Ayats Found (5)
Surah 17 : Ayat 43
سُبْحَـٰنَهُۥ وَتَعَـٰلَىٰ عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا
پاک ہے وہ اور بہت بالا و برتر ہے اُن باتوں سے جو یہ لوگ کہہ رہے ہیں
Surah 21 : Ayat 22
لَوْ كَانَ فِيهِمَآ ءَالِهَةٌ إِلَّا ٱللَّهُ لَفَسَدَتَاۚ فَسُبْحَـٰنَ ٱللَّهِ رَبِّ ٱلْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ
اگر آسمان و زمین میں ایک اللہ کے سوا دُوسرے خدا بھی ہوتے تو (زمین اور آسمان) دونوں کا نظام بگڑ جاتا1 پس پاک ہے اللہ ربّ العرش2 اُن باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں
2 | رب العرش ، یعنی کائنات کے تخت سلطنت کا مالک |
1 | یہ استدلال سادہ بھی ہے اور بہت گہرا بھی ۔ سادہ سی بات ، جس کو ایک بدوی ، ایک دیہاتی، ایک موٹی سی سمجھ کا آدمی بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے ، یہ ہے کہ ایک معمولی گھر کا نظام بھی چار دن بخیریت نہیں چل سکتا اگر اس کے دو صاحب خانہ ہوں ۔ اور گہری بات یہ ہے کہ کائنات کا پورا نظام ، زمین کی تہوں سے لے کر بعید ترین سیاروں تک ، ایک ہمہ گیر قانون پر چل رہا ہے ۔ یہ ایک لمحہ کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتا اگر اس کی بر شمار مختلف قوتوں اور بے حد و حساب چیزوں کے درمیان تناسب اورتوازن اور ہم آہنگی اور تعاون نہ ہو۔ اور یہ سب کچھ اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ کوئی اٹل اور غالب و قاہر ضابطہ ان بے شمار اشیاء اور قوتوں کو پوری مناسبت کے ساتھ باہم تعاون کرتے رہنے پر مجبور کر رہا ہو۔ اب یہ کس طرح تصور کیا جا سکتا ہے کہ بہت سے مطلق العنان فرمانرواؤں کی حکومت میں ایک ضابطہ اس باقاعدگی کے ساتھ چل سکے ؟ نظم کا وجود خود ہی ناظم کی وحدت کو مستلزم ہے ۔ قانون اور ضابطہ کی ہمہ گیری آپ ہی اس بات پر شاہد ہے کہ اختیارات ایک ہی حاکمیت میں مرکوز ہیں اور وہ حاکمیت مختلف حاکموں میں بٹی ہوئی نہیں ہے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ، تفہیم القرآن ، جلد دوم، بنی اسرائیل ، حاشیہ 47 جلد سوم ، المومنون ، حاشیہ 85 ) |
Surah 23 : Ayat 91
مَا ٱتَّخَذَ ٱللَّهُ مِن وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُۥ مِنْ إِلَـٰهٍۚ إِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ إِلَـٰهِۭ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍۚ سُبْحَـٰنَ ٱللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ
اللہ نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا ہے1 اور کوئی دوسرا خدا اُس کے ساتھ نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی خلق کو لے کر الگ ہو جاتا، اور پھر وہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے2 پاک ہے اللہ ان باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں
2 | یعنی یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ کائنات کی مختلف قوتوں اور مختلف حصوں کے خالق اور مالک الگ الگ خدا ہوتے اور پھر ان کے درمیان ایسا مکمل تعاون ہوتا جیسا کہ تم اس پورے نظام عالم کی بے شمار قوتوں اور بے حد و حساب چیزوں میں ،اور ان گنت تاروں اور سیاروں میں پا رہے ہو۔ نظام کی باقاعدگی اور اجزائے نظام کی ہم آہنگی اقتدار کی مرکزیت و وحدت پر خود دلالت کر رہی ہے۔ اگر اقتدار بٹا ہوا ہوتا تو صاحب اقتدار میں اختلاف رونما ہونا یقیناً ناگزیر تھا۔ اور یہ اختلاف ان کے درمیان جنگ اور تصادم تک پہنچے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ یہی مضمون سورہ انبیاء میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ : لَوْ کَانَ فَیْھِمَآ اٰ لِھَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا ، (آیت 22 )۔’’ اگر زمین اور آسمان میں اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو دونوں کا نظام بگڑ جاتا ‘‘۔ اور یہی استدلال سورہ نبی اسرائیل میں گزر چکا ہے کہ : لَوْ کَانَ مَعَہٗ اٰلِھَۃٌ کَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذً الَّا بْتَغَوْا اِلیٰ ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلاًO (آیت 42) ’’ اگر اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہوتے ، جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں ، تو ضرور وہ مالک عرش کے مقام پر پہنچنے کی کوشش کرتے ‘‘۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، بنی اسرائیل ، حاشیہ 47۔ جلد سوم، الانبیاء ، حاشیہ 22 |
1 | یہاں کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ ارشاد محض عیسائیت کی تردید میں ہے۔ نہیں ، مشرکین عرب بھی اپنے معبودوں کو خدا کی اولاد قرار دیتے تھے ل اور دنیا کے اکثر مشرکین اس گمراہی میں ان کے شریک حال رہے ہیں۔ چونکہ عیسائیوں کا عقیدہ ’’ ابن اللہ‘‘ زیادہ مشہور ہو گیا ہے اس لیے بعض اکابر مفسرین تک کو یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی کہ یہ آیت اسی کی تردید میں وارد ہوئی ہے۔ حالانکہ ابتدا سے روئے سخن کفار مکہ کی طرف ہے اور آخر تک ساری تقریر کے مخاطب وہی ہیں۔ اس سیاق و سباق میں یکایک عیسائیوں کی طرف کلام کا رخ پھر جانا بے معنی ہے۔ البتہ ضمناً اس میں ان تمام لوگوں کے عقائد کی تردید ہو گئی ہے جو خدا سے اپنے معبودوں یا پیشواؤں کا نسب ملاتے ہیں ، خواہ وہ عیسائی ہوں یا مشرکین عرب یا کوئی اور |
Surah 37 : Ayat 159
سُبْحَـٰنَ ٱللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ
(اور وہ کہتے ہیں کہ) "اللہ اُن صفات سے پاک ہے
Surah 37 : Ayat 170
فَكَفَرُواْ بِهِۦۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ
مگر (جب وہ آ گیا) تو انہوں نے اس کا انکار کر دیا اب عنقریب اِنہیں (اِس روش کا نتیجہ) معلوم ہو جائے گا