Ayats Found (8)
Surah 22 : Ayat 23
إِنَّ ٱللَّهَ يُدْخِلُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًاۖ وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ
(دوسری طرف) جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اُن کو اللہ ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی وہاں وہ سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کیے جائیں گے1 اور ان کے لباس ریشم کے ہوں گے
1 | اس سے یہ تصور دلانا مقصود ہے کہ ان کو شاہانہ لباس پہنانے جائیں گے۔ نزول قرآن کے زمانے میں بادشاہ اور بڑے بڑے رئیس سونے اور جواہر کے زیور پہنتے تھے ، اور خود ہمارے زمانے میں بھی ہندوستان کے راجہ اور نواب ایسے زیور پہنتے رہے ہیں |
Surah 35 : Ayat 33
جَنَّـٰتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًاۖ وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ
ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن میں یہ لوگ داخل ہوں گے1 وہاں انہیں سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کیا جائے گا، وہاں ان کا لباس ریشم ہوگا
1 | مفسرین میں سے ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ اس فقرے کا تعلق قریب ترین دونوں فقروں سے ہے، یعنی نیکیوں پر سبقت کرنے والے ہی بڑی فضیلت رکھتے ہیں اور وہی ان جنتوں میں داخل ہوں گے۔ رہے پہلے دو گروہ، تو ان کے بارے میں سکوت فرمایا گیا ہے تاکہ وہ اپنے انجام کے معاملہ میں فکر مند ہوں اور اپنی موجودہ حالت سے نکل کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ اس رائے کو علامہ مخشری نے بڑے زور کے ساتھ بیان کیا ہے اور امام رازی نے اس کی تائید کی ہے۔ لیکن مفسرین کی اکثریت یہ کہتی ہے کہ اس کا تعلق اوپر کی پوری عبارت سے ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ امت کے یہ تینوں گروہ بالآخر جنت میں داخل ہوں گے، خواہ محاسبہ کے بغیر یا محاسبہ کے بعد، خواہ ہر مواخذہ سے محفوظ رہ کر یا کوئی سزا پانے کے بعد۔ اسی تفسیر کی تائید قرآن کا سیاق کرتا ہے، کیونکہ آگے چل کر وارثین کتاب کے بالمقابل دوسرے گروہ متعلق ارشاد ہوتا ہے کہ ’’اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان کے لیے جہنم کی آگ ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے اس کتاب کو مان لیا ہے ان کے لیے جنت ہے اور جنہوں نے اس پر ایمان لانے سے انکار کیا ہے ان کے لیے جہنم۔ پھر اسی کی تائید نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ حدیث کرتی ہے جسے حضرت ابوالدارواء نے روایت کیا ہے اور امام احمد، ابن جریر، ابن ابی حاتم، طَبَرانی، بہقی اور بعض دوسرے محدثین نے اسے نقل کیا ہے اس میں حضورؐ فرماتے ہیں: فامّا الذین سبقو ا فاولٰئِک الذین ید خلو ن الجنۃ بغیر حساب، وامّا الذین اقتصد وا فاولٰئِک الذین ظلمو اا نفسہم فا ولٰئِک یُحبَسوْن طول المحشر ثم ھم الذین تتلقّا ھم اللہ برحمتہ فھم الذین یقولون الحمد لِلہ الذی اذھب عنا الحزن۔ جو لوگ نیکیوں میں سبقت لے گئے ہیں وہ جنت میں کسی حساب کے بغیر داخل ہوں گے۔ اور جو بیچ کی راس رہے ہیں ان سے محاسبہ ہوگا مگر ہلکا محاسبہ۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے تو وہ محشر کے پورے طویل عرصہ میں روک رکھے جائیں گے، پھر انہی کو اللہ اپنی رحمت میں لے لیگا اور یہی لوگ ہیں جو کہیں گے کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے ہم سے غم دور کر دیا۔ اس حدیث میں حضورؐ نے اس آیت کی پوری تفسیر خود بیان فرمادی ہے اور اہل ایمان کے تینوں طبقوں کا انجام الگ الگ بتا دیا ہے۔ بیچ کی راس والوں سے ’’ہلکا محاسبہ‘‘ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کفار کو تو ان کے کفر کے علاوہ ان کے ہر ہر جرم اور گناہ کی جداگانہ سزا بھی دی جائے گی،مگر اس کے برعکس اہل ایمان میں جو لوگ اچھے اور برے دونوں طرح کے اعمال لے کر پہنچیں گے ان کی نیکیوں اور ان کے گناہوں کا مجموعی محا سبہ ہو گا۔ یہ نہیں ہو گا کہ ہر نیکی کی الگ جزا اور ہر قصور کی الگ سزا دی جائے۔ اور یہ جو فرمایا کہ اہل ایمان میں سے جن لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہوگا وہ محشر کے پورے عرصے میں روک رکھے جائیں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہنم میں نہیں ڈالے جائیں گے بلکہ ان کو ’’تا برخاستِ عدالت‘‘ کی سزا دی جائے گی، یعنی روز حشر کی پوری طویل مدت (جو نہ معلوم کتنی صدیوں طویل ہوگی) ان پر اپنی ساری سختیوں کے ساتھ گزر جائے گی، یہاں تک کہ آخر کاراللہ ان پر رحم فرمائے گا اور خاتمہ عدالت کے وقت حکم دے گا کہ اچھا، انہیں بھی جنت میں داخل کر دو۔ اسی مضمون کے متعدد اقوال محدثین نے بہت سے صحابہ، مثلاً حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عائشہ، حضرت ابو سعید خُدری اور حضرت بَراء ابن عارب سے نقل کیے ہیں، اور ظاہر ہے کہ صحابہ ایسے معاملات میں کوئی بات اس وقت تک نہیں کہہ سکتے تھے جب تک انہوں نے خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کو نہ سنا ہو۔ مگر اس سے یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ مسلمانوں میں سے جن لوگوں نے ’’اپنے نفس پر ظلم کیا ہے‘‘ ان کے لیے صرف ’’تا برخاست عدالت‘‘ ہی کی سزا ہے اور ان میں سے کوئی جہنم میں جائے گا ہی نہیں۔ قرآن اور حدیث میں متعدد ایسے جرائم کا ذکر ہے جن کے مرتکب ایمان کو بھی جہنم میں جانے وے نہیں بچا سکتا۔ مثلاً جو مومن کو عمداً قتل کر دے اس کے لیے جہنم کی سزا کا اللہ تعالیٰ نے خود اعلان فرما دیا ہے۔ اسی طرح قانون وراثت کی خداوندی خدود کو توڑنے والوں کے لیے بھی قرآن مجید میں جہنم کی وعید فرمائی گئی ہے۔ سُود کی حرمت کا حکم آ جانے کے بعد پھر سود خواری کرنے والوں کے لیے بھی صاف صاف اعلان فرمایا گیا ہے کہ ہو اصحاب النار ہیں۔ اس کے علاوہ بعض اور کبائر کے مرتکبین کے لیے بھی احادیث میں تصریح ہے کہ وہ جہنم میں جائیں گے۔ |
Surah 52 : Ayat 24
۞ وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُونٌ
اور اُن کی خدمت میں وہ لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو انہی کے لیے مخصوص ہوں گے 1ایسے خوبصورت جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی
1 | یہ نکتہ قابل غور ہے کہ غُلْمَا نُھُمْ نہیں فرمایا بلکہ غِلْمَا نٌ لَّہُمْ فرمایا ہے ۔ اگر غِلْمَا نُہُمْ فرمایا جاتا تو اس کے یہ گمان ہو سکتا تھا کہ دنیا میں ان کے جو خادم تھے وہی جنت میں بھی ان کے خادم بنا دیے جائیں گے ، حالانکہ دنیا کا جو شخص بھی جنت میں جاۓ گا اپنے استحقاق کی بنا پر جاۓ گا اور کوئی وجہ نہیں کہ جنت میں پہنچ کر وہ اپنے اسی آقا کا خادم بنا دیا جاۓ جس کی خدمت وہ دنیا میں کرتا رہا تھا۔ بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی خادم اپنے عمل کی وجہ سے اپنے مخدوم کی بہ نسبت زیادہ بلند مرتبہ جنت میں پاۓ۔ اس لیے غِلْمَانٌ لَّھُمْ فرما کر اس گمان کی گنجائش باقی نہیں رہنے دی گئی۔ یہ لفظ اس بات کی وضاحت کر دیتا ہے کہ یہ وہ لڑکے ہوں گے جو جنت میں ان کی خدمت کے لیے مخصوص کر دیے جائیں گے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ صافات، حاشیہ 26) |
Surah 55 : Ayat 22
يَخْرُجُ مِنْهُمَا ٱللُّؤْلُؤُ وَٱلْمَرْجَانُ
اِن سمندروں سے موتی اور1 مونگے نکلتے ہیں2
2 | اصل الفاظ ہیں یَخْرُجُ مِنْھُمَا، ’’ ان دونوں سمندروں سے نکلتے ہیں ‘‘۔ معترضین اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ موتی اور مونگے تو صرف کھاری پانی سے نکلتے ہیں، پھر یہ کیسے کہا گیا کہ میٹھے اور کھاری دونوں پانیوں سے یہ چیزیں نکلتی ہیں؟ اس کو جواب یہ ہے کہ سمندروں میں میٹھا اور کھاری دونوں طرح کا پانی جمع ہو جاتا ہے، اس لیے خواہ یہ کہا جاۓ کہ دونوں کے مجموعہ سے یہ چیزیں نکلتی ہیں، یا یہ کہا جاۓ کہ وہ دونوں پانیوں سے نکلتی ہیں، بات ایک ہی رہتی ہے اور کچھ عجب نہیں کہ مزید تحقیقات سے یہ ثابت ہو کہ ان چیزوں کی پیدائش سمندر میں اس جگہ ہوتی ہے جہاں اس کی تہ سے میٹھے پانی کے چشمے پھوٹتے ہیں، اور ان کی پیدائش و پرورش میں دونوں طرح پانیوں کے اجتماع کا کچھ دخل ہے۔ بحرین میں جہاں قدیم ترین زمانے سے موتی نکالے جا رہے ہیں، وہاں تو یہ بات ثابت ہے کہ خلیج کی تہہ میں میٹھے پانی کے چشمے موجود ہیں |
1 | اصل میں لفظ مرجان استعمال ہوا ہے۔ ابن عباس، ابن زید اور ضحاک رحمہم اللہ کا قول ہے کہ اس سے مراد چھوٹے موتی ہیں۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعوؓد فرماتے ہیں کہ یہ لفظ عربی میں مونگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے |
Surah 55 : Ayat 58
كَأَنَّهُنَّ ٱلْيَاقُوتُ وَٱلْمَرْجَانُ
ایسی خوبصورت جیسے ہیرے اور موتی
Surah 56 : Ayat 22
وَحُورٌ عِينٌ
اور ان کے لیے خوبصورت آنکھوں والی حوریں ہونگی
Surah 56 : Ayat 23
كَأَمْثَـٰلِ ٱللُّؤْلُوِٕ ٱلْمَكْنُونِ
ایسی حسین جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی1
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم،تفسیر سورہ صافات، حاشیہ 28۔29۔ الدخان، حاشیہ 42۔ جلد پنجم، الرحمٰن، حاشیہ 51 |
Surah 76 : Ayat 19
۞ وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَٲنٌ مُّخَلَّدُونَ إِذَا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنثُورًا
ان کی خدمت کے لیے ایسے لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے تم انہیں دیکھو تو سمجھو کہ موتی ہیں جو بکھیر دیے گئے ہیں1
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الصفت، حاشیہ 26۔ جلد پنجم الطور، حاشیہ 19، الواقعہ حاشیہ 9۔) |