Ayats Found (7)
Surah 3 : Ayat 14
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ ٱلشَّهَوَٲتِ مِنَ ٱلنِّسَآءِ وَٱلْبَنِينَ وَٱلْقَنَـٰطِيرِ ٱلْمُقَنطَرَةِ مِنَ ٱلذَّهَبِ وَٱلْفِضَّةِ وَٱلْخَيْلِ ٱلْمُسَوَّمَةِ وَٱلْأَنْعَـٰمِ وَٱلْحَرْثِۗ ذَٲلِكَ مَتَـٰعُ ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَاۖ وَٱللَّهُ عِندَهُۥ حُسْنُ ٱلْمَـَٔـابِ
لوگوں کے لیے مرغوبات نفس، عورتیں، اولا د، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی او ر زرعی زمینیں بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے، وہ تو اللہ کے پاس ہے
Surah 9 : Ayat 34
۞ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ ٱلْأَحْبَارِ وَٱلرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَٲلَ ٱلنَّاسِ بِٱلْبَـٰطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِۗ وَٱلَّذِينَ يَكْنِزُونَ ٱلذَّهَبَ وَٱلْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
اے ایمان لانے والو، اِن اہل کتاب کے اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں1 دردناک سزا کی خوش خبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے
1 | یعنی ظالم صرف یہی ستم نہیں کرتے کہ فتوے بیچتے ہیں، رشوتیں کھاتے ہیں، نذرانے لوٹتے ہیں ، ایسے ایسے مذہبی ضابطے اور مراسم ایجاد کرتے ہیں جن سے لوگ اپنی نجات اِن سے خریدیں اور اُن کا مرنا جینا اور شادی و غم کچھ بھی اِن کو کھلائے بغیر نہ ہو سکے اور وہ اپنی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کا ٹھیکہ دار اِن کو سمجھ لیں۔ بلکہ مزید براں اپنی اِنہی اغراض کی خاطر یہ حضرات خلقِ خدا کو گمراہیوں کے چکر میں پھنسا ئے رکھتے ہیں اور جب کبھی کوئی دعوتِ حق اصلا ح کے لیے اُٹھتی ہے تو سب سے پہلے یہی اپنی عالمانہ فریب کاریوں اور مکاریوں کے حربے لے لے کر اس کا راستہ روکنے کھڑے ہو جاتے ہیں |
Surah 43 : Ayat 33
وَلَوْلَآ أَن يَكُونَ ٱلنَّاسُ أُمَّةً وَٲحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَن يَكْفُرُ بِٱلرَّحْمَـٰنِ لِبُيُوتِهِمْ سُقُفًا مِّن فِضَّةٍ وَمَعَارِجَ عَلَيْهَا يَظْهَرُونَ
اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ سارے لوگ ایک ہی طریقے کے ہو جائیں گے تو خدائے رحمان سے کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتیں، اور ان کی سیڑھیاں جن سے وہ اپنے بالا خانوں پر چڑھتے ہیں
Surah 43 : Ayat 35
وَزُخْرُفًاۚ وَإِن كُلُّ ذَٲلِكَ لَمَّا مَتَـٰعُ ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَاۚ وَٱلْأَخِرَةُ عِندَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِينَ
سب چاندی اور سونے کے بنوا دیتے1 یہ تو محض حیات دنیا کی متاع ہے، اور آخرت تیرے رب کے ہا ں صرف متقین کے لیے ہے
1 | یعنی یہ سیم و زر، جس کا کسی کو مل جانا تمہاری نگاہ میں نعمت کی انتہا اور قدر و قیمت کی معراج ہے ، اللہ کی نگاہ میں اتنی حقیر چیز ہے کہ اگر تمام انسانوں کے کفر کی طرف ڈھلک پڑنے کا خطرہ نہ ہوتا تو وہ ہر کافر کا کھر سونے چاندی کا بنا دیا جاتا۔ اس جنس فرومایہ کی فراوانی آخر کب سے انسان کی شرافت اور پاکیزگی نفس اور طہارت روح کی دلیل بن گئی ؟ یہ مال تو ان خبیث ترین انسانوں کے پاس بھی پایا جاتا ہے جن کے گھناؤنے کردار کی سڑاند سے سارا معاشرہ متعفن ہو کر رہ جاتا ہے ۔ اسے تم نے آدمی کی بڑائی کا معیار بنا رکھا ہے |
Surah 76 : Ayat 15
وَيُطَافُ عَلَيْهِم بِـَٔـانِيَةٍ مِّن فِضَّةٍ وَأَكْوَابٍ كَانَتْ قَوَارِيرَا۟
اُن کے آگے چاندی کے برتن1 اور شیشے کے پیالے گردش کرائے جا رہے ہونگے
1 | سورہ زخرف آیت 71 میں ارشاد ہوا ہے کہ ان کے آگے سونے کے برتن گردش کرائے جا رہے ہوں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کبھی وہاں سونے کے برتن استعمال ہوں گے اور کبھی چاندی گے |
Surah 76 : Ayat 16
قَوَارِيرَاْ مِن فِضَّةٍ قَدَّرُوهَا تَقْدِيرًا
شیشے بھی وہ جو چاندی کی قسم1 کے ہونگے، اور ان کو (منتظمین جنت نے) ٹھیک اندازے کے مطابق بھرا2 ہوگا
2 | یعنی ہر شخص کے لیے اس کی خواہش کے ٹھیک اندازے کے مطابق ساغر بھر بھر کر دیے جائیں گے۔ نہ وہ اس کی خواہش سے کم ہوں گےنہ زیادہ۔ بالفاظ دیگر اہل جنت کے خدام اس قدر ہوشیار اور تمیزدارہوں گے کہ وہ جس کی خدمت میں جامِ شراب پیش کریں گے اس کے متعلق ان کو پورا اندازہ ہو گا کہ وہ کتنی شراب پینا چاہتا ہے۔ (جنت کی شراب کی خصوصیات کے متعلق ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم، الصافات، آیات 45 تا 47، حواشی 24 تا 27۔ جلد پنجم، سورہ محمد ، آیت 15، حاشیہ 22۔ الطور ، آیت 23، حاشیہ 18۔ الواقعہ، آیت 19، حاشیہ 10) |
1 | یعنی وہوگی تو چاندگی مگر شیشے کی طرح شفاف ہو گی۔ چاندی کی یہ قسم اس دنیا میں نہیں پائی جاتی۔ یہ صرف جنت کی خصوصیت ہو گی کہ وہاں شیشے جیسی شفاف چاندگی کے برتن اہل جنت کے دسترخوان پر پیش کیےجائیں گے |
Surah 76 : Ayat 21
عَـٰلِيَهُمْ ثِيَابُ سُندُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَقٌۖ وَحُلُّوٓاْ أَسَاوِرَ مِن فِضَّةٍ وَسَقَـٰهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا
اُن کے اوپر باریک ریشم کے سبز لباس اور اطلس و دیبا کے کپڑے ہوں1 گے، ان کو چاندی کے کنگن پہنا ئے جائیں گے2، اور ان کا رب ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا3
3 | پہلے دو شرابوں کا ذکر گزر چکا ہے۔ ایک وہ جس میں آبِِ چشمئہ کافور کی آمیزش ہو گی۔ دوسری وہ جس میں آبِِ چشمئہ زنجیل کی آمیزش ہو گی۔ ان دونوں شرابوں کے بعد اب پھر ایک شراب کا ذکرکرنا اور یہ فرمانا کہ ان کا رب انہیں نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا، یہ معنی رکھتا ہے کہ یہ کوئی اور بہترین نوعیت کی شراب ہو گی جو اللہ تعالی کی طرف سے فضلِ خاص کے طور پر انہیں پلائی جائے گی |
2 | سورہ کہف آیت 31 میں فرمایا گیا ہے یحلون فیھا من اساور من ذھب ’’ وہ وہاں سونے کے گنگنوں سے آراستہ کیے جائیں گے‘‘۔ یہی مضمون سورہ حج آیت 23، اور سورہ فاطر آیت 33 میں بھی ارشاد ہوا ہے۔ ان سب آیتوں کو ملا کر دیکھا جائے تو تین صورتیں ممکن محسوس ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ کبھی وہ چاہیں گے تو سونے کے کنگن پہنیں گےاور کبھی چاہیں گے تو چاندی کے کنگن پہن لیں گے۔ دونوں چیزیں ان کے حسب خواہش موجود ہوں گی۔ دوسرے یہ کہ سونےاورچاندی کے کنگن وہ بیک وقت پہنیں گے، کیونکہ دونوں کو ملا دینے سے حسن دو بالا ہو جاتا ہے۔ تیسرے یہ کہ جس کا جی چاہیےگا سونےکے کنگن پہنےگا اورجو چاہے گا چاندی کے کنگن استعمال کرے گا۔رہا یہ سوال کہ زیور توعورتیں پہنتی ہیں، مردوں کو زیور پہنانے کا کیا موقع ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قدیم زمانے میں بادشاہوں اوررئیسوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ہاتھوں اور گلے اور سر کے تاجوں میں طرح طرح کے زیورات استعمال کرتے تھے، بلکہ ہمارے زمانے میں برطانوی ہند کے راجاؤں اور نوابوں تک میں یہ دستور رائج رہا ہے۔ سورہ زخرف میں بیان ہوا ہے کہ حضرت موسی جب اپنے سادہ لباس میں بس ایک لاٹھی لیے ہوئے فرعون کے دربار میں پہنچے اوراس سے کہا کہ میں اللہ رب ا لعالمین کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں تو اس نے اپنے درباریوں سے کہا کہ یہ اچھا سفیر ہے جو اس حالت میں میرے سامنے آیا ہے، فلو لا القی علیہ اسورۃ من ذھب اوجاء معہ الملئکۃ مقترنین۔ (آیت 53)۔ یعنی اگر یہ زمین و آسمان کے بادشا ہ کی طرف سے بھیجا گیا ہوتا تو کیوں نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے؟ یا ملائکہ کا کوئی لشکر اس کی اردلی میں آتا |
1 | یہی مضمون سورہ کہف آیت 31 میں گزر چکا ہے کہ ویلبسون ثیابا خضرا من سندس و استبرق متکئین فیھا علی الارائک۔ ’’وہ (اہل جنت) باریک ریشم اور اطلس و دیبا کے سبز کپڑے پہنیں گے، اونچی مسندوں پر تکیے لگا کر بیٹھیں گے‘‘۔اس بنا پر ان مفسرین ک ی رائے صحیح نہیں معلوم ہوتی جنہوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اس سے مراد وہ کپڑے ہیں جو ان کی مسندوں یا مسہریوں کے اوپر لٹکے ہوئے ہوں گے، یا یہ ان لڑکوں کا لباس ہو گا جو ان ک یخدمت میں دوڑے پھر رہے ہوں گے |