اسے خدا کا بیٹا یا بیٹی قرار دے دیا گیا۔ کسی کو حاجت روا اور فریاد رس ٹھیرا لیا گیا اور اس سے دعائیں مانگی جانے لگیں ، کسی بزرگ کو دنیا بھر کا کار ساز سمجھ لیا گیا اور علانیہ کہا جانے لگا کہ ہمارے حضرت ہر وقت ہر جگہ ہر شخص کی سنتے ہیں اور وہی ہر ایک کی مدد کو پہنچ کر اس کے کام بنایا کرتے ہیں کسی کو امر و نہی اور حلال و حرام کا مختار مان لیا گیا اور خدا کو چھوڑ کر لوگ اس کے احکام کی اطاعت اس طرح کرنے لگے کہ گویا وہ ان کا خدا ہے۔ خدا کے مقابلے میں یہ وہ جسارتیں ہیں جن پر اگر آسمان پھٹ پڑیں تو کچھ بعید نہیں ہے۔ (یعنی مضمون سورہ مریم، آیات 88۔91 میں بھی ارشاد ہوا ہے ) |