Ayats Found (13)
Surah 2 : Ayat 17
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ ٱلَّذِى ٱسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّآ أَضَآءَتْ مَا حَوْلَهُۥ ذَهَبَ ٱللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِى ظُلُمَـٰتٍ لَّا يُبْصِرُونَ
اِن کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی اور جب اُس نے سارے ماحول کو روشن کر دیا تو اللہ نے اِن کا نور بصارت سلب کر لیا اور انہیں اس حال میں چھوڑ دیا کہ تاریکیوں میں انہیں کچھ نظر نہیں آتا1
1 | مطلب یہ ہے کہ جب ایک اللہ کے بندے نے روشنی پھیلائی اور حق کو باطل سے ، صحیح کو غلط سے، راہِ راست کو گمراہیوں سے چھانٹ کر بالکل نمایاں کر دیا ، تو جو لوگ دیدہ ٴ بینا رکھتے تھے، ان پر تو ساری حقیقتیں روشن ہو گئیں، مگر یہ منافق ، جو نفس پرستی میں اندھے ہو رہے تھے ، ان کو اس روشنی میں کچھ نظر نہ آیا۔” اللہ نے نورِ بصارت سلب کر لیا“ کے الفاظ سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ان کے تاریکی میں بھٹکنے کی ذمہ داری خود ان پر نہیں ہے۔ اللہ نورِ بصیرت اسی کا سلب کرتا ہے ، جو خود حق کا طالب نہیں ہوتا، خود ہدایت کے بجائے گمراہی کو اپنے لیے پسند کرتا ہے، خود صداقت کا روشن چہرہ نہیں دیکھنا چاہتا۔ جب اُنہوں نے نورِ حق سے منہ پھیر کر ظلمتِ باطل ہی میں بھٹکنا چاہا تو اللہ نے انہیں اسی کی توفیق عطا فرما دی |
Surah 3 : Ayat 183
ٱلَّذِينَ قَالُوٓاْ إِنَّ ٱللَّهَ عَهِدَ إِلَيْنَآ أَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّىٰ يَأْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَأْكُلُهُ ٱلنَّارُۗ قُلْ قَدْ جَآءَكُمْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِى بِٱلْبَيِّنَـٰتِ وَبِٱلَّذِى قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ
جو لوگ کہتے ہیں 1"اللہ نے ہم کو ہدایت کر دی ہے کہ ہم کسی کو رسول تسلیم نہ کریں جب تک وہ ہمارے سامنے ایسی قربانی نہ کرے جسے (غیب سے آکر) آگ کھا لے "، اُن سے کہو، "تمہارے پاس مجھ سے پہلے بہت سے رسول آ چکے ہیں جو بہت سی روشن نشانیاں لائے تھے اور وہ نشانی بھی لائے تھے جس کا تم ذکر کرتے ہو، پھر اگر (ایمان لانے کے لیے یہ شرط پیش کرنے میں) تم سچے ہو تو اُن رسولوں کو تم نے کیوں قتل کیا؟"
1 | بائیبل میں متعدّد مقامات پر یہ ذکر آیا ہے کہ خدا کے ہاں کسی قربانی کے مقبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ غیب سے ایک آگ نمودار ہو کر اسے بھسم کر دیتی تھی (قضاة ٦: ۲۰۔۲١ و ١۳: ١۹۔۲۰)۔ نیز یہ ذکر بھی بائیبل میں آتا ہے کہ بعض مواقع پر کوئی نبی سو ختنی قربانی کرتا تھا اور ایک غیبی آگ آکر اسے کھالیتی تھی(احبار ۔۹ : ۲۴۔۲۔تواریخ۔۷ : ١۔۲) ۔ لیکن یہ کسی جگہ بھی نہیں لکھا کہ اس طرح کی قربانی نبوّت کی کوئی ضروری علامت ہے، یا یہ کہ جس شخص کو یہ معجزہ نہ دیا گیا ہو وہ ہرگز نبی نہیں ہو سکتا۔ یہ محض ایک من گھڑت بہانا تھا جو یہودیوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوّت کا انکار کرنے کے لیے نصنیف کر لیا تھا۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر ان کی حق دشمنی کا ثبوت یہ تھا کہ خود انبیاء ِ بنی اسرائیل میں سے بعض نبی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے آتشیں قربانی کا یہ معجزہ پیش کیا اور پھر بھی یہ جرائم پیشہ لوگ ان کے قتل سے باز نہ رہے۔ مثال کے طور پر بائیبل میں حضرت الیاس ؑ (ایلیاہ تِشبی) کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے بَعل کے پجاریوں کو چیلنج دیا کہ مجمعِ عام میں ایک بیل کی قربانی تم کرو اور ایک کی قربانی میں کرتا ہوں۔ جس کی قربانی کو غیبی آگ کھالے وہی حق پر ہے۔ چنانچہ ایک خلقِ کثیر کے سامنے یہ مقابلہ ہوا اور غیبی آگ نے حضرت الیاس ؑ کی قربانی کھائی۔ لیکن اس کا جو کچھ نتیجہ نکلا وہ یہ تھا کہ اسرائیل کے بادشاہ کی بعل پرست ملکہ حضرت الیاس ؑ کی دشمن ہو گئی، اور وہ زن پرست بادشاہ اپنی ملکہ کی خاطر ان کے قتل کے درپے ہوا اور ان کو مجبوراً ملک سے نِکل کر جزیرہ نما ئے سینا کے پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی( ١۔سلاطین۔باب ١۸ و ١۹)۔ اسی بنا پر ارشاد ہوا ہے کہ حق کے دُشمنو! تم کس منہ سے آتشیں قربانی کا معجزہ مانگتے ہو ؟ جن پیغمبروں نے یہ معجزہ دکھایا تھا انہی کے قتل سے تم کب باز رہے |
Surah 5 : Ayat 64
وَقَالَتِ ٱلْيَهُودُ يَدُ ٱللَّهِ مَغْلُولَةٌۚ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُواْ بِمَا قَالُواْۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَآءُۚ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّآ أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَـٰنًا وَكُفْرًاۚ وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ ٱلْعَدَٲوَةَ وَٱلْبَغْضَآءَ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَـٰمَةِۚ كُلَّمَآ أَوْقَدُواْ نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا ٱللَّهُۚ وَيَسْعَوْنَ فِى ٱلْأَرْضِ فَسَادًاۚ وَٱللَّهُ لَا يُحِبُّ ٱلْمُفْسِدِينَ
یہودی کہتے ہیں اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں1 باندھے گئے ان کے ہاتھ2، اور لعنت پڑی اِن پر اُس بکواس کی بدولت جو یہ کرتے ہیں3 اللہ کے ہاتھ تو کشادہ ہیں، جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے حقیقت یہ ہے کہ جو کلام تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے وہ ان میں سے اکثر لوگوں کی سرکشی و باطل پرستی میں الٹے اضافہ کا موجب بن گیا ہے4، اور (اس کی پاداش میں) ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لیے عداوت اور دشمنی ڈال دی ہے جب کبھی یہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اُس کو ٹھنڈا کر دیتا ہے یہ زمین میں فساد پھیلانے کی سعی کر رہے ہیں مگر اللہ فساد برپا کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا
4 | یعنی بجائے اس کے کہ اس کلام کو سُن کر وہ کوئی مفید سبق لیتے، اپنی غلطیوں اور غلط کاریوں پر متنبّہ ہو کر ان کی تلافی کرتے، اور اپنی گِری ہوئی حالت کے اسباب معلوم کر کے اصلاح کی طرف متوجہ ہوتے، اُن پر اس کا اُلٹا اثر یہ ہوا ہے کہ ضد میں آکر انہوں نے حق و صداقت کی مخالفت شروع کر دی ہے۔ خیر و صلاح کے بھُولے ہوئے سبق کو سُن کر خود راہِ راست پر آنا تو درکنار ، اُن کی اُلٹی کوشش یہ ہے کہ جو آواز اس سبق کو یاد دلا رہی ہے اسے دبا دیں تاکہ کوئی دُوسرا بھی اسے نہ سُننے پائے |
3 | یعنی اس قسم کی گُستاخیاں اور طعن آمیز باتیں کر کے یہ چاہیں کہ خدا ان پر مہربان ہو جائے اور عنایات کی بارش کرنے لگے تو یہ کسی طرح ممکن نہیں۔ بلکہ ان باتوں کا اُلٹا نتیجہ یہ ہے کہ یہ لوگ خدا کی نظرِ عنایت سے اور زیادہ محرُوم اور اس کی رحمت سے اَور زیادہ دُور ہوتے جاتے ہیں |
2 | یعنی بخل میں یہ خود مُبتلا ہیں۔ دُنیا میں اپنے بُخل اور اپنی تنگ دلی کے لیے ضرب المثل بن چکے ہیں |
1 | عربی محاورے کے مطابق کسی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بخیل ہے، عطا اور بخشش سے اُس کا ہاتھ رُکا ہوا ہے ۔ پس یہُودیوں کے اس قول کا مطلب یہ نہیں ہے کہ واقعی اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ بخیل ہے ۔ چونکہ صدیوں سے یہُودی قوم ذلّت و نکبت کی حالت میں مُبتلا تھی اور اس کی گزشتہ عظمت محض ایک افسانہء پارینہ بن کر رہ گئی تھی جس کے پھر واپس آنے کا کوئی امکان اُنہیں نظر نہ آتا تھا ، اس لیے بالعمُوم اپنے قومی مصائب پر ماتم کرتے ہوئے اُس قوم کے نادان لوگ یہ بیہودہ فقرہ کہا کرتے تھے کہ معاذ اللہ خدا تو بخیل ہو گیا ہے، اس کے خزانے کا مُنہ بند ہے ، ہمیں دینے کے لیے اس کے پاس آفات اور مصائب کے سوا اور کچھ نہیں رہا۔ یہ بات کچھ یہُودیوں تک ہی محدُود نہیں، دُوسری قوموں کے جُہلاء کا بھی یہی حال ہے کہ جب ان پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو خدا کی طرف رجُوع کرنے کے بجائے وہ جل جل کر اس قسم کی گُستاخانہ باتیں کیا کرتے ہیں |
Surah 13 : Ayat 17
أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتْ أَوْدِيَةُۢ بِقَدَرِهَا فَٱحْتَمَلَ ٱلسَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيًاۚ وَمِمَّا يُوقِدُونَ عَلَيْهِ فِى ٱلنَّارِ ٱبْتِغَآءَ حِلْيَةٍ أَوْ مَتَـٰعٍ زَبَدٌ مِّثْلُهُۥۚ كَذَٲلِكَ يَضْرِبُ ٱللَّهُ ٱلْحَقَّ وَٱلْبَـٰطِلَۚ فَأَمَّا ٱلزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَآءًۖ وَأَمَّا مَا يَنفَعُ ٱلنَّاسَ فَيَمْكُثُ فِى ٱلْأَرْضِۚ كَذَٲلِكَ يَضْرِبُ ٱللَّهُ ٱلْأَمْثَالَ
اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آ گئے1 اور ویسے ہی جھاگ اُن دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنہیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں2 اِسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے
2 | یعنی بھٹی جس کام کے لیے گرم کی جاتی ہے وہ تو ہے خالص دھات کو تپا کر کارآمد بنانا۔ مگر یہ کام جب بھی کیا جاتا ہے میل کچیل ضرور ابھر آتا ہے اور اس شان سے چرخ کھاتا ہے کہ کچھ دیر تک سطح پر بس وہی وہ نظر آتا رہتا ہے |
1 | اس تمثیل میں اُ س علم کو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے ذریعے سے نازل کیاگیا تھا، آسمانی بارش سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اور ایمان لانے والے سلیم الفطرت لوگوں کو ان ندی نالوں کے مانند ٹھہرایا گیا ہے جو اپنے اپنے ظرف کے مطابق بارانِ رحمت سے بھر پور ہو کر رواں دواں ہو جاتے ہیں۔ ۔ اور اُس ہنگامہ و شورش کو جو تحریکِ اسلامی کی خلاف منکرین و مخالفین نے برپا کر رکھی تھی اُس جھاگ اور اُس خس و خاشاک سے تشبیہ دی گئی ہے جو ہمیشہ سیلاب کے اُٹھتے ہی سطح پر اپنی اچھل کود دکھانی شروع کر دیتا ہے |
Surah 14 : Ayat 50
سَرَابِيلُهُم مِّن قَطِرَانٍ وَتَغْشَىٰ وُجُوهَهُمُ ٱلنَّارُ
تارکول 1کے لباس پہنے ہوئے ہوں گے اور آگ کے شعلے اُن کے چہروں پر چھائے جا رہے ہوں گے
1 | بعض مترجمین و مفسرین نے قَطِیران کے معنی گندھک اور بعض نے پگھلے ہوئے تانبے کے بیان کیے ہیں ، مگر درحقیقت عربی میں قَطِیران کا لفظ زِفت ، قِیر، رال، اور تارکو ل کے لیے استعمال ہوتا ہے |
Surah 18 : Ayat 96
ءَاتُونِى زُبَرَ ٱلْحَدِيدِۖ حَتَّىٰٓ إِذَا سَاوَىٰ بَيْنَ ٱلصَّدَفَيْنِ قَالَ ٱنفُخُواْۖ حَتَّىٰٓ إِذَا جَعَلَهُۥ نَارًا قَالَ ءَاتُونِىٓ أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا
مجھے لوہے کی چادریں لا کر دو" آخر جب دونوں پہاڑوں کے درمیانی خلا کو اس نے پاٹ دیا تو لوگوں سے کہا کہ اب آگ دہکاؤ حتیٰ کہ جب (یہ آہنی دیوار) بالکل آگ کی طرح سُرخ ہو گئی تو اس نے کہا "لاؤ، اب میں اس پر پگھلا ہوا تانبا انڈیلوں گا"
Surah 20 : Ayat 10
إِذْ رَءَا نَارًا فَقَالَ لِأَهْلِهِ ٱمْكُثُوٓاْ إِنِّىٓ ءَانَسْتُ نَارًا لَّعَلِّىٓ ءَاتِيكُم مِّنْهَا بِقَبَسٍ أَوْ أَجِدُ عَلَى ٱلنَّارِ هُدًى
جب کہ اس نے ایک آگ دیکھی1 اور اپنے گھر والوں سے کہا کہ 2" ذرا ٹھیرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے، شاید کہ تمہارے لیے ایک آدھ انگارا لے آؤں، یا اِس آگ پر مجھے (راستے کے متعلق) کوئی رہنمائی مل جائے"
2 | ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ رات کا وقت اور جاڑے کا زمانہ تھا۔ حضرت موسیٰ جزیرہ نماۓ سینا کے جنوبی علاقے سے گزر رہے تھے۔ دور سے ایک آگ دیکھ کر انہوں نے خیال کیا کہ یا تو وہاں سے تھوڑی سی آگ مل جاۓ گی تاکہ بال بچوں کو رات بھر گرم رکھنے کا بندوبست ہو جاۓ ، یا کم از کم وہاں سے یہ پتا چل جاۓ گا کہ آگے راستہ کدھر ہے۔ خیال کیا تھا دنیا کا راستہ ملنے کا، اور وہاں مل گیا عقبٰی کا راستہ |
1 | یہ اس وقت کا قصہ ہے جب حضرت موسیٰ چند سال مَدیَن میں جلا وطنی کی زندگی گزار نے کے بعد اپنی بیوی کو (جن سے مَدیَن ہی میں شادی ہوئی تھی) لے کر مصر کی طرف واپس جا رہے تھے۔ اس سے پہلے کی سرگزشت سورۂ قَصص میں بیان ہوئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ کے ہاتھوں ایک مصری ہلاک ہو گیا تھا اور اس پر انہیں اپنی گرفتاری کا اندیشہ لاحق ہو گیا تھا تو وہ مصر سے بھاگ کر مدین میں پناہ گزیں ہوۓ تھے |
Surah 28 : Ayat 29
۞ فَلَمَّا قَضَىٰ مُوسَى ٱلْأَجَلَ وَسَارَ بِأَهْلِهِۦٓ ءَانَسَ مِن جَانِبِ ٱلطُّورِ نَارًا قَالَ لِأَهْلِهِ ٱمْكُثُوٓاْ إِنِّىٓ ءَانَسْتُ نَارًا لَّعَلِّىٓ ءَاتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ ٱلنَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ
جب موسیٰؑ نے مدت پوری کر دی1 اور وہ اپنے اہل و عیال کو لے کر چلا تو طُور کی جانب اس کو ایک آگ نظر آئی2 اُس نے اپنے گھر والوں سے کہا "ٹھیرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے، شاید میں وہاں سے کوئی خبر لے آؤں یا اس آگ سے کوئی انگارہ ہی اُٹھا لاؤں جس سے تم تاپ سکو"
2 | اس سفرکارخ طُورکی جانب ہونے سے یہ خیال ہوتا ہےکہ حضرت موسٰیؑ اپنے اہل وعیال کو لےکر مصر ہی جانا چاہتے ہوں گے۔ اس لیے کہ طوراُس راستے پرہے جومدین سے مصر کی طرف جاتا ہے۔ غالباََ حضرت موسٰیؑ نے خیال کیا ہوگا کہ دس سال گزرچکے ہیں۔ فرعون بھی مرچکا ہے جس کی حکومت کےزمانے میں وہ مصر سےنکلے تھے۔ اب اگر خاموشی کےساتھ وہاں چلاجاؤں اوراپنےخاندان والوں کے ساتھ رہ پڑوں توشاید کسی کومیرا بتہ بھی نہ چلے۔ بائیبل کابیان یہاں واقعات کی ترتیب میںقرآن کے بیاں سے بالکل مختلف ہے۔ وہ کہتی ہے۔ کہ حضرت موسٰیؑ اپنے سسر کی بکریاں چراتے ہوئے’’ بیابان کے پرلی طرف سےخدا کے پہاڑ حورب کےنزدیک‘‘ آنکلے تھے۔ اُس وقت اللہ تعالی نے ان سے کلام کیا اورانہیں رسالت کے منصب پرمامور کرکے مصر کاحکم دیا۔ پھر وہ اپنے سسر کے پاس واپس آگئے اوران سے اجازت کے کر اپنے بال بچوں کے ساتھ مصر روانہ ہوئے(خروج۱:۳۔۱۸:۴)۔ اس کے برعکس قرآن کہتا ہےکہ حضرت موسٰیؑ مدت پوری کرنے کے بعد اپنے اہل وعیال کولے کرمدین سے روانہ ہوئے اوراس سفر میں اللہ تعالیٰ کی مخاطب اورمنصب نبوت پرتقرر کامعاملہ پیش آیا بائیبل اورتلمود دونوں کا متفقہ بیان ہے کہ حضرت موسٰیؑ کے زمانہ قیام مدین میں فرعون مرچکا تھا جس کے ہاں انہوں نے پرورش پائی تھی اوراب ایک دوسرا فرعون مصر کافرمانرواتھا۔ |
1 | حضرت حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنھافرماتے ہیں کہ حضرت موسٰیؑ نے آٹھ کے بجائے دس سال کی مدت پوری کی تھی۔ ابن عباس کی روایت ہےکہ یہ بات خود نبی ﷺ سےمروی ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا قضیٰ موسٰی اتم الاجلین واطیبھاعشرسنین۔ ’’ موسٰی علیہ السلام نے دونوں مدتوں میں سے وہ مدت پوری کی جوزیادہ کامل اوران کے خسر کےلیے زیادہ خوشگوار تھی، یعنی دس سال‘‘ |
Surah 36 : Ayat 80
ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُم مِّنَ ٱلشَّجَرِ ٱلْأَخْضَرِ نَارًا فَإِذَآ أَنتُم مِّنْهُ تُوقِدُونَ
وہی جس نے تمہارے لیے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کر دی اور تم اس سے اپنے چولہے روشن کرتے ہو1
1 | یا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ہرے بھرے درختوں میں وہ آتش گیر مادہ رکھا ہے جس کی بدولت تم لکڑیوں سے آگ جلاتے ہو۔یا پھر یہ اشارہ ہے مرْخ اور عَفَار نامی ان دو درختوں کی طرف جن کی ہری بھری ٹہنیوں کو لے کر اہل عرب ایک دوسرے پر مارتے تھے تو ان سے آگ جھڑنے لگتی تھی۔قدیم زمانہ میں عرب کے بدّو آگ جلانے کے لیے یہی چقماق استعمال کیا کرتے تھے اور ممکن ہے آج بھی کرتے ہوں۔ |
Surah 56 : Ayat 71
أَفَرَءَيْتُمُ ٱلنَّارَ ٱلَّتِى تُورُونَ
کبھی تم نے خیال کیا، یہ آگ جو تم سلگاتے ہو