Ayats Found (19)
Surah 2 : Ayat 164
إِنَّ فِى خَلْقِ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ وَٱخْتِلَـٰفِ ٱلَّيْلِ وَٱلنَّهَارِ وَٱلْفُلْكِ ٱلَّتِى تَجْرِى فِى ٱلْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ ٱلنَّاسَ وَمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مِن مَّآءٍ فَأَحْيَا بِهِ ٱلْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٍ وَتَصْرِيفِ ٱلرِّيَـٰحِ وَٱلسَّحَابِ ٱلْمُسَخَّرِ بَيْنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ لَأَيَـٰتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
(اِس حقیقت کو پہچاننے کے لیے اگر کوئی نشانی اور علامت درکا رہے تو) جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں اُن کے لیے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں، اُن کشتیوں میں جوا نسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اُس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے زمین کو زندگی بخشتا ہے اور اپنے اِسی انتظام کی بدولت زمین میں ہر قسم کی جان دار مخلوق پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش میں، اور اُن بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں، بے شمار نشانیاں ہیں1
1 | یعنی اگر انسان کائنات کے اس کارخانے کو، جو شب و روز اس کی آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے ، محض جانوروں کی طرح نہ دیکھے بلکہ عقل سے کام لے کر اس نظام پر غور کرے، اور ضد یا تعصّب سے آزاد ہو کر سوچے، تو یہ آثار جو اس کے مشاہدے میں آرہے ہیں اس نتیجے پر پہنچانے کے لیے بالکل کافی ہیں کہ یہ عظیم الشان نظام ایک ہی قادرِ مطلق حکیم کے زیرِ فرمان ہے، تمام اختیار و اقتدار بالکل اُسی ایک کے ہاتھ میں ہے، کسی دُوسرے کی خود مختارانہ مداخلت یا مشارکت کے لیے اس نظا م میں ذرہ برابر کوئی گنجائش نہیں، لہٰذا فی الحقیقت وہی ایک خدا تمام موجوداتِ عالم کو خدا ہے، اس کے سوا کوئی ہستی کسی قسم کے اختیارات رکھتی ہی نہیں کہ خدائی اور اُلوہیّت میں اس کا کوئی حصّہ ہو |
Surah 7 : Ayat 57
وَهُوَ ٱلَّذِى يُرْسِلُ ٱلرِّيَـٰحَ بُشْرَۢا بَيْنَ يَدَىْ رَحْمَتِهِۦۖ حَتَّىٰٓ إِذَآ أَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالاً سُقْنَـٰهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَنزَلْنَا بِهِ ٱلْمَآءَ فَأَخْرَجْنَا بِهِۦ مِن كُلِّ ٱلثَّمَرَٲتِۚ كَذَٲلِكَ نُخْرِجُ ٱلْمَوْتَىٰ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اور وہ اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو اپنی رحمت کے آگے آگے خوشخبری لیے ہوئے بھیجتا ہے، پھر جب وہ پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھا لیتی ہیں تو انہیں کسی مردہ سر زمین کی طرف حرکت دیتا ہے، اور وہاں مینہ برسا کر (اُسی مری ہوئی زمین سے) طرح طرح کے پھل نکال لاتا ہے دیکھو، اس طرح ہم مُردوں کو حالت موت سے نکالتے ہیں، شاید کہ تم اس مشاہدے سے سبق لو
Surah 10 : Ayat 22
هُوَ ٱلَّذِى يُسَيِّرُكُمْ فِى ٱلْبَرِّ وَٱلْبَحْرِۖ حَتَّىٰٓ إِذَا كُنتُمْ فِى ٱلْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِم بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُواْ بِهَا جَآءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَآءَهُمُ ٱلْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوٓاْ أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْۙ دَعَوُاْ ٱللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَـٰذِهِۦ لَنَكُونَنَّ مِنَ ٱلشَّـٰكِرِينَ
وہ اللہ ہی ہے جو تم کو خشکی اور تری میں چلاتا ہے چنانچہ جب تم کشتیوں میں سوار ہو کر بادِ موافق پر فرحاں و شاداں سفر کر رہے ہوتے ہو اور پھر یکایک بادِ مخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اور مسافر سمجھ لیتے ہیں کہ طوفان میں گھر گئے، اُس وقت سب اپنے دین کو اللہ ہی کے لیے خالص کر کے اس سے دُعائیں مانگتے ہیں کہ “اگر تو نے ہم کو اس بلا سے نجات دے دی تو ہم شکر گزار بندے بنیں گے1"
1 | یہ توحید کے برحق ہونے کی نشانی ہرانسان کے نفس میں موجود ہے۔ جب تک اسباب سازگار رہتے ہیں، انسان خدا کو بھولا اور دنیا کی زندگی پر پھولا رہتا ہے۔ جہاں اسباب نے ساتھ چھوڑااور وہ سب سہارے جن کے بل پر وہ جی رہا تھا ٹوٹ گئے، پھر کٹّے سے کٹّے مشرک اور سخت سے سخت دہریے کے قلب سے بھی یہ شہادت اُبلنی شروع ہو جاتی ہے کہ اس سارے عالم اسباب پر کوئی خدا کارفرما ہے اور وہ ایک ہی خدائے غالب و توانا ہے۔ (ملاحظہ ہو الانعام، حاشیہ نمبر ۲۹) |
Surah 14 : Ayat 18
مَّثَلُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ بِرَبِّهِمْۖ أَعْمَـٰلُهُمْ كَرَمَادٍ ٱشْتَدَّتْ بِهِ ٱلرِّيحُ فِى يَوْمٍ عَاصِفٍۖ لَّا يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُواْ عَلَىٰ شَىْءٍۚ ذَٲلِكَ هُوَ ٱلضَّلَـٰلُ ٱلْبَعِيدُ
جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کے اعمال کی مثال اُس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اڑا دیا ہو وہ اپنے کیے کا کچھ بھی پھل نہ پا سکیں گے1 یہی پرلے درجے کی گم گشتگی ہے
1 | یعنی جن لوگوں نے اپنے رب کے ساتھ نمک حرامی ، بے وفائی، خود مختاری اور نافرمانی و سرکشی کی روش اختیار کی ، اور اطاعت و بندگی کا وہ طریقہ اختیار کرنے سے انکار کر دیا جس کی دعوت انبیاء علیہم السلام لے کر آئے ہیں ، اُن کا پورا کارنامۂ حیات اور زندگی بھر کا سارا سرمایہ ٔ عمل آخر کار ایسا لاحاصل اور بے معنی ثابت ہو گا جیسے ایک راکھ کا ڈھیر تھا جو اکٹھا ہو ہو کر مدّتِ دراز میں بڑا بھاری ٹیلہ سا بن گیا تھا ، مگر صرف ایک ہی دن کی آندھی نے اس کو ایسا اڑایا کہ اُس کا ایک ایک درّہ منتشر ہو کر رہ گیا۔ اُن کی نظر فریب تہذیب ، اُن کا شاندار تمدن ، اُن کی حیرت انگیز صنعتیں ، اُن کی زبردست سلطنتیں ، اُن کی عالیشان یونیورسٹیاں ، اُن کے علوم و فنون اور ادبِ لطیف و کثیف کے اتھاہ ذخیرے، حتیِ کہ اُن کی عبادتیں اور اُن کی ظاہری نیکیاں اور اُن کے بڑے بڑے خیراتی اور رفائی کارنامےبھی، جن پر وہ دنیا میں فخر کرتے ہیں ، سب کے سب آخر کار راکھ کا ایک ڈھیر ہی ثابت ہوں گے جسے یوم ِ قیامت کی آندھی بالکل صاف کر دے گی اور عالمِ آخرت میں اُس کا ایک ذرّہ بھی اُن کے پاس اس لائق نہ رہے گا کہ اُسے خدا کی میزان میں رکھ کر کچھ بھی وزن پا سکیں |
Surah 15 : Ayat 22
وَأَرْسَلْنَا ٱلرِّيَـٰحَ لَوَٲقِحَ فَأَنزَلْنَا مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَسْقَيْنَـٰكُمُوهُ وَمَآ أَنتُمْ لَهُۥ بِخَـٰزِنِينَ
بار آور ہواؤں کو ہم ہی بھیجتے ہیں، پھر آسمان سے پانی برساتے ہیں، اور اُس پانی سے تمہیں سیراب کرتے ہیں اِس دولت کے خزانہ دار تم نہیں ہو
Surah 17 : Ayat 69
أَمْ أَمِنتُمْ أَن يُعِيدَكُمْ فِيهِ تَارَةً أُخْرَىٰ فَيُرْسِلَ عَلَيْكُمْ قَاصِفًا مِّنَ ٱلرِّيحِ فَيُغْرِقَكُم بِمَا كَفَرْتُمْۙ ثُمَّ لَا تَجِدُواْ لَكُمْ عَلَيْنَا بِهِۦ تَبِيعًا
اور کیا تمہیں اِس کا کوئی اندیشہ نہیں کہ خدا پھر کسی وقت سمندر میں تم کو لے جائے اور تمہاری ناشکری کے بدلے تم پر سخت طوفانی ہوا بھیج کر تمہیں غرق کر دے اور تم کو ایسا کوئی نہ ملے جو اُس سے تمہارے اِس انجام کی پوچھ گچھ کرسکے؟
Surah 18 : Ayat 45
وَٱضْرِبْ لَهُم مَّثَلَ ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا كَمَآءٍ أَنزَلْنَـٰهُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ فَٱخْتَلَطَ بِهِۦ نَبَاتُ ٱلْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ ٱلرِّيَـٰحُۗ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ مُّقْتَدِرًا
اور اے نبیؐ! اِنہیں حیات دنیا کی حقیقت اِس مثال سے سمجھاؤ کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسا دیا تو زمین کی پَود خُوب گھنی ہو گئی، اور کل وہی نباتات بھُس بن کر رہ گئی جسے ہوائیں اڑائے لیے پھرتی ہیں اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے1
1 | یعنی وہ زندگی بھی بخشتا ہے اور موت بھی۔ وہ عروج بھی عطا کرتا ہے اور زوال بھی۔ اس کے حکم سے بہار آتی ہے تو خزاں بھی آ جاتی ہے۔ اگر آج تمہیں عیش اور خوشحالی میسر ہے تو اس غرے میں نہ رہو کہ یہ حالت لازوال ہے۔ جس خدا کے حکم سے یہ کچھ تمہیں ملا ہے اسی کے حکم سے سب کچھ تم سے چھن بھی سکتا ہے۔ |
Surah 21 : Ayat 81
وَلِسُلَيْمَـٰنَ ٱلرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِى بِأَمْرِهِۦٓ إِلَى ٱلْأَرْضِ ٱلَّتِى بَـٰرَكْنَا فِيهَاۚ وَكُنَّا بِكُلِّ شَىْءٍ عَـٰلِمِينَ
اور سلیمانؑ کے لیے ہم نے تیز ہوا کو مسخّر کر دیا تھا جو اس کے حکم سے اُس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں1، ہم ہر چیز کا علم رکھنے والے تھے
1 | اس کی تفصیل سورہ سبا میں یہ آئی ہے : وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّ یْحَ غُدُ رُّ ھَا شَھْرٌ وَ رَوَا حُھَا شَھْرٌ ، ’’ اور سلیمان کے لیے ہم نے ہوا کو مسخر کر دیا تھا، ایک مہینے کی راہ تک اس کا چلنا صبح کو اور ایک مہینے کی راہ تک اس کا چلنا شام کو ‘‘۔ پھر اس کی مزید تفصیل سورہ ص میں یہ آتی ہے : فَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیحَ تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖ رَخَآ ءً حَیْثُ یشآءُ ۔ ’’ پس ہم نے اس کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا جو اس کے حکم سے بسہولت چلتی تھی جدھر وہ جانا چاہتا ‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہوا کہ حضرت سلیمان کے لیے اس طرح تابع امر کر دیا گیا تھا کہ ان کی مملکت سے ایک مہینے کی راہ تک کے مقامات کا سفر بسہولت کیا جا سکتا تھا۔ جانے میں بھی ہمیشہ ان کی مرضی کے مطابق باد موافق ملتی تھی اور واپسی پر بھی ۔ بائیبل اورجدید تاریخی تحقیقات سے اس مضمون پر جو روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان نے اپنے دور سلطنت میں بہت بڑے پیمانے پر بحری تجارت کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ایک طرف عصیون جابر سے ان کے تجارتی جہاز بحر احمر میں یمن اور دوسرے جنوبی و مشرقی ممالک کی طرف جاتے تھے ، اور دوری طرف بحر روم کے بندر گاہوں ے ان کا بیڑہ (جسے بائیبل میں ’’ ترسیسی بیڑہ ‘‘ کہا گیا ہے ) مغربی ممالک کی طرف جایا کرتا تھا۔ عصیون جابر میں ان کے زمانے کی جو عظیم الشان بھٹی ملی ہے اس کے مقابلے کی کوئی بھٹی مغربی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں ابھی تک نہیں ملی۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہاں ادوم کے علاقہ عَرَبَہ کی کانوں سے خام لوہا اور تانبا لایا جاتا تھا اوراس بھٹی میں پگھلا کر اسے دوسرے کاموں کے علاوہ جہاز سازی میں بھی استعمال کیا جا تا تھا۔ اس سے قرآن مجید کی اس آیت کے مفہوم پر روشنی پڑتی ہے جو سورہ سبا میں حضرت سلیمان کے متعلق آئی ہے کہ : وَاَسَلْنَا لَہٗ عَیْنَ الْقِطْرِ ، ’’ اور ہم نے اس کے لیے پگھلی ہوئی دھات کا چشمہ بہا دیا ‘‘۔ نیز اس تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات بھی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ حضرت سلیمان کے لیے ایک مہینے کی راہ تک ہوا کی رفتار کو ’’ مسخر‘‘ کرنے کا کیا مطلب ہے ۔ اس زمانے میں بحری سفر کا سارا انحصار باد موافق ملنے پر تھا، اور اللہ تعالیٰ کا حضرت الیمان پر یہ کرم خاص تھا کہ وہ ہمیشہ ان کے دونوں بحری بیڑوں کو ان کی مرضی کے مطابق ملتی تھی ۔ تا ہم اگر ہوا پر حضرت سلیمانؑ کو حکم چلانے کا بھی کوئی اقتدار دیا گیا ہو، جیسا کہ : تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖ ، (اس کے حکم سے چلتی تھی) کے ظاہر الفاظ سے مترشح ہوتا ہے ،تو یہ اللہ کی قدرت سے بعید نہیں ہے ۔ وہ اپنی مملکت کا آپ مالک ہے ۔ اپنے جس بندے کو جو اختیارات چاہے دے سکتا ہے ۔ جب وہ خود کسی کو کوئی اختیار دے تو ہمارا دل دکھنے کی وجہ نہیں |
Surah 25 : Ayat 48
وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَرْسَلَ ٱلرِّيَـٰحَ بُشْرَۢا بَيْنَ يَدَىْ رَحْمَتِهِۦۚ وَأَنزَلْنَا مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً طَهُورًا
اور وہی ہے جو اپنی رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بشارت بنا کر بھیجتا ہے پھر آسمان سے پاک1 پانی نازل کرتا ہے
1 | یعنی ایسا پانی جو ہر طرح کی گندگیوں سے بھی پاک ہوتا ہے اور ہر طرح کے زہریلے مادوں اور جراثیم سے بھی پاک ۔ جس کی بدولت نجاستیں دھلتی ہیں اور انسان ، حیوان ، نباتات ، سب کو زندگی بخشنے والا جوہر خالص بہم پہنچتا ہے |
Surah 27 : Ayat 63
أَمَّن يَهْدِيكُمْ فِى ظُلُمَـٰتِ ٱلْبَرِّ وَٱلْبَحْرِ وَمَن يُرْسِلُ ٱلرِّيَـٰحَ بُشْرَۢا بَيْنَ يَدَىْ رَحْمَتِهِۦٓۗ أَءِلَـٰهٌ مَّعَ ٱللَّهِۚ تَعَـٰلَى ٱللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ
اور وہ کون ہے جو خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں تم کو راستہ دکھاتا ہے1 اور کون اپنی رحمت کے آگے ہواؤں کو خوشخبری لے کر بھیجتا ہے؟2 کیا اللہ کے ساتھ کوئی دُوسرا خدا بھی (یہ کام کرتا) ہے؟ بہت بالا و برتر ہے اللہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں
2 | رحمت سے مراد ہے بارش جس کے آنے سے پہلے ہوائیں اس کی آمد آمد کی خبر دیتی ہیں۔ |
1 | یعنی جس نےستاروں کے زریعہ سے انتظام کردیا ہے کہ تم رات کےاندھیرے میں بھی اپنا راستہ تلاش کرسکتے ہو۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکیمانہ تدبیروں میںسے ایک ہے کہ اس نے بحری اوربرّی سفروں میں انسان کی رہنمائی کےلیے وہ زرائع پیدا کردیے ہیں جن سے وہ اپنی سمت سفر، اور منزل مقصود کی طرف اپنی متعین کرتا ہے دن کے وقت زمین کی مختلف علامتیں اورآفتاب کے طلوع وغروب کی سمتیں اس کی مدد کرتی ہیں اورتاریک راتوں میں تارے اس کی رہنمائی کرتے ہیں۔ سورہ نحل میں ان سب کو اللہ تعالیٰ کے احسانات میں شمار کیاگیاہے:ووعلامات وبالنجم ھم یھتدون،(آیت۱۶)۔ |