Ayats Found (10)
Surah 2 : Ayat 23
وَإِن كُنتُمْ فِى رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِۦ وَٱدْعُواْ شُهَدَآءَكُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ
اور اگر تمہیں اِس امر میں شک ہے کہ یہ کتا ب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے، یہ ہماری ہے یا نہیں، تواس کے مانند ایک ہی سورت بنا لاؤ، اپنے سارے ہم نواؤں کو بلا لو، ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو، مدد لے لو، اگر تم سچے ہو
Surah 2 : Ayat 24
فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَٱتَّقُواْ ٱلنَّارَ ٱلَّتِى وَقُودُهَا ٱلنَّاسُ وَٱلْحِجَارَةُۖ أُعِدَّتْ لِلْكَـٰفِرِينَ
تو یہ کام کر کے دکھاؤ1، لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا اور یقیناً کبھی نہیں کرسکتے، تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر2، جو مہیا کی گئی ہے منکرین حق کے لیے
2 | اِس میں یہ لطیف اشارہ ہے کہ وہاں صرف تم ہی دوزخ کا ایندھن نہ بنو گے، بلکہ تمہارے وہ بُت بھی وہاں تمہارے ساتھ ہی موجود ہوں گے جنہیں تم نے اپنا معبُود و مسجُود بنا رکھا ہے۔ اس وقت تمہیں خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ خدائی میں یہ کتنا دخل رکھتے تھے |
1 | اِس سے پہلے مکّے میں کئی بار یہ چیلنج دیا جا چکا تھا کہ اگر تم اِس قرآن کو انسان کی تصنیف سمجھتے ہو، تو اس کے مانند کوئی کلام تصنیف کر کے دکھا ؤ ۔ اب مدینے پہنچ کر پھر اس کا اِعادہ کیا جارہا ہے۔ (ملاحظہ ہو سُورہٴ یونس ؑ ، آیت ۴۸ و سُورہٴ ہُود ، آیت ۱۳ ۔ بنی اسرائیل ، آیت ۸۸۔ الطور، آیت ۲۳۔۳۴) |
Surah 10 : Ayat 38
أَمْ يَقُولُونَ ٱفْتَرَٮٰهُۖ قُلْ فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّثْلِهِۦ وَٱدْعُواْ مَنِ ٱسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ
کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبرؐ نے اسے خود تصنیف کر لیا ہے؟ کہو، “اگر تم اپنے اس الزام میں سچّے ہو تو ایک سُورۃ اس جیسی تصنیف کر لاؤ اور ایک خدا کو چھوڑ کر جس جس کو بُلا سکتے ہو مدد کے لیے بُلا لو1"
1 | عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ چیلنج محض قرآن کی فصاحت و بلاغت اور اس کی ادبی خوبیوں کے لحاظ سے تھا۔ اعجاز قرآن پر جس انداز سے بحثیں کی گئی ہیں اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہونی کچھ بعید بھی نہیں ہے۔ لیکن قرآن کا مقام اس سے بلند تر ہے کہ وہ اپنی یکتائی و بے نظیری کے دعوے کی بنیاد محض اپنے لفظی محاسن پر رکھے۔ بلاشبہہ قرآن اپنی زبان کے لحاظ سے بھی لاجواب ہے، مگر وہ اصل چیز جس کی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسانی دماغ ایسی کتاب تصنیف نہیں کر سکتا، اس کے مضامین اور اس کی تعلیمات ہیں۔ اس میں اعجاز کے جو جو پہلو ہیں اور جن وجوہ سے ان کا من جانب اللہ ہونا یقینی اور انسان کی ایسی تصنیف پر قادر ہونا غیر ممکن ہے ان کو خود قرآن میں مختلف مواقع پر بیان کر دیا گیا ہے اور ہم ایسے تمام مقامات کی تشریح پہلے بھی کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے۔ اس لیے یہاں بخوف طوالت اس بحث سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ (تشریح کے یلے ملاحظہ ہو الطور، حاشیہ نمبر ۲۶، ۲۷) |
Surah 10 : Ayat 41
وَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل لِّى عَمَلِى وَلَكُمْ عَمَلُكُمْۖ أَنتُم بَرِيٓــُٔونَ مِمَّآ أَعْمَلُ وَأَنَا۟ بَرِىٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ
اگر یہ تجھے جھٹلاتے ہیں تو کہہ دے کہ “میرا عمل میرے لیے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لیے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کی ذمہ داری سے تم بَری ہو اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بَری ہوں1"
1 | یعنی خواہ مخواہ جھگڑے اور کج بحثیاں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر میں افترا پردازی کر رہا ہوں تو اپنے عمل کا میں خود ذمہ دار ہوں تم پراس کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ اور اگر تم سچی بات کو جھٹلا رہے ہو تو میرا کچھ نہیں بگاڑتے، اپنا ہی کچھ بگاڑ رہے ہو۔ |
Surah 11 : Ayat 13
أَمْ يَقُولُونَ ٱفْتَرَٮٰهُۖ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِۦ مُفْتَرَيَـٰتٍ وَٱدْعُواْ مَنِ ٱسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ
کیا یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے یہ کتاب خود گھڑ لی ہے؟ کہو، "اچھا یہ بات ہے تو اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں تم بنا لاؤ اور اللہ کے سوا اور جو جو (تمہارے معبود) ہیں اُن کو مدد کے لیے بلا سکتے ہو تو بلا لو اگر تم (انہیں معبود سمجھنے میں) سچے ہو
Surah 11 : Ayat 14
فَإِلَّمْ يَسْتَجِيبُواْ لَكُمْ فَٱعْلَمُوٓاْ أَنَّمَآ أُنزِلَ بِعِلْمِ ٱللَّهِ وَأَن لَّآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَۖ فَهَلْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ
اب اگر وہ (تمہارے معبود) تمہاری مدد کو نہیں پہنچتے تو جان لو کہ یہ اللہ کے علم سے نازل ہوئی ہے اور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے پھر کیا تم (اس امر حق کے آگے) سر تسلیم خم کر تے ہو؟1"
1 | یہاں ایک ہی دلیل سے قرآن کے کلام الہٰی ہونے کا ثبوت بھی دیا گیا ہے اور توحید کا ثبوت بھی۔ استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ : (۱) اگر تمہارے نزدیک یہ انسانی کلام ہے تو انسان کو ایسے کلام پر قادر ہونا چاہیے ، لہٰذا تمہارا یہ دعویٰ کے میں نے اسے خود تصنیف کیا ہے صرف اسی صورت میں صحیح ہو سکتا ہے کہ تم ایسی ایک کتاب تصنیف کر کے دکھاؤ۔ لیکن اگر بار بار چیلنج دینے پر بھی تم سب مل کر اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتے تو میرا دیہ دعویٰ صحیح ہے کہ میں اس کتاب کا مصنف نہیں ہوں بلکہ یہ اللہ کے علم سے نازل ہوئی ہے۔ (۲) پھر جب کہ اس کتاب میں تمہارے معبودوں کی بھی کھلم کھلا مخلافت کی گئی ہے اور صاف صاف کہا گیا ہے کہ ان کی عبادت چھوڑ دو کیونکہ الوہیت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے ، تو ضرور ہے کہ تمہارے معبودوں کی بھی (اگر فی الواقع ان میں کوئی طاقت ہے) میرے دعوے کو جھوٹا ثابت کرنے اور اس کتاب کی نظیر پیش کرنے میں تمہاری مدد کرنی چاہیے۔ لیکن اگر وہ س فیصلے کی گھڑی میں بھی تمہاری مدد نہیں کرتے اور تمہارے اندر کوئی ایسی طاقت نہیں پھونکتے کہ تم اس کتاب کی نظیر تیار کر سکو، تو اس سے صاف ثابت ہو جاتا ہے کہ تم نے خوا ہ مخواہ ان کو معبود بنا رکھا ہے ، ورنہ درحقیقت ان کے اندر کوئی قدرت اور کوئی شائبۂ الوہیت نہیں ہے جس کی بنا پر وہ معبود ہونے کے مستحق ہوں۔ اس آیت سےضمنًا یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ یہ سورۃ ترتیب کے اعتبار سے سورۂ یونس سے پہلے کی ہے۔ یہاں دس سورتیں بنا کر لانے کا چیلنج دیا گای ہے اور جب وہ اس کا جواب نہ دے سکے تو پھر سورۂ یونس میں کہا گیا کہ اچھا ایک ہی سورۃ اس کے مانند تصنیف کر لاؤ۔ (یونس ۔آیت ۳۸ حاشیہ ۴۶) |
Surah 17 : Ayat 88
قُل لَّئِنِ ٱجْتَمَعَتِ ٱلْإِنسُ وَٱلْجِنُّ عَلَىٰٓ أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَـٰذَا ٱلْقُرْءَانِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِۦ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا
کہہ دو کہ اگر انسان اور جن سب کے سب مل کر اس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں تو نہ لاسکیں گے، چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مدد گار ہی کیوں نہ ہوں1
1 | یہ چیلنج اس سے پہلے قرآن مجید میں تین مقامات پر گزر چکا ہے۔ سوررہ بقرہ ، آیات۲۳،۲۴ ۔ سورہ یونس، آیت ۳۸ اور سورہ ہود، آیت ١۳۔ آگے سورہ طور، آیات ۳۳۔۳۴ میں بھی یہی مضمون آرہا ہے۔ ان سب مقامات پر یہ بات کفار کے اس الزام کے جواب میں ارشاد ہوئی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہ قرآن تصنیف کر لیا ہے اور خواہ مخواہ وہ اسے خدا کا کلام بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ مزید برآں سورہ یونس، آیت ١٦ میں اسی الزام کی تردید کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا گیا کہ قُلْ لَّوْ شَآ ءَ اللہ ُ مَا تَلَوْ تُہُ عَلَیْکُمْ وَلَآ اَدْرٰکُمْ بِہٖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُونَ۔ یعنی”اے محمد ؐ ان سے کہو کہ اگر اللہ نے یہ نہ چاہا ہوتا کہ میں قرآن تمہیں سناؤں تو میں ہرگز نہ سنا سکتا تھا بلکہ اللہ تمہیں اس کی خبر تک نہ دیتا۔ آخر میں تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں، کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے“؟ ان آیات میں قرآن کے کلام الہٰی ہونے پر جو استدلال کیاگیا ہے وہ دراصل تین دلیلوں سےمرکّب ہے: ایک یہ کہ یہ قرآن اپنی زبان، اسلوب بیان، طرزِ استدلال، مضامین، مباحث، تعلیمات اور اخبار غیب کے لحاظ سے ایک معجزہ ہے جس کی نظیر لانا انسانی قدرت سے باہر ہے۔ تم کہتے ہو کہ اسے ایک انسان نے تصنیف کیا ہے، مگر ہم کہتے ہیں کہ تمام دنیا کے انسان مل کر بھی اس شان کی کتاب تصنیف نہیں کر سکتے۔ بلکہ اگر وہ جن جنہیں مشرکین نے اپنا معبود بنا رکھا ہے، اور جن کی معبودیت پر یہ کتاب علانیہ ضرب لگا رہی ہے، منکرین قرآن کی مدد پر اکٹھے ہو جائیں تو وہ بھی ان کواس قابل نہیں بنا سکتے کہ قرآن کے پائے کی کتاب تصنیف کر کے اس چلینج کو رد کر سکیں۔دوسرے یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہیں باہر سے یکایک تمہارے درمیان نمودار نہیں ہو گئےہیں،بلکہ اس قرآن کے نزول سے پہلے بھی ۴۰ سال تمہارے درمیان رہ چکے ہیں۔کیا دعوائے نبوت سے ایک دن پہلے بھی کبھی تم نے ان کی زبان سے اِس طرز کاکلام،اور ان مسائل اور مضامین پرمشتمل کلام سنا تھا؟اگر نہیں سنا تھااور یقیناً نہیں سنا تھا تو کیایہ بات تمہاری سمجھ میں آتی ہے کہ کسی شخص کی زبان،خیالات،معلومات اور طرزِفکروبیان میں یکایک ایساتغیر واقع ہوسکتاہے؟ تیسرے یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں قرآن سنا کر کہں غائب نہیں ہو جاتے بلکہ تمہارے درمیان ہی رہتے سہتے ہیں۔ تم ان کی زبان سے قرآن بھی سنتے ہو اور دوسری گفتگوئیں اور تقریریں بھی سنا کرتے ہو۔ قرآن کے کلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے کلام میں زبان اور اسلوب کا اتنا نمایاں فرق ہے کہ کسی ایک انسان کے دو اس قدر مختلف استاٹل کبھی ہو نہیں سکتے۔ یہ فرق صرف اسی زمانہ میں واضح نہیں تھا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ملک کے لوگوں میں رہتے سہتے تھے۔ بلکہ آج بھی حدیث کی کتابوں میں آپ کے سینکڑوں اقوال اور خطبے موجود ہیں۔ ان کی زبان اسلوب قرآن کی زبان اور اسلوب سے اس قدر مختلف ہیں کہ زبان و ادب کا کوئی رمز آشنا نقاد یہ کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا کہ یہ دونوں ایک یہ شخص کے کلام ہو سکتے ہیں۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ یونس حاشیہ ۲١۔ الطور، حواشی ۲۲،۲۷) |
Surah 28 : Ayat 49
قُلْ فَأْتُواْ بِكِتَـٰبٍ مِّنْ عِندِ ٱللَّهِ هُوَ أَهْدَىٰ مِنْهُمَآ أَتَّبِعْهُ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ
(اے نبیؐ،) ان سے کہو، "اچھا تو لاؤ اللہ کی طرف سے کوئی کتاب جو اِن دونوں سے زیادہ ہدایت بخشنے والی ہو اگر تم سچے ہو، میں اسی کی پیروی اختیار کروں گا1"
1 | یعنی مجھے توہدایت کی پیروی کرنی ہے، بشرطیکہ وہ کسی کی من گھڑت نہ ہوبلکہ خداکی طرف سے حقیقی ہدایت ہو۔ اگر تمہارے پاس کوئی کتاب اللہ موجود ہے جوقرآن اورتوراۃ سے بہتر رہنمائی کرتی ہو، تواسے تم نے چھپا کیوں رکھا ہے؟اسے سامنے لاؤ، میںبلاتامل اس کی پیروی کرلوں گا۔ |
Surah 28 : Ayat 50
فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُواْ لَكَ فَٱعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَآءَهُمْۚ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ ٱتَّبَعَ هَوَٮٰهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ ٱللَّهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
اب اگر وہ تمہارا یہ مطالبہ پورا نہیں کرتے تو سمجھ لو کہ دراصل یہ اپنی خواہشات کے پیرو ہیں، اور اُس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو گا جو خدائی ہدایت کے بغیر بس اپنی خواہشات کی پیروی کرے؟ اللہ ایسے ظالموں کو ہرگز ہدایت نہیں بخشتا
Surah 52 : Ayat 34
فَلْيَأْتُواْ بِحَدِيثٍ مِّثْلِهِۦٓ إِن كَانُواْ صَـٰدِقِينَ
اگر یہ اپنے اِس قول میں سچے ہیں تو اِسی شان کا ایک کلام بنا لائیں1
1 | یعنی بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا کلام نہیں ہے ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سرے سے انسانی کلام ہی نہیں ہے اور یہ بات انسان کی قدرت سے باہر ہے کہ ایسا کلام تصنیف کر سکے ۔ اگر تم سے انسانی کلام کہتے ہو تو اس پاۓ کا کوئی کلام لا کر دکھاؤ جسے کسی انسان نے تصنیف کیا ہو۔ یہ چیلنج نہ صرف قریش کو، بلکہ تمام دنیا کے منکرین کو سب سے پہلے اس آیت میں دیا گیا تھا۔ اس کے بعد تین مرتبہ مکہ معظمہ میں اور پھر آخری بار مدینہ منورہ میں اسے دہرایا گیا(ملاحظہ ہو یونس، آیت 38۔ ہود، 13، بنی اسرائیل، 88۔ البقرہ،23)۔ مگر کوئی اس کا جواب دینے کینہ اس وقت ہمت کر سکا نہ اس کے بعد آج تک کسی کی یہ جرأت ہوئی کہ قرآن کے مقابلہ میں کسی انسانی تصنیف کو لے آۓ۔ بعض لوگ اس چیلنج کی حقیقی نوعیت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ کہتے ہیں کہ ایک قرآن ہی کیا، کسی شخص کے اسٹائل میں بھی دوسرا کوئی شخص نثر یا نظم لکھنے پر قادر نہیں ہوتا۔ ہومر، رومی، شکسپیئر، گوئٹے ، غالب، ٹیگور، اقبال، سب ہی اس لحاظ سے بے مثل ہیں کہ ان کی نقل اتار کر انہی جیسا کلام بنا لانا کسی کے بس میں نہیں ہے ۔ قرآن کے چیلنج کا یہ جواب دینے والے در اصل اس غلط فہمی میں ہیں کہ فَلْیَأ تَوْبِحَدِیْثٍ مِّثْلِہٖ کا مطلب قرآن کے اسٹائل میں اس جیسی کوئی کتاب لکھ دینا ہے ۔ حالانکہ اس سے مراد سٹائل میں مماثلت نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس پاۓ اور اس شان اور اس مرتبے کی کوئی کتاب لے آؤ جو صرف عربی ہی میں نہیں ، دنیا کی کسی زبان میں ان خصوصیات کے لحاظ سے قرآن پہلے بھی معجزہ تھا اور آج بھی معجزہ ہے ۔ (1)۔ جس زبان میں قرآن مجید نازل ہوا ہے اس کے ادب کا وہ بلند ترین اور مکمل ترین نمونہ ہے ۔ پوری کتاب میں ایک لفظ اور ایک جملہ بھی معیار سے گرا ہوا نہیں ہے ۔ جس مضمون کو بھی ادا کیا گیا ہے موزوں ترین الفاظ اور مناسب ترین انداز بیان میں ادا کیا گیا ہے ۔ ایک ہی مضمون بار بار بیان ہوا ہے اور ہر مرتبہ پیرایہ بیان نیا ہے جس سے تکرار کی بد نمائی کہیں پیدا نہیں ہوتی۔ اول سے لے کر آخر تک ساری کتاب میں الفاظ کی نشست ایسی ہے جیسے نگینے تراش تراش کر جڑے گۓ ہوں ۔ کلام اتنا مؤثر ہے کہ کوئی زبان داں آدمی اسے سن کر سر دھنے بغیر نہیں رہ سکتا، حتیٰ کہ منکر اور مخالف کی روح بھی وجد کرنے لگتی ہے ۔ 14 سو برس گزرنے کے بعد بھی آج تک یہ کتاب اپنی زبان کے ادب کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہے جس کے برابر تو درکنار، جس کے قریب بھی عربی زبان کی کوئی کتاب اپنی ادبی قدر و قیمت میں نہیں پہنچتی۔ یہی نہیں ، بلکہ یہ کتاب عربی زبان کو اس طرح پکڑ کر بیٹھ گئی ہے کہ 14 صدیاں گزر جانے پر بھی اس زبان کا معیار فصاحت وہی ہے جو اس کتاب نے قائم کر دیا تھا، حالانکہ اتنی مدت میں زبانیں بدل کر کچھ سے کچھ ہو جاتی ہیں ۔ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے جو اتنی طویل مدت تک املاء، انشاء، محاورے ، قواعد زبان اور استعمال الفاظ میں ایک ہی شان پر باقی رہ گئی ہو۔لیکن یہ قرآن کی طاقت ہے جس نے عربی زبان کو اپنے مقام سے ہلنے نہ دیا۔ اس کا ایک لفظ بھی آج تک متروک نہیں ہوا ہے ۔ اس کا ہر محاورہ آج تک عربی ادب میں مستعمل ہے ۔اس کا ادب آج بھی عربی کا معیاری ادب ہے ، اور تقریر و تحریر میں آج بھی فصیح زبان وہی مانی جاتی ہے جو 14 سو برس پہلے قرآن میں استعمال ہوئی تھی۔ کیا دنیا کی کسی زبان میں کوئی انسانی تصنیف اس شان کی ہے ؟ (2 )۔ یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جس نے نوع انسانی کے افکار، اخلاق، تہذیب اور طرز زندگی پر اتنی وسعت، اتنی گہرائی اور اتنی ہمہ گیری کے ساتھ اثر ڈالا ہے کہ دنیا میں اسکی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ پہلے اس کی تاثیر نے ایک قوم کو بدلا اور پھر اس قوم نے اٹھ کر دنیا کے ایک بہت بڑے حصے کو بدل ڈالا۔ کوئی دوسری کتاب ایسی نہیں ہے جو اس قدر انقلاب انگیز ثابت ہوئی ہو۔ یہ کتاب صرف کاغذ کے صفحات پر لکھی نہیں رہ گئی ہے بلکہ عمل کی دنیا میں اس کے ایک ایک لفظ نے خیالات کی تشکیل اور ایک مستقل تہذیب کی تعمیر کی ہے ، 14 سو برس سے اس کے ان اثرات کا سلسلہ جاری ہے ، اور روز بروز اس کے یہ اثرات پھیلتے چلے جا رہے ہیں ۔ (3)۔ جو موضوع سے یہ کتاب بحث کرتی ہے وہ ایک وسیع ترین موضوع ہے جس کا دائرہ ازل سے ابد تک پوری کائنات پر حاوی ہے ۔ وہ کائنات کی حقیقت اور اس کے آغاز و انجام اور اس کے نظم و آئین پر کلام کرتی ہے ۔ وہ بتاتی ہے کہ اس کائنات کا خالق اور ناظم و مدبر کون ہے ،کیا اس کی صفات ہیں ، کیا اس کے اختیارات ہیں ، اور وہ حقیقت نفس الامری کیا ہے جس پر اس نے یہ پورا نظام عالم قائم کیا ہے ۔ وہ اس جہان میں انسان کی حیثیت اور اس کا مقام ٹھیک ٹھیک مشخّص کر کے بتاتی ہے کہ یہ اس کا فطری مقام اور یہ اس کی پیدائشی حیثیت ہے جسے بدل دینے پر وہ قادر نہیں ہے ۔ وہ بتاتی ہے کہ اس مقام اور اس حیثیت کے لحاظ سے انسان کے لیے فکر و عمل کا صحیح راستہ کیا ہے جو حقیقت سے پوری مطابقت رکھتا ہے اور غلط راستے کیا ہیں جو حقیقت سے متصادم ہوتے ہیں ۔ صحیح راستے کے صحیح ہونے اور غلط راستوں کے غلط ہونے پر وہ زمین و آسمان کی ایک ایک چیز سے ، نظام کائنات کے ایک ایک گوشے سے ، انسان کے اپنے نفس اور اس کے وجود سے اور انسان کی اپنی تاریخ سے بے شمار دلائل پیش کرتی ہے ۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی بتاتی ہے کہ انسان غلط راستوں پر کیسے اور کن اسباب سے پڑتا رہا ہے ، اور صحیح راستہ،جو ہمیشہ سے ایک ہی تھا اور ایک ہی رہے گا،کس ذریعہ سے اس کو معلوم ہو سکتا ہے اور کس طرح ہر زمانے میں اس کو بتایا جاتا رہا ہے ۔ وہ صحیح راستے کی صرف نشان وہی کر کے نہیں رہ جاتی بلکہ اس راستے پو چلنے کے لیے ایک پورے نظام زندگی کا نقشہ پیش کرتی ہے جس میں عقائد، اخلاق،تزکیہ نفس، عبادات، معاشرت، تہذیب، تمدن، معیشت، سیاست، عدالت قانون، غرض حیات انسانی کے ہر پہلو سے متعلق ایک نہایت مربوط ضابطہ بیان کر دیا گیا ہے ۔ مزید براں وہ پوری تفصیل کے ساتھ بتاتی ہے کہ اس صحیح راستے کی پیروی کرنے اور ان غلط راستوں پر چلنے کے کیا نتائج اس دنیا میں ہیں اور کیا نتائج دنیا کا موجودہ نظام ختم ہونے کے بعد ایک دوسرے عالم میں رونما ہونے والے ہیں ۔ وہ اس دنیا کے ختم ہونے اور دوسرا عالم برپا ہونے کی نہایت مفصل کیفیت بیان کرتی ہے ، اس تغیر کے تمام مراحل ایک ایک کر کے بتاتی ہے ، دوسرے عالم کا پورا نقشہ نگاہوں کے سامنے کھینچ دیتی ہے ، اور پھر بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہے کہ وہاں انسان کیسے ایک دوسری زندگی پاۓ گا، کس طرح اس کی دنیوی زندگی کے اعمال کا محاسبہ ہو گا، کن امور کی اس سے باز پرس ہو گی، کیسی ناقابل انکار صورت میں اس کا پورا امہ اعمال اس کے سامنے رکھ دیا جاۓ گا، کیسی زبردست شہادتیں اس کے ثبوت میں پیش کی جائیں گی، جزا اور سزا پانے والے کیوں جزا اور سزا پائیں گے ، جزا پا نے والوں کو کیسے انعامات ملیں گے اور سزا پانے والے کس کس شکل میں اپنے اعمال کے نتائج بھگتیں گے ۔ اس وسیع مضمون پر جو کلام اس کتاب میں کیا گیا ہے وہ اس حیثیت سے نہیں ہے کہ اس کا مصنف کچھ صغریٰ کبریٰ جوڑ کر چند قیاسات کی ایک عمارت تعمیر کر رہا ہے ، بلکہ اس حیثیت سے ہے کہ اس کا مصنف حقیقت کا براہ راست علم رکھتا ہے ، اس کی نگاہ ازل سے ابد تک سب کچھ دیکھ رہی ہے ، تمام حقائق اس پر عیاں ہیں ، کائنات پوری کی پوری اس کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح ہے ، نوع انسانی کے آغاز سے اس کے خاتمہ تک ہی نہیں بلکہ خاتمہ کے بعد اس کی دوسری زندگی تک بھی وہ اس کو بیک نظر دیکھ رہا ہے ، اور قیاس و گمان کی بنا پر نہیں بلکہ علم کی بنیاد پر انسان کی رہنمائی کر رہا ہے ۔ جن حقائق کو علم کی حیثیت سے وہ پیش کرتا ہے ان میں سے کوئی ایک بھی آج تک غلط ثابت نہیں کیا جا سکا ہے ۔ جو تصور کائنات و انسان وہ پیش کرتا ہے وہ تمام مظاہر اور واقعات کی مکمل توجیہ کرتا ہے اور ہر شعبہ علم میں تحقیق کی بنیاد بن سکتا ہے ۔ فلسفہ و سائنس اور علوم عمران کے تمام آخری مسائل کے جوابات اس کے کلام میں موجود ہیں اور ان سب کے درمیان ایسا منطقی ربط ہے کہ ان پر ایک مکمل، مربوط اور جامع نظام فکر قائم ہوتا ہے ۔ پھر عملی حیثیت سے جو رہنمائی اس نے زندگی کے ہر پہلو کے متعلق انسان کو دی ہے وہ صرف انتہائی معقول اور انتہائی پاکیزہ ہی نہیں ہے بلکہ 14 سو سال سے روۓ زمین کے مختلف گوشوں میں بے شمار انسان بالفعل اس کی پیروی کر رہے ہیں اور تجربے بے اس کو بہترین ثابت کیا ہے ۔ کیا اس شان کی کوئی انسانی تصنیف دنیا میں موجود ہے یا کبھی موجود رہی ہے جسے اس کتاب کے مقابلے میں لایا جا سکتا ہو؟ (4)۔ یہ کتاب پوری کی پوری بیک وقت لکھ کر دنیا کے سامنے پیش نہیں کر دی گئی تھی بلکہ چند ابتدا ابتدائی ہدایات کے ساتھ ایک تحریک اصلاح کا آغاز کیا گیا تھا اور اس کے بعد 23 سال تک وہ تحریک جن جن مرحلوں سے گزرتی رہی ان کے حالات اور ان کی ضروریات کے مطابق اس کے اجزاء اس تحریک کے رہنما کی زبان سے کبھی طویل خطبوں اور کبھی مختصر جملوں کی شکل میں ادا ہوتے رہے ۔ پھر اس مشن کی تکمیل پر مختلف اوقات میں صادر ہونے والے یہ اجزاء اس مکمل کتاب کی صورت میں مرتب ہو کر دنیا کے سامنے رکھ دیے گۓ جسے ’’قرآن‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔ تحریک کے رہنما کا بیان ہے کہ یہ خطبے اور جملے اس کے طبعزاد نہیں ہیں بلکہ خدا وند علام کی طرف سے اس پر نازل ہوۓ ہیں ۔ اگر کوئی شخص انہیں خود اس رہنما کے طبعزاد قرار دیتا ہے تو وہ دنیا کی پوری تاریخ سے کوئی نظیر ایسی پیش کرے کہ کسی انسان نے سالہا سال تک مسلسل ایک زبردست اجتماعی تحریک کی بطور خود رہنمائی کرتے ہوۓ کبھی ایک واعظ اور معلم اخلاق کی حیثیت سے ، کبھی ایک مظلوم جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے ، کبھی ایک مملکت کے فرمانروا کی حیثیت سے ، کبھی ایک برسر جنگ فوج کے قائد کی حیثیت سے ، کبھی ایک فاتح کی حیثیت سے ، کبھی ایک شارع اور مقنن کی حیثیت سے اغراض بکثرت مختلف حالات اور اوقات میں بہت سے مختلف حیثیت سے ، غرض بکثرت مختلف حالات اور اوقات میں بہت سی مختلف حیثیتوں سے جو مختلف تقریریں کی ہوں یا باتیں کہی ہوں وہ جمع ہو کر ایک مکمل، مربوط اور جامع نظام فکر و عمل بنا دیں ، ان میں کہیں کوئی تناقُص اور تضاد نہ پایا جاۓ، ان میں ابتدا سے انتہا تک اسی بنیاد پر وہ عقائد و اعمال کا ایک ہی مرکزی تخیل اور سلسلہ فکر کار فرما نظر آۓ، اس نے اول روز سے اپنی دعوت کی جو بنیاد بیان کی ہو آخری دن تک اسی بنیاد پر وہ عقائد و اعمال کا ایک ایسا ہمہ گیر نظام بناتا چلا جاۓ جس کا ہر جز دوسرے اجزاء سے کامل مطابقت رکھتا ہے ، اور اس مجموعہ کو پڑھنے والا کوئی صاحب بصیرت آدمی یہ محسوس کیے بغیر نہ رہے کہ تحریک کا آغاز کرتے وقت اس کے متحرک کے سامنے آخری مرحلے تک کو پورا نقشہ موجود تھا اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ بیچ کے کسی مقام پر اس کے ذہن میں کوئی ایسا خیال آیا ہو جو پہلے اس پر منکشف نہ تھا یا جسے بعد میں اس کو بدلنا پڑا۔ اس شان کا کوئی انسان اگر کبھی گزرا ہو جس نے اپنے ذہن کی خلاقی کا یہ کمال دکھایا ہو تو اس کی نشان دہی کی جاۓ۔ (5)۔ جس رہنما کی زبان پر یہ خطبے اور جملے جاری ہوۓ تھے وہ یکایک کسی گوشے سے نکل کر صرف ان کو سنانے کے لیے نہیں آ جاتا تھا اور انہیں سنانے کے بعد کہیں چال نہیں جاتا تھا۔ سہ اس تحریک کے آغاز سے پہلے بھی انسانی معاشرے میں زندگی بسر کر چکا تھا اور اس کے بعد بھی وہ زندگی کی آخری ساعت تک ہر وقت اسی معاشرے میں رہتا تھا۔ اس کی گفتگو اور تقریروں کی زبان اور طرز بیان سے لوگ بخوبی آشنا تھے ۔ احادیث میں ان کا ایک بڑا حصہ اب بھی محفوظ ہے جسے بعد کے عربی داں لوگ پڑھ کر خود بآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ اس رہنما کا اپنا طرز کلام کیا تھا۔اس کے ہم زبان لوگ اس وقت بھی صاف محسوس کرتے تھے اور آج بھی عربی زبان کے جاننے والے یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس کتاب کی زبان اور اس کا اسٹائل اس رہنما کی زبان اور اس کے اسٹائل سے بہت مختلف ہے ، حتّیٰ کہ جہاں اس کے کسی خطبے کے بیچ میں اس کتاب کی کوئی عبارت آ جاتی ہے وہاں دونوں کی زبان کا فرق بالکل نمایاں نظر آتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں کوئی انسان کبھی اس بات پر قادر ہوا ہے یا ہو سکتا ہے کہ سالہا سال تک دو قطعی مختلف اسٹائلوں میں کلام کرنے کا تکلف نباہتا چلا جاۓ اور کبھی یہ راز فاش نہ ہو سکے کہ یہ دو الگ اسٹائل در اصل ایک ہی شخص کے ہیں ؟ عارضی اور وقتی طور پر اس قسم کے تصنع میں کامیاب ہو جانا تو ممکن ہے ۔ لیکن مسلسل 23 سال تک ایسا ہونا کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ایک شخص جب خدا کی طرف سے آئی ہوئی وحی کے طور پر کلام کرے تو اس کی زبان اور اسٹائل کچھ ہو، اور جب خود اپنی طرف سے گفتگو یا تقریر کر لے تو اس کی زبان اور اس کا اسٹائل بالکل ہی کچھ اور ہو۔ (6)۔ وہ رہنما اس تحریک کی قیادت کے دوران میں مختلف حالات سے دو چار ہوتا رہا۔ کبھی برسوں وہ اپنے ہم وطنوں اور اپنے قبیلے والوں کی تضحیک، توہین اور سخت ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہا یہ کبھی اس کے ساتھیوں پر اس قدر تشدد کیا گیا کہ وہ ملک چھوڑ کر نکل جانے پر مجبور ہو گۓ۔ کبھی دشمنوں نے اس کے قتل کی سازشیں کیں ۔ کبھی خود اسے اپنے وطن سے ہجرت کرنی پڑی۔ کبھی اس کو انتہائی حسرت اور فاقہ کسی کی زندگی گزارنی پڑی۔ کبھی اسے پیہم لڑائیوں سے سابقہ پیش آیا جن میں شکست اور فتح، دونوں ہی ہوتی رہیں ۔ کبھی وہ دشمنوں پر غالب آیا اور وہی دشمن جنہوں نے اس پر ظلم توڑے تھے ، اس کے سامنے سرنگوں نظر آۓ۔ کبھی اسے وہ اقتدار نصیب ہوا جو کم ہی کسی کو نصیب ہوتا ہے ۔ ان تمام حالات میں انسان کے جذبات ظاہر ہے کہ یکساں نہیں رہ سکتے ۔ اس رہنما نے ان مختلف مواقع پر خود اپنی ذاتی حیثیت میں جب کبھی کلام کیا، اس میں ان جذبات کا اثر نمایاں نظر آتا ہے جو ایسے مواقع پر انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں ۔ لیکن خدا کی طرف سے آئی ہوئی وحی کے طور پر ان مختلف حالات میں جو کلام اس کی زبان سے سنا گیا وہ انسانی جذبات سے بالکل خالی ہے ۔ کسی ایک مقام پر بھی کوئی بڑے سے بڑا نقاد انگلی رکھ کر یہ نہیں بتا سکتا کہ یہاں انسانی جذبات کار فرما نظر آتے ہیں ۔ (7)۔ جو وسیع اور جامع علم اس کتاب میں پایا جاتا ہے وہ اس زمانے کے اہل عرب اور اہل روم و یونان و ایران تو در کنار اس بیسویں صدی کے اکابر اہل علم میں سے بھی کسی کے پاس نہیں ہے ۔ آّج حالت یہ ہے کہ فلسفہ و سائنس اور علوم عمران کی کسی ایک شاخ کے مطالعہ میں اپنی عمر کھپا دینے کے بعد آدمی کو پتا چلتا ہے کہ اس شعبہ علم کے آخری مسائل کیا ہیں ، اور پھر جب وہ غائر نگاہ سے قرآن کو دیکھتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب میں ان مسائل کا ایک واضح جواب موجود ہے ۔ یہ معاملہ کسی ایک علم تک محدود نہیں ہے بلکہ ان تمام علوم کے باب میں صحیح ہے جو کائنات اور انسان سے کوئی تعلق رکھتے ہیں ۔ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ 14 سو برس پہلے ریگستان عرب میں ایک عمی کو علم کے ہر گوشے پر اتنی وسیع نظر حاصل تھی اور اس نے ہر بنیادی مسئلے پو غور و خوض کر کے اس کا یک صاف اور قطعی جواب سوچ لیا تھاٍ؟ اعجاز قرآن کے اگر چہ اور بھی متعدد وجوہ ہیں ، لیکن صرف ان چند وجوہ ہی پر اگر آدمی غور کرے تو اسے معلوم ہو جاۓ گا کہ قرآن کا معجزہ ہونا جتنا نزول قرآن کے زمانے میں واضح تھا اس سے بدر جہا زیادہ آج واضح ہے اور انشاءاللہ قیامت تک یہ واضح تر ہوتا چلا جاۓ گا |