Ayats Found (4)
Surah 67 : Ayat 16
ءَأَمِنتُم مَّن فِى ٱلسَّمَآءِ أَن يَخْسِفَ بِكُمُ ٱلْأَرْضَ فَإِذَا هِىَ تَمُورُ
کیا تم اِس سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان میں1 ہے تمہیں زمین میں دھنسا دے اور یکایک یہ زمین جھکولے کھانے لگے؟
1 | اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالٰی آسمان میں رہتا ہے، بلکہ یہ بات اس لحاظ سے فرمائی گئی ہے کہ انسان فطری طور پر جب خدا سے رجوع کرنا چاہتا ہے تو آسمان کی طرف دیکھتا ہے۔ دعا مانگتا ہے تو آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتا ہے۔ کسی آفت کے موقع پر سہاروں سے مایوس ہوتا ہے تو آسمان کا رخ کر کے خدا سے فریاد کرتا ہے۔ کوئی ناگہانی بلا آ پڑتی ہے تو کہتا ہے یہ اوپر سے نازل ہوئی ہے۔ غیر معمولی طور پر حاصل ہونے والی چیز کے متعلق کہتا ہے یہ عالم بالا سے آئی ہے۔ اللہ تعالٰی کی بھیجی ہوئی کتابوں کو کتب سماوی یا کتب آسمانی کہا جاتا ہے۔ (ابو داؤد میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص ایک کالی لونڈی کو لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھ پر ایک مومن غلام آزاد کرنا واجب ہو گیا ہے، کیا میں اس لونڈی کو آزاد کر سکتاہوں؟ حضورؐ نے اس لونڈی سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے؟ اس نے انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کردیا، حضورؐ نے پوچھا اور میں کون ہوں؟ اس نے پہلے آپؐ کی طرف اور پھر آسمان کی طرف اشارہ کیا، جس سے اس کا یہ مطلب واضح ہو رہا تھا کہ آپ اللہ کی طرف سے آئے ہیں۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا۔ اسے آزاد کر دو، یہ مومنہ ہے (اسی سے ملتا جلتا قصہ موطا ، مسلم اور نسائی میں بھی روایت ہوا ہے)۔ حضرت خولہ بنت ثغلبہ کے متعلق حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ لوگوں سے فرمایا ، یہ وہ خاتون ہیں جن کی شکایت سات آسمانوں پر سنی گئی (تفسیر سورہ مجادلہ حاشیہ 2 میں ہم اس کی تفصیل نقل کر چکے ہیں)۔ ان ساری باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بات کچھ انسان کی فطرت ہی میں ہے کہ وہ جب خدا کا تصور کرتا ہے تو اس کا ذہن نیچے زمین کی طرف نہیں بلکہ اوپر آسمان کی طرف جاتا ہے۔ اسی کو ملحوظ رکھ کر یہاں اللہ تعالٰی کے متعلق من فی السماء (وہ جو آسمان میں ہے)کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں۔ اس میں اس شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ قرآن اللہ تعالٰی کو آسمان میں مقیم قرار دیتا ہے۔ یہ شبہ آخر کیسے پیدا ہو سکتا ہے جبکہ اسی سورہ ملک کے آغاز میں فرمایا جا چکا ہے کہ الذین خلق سبع سموات طباقا (جس نے تہ بر تہ سات آسمان پیدا کیے) اور سورہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے، فاینما تولو فثم وجہ اللہ۔ (پس تم جدھر بھی رخ کرو اس طر ف اللہ کا رخ ہے) |
Surah 2 : Ayat 19
أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ ٱلسَّمَآءِ فِيهِ ظُلُمَـٰتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَـٰبِعَهُمْ فِىٓ ءَاذَانِهِم مِّنَ ٱلصَّوَٲعِقِ حَذَرَ ٱلْمَوْتِۚ وَٱللَّهُ مُحِيطُۢ بِٱلْكَـٰفِرِينَ
یا پھر ان کی مثال یوں سمجھو کہ آسمان سے زور کی بارش ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ اندھیری گھٹا اور کڑک چمک بھی ہے، یہ بجلی کے کڑاکے سن کر اپنی جانوں کے خوف سے کانوں میں انگلیاں ٹھو نسے لیتے ہیں اور اللہ اِن منکرین حق کو ہر طرف سے گھیرے میں لیے ہوئے ہے1
1 | یعنی کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس کر وہ اپنے آپ کو کچھ دیر کے لیے اس غلط فہمی میں تو ڈال سکتے ہیں کہ ہلاکت سے بچ جائیں گے مگر فی الواقع اس طرح وہ بچ نہیں سکتے کیونکہ اللہ اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ ان پر محیط ہے |
Surah 13 : Ayat 13
وَيُسَبِّحُ ٱلرَّعْدُ بِحَمْدِهِۦ وَٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِۦ وَيُرْسِلُ ٱلصَّوَٲعِقَ فَيُصِيبُ بِهَا مَن يَشَآءُ وَهُمْ يُجَـٰدِلُونَ فِى ٱللَّهِ وَهُوَ شَدِيدُ ٱلْمِحَالِ
بادلوں کی گرج اس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتی ہے1 اور فرشتے اس کی ہیبت سے لرزتے ہوئے اُس کی تسبیح کرتے ہیں2 وہ کڑکتی ہوئی بجلیوں کو بھیجتا ہے اور (بسا اوقات) اُنہیں جس پر چاہتا ہے عین اس حالت میں گرا دیتا ہے جبکہ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں فی الواقع اس کی چال بڑی زبردست ہے3
3 | یعنی اس کے پاس بے شمار حربے ہیں اور وہ جس وقت جس کے خلاف جس حربے سے چاہے ایسے طریقے سے کام لے سکتا ہے کہ چوٹ پڑنے سے ایک لمحہ پہلے بھی اسے خبر نہیں ہوتی کہ کدھر سے کب چوٹ پڑنے والی ہے۔ ایسی قادرِ مطلق ہستی کے بارے میں یوں بے سوچے سمجھے جو لوگ الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں انہیں کون عقلمند کہہ سکتا ہے |
2 | فرشتوں کے جلال خداوندی سے لرزنے اور تسبیح کر نے کا ذکر خصُوصیت کے ساتھ یہاں اس لیے کیا کہ مشرکین ہر زمانے میں فرشتوں کو دیوتا اور معبود قرار دیتے رہے ہیں اور اُن کا یہ گمان رہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اُس کی خدائی میں شریک ہیں ۔ اس غلط خیال کی تردید کے لیے فرمایا گیا کہ وہ اقتدارِ اعلیٰ میں خدا کے شریک نہیں ہیں بلکہ فرمانبردار خادم ہیں اور اپنے آقا کے جلال سے کانپتے ہوئے اس کی تسبیح کررہے ہیں |
1 | یعنی بادلوں کی گرج یہ ظاہر کرتی ہے کہ جس خدا نے یہ ہوائیں چلائیں، یہ بھاپیں اُٹھائیں، یہ کثیف بادل جمع کیے، اِس بجلی کو بارش کا ذریعہ بنایا اور اس طرح زمین کی مخلوقات کے لیے پانی کی بہم رسانی کا انتظام کیا، وہ سبوح و قدوس ہے ، اپنی حکمت اور قدرت میں کامل ہے، اپنی صفت میں بے عیب ہے، اور اپنی خدائی میں لاشریک ہے۔ جانوروں کی طرح سُننے والے تو ان بادلوں میں صرف گرج کی آواز ہی سُنتے ہیں۔ مگر جو ہوش کے کان رکھتے ہیں وہ بادلوں کی زبان سے توحید کا یہ اعلان سنتے ہیں |
Surah 24 : Ayat 43
أَلَمْ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ يُزْجِى سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهُۥ ثُمَّ يَجْعَلُهُۥ رُكَامًا فَتَرَى ٱلْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَـٰلِهِۦ وَيُنَزِّلُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مِن جِبَالٍ فِيهَا مِنۢ بَرَدٍ فَيُصِيبُ بِهِۦ مَن يَشَآءُ وَيَصْرِفُهُۥ عَن مَّن يَشَآءُۖ يَكَادُ سَنَا بَرْقِهِۦ يَذْهَبُ بِٱلْأَبْصَـٰرِ
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے، پھر اس کے ٹکڑوں کو باہم جوڑتا ہے، پھر اسے سمیٹ کر ایک کثیف ابر بنا دیتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے خول میں سے بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیں اور وہ آسمان سے، اُن پہاڑوں کی بدولت جو اس میں بلند ہیں1، اولے برساتا ہے، پھر جسے چاہتا ہے ان کا نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان سے بچا لیتا ہے اُس کی بجلی کی چمک نگاہوں کو خیرہ کیے دیتی ہے
1 | اس سے مراد سردی سے جمے ہوۓ بادل بھی ہو سکتے ہیں جنہیں مجازاً آسمان کے پہاڑ کہا گیا ہو۔ اور زمین کے پہاڑ بھی ہو سکتے ہیں جو آسمان میں بلند ہیں ، جن کی چوٹیوں پر جمی ہوئی برف کے اثر سے بسا اوقات ہوا اتنی سرد ہو جاتی ہے کہ بادلوں میں انجماد پیدا ہونے لگتا ہے اور اولوں کی شکل میں بارش ہونے لگتی ہے |