Ayats Found (7)
Surah 3 : Ayat 117
مَثَلُ مَا يُنفِقُونَ فِى هَـٰذِهِ ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا كَمَثَلِ رِيحٍ فِيهَا صِرٌّ أَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوٓاْ أَنفُسَهُمْ فَأَهْلَكَتْهُۚ وَمَا ظَلَمَهُمُ ٱللَّهُ وَلَـٰكِنْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
جو کچھ وہ اپنی اس دنیا کی زندگی میں خرچ کر رہے ہیں اُس کی مثال اُس ہوا کی سی ہے جس میں پالا ہو اور وہ اُن لوگوں کی کھیتی پر چلے جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور اسے برباد کر کے رکھ دے1 اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا در حقیقت یہ خود اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں
1 | اِس مثال میں کھیتی سے مراد یہ کشتِ حیات ہے جس کی فصل آدمی کو آخرت میں کاٹنی ہے ۔ ہَوا سے مراد وہ اُوپری جزبہٴ خیر ہے جس کی بنا پر کفار رفاہِ عام کے کاموں اور خیرات وغیرہ میں دولت صرف کرتے ہیں ۔ اور پالے سے مراد صحیح ایمان اور ضابطہٴ خداوندی کی پیروی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ان کو پوری زندگی غلط ہو کر رہ گئی ہے۔ اللہ تعالٰی اس تمثیل سے یہ بتا نا چاہتا ہے کہ جس طرح ہوا کھیتیوں کی پرورش کے لیے مفید ہے لیکن اگر اسی ہوا میں پالا ہو تو کھیتی کو پرورش کرنے کے بجائے اسے تباہ کر ڈالتی ہے ، اسی طرح خیرات بھی اگرچہ انسان کے مزرعہٴ آخرت کو پرورش کرنے والی چیز ہے ، مگر جب اس کے اند رکفر کا زہر ملا ہو ا ہو تو یہی خیرات مفید ہونے کے بجائے اُلٹی مہلک بن جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان کا مالک اللہ ہے ، اور اُس مال کا مالک بھی اللہ ہی ہے جس میں انسان تصرف کر رہا ہے ، اور یہ مملکت بھی اللہ ہی کی ہے جس کے اند ر رہ کر انسان کام کر رہا ہے ۔ اب اگر اللہ یا یہ غلام اپنے مالک کے اقتدارِ اعلٰی کو تسلیم نہیں کرتا، یا اس کی بندگی کے ساتھ کسی اَور کی ناجائز بندگی بھی شریک کرتا ہے ، اور اللہ کے مال اور اس کی مملکت میں تصرف کرتے ہوئے اس کے قانون و ضابطہ کی اطاعت نہیں کرتا ، تو اس کے یہ تمام تصرفات ازسر تا پا جُرم بن جاتے ہیں۔ اجر ملنا کیسا وہ تواِس کا مستحق ہے کہ اِن تمام حرکات کے لیے اس پر فوجداری کا مقدمہ قائم کیا جائے۔ اُ س کی خیرات کی مثال ایسی ہے جیسے ایک نوکر اپنے آقا کی اجازت کے بغیر اس کا خزانہ کھولے اور جہاں جہاں اپنی دانست میں مناسب سمجھے خرچ کر ڈالے |
Surah 33 : Ayat 9
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱذْكُرُواْ نِعْمَةَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَاۚ وَكَانَ ٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا
اے لوگو1، جو ایمان لائے ہو، یاد کرو اللہ کے احسان کو جو (ابھی ابھی) اُس نے تم پر کیا ہے جب لشکر تم پر چڑھ آئے تو ہم نے اُن پر ایک سخت آندھی بھیج دی اور ایسی فوجیں روانہ کیں جو تم کو نظر نہ آتی تھیں2 اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا جو تم لوگ اس وقت کر رہے تھے
2 | یہ آندھی اُسی وقت آگئی تھی جبکہ دشمنوں کے لشکر مدینے پر چڑھ کر آئے تھے بلکہ اُس وقت آئی تھی جب محاصرے کو تقریباً ایک مہینہ گزر چکا تھا۔ نظر نہ آنے والی ’’ فوجوں‘‘ سے مُراد وہ مخفی طاقتیں ہیں جو انسانی معاملات میں اللہ تعالٰی کے اشارے پر کام کرتی رہتی ہیں اور انسانوں کو ان کی خبر تک نہیں ہوتی۔ انسان واقعات و حوادث کو صرف ان کے ظاہری اسباب پر محمول کرتا ہے۔ لیکن اندر ہی اندر غیر محسوس طور پر جو قوتیں کام کرتی ہیں وہ اس کے حساب میں نہیں آتیں، حالانکہ اکثر حالات میں انہی مخفی طاقتوں کی کار فرمائی فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے۔ یہ طاقتیں چونکہ اللہ تعالٰی کے فرشتوں کی ماتحتی میں کام کرتی ہیں اس لیے ’’فوجوں‘‘ سے مُراد فرشتے بھی لیے جا سکتے ہیں، اگرچہ یہاں فرشتوں کی فوجیں بھیجنے کی صراحت نہیں ہے۔ |
1 | یہاں سے رکوع ۳ تک کی آیات اُس وقت نازل ہوئی تھیں جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم غزوۂ بنی قریظہ سے فارغ ہو چکے تھے۔ ان دونوں رکوعوں میں غزوۂ احزاب اور غزوۂ بنی قریظہ کے واقعات پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ ان کو پڑھتے وقت اِن دونوں غزوات کی وہ تفصیلات نگاہ میں رہنی چاہییں جو ہم دیباچے میں بیان کر آئے ہیں۔ |
Surah 32 : Ayat 16
تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ ٱلْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَـٰهُمْ يُنفِقُونَ
اُن کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں1، اور جو کچھ رزق ہم نے اُنہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں2
2 | رزق سے مُراد ہے رزق حلال۔ مال حرام کواللہ تعالٰی اپنے دیے ہوئے رزق سے تعبیر نہیں فرماتا۔ لہٰذا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو تھوڑا یا بہت پاک رزق ہم نے اُنہیں دیا ہے اسی میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اِس سے تجاوز کر کے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے حرام مال پر ہاتھ نہیں مارتے۔ |
1 | یعنی راتوں کو داد عیش دیتے پھرنے کے بجائے وہ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں۔ اُن کا حال اُن دُنیا پرستوں کا سا نہیں ہے جنہیں دِن کی محنتوں کی کلفت دُور کرنے کے لیے راتوں کو ناچ گانے اورشراب نوشی اورکھیل تماشوں کی تفریحات درکار ہوتی ہیں۔ اس کے بجائے ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ دِن بھراپنے فرائض انجام دے کر جب وہ فارغ ہوتے ہیں تو اپنے رب کے حضور کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کی یاد میں راتیں گزارتے ہیں۔ اس کے خوف سے کانپتے ہیں اوراسی سے اپنی ساری اُمیدیں وابستہ کرتے ہیں۔ بستروں سے پیٹھیں الگ رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ راتوں کو سوتے ہی نہیں ہیں، بلکہ اس سے مُراد یہ ہے کہ وہ راتوں کا ایک حصّہ خدا کی عبادت میں صرف کرتے ہیں۔ |
Surah 46 : Ayat 24
فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُواْ هَـٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَاۚ بَلْ هُوَ مَا ٱسْتَعْجَلْتُم بِهِۦۖ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ
پھر جب انہوں نے اُس عذاب کو اپنی وادیوں کی طرف آتے دیکھا تو کہنے لگے "یہ بادل ہے جو ہم کو سیراب کر دے گا" "نہیں، بلکہ یہ وہی چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے یہ ہوا کا طوفان ہے جس میں دردناک عذاب چلا آ رہا ہے
1 | یہاں اس امر کی کوئی تصریح نہیں ہے کہ ان کو یہ جواب کس نے دیا۔ کلام کے انداز سے خود بخود یہ مترشح ہوتا ہے کہ وہ جواب تھا جو اصل صورت حال نے عملاً ان کو دیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ بادل ہے جو ان کی وادیوں کو سیراب کرنے آیا ہے اور حقیقت میں تھا وہ ہوا کا طوفان جو انہیں تباہ و برباد کرنے کے لیے چلا آ رہا تھا |
Surah 51 : Ayat 41
وَفِى عَادٍ إِذْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ ٱلرِّيحَ ٱلْعَقِيمَ
اور (تمہارے لیے نشانی ہے) عاد میں، جبکہ ہم نے ان پر ایک ایسی بے خیر ہوا بھیج دی
Surah 54 : Ayat 19
إِنَّآ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِى يَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ
ہم نے ایک پیہم نحوست کے دن1 سخت طوفانی ہوا اُن پر بھیج دی جو لوگوں کو اٹھا اٹھا کر اس طرح پھینک رہی تھی
1 | یعنی ایک ایسے دن جس کی نحوست کئی روز تک مسلسل جاری رہی ۔ سورہ حٰم لسجدہ، آیت 16 میں فِیْ اَیَّا مٍ نَّحِسَتٍ کے الفاظ استعمال ہوۓ ہیں ، اور سورہ الحاقہ آیت 7 میں فرمایا گیا ہے کہ ہوا کا یہ طوفان مسلسل سات رات اور آٹھ دن جاری رہا ۔ مشہور یہ ہے کہ جس دن یہ عذاب شروع ہوا وہ بدھ کا دن تھا۔ اسی سے لوگوں میں یہ خیال پھیل گیا کہ بدھ کا دن منحوس ہے اور کوئی کام اس دن شروع نہ کرنا چاہیے ۔ بعض نہایت ضعیف احادیث بھی اس سلسلے میں نقل کی گئی ہیں جن سے اس دن کی نحوست کا عقیدہ عوام کے ذہن میں بیٹھ گیا ہے ۔ مثلاً اب مردویہ اور خطیب بغدادی کی یہ روایت کہ اخراربداء فی الشھر یوم نحس مستمر (مہینے کا آخری بدھ منحوس ہے جس کی نحوست مسلسل جاری رہتی ہے )۔ ابن ضوزی اسے موضوع کہتے ہیں ۔ ابن رجب نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے ۔ حافظ سخاوی کہتے ہیں کہ جتنے طریقوں سے یہ منقول ہوئی ہے وہ سب واہی ہیں ۔اسی طرح طبرانی کی اس روایت کو بھی محدٹین نے ضعیف قرار دیا ہے کہ یوم الاربعاء یوم نحس مسقر (بدھ کا دن پیہم نحوست کا دن ہے ۔) بعض اور روایات میں یہ باتیں بھی مروی ہیں کہ بدھ کو سفر نی کیا جاۓ، لین دین نہ کیا جاۓ، ناخن نہ کٹواۓ جائیں ، مریض کی عیادت نہ کی جاۓ، اور یہ کہ جذام اور برص اسی روز شروع ہوتے ہیں ۔مگر یہ تمام روایات ضعیف ہیں اور ان پر کسی عقیدےکی بنا نہیں رکھی جا سکتی۔ محقق مناوِی کہتے ہیں : تو قی الا ر بعاء علی جھۃ الطیرۃ و ظن اعتقاد المنجمین حرام شدید التحریم، اذا الایام کلھا لِلہ تعالیٰ ، لا تنفع ولا تضر بذاتھا، ’’ بد فالی کے خیال سے بدھ کے دن کو منحوس سمجھ کر چھوڑ نا اور نجومیوں کے سے اعتقادات اس باب میں رکھنا حرام، سخت حرام ہے ، کیونکہ سارے دن اللہ کے ہیں ، کوئی دن بذاتِ خود نہ نفع پہنچانے والا ہے نہتقصان‘‘ علامہ آلوسی کہتے ہیں ’’ سارے دن یکساں ہیں ، بدھ کی کوئی تخصیص نہیں ۔ رات دن میں کوئی گھڑی ایسی نہیں ہے جو کسی کے لیے اچھی اور کسی دوسرے کے لیے بری نہ ہو۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ کسی کے لیے موافق اور کسی کے لیے نا موافق حالات پیدا کرتا رہتا ہے |
Surah 69 : Ayat 6
وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُواْ بِرِيحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ
اور عاد ایک بڑی شدید طوفانی آندھی سے تباہ کر دیے گئے