Ayats Found (6)
Surah 16 : Ayat 45
أَفَأَمِنَ ٱلَّذِينَ مَكَرُواْ ٱلسَّيِّـَٔـاتِ أَن يَخْسِفَ ٱللَّهُ بِهِمُ ٱلْأَرْضَ أَوْ يَأْتِيَهُمُ ٱلْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ
پھر کیا وہ لوگ جو (دعوت پیغمبر کی مخالفت میں) بدتر سے بدتر چالیں چل رہے ہیں اِس بات سے بالکل ہی بے خوف ہو گئے ہیں کہ اللہ ان کو زمین میں دھنسا دے، یا ایسے گوشے میں ان پر عذاب لے آئے جدھر سے اس کے آنے کا ان کو وہم و گمان تک نہ ہو
Surah 17 : Ayat 68
أَفَأَمِنتُمْ أَن يَخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ ٱلْبَرِّ أَوْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُواْ لَكُمْ وَكِيلاً
اچھا، تو کیا تم اِس بات سے بالکل بے خوف ہو کہ خدا کبھی خشکی پر ہی تم کو زمین میں دھنسا دے، یا تم پر پتھراؤ کرنے والی آندھی بھیج دے اور تم اس سے بچانے والا کوئی حمایتی نہ پاؤ؟
Surah 28 : Ayat 81
فَخَسَفْنَا بِهِۦ وَبِدَارِهِ ٱلْأَرْضَ فَمَا كَانَ لَهُۥ مِن فِئَةٍ يَنصُرُونَهُۥ مِن دُونِ ٱللَّهِ وَمَا كَانَ مِنَ ٱلْمُنتَصِرِينَ
آخر کار ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دَھنسا دیا پھر کوئی اس کے حامیوں کا گروہ نہ تھا جو اللہ کے مقابلہ میں اس کی مدد کو آتا اور نہ وہ خود اپنی مدد آپ کر سکا
Surah 28 : Ayat 82
وَأَصْبَحَ ٱلَّذِينَ تَمَنَّوْاْ مَكَانَهُۥ بِٱلْأَمْسِ يَقُولُونَ وَيْكَأَنَّ ٱللَّهَ يَبْسُطُ ٱلرِّزْقَ لِمَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِۦ وَيَقْدِرُۖ لَوْلَآ أَن مَّنَّ ٱللَّهُ عَلَيْنَا لَخَسَفَ بِنَاۖ وَيْكَأَنَّهُۥ لَا يُفْلِحُ ٱلْكَـٰفِرُونَ
اب وہی لوگ جو کل اس کی منزلت کی تمنا کر رہے تھے کہنے لگے "افسوس، ہم بھول گئے تھے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نَپا تلا دیتا ہے1 اگر اللہ نے ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو ہمیں بھی زمین میں دَھنسا دیتا افسوس ہم کو یاد نہ رہا کہ کافر فلاح نہیں پایا کرتے2"
2 | یعنی ہمیں یہ غلط فہمی تھی کہ دُنیوی خوشحالی اوردولت مندی ہی فلاح ہے۔ اسی وجہ سے ہم یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ قارون بڑی فلاح پارہا ہے۔ مگر اب پتہ چلا کہ حقیقی فلاح کسی اورہی چیز کانام ہے اوروہ کافروں کونصیب ہوتی۔ قارون کےقصے کایہ سبق آموز پہلوصرف ہی میں بیان ہوا ہے۔ بائیبل اورتلمود دونوں میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ البتہ ان دونوں کتابوں میں جوتفصیلات بیان ہوئی ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا ہےکہ بنی اسرئیل جب مصر سے نکلے تویہ شخص بھی اپنی پارٹی سمیت ان کےساتھ نکلا، اورپھر اس نےحضرت موسٰی وہارون کےخلاف ایک سازس کی جس میں ڈھائی سوآدمی شامل تھے۔ آخر کاراللہ کاغضب اس پرنازل ہُوا اوریہ اپنےگھر باراور مال اسباب سمیت زمین میں دھنس گیا۔ |
1 | یعنی اللہ کی طرف سےرزق کی کشادگی وتنگی جوکچھ بھی ہوتی ہے اس کی مشیت کی بنا پرہوتی ہے اوراس مشیت میں اس کی کچھ دوسری مصلحتیں کافرماہوتی ہیں۔ کسی کوزیادہ رزق دینے کےمعنی لازمََا یہی نہیں ہیں کہ اللہ اس سے بہت خوش ہےاوراسے انعام دےرہا ہے۔ بسا اوقات ایک شخص اللہ کانہایت مغضوب ہوتا ہےمگر وہ اسے بڑی دولت عطا کرتا چلاجاتا ہے، یہاں تک کہ آخر کاریہی دولت اس کے اوپر اللہ کاسخت عزاب لےآتی ہے۔ اس کےبرعکس اگر کسی کارزق تنگ ہےتواس کےمعنی لازمََا یہی نہیں ہیں کہ اللہ تعالٰی اس سےناراض ہےاوراسےسزا دےرہا ہے۔اکثر نیک لوگوں پرتنگی اس کےباوجود رہتی ہے کہ وہ اللہ کےمحبوب ہوتے ہیں، بلکہ بارہا یہی تنگی ان کےلیے خدا کی رحمت ہوتی ہے۔ اس حقیقت کونہ سمجھنے ہی کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی اُن لوگوں کہ خوشحالی کورشک کی نگاہ سے دیکھتا ہےجودراصل خداکے غضب کےمستحق ہوتے ہیں۔ |
Surah 29 : Ayat 40
فَكُلاًّ أَخَذْنَا بِذَنۢبِهِۦۖ فَمِنْهُم مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُم مَّنْ أَخَذَتْهُ ٱلصَّيْحَةُ وَمِنْهُم مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ ٱلْأَرْضَ وَمِنْهُم مَّنْ أَغْرَقْنَاۚ وَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَـٰكِن كَانُوٓاْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
آخر کار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ میں پکڑا، پھر ان میں سے کسی پر ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیجی1، اور کسی کو ایک زبردست دھماکے نے آ لیا2، اور کسی کو ہم نے زمین میں دھسا دیا3، اور کسی کو غرق کر دیا4 اللہ اُن پر ظلم کرنے والا نہ تھا، مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے5
5 | یہ تمام قصے جویہاں تک سنائےگئےہیں۔ان کاروئےسخن دوطرف ہے۔ایک طرف یہ اہلِ ایمان کوسنائےگئےہیں تاکہ وہ پست ہمت اوردل شکستہ ومایوسی نہ ہوں اورمشکلات ومصائب کےسخت سےسخت طوفان میں بھی صبرواستقلال کےساتھ حق وصداقت کا علم بلند کیےرکھیں،اوراللہ تعالٰی پربھروسہ رکھیں کہ آخرکاراس کی مدد ضرورآئے گی اوروہ ظالموں کونیچادکھائے گااورکلمہٴ حق کوسربلند کردےگا۔دوسری طرف یہ اُن ظالموں کوبھی سنائےگئےہیں جواپنے نزدیک تحریک اسلامی کابالکل قلع قمع کردینےپرتلےہوئےتھے۔ان کومتنبہ کیاگیا ہےکہ تم خداکےحکم اوراس کی بردباری کاغلط مطلب لےرہےہو۔تم نےخداکی خدائی کواندھیرنگری سمجھ لیاہے۔تمہیں اگربغاوت وسرکشی اورظلم وستم اوربداعمالیوں پرابھی تک نہیں پکڑاگیاہےاورسنبھلنے کےلیےمحض ازراہِ عنایت لمبی مہلت دی گئی ہےتوتم اپنی جگہ یہ سمجھ بیٹھے ہوکہ یہاں کوئی انصاف کرنےوالی طاقت سرےسےہےہی نہیں اوراس زمین پرجس کاجوکچھ جی چاہےبلانہایت کیے جاسکتا ہے۔یہ غلط فہمی آخرکارتمہیں جس انجام سےدوچارکرکےرہےگی وہ وہی انجام ہےجوتم سےپہلےقوم نوؑح اورقومِ لوؑط اورقوم شعیبؑ دیکھ چکی ہے،جس سےعاد وثمود دوچارہوچکےہیں،اورجسےقارون وفرعون نےدیکھاہے۔ |
1 | یعنی عاد،جن پرمسلسل سات رات اورآٹھ دن تک سخت ہوا کاطوفان برپارہا۔(سورہٴ الحاقہ،آیت ۷)۔ |
Surah 34 : Ayat 9
أَفَلَمْ يَرَوْاْ إِلَىٰ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِۚ إِن نَّشَأْ نَخْسِفْ بِهِمُ ٱلْأَرْضَ أَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِّنَ ٱلسَّمَآءِۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَةً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيبٍ
کیا اِنہوں نے کبھی اُس آسمان و زمین کو نہیں دیکھا جو اِنہیں آگے اور پیچھے سے گھیرے ہوئے ہے؟ ہم چاہیں تو اِنہیں زمین میں دھسا دیں، یا آسمان کے کچھ ٹکڑے اِن پر گرا دیں1 در حقیقت اس میں ایک نشانی ہے ہر اُس بندے کے لیے جو خدا کی طرف رجوع کرنے والا ہو2
2 | یعنی جو شخص کسی قسم کا تعصب نہ رکھتا ہو، جس میں کوئی ہٹ دھرمی اور ضد نہ پائی جاتی ہو، بلکہ جو اخلاص کے ساتھ اپنے خدا سے طالب ہدایت ہو، وہ تو آسمان و زمین کے اس نظام کو دیکھ کر بڑے سبق لے سکتا ہے۔ لیکن جس کا دل خدا سے پھرا ہوا ہو وہ کائنات میں سب کچھ دیکھے گا مگر حقیقت کی طرف اشارہ کرنے والی کوئی نشانی اسے سجھائی نہ دے گی۔ |
1 | یہ ان کی بات کا دوسرا جواب ہے۔ اس جواب کو سمجھنے کے لیے یہ حقیقت نگاہ میں رہنی چاہیے کہ کفار قریش جن وجوہ سے زندگی بعد موت کا انکار کرتے تھے ان میں تین چیزیں سب سے زیادہ نمایاں تھیں۔ ایک یہ کہ وہ خدا کے محاسبے اور باز پرس کو نہیں ماننا چاہتے تھے کیونکہ اسے مان لینے کے بعد دنیا میں من مانی کرنے کی آزادی ان سے چھن جاتی تھی۔ دوسرے یہ کہ وہ قیامت کے وقوع اور نظام عالم کے درہم برہم ہو جانے اور پھر سے ایک نئی کائنات بننے کو ناقابل تصور سمجھتے تھے۔ تیسرے یہ کہ جن لوگوں کو مرے ہوئے سینکڑوں ہزاروں برس گزر چکے ہو اور جن کی ہڈیاں تک ریزہ ریزہ ہو کر زمین، ہوا اور پانی میں پراگندہ ہو چکی ہوں ان کا دوبارہ جسم و جان کے ساتھ جی اٹھنا ان کے نزدیک بالکل بعید ازامکان تھا۔ اوپر کا جواب ان تینوں پہلوؤں پر حاوی ہے، اور مزید براں اس میں ایک سخت تنبیہ بھی مضمر ہے۔ ان مختصر سے فقروں میں جو مضمون بیان کیا گیا ہے اس کی تفضیل یہ ہے۔ 1۔ اس زمین و آسمان کو اگر کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا ہوتا تو تمہیں نظر آتا کہ یہ کوئی کھلونا نہیں ہے، اور نہ یہ نظام اتفاقاً بن گیا ہے، اس کائنات کی ہر چیز اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ اسے ایک قادر مطلق نے کمال درجہ حکمت کے ساتھ بنایا ہے۔ ایسے ایک حکیمانہ نظام میں یہ تصور کرنا کہ یہاں کسی کو عقل و تمیز و اختیارات عطا کرنے کے بعد اسے غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ چھوڑ ا جا سکتا ہے، سراسر ایک لغو بات ہے۔ 2۔ اس نظام کو جو شخص بھی دیدہ بینا کے ساتھ دیکھے گا اسے معلوم ہو جائے گا کہ قیامت کا آ جانا کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ زمین اور آسمان جن بندشوں پر قائم ہیں ان میں ایک ذرا سا الٹ پھیر بھی ہو جائے تو آناً فاناً قیامت برپا ہو سکتی ہے۔ اور یہی نظام اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جس نے آج یہ دنیا بنا رکھی ہے وہ ایک دوسری دنیا بھر بنا سکتا ہے۔ اس کے لیے ایسا کرنا مشکل ہوتا تو یہی دنیا کیسے بن کھڑی ہوتی۔ 3۔ تم نے آخر خالق ارض و سما کو کیا سمجھ رکھا ہے کہ مرے ہوئے انسانوں کو دوبارہ پیدا کیے جانے کو اسکی قدرت سے باہر خیال کر رہے ہو، جو لوگ مرتے ہیں ان کے جسم پارہ پارہ ہو کر خواہ کتنے ہی منتشر ہو جائیں، رہتے تواسی زمین و آسمان کے حدود میں ہیں۔ اس سے کہیں باہر تو نہیں چلے جاتے۔ پھر جس خدا کے یہ زمین و آسمان ہیں اس کے لیے کیا مشکل ہے کہ مٹی اور پانی اور ہوا میں جو چیز جہاں بھی ہے اسے وہاں سے نکال لائے۔ تمہارے جسم میں اب جو کچھ موجود ہے وہ بھی اسی کا جمع کیا ہوا ہے اور اسی مٹی، ہوا اور پانی میں سے نکال کر لایا گیا ہے۔ ان اجزا کی فراہمی اگر آج ممکن ہے تو کل کیوں غیر ممکن ہو جائے گی۔ ان تینوں دلیلوں کے ساتھ اس کلام میں یہ تنبیہ بھی پوشیدہ ہے کہ تم ہر طرف سے خدا کی خدائی میں گھرے ہوئے ہو۔ جہاں بھی جاؤ گے یہی کائنات تم پر محیط ہو گی۔ خدا کے مقابلے میں کوئی جائے پناہ تم نہیں پا سکتے اور خدا کی قدرت کا حال یہ ہے کہ جب وہ چاہے تمہارے قدموں کے نیچے سے یا سر کے اوپر سے جو بلا چاہے تم پر نازل کر سکتا ہے۔ جس زمین کو آغوش مادر کی طرح تم اپنے لیے جائے سکون پاتے ہو اور اطمینان سے اس پر گھر بنائے بیٹھے ہو تمہیں کچھ پتہ نہیں کہ اس کی سطح کے نیچے کیا قوتیں کام کر رہی ہیں اور کب وہ کوئی زلزلے لا کر اسی زمین کو تمہارے لیے مرقد بنا دیتی ہیں۔ جس آسمان کے نیچے تم اس اطمینان کے ساتھ چل پھر رہے ہو گویا کہ یہ تمہارے گھر کی چھت ہے، تمہیں کیا معلوم کہ اسی آسمان سے کب کوئی بجلی گر پڑتی ہے، یا ہلاکت خیز بارش ہوتی ہے، یا اور کوئی نا گہانی آفت آ جاتی ہے۔ اس حالت میں تمہاری خدا سے یہ بے خوفی اور فکر عاقبت سے یہ غفلت اور ایک خیر خواہ کی نصیحت کے مقابلے میں یہ یَا وَہ گوئی بجز اس کے اور کیا معنی رکھتی ہے کہ تم اپنی شامت ہی کو دعوت دے رہے ہو۔ |