Ayats Found (7)
Surah 3 : Ayat 44
ذَٲلِكَ مِنْ أَنۢبَآءِ ٱلْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَۚ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَـٰمَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ
اے محمدؐ! یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تم کو وحی کے ذریعہ سے بتا رہے ہیں، ورنہ تم اُس وقت وہاں موجود نہ تھے جب ہیکل کے خادم یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ مریمؑ کا سر پرست کون ہو اپنے اپنے قلم پھینک رہے تھے1، اور نہ تم اُس وقت حاضر تھے، جب اُن کے درمیان جھگڑا برپا تھا
1 | یعنی قرعہ اندازی کر رہے تھے۔ اس قرعہ اندازی کی ضرورت اس لیے پیش آئی تھی کہ حضرت مریم ؑ کی والدہ نے ان کو خدا کےکام کے لیے ہیکل کی نذر کر دیا تھا۔ اور وہ چونکہ لڑکی تھیں اس لیے یہ ایک نازک مسئلہ بن گیا تھا کہ ہیکل کے مجاوروں میں سے کس کی سرپرستی میں وہ رہیں |
Surah 11 : Ayat 49
تِلْكَ مِنْ أَنۢبَآءِ ٱلْغَيْبِ نُوحِيهَآ إِلَيْكَۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَآ أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَـٰذَاۖ فَٱصْبِرْۖ إِنَّ ٱلْعَـٰقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ
اے محمدؐ، یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کر رہے ہیں اس سے پہلے نہ تم ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم، پس صبر کرو، ا نجام کار متقیوں ہی کے حق میں ہے1
1 | یعنی جس طرح نوح اور ان کے ساتھیوں ہی کا آخر کار بول بالا ہوا، اسی طرح تمہارا ااور تمہارے ساتھیوں کا بھی ہو گا۔ خدا کا قانون یہی ہے کہ ابتداءِ کار میں دشمنانِ حق خواہ کتنے ہی کامیاب ہوں مگر آخری کامیابی صرف ان لوگوں کا حصہ ہوتی ہے جو خدا سے ڈر کر فکر و عمل کی غلط راہوں سے بچتے ہوئے مقصدِ حق کے لیے کام کرتے ہیں۔ لہٰذا اِس وقت جو مصائب و شدائد تم پر گزر رہے ہیں جن مشکلات سے تم دوچار ہو رہے ہو اور تمہاری دعوت کو دبانے میں تمہارے مخالفوں کو بظاہر جو کامیابی ہوتی نظر آرہی ہے اس پر بد دل نہ ہو بلکہ ہمت اور صبر کے ساتھ اپنا کام کیے چلے جاؤ |
Surah 12 : Ayat 102
ذَٲلِكَ مِنْ أَنۢبَآءِ ٱلْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَۖ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوٓاْ أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ
اے محمدؐ، یہ قصہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم تم پر وحی کر رہے ہیں ورنہ تم اُس وقت موجود نہ تھے جب یوسفؑ کے بھائیوں نے آپس میں اتفاق کر کے سازش کی تھی
Surah 12 : Ayat 104
وَمَا تَسْــَٔلُهُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَـٰلَمِينَ
حالانکہ تم اس خدمت پر ان سے کوئی اجرت بھی نہیں مانگتے ہو یہ تو ایک نصیحت ہے جو دنیا والوں کے لیے عام ہے1
1 | اوپر کی تنبیہ کے بعد یہ دوسری لیطف ترتنبیہ ہے جس میں ملامت کا پہلو کم اور فہمائش کا پہلو زیادہ ہے۔ اس ارشاد کا خطاب بھی بظاہر بنیﷺ سے ہے مگر اصل مخاطب کفار کا مجمع ہے، اور اس کو یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اللہ کے بندو، غور کرو، تمہوری یہ ہٹ دھرمی کس قدر بے جامے۔ اگر پغمیبر نے اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیے دعوت و تبلیع کا یہ کام جاری کیا ہوتا، یا اس نے اپنی ذات کے لیے کچھ بھی چاہا ہوتا تو بے شک تمہارے لیے یہ کہنے کا یہ موقع تھا کہ ہم اس مطلبی آدمی کی بات کیوں مانیں۔ مگر تم دیکھ رہے ہو کہ یہ شخص بے غرض ہے، تمہوری اور دینا بھر کی بھلائی کے لیے نصحیت کر رہا ہے اور اس میں اُس کا اپنا کوئی مفاد پوشیدہ نہیں ہے۔ پھر اس کا مقابلہ اس ہٹ دھرمی سے کرنے میں آخر کیا معقعولیت ہے؟ جو انسان سب کے بھلے کے لیے ایک بات بے غرضی کے ساتھ پیش کرے اس سے کسی کو خواہ ضد کیوں ہو؟ کھھلے دل سے اس بات سنو، دل کو لگتی ہو نہ مانو۔ |
Surah 20 : Ayat 99
كَذَٲلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنۢبَآءِ مَا قَدْ سَبَقَۚ وَقَدْ ءَاتَيْنَـٰكَ مِن لَّدُنَّا ذِكْرًا
اے محمدؐ1، ا س طرح ہم پچھلے گزرے ہوئے حالات کی خبریں تم کو سُناتے ہیں، اور ہم نے خاص اپنے ہاں سے تم کو ایک 2"ذکر"(درسِ نصیحت) عطا کیا ہے
2 | یعنی یہ قرآن، جس کے متعلق آغاز سورہ میں کہا گیا تھا کہ یہ کوئی ان ہونا کام تم سے لینے اور تم کو بیٹھے بٹھاۓ ایک مشقت میں مبتلا کر دینے کے لیے نازل نہیں کیا گیا ہے، یہ تو ایک یاد دہانی اور نصیحت (تذکرہ) ہے ہر اس شخص کے لیے جس کے دل میں خدا کا کچھ خوف ہو۔ |
1 | موسیٰ علیہ السلام کا قصہ ختم کر کے اب پھر تقریر کا رخ اس مضمون کی طرف مڑتا ہے جس سے سورہ کا آغاز ہوا تھا۔ آگے بڑھنے سے پہلے ایک مرتبہ پلٹ کر سورہ کی ان ابتدائی آیات کو پڑھ لیجیے جن کے بعد یکایک حضرت موسیٰ کا قصہ شروع ہو گیا تھا۔ اس سے آپ کی سمجھ میں اچھی طرح یہ بات آ جاۓ گی کہ سورہ کا اصل موضوع بحث کیا ہے، بیچ میں قصہ موسیٰ کس لیے بیان ہوا ہے۔ اور اب قصہ ختم کر کے کس طرح تقریر اپنے موضوع کی طرف پلٹ رہی ہے۔ |
Surah 28 : Ayat 44
وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ ٱلْغَرْبِىِّ إِذْ قَضَيْنَآ إِلَىٰ مُوسَى ٱلْأَمْرَ وَمَا كُنتَ مِنَ ٱلشَّـٰهِدِينَ
(اے محمدؐ) تم اُس وقت مغربی گوشے میں موجود نہ تھے1 جب ہم نے موسیٰؑ کو یہ فرمان شریعت عطا کیا، اور نہ تم شاہدین میں شامل تھے2
2 | یعنی بنی اسرئیل کےاُن ستر نمائندوں میں جن کوشریعت کی پابند کاعہد لینے کےلیے حضرت موسٰیؑ کےساتھ بلایاگیاتھا۔ (سورہ اعراف، آیت ۱۵۵میںاُن نمائندوں کے بلائے جانے کاذکر گزرچکاہے، اوربائیبل کی کتاب خروج، باب ۲۴ میں بھی اس کاذکرموجود ہے) |
1 | مغربی گوشے سے مراد جزیرہ نمائے سیناکاوہ پہاڑ ہے جس پر حضرت موسٰیؑ کواحکام شریعت دیے گئے تھے یہ علاقہ حجاز کے مغربی جانب واقع ہے۔ |
Surah 28 : Ayat 46
وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ ٱلطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَـٰكِن رَّحْمَةً مِّن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّآ أَتَـٰهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
اور تم طور کے دامن میں بھی اُس وقت موجود نہ تھے جب ہم نے (موسیٰؑ کو پہلی مرتبہ) پکارا تھا، مگر یہ تمہارے رب کی رحمت ہے (کہ تم کو یہ معلومات دی جار ہی ہیں) 1تاکہ تم اُن لوگوں کو متنبّہ کر دو جن کے پاس تم سے پہلے کوئی متنبّہ کرنے والا نہیں آیا2، شاید کہ وہ ہوش میں آئیں
2 | عرب میں حضرت اسمٰعیل اورحضرت شعیب علیھماالسلام کے بعد بنی نہیں آیا تھا۔ تقریباََ دوہزار برس کی اس طویل مدت میںباہر کے انبیاء کی دعوتیں توضروروہاں پہنچیں، مثلاََ حضرت موسٰی، حضرت سلیمان اورحضرت عیسٰی علیھم السلام کی دعوتیں ، مگر کسی نبی کی بعثت خاص اس سرزمین میں نہیں ہوئی تھی۔ |
1 | یہ تینوں باتیں محمد ﷺ کی نبوت کے ثبوت میں پیش کی گئی ہیں۔ جس وقت یہ باتیں کہی گئی تھیں اس وقت مکہ کے تمام سردار اورعام کفاراس بات پرپوری طرح تلے ہوئے تھے کہ کسی طرح آپ کوغیر نبی، اورمعاذاللہ جھوٹا مدعی ثابت کردیں۔ ان کی مدد کےلیے یہود کے علماء اورعیسائیوں کے راہب بھی حجاز کی بستیوں میںموجود تھے اورمحمد ﷺ کہیں عالم بالا سے آکر یہ قرآن نہیں سنا جاتے تھے بلکہ اُسی مکہ کے رہنے والے تھےاورآپ کی زندگی کاکوئی گوشہ آپ کی بستی اورآپ کےقبیلے کے لوگوں سے چھپا ہُوا نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت اس کھلے چیلنج کے انداز میں آنحضرت ﷺ کی نبوت کےثبوت کے طور پریہ تین باتیں ارشاد رفرمائی گئیں ،اس وقت مکے، اورحجاز اورپورےعرب میں کوئی ایک شخص بھی اٹھ کروہ بیہودہ بات نہ کہہ سکے جوآج کے مستشرقین کہتے ہیں۔ اگرچہ جھوٹ گھڑنے میں وہ لوگ ان سے کچھ کم نہ تھے، لیکن ایسا دروغ بے فروغ آخر وہ کیسے بول سکتے تھے جوایک لمحہ لےلیے بھی نہ چل سکتا ہو۔ وہ کیسے کہتے کہ اے محمدﷺ، تم فلاں فلاں یہودی عالموں اورعیسائی راہبوں سے یہ معلومات حاصل کرلائے ہو، کہ اس سے آنحضرت نے کوئی معلومات حاصل نہیں کی ہیں۔ وہ کیسے کہتے کہ اے محمدﷺ، تمہارے پاس پچھلی تاریخ اورعلوم وآداب کی ایک لائبریری موجود ہے جس کی مدد دے تم یہ ساری تقریریں کررہے ہو، کیونکہ لائبریری تودرکنار، محمد ﷺ کے آس پاس کہیں سے لکھے پڑھے آدمی نہیں ہیں، اورکوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپ نے کچھ مترجمین کی خدمات حاصل کررکھی ہیں جوعبرانی اورسُریانی اوریونانی کتابوں کے ترجمے کرکرے آپ کودیتے ہیں۔ پھران میں سے کوئی بڑے سے بڑا بے حیا آدمی بھی یہ دعویٰ کرنے کی جراٴت نہ رکھا تھا کہ آپ نے کچھ مترجمین کی خدمات حاصل کررکھی ہیں جوعبرانی اورسُریانی اوریونانی کتابوں کے ترجمے کرکرکےآپ کودیتے ہیں۔ پھر ان میں سے کوئی بڑے سے بڑا بےحیا آدمی بھی یہ دعویٰ کرنے کی جراٴت نہ رکھتا تھا کہ شام وفلسطین کے تجارتی سفروں میں آپ یہ معلومات حاصل کرآئے تھے۔ کیونکہ ی سفر تنہانہیں ہوئے تھے مکے ہی کے تجارتی قافلے ہرسفر میں آپ کے ساتھ لگے ہوتے تھے۔اگر کوئی اس وقت ایسا دعویٰ کرتا تو سینکڑوں زندہ شاہد یہ شہادت دےدیتے کہ وہاں آپ نے کسی سے کوئی درس نہیں لیا۔ اورآپ کی وفات کے بعد تودوسال کے اندر ہی رومیوں سے مسلمان برسرپیکار ہوگئے تھے۔ اگر کہیں جھوٹوں بھی شام وفلسطین میں کسی عیسائی راہب یایہودی ربّٰی سے حضورﷺ نے کوئی مزاکرہ کیا ہوتا تورومی سلطنت رائی کاپیاڑ بناکریہ پروپیگنڈا کرنے میں زرادریغ نہ کرتی کہ محمدﷺ ، معازاللہ سب کچھ یہاں سے سیکھ گئے تھےاورمکے جاکر نبی بن بیٹھے۔غرض، اُس سمیں جبکہ قرآن قریش کے کفار مشرکین کےلیےپیام موت حثیت رکھتا تھا، اوراس کو کوئی مواد فراہم کرکے نہ لاسکا جس سے وہ ثابت کرسکتا کہ محمد ﷺ کےپاس وحی کے سوا ان معلومات کے حصول کا کوئی دوسراذریعہ موجود ہے جس کی نشان دہی کی جاسکتی ہو۔یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ قرآن نے یہ چیلنج اسی ایک جگہ نہیں دیاہےبلکہ متعدد مقامات پرمختلف قصوں کے سلسلہ میں دیا ہے۔ حضڑ زکریا اورحضرت مریم کاقصہ بیان کرکے فرمایا ذٰلک من انبآء الغیب نوحیھ الیک وماکنت لدیھم اذ یلقون اقلامھم ایھم یکفل مریم وما کنت لدیھم اذیختصموں،‘‘ یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم نے وحی کےذریعہ سےتمہیں دےرہے ہیں، تم اُن لوگوں کےآس پاس کہیں موجود نہ تھے جبکہ وہ اپنے قرعے یہ طے کرنے کےلیے پھینک رہے تھے کہ مریم کی کفالت کون کرے گا اورنہ اس وقت موجود تھے جبکہ وہ جھگڑرہے تھے‘‘۔(آل عمران، آیت ۴۴)۔ حضرت یوسفؑ کاقصہ بیان کرنے کےبعد فرمایا ذلک من انبآء الغیب نوحیھ الیک وماکنت لدیھما اذ اجمعو امرھم وھم یمکرون، ’’ یہ غیب کی خبروں میںسے ہے جوہم وحی کے ذریعہ سے تمہیں دےرہے ہیں، تم ان کے(یعنی یوسف کےبھائیوں کے) آس پاس کہیں موجود نہ تھے جبکہ انہوں نے اپنی تدبیر پراتفاق کیا اورجب کہ وہ اپنی چال چل رہے تھے‘‘(یوسف آیت ۱۰۲)۔ اسی طرح حضرت نوح کامفصل قصہ بیان کرکے فرمایا تِلْکَ مِنْ اَنْبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْھَآ اِلَیْکَ، مَاکُنْتَ تَعْلَمُھَآ اَنْتَ وَلَاقَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَا،’’ یہ باتیں غیب کی خبروں میں سے ہیں جوہم تم پروحی کررہے ہیں تمہیں اورتمہاری قوم کواس سے پہلے ان کا کوئی علم نہ تھا‘‘ (ہود۔ آیت ۴۹)۔ اس چیز کی باربارتکرار سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ قرآن مجید اپنے من جانے ہونے اورمحمد ﷺ کےرسول ہونے پرجوبڑے بڑے دلائل دیتا تھا ان میں سےایک دلیل تھی کہ سینکڑوں ہزاروں برس کےگزرےہوئے واقعات کی جوتفصیلات ایک اُمّی کی زبان سے بیان ہورہی ہیں ان کے علم کاکوئی ذریعہ اُس کے پاس وحی کے سوانہیں ہے۔ اوریہ چیز اُن اہم اسباب میںسے ایک تھی جن کی بناپرنبی ﷺ کےہم عمر عصر لوگ اس بات پریقین لاتے چلے چارہے تھے کہ واقعی آپ اللہ کےنبی ہیں اورآپ پروحی آتی ہے ۔ اب یہ ہرشخص خود تصور کرسکتا ہے کہ اسلامی تحریک کے مخالفین کےلیےاُس ذمانے میں اس چیلنج کی تردید کرنا کیسی کچھ اہمیت رکھتا ہوگا اورانہوں نے اس کے خلاف ثبوت فراہم کرنے کی کوششوں میں کیاکسر اُٹھا رکھی ہوگی ۔ نیز یہ بھی اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ اگر معازاللہ اس چیلنج میں ذرا سی بھی کوئی کمزوری ہوتی تواس کوغلط ثابت کرنے کےلیے شہادتیں فراہم کرنا ہم عصر لوگوں کےلیے نہ ہوتا |