Ayats Found (2)
Surah 75 : Ayat 16
لَا تُحَرِّكْ بِهِۦ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِۦٓ
اے 1نبیؐ، اِس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو
1 | یہاں سے لے کر ’’پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے‘‘ تک کی پوری عبارت ایک جملہ معترضہ ہے جو سلسلہ کلام کو بیج میں توڑ کر نبی صلی اللہ ﷺ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی گئی ہے۔ جیسا کہ ہم دیباچہ میں بیان کر آئے ہیں، نبوت کے ابتدائی دور میں ، جبکہ حضورؐ کو وحی اخذ کرنے کی عادت اور مشق پوری طرح نہیں ہوئی تھی، آپ پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو آپ کو یہ اندیشہ لاحق ہو جاتاتھا کہ جبریل علیہ السلام جو کلامِ الہی آپ کو سنا رہے ہیں وہ آپ کو ٹھیک ٹھیک یاد رہ سکے گا یا نہیں،اس لیے آپ وحی سننے کے ساتھ ساتھ اسے یاد کرنے کی کوشش کرتے لگتے تھے۔ ایسی ہی صورت اس وقت پیش آئی جب حضرت جبریل سورہ قیامہ کی یہ آیات آپ کو سنا رہے تھے۔ چنانچہ سلسلہ کلام توڑ کر آپ کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپ وحی کے الفاظ یاد کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ غور سے سنتے رہیں، اسے یاد کرادینا اور بعد میں ٹھیک ٹھیک آپ سے پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے، آپ مطمئن رہیں کہ کلام کا ایک لفظ بھی آپ نہ بھولیں گے نہ کبھی اسے ادا کرنے میں غلطی کر سکیں گے۔ یہ ہدایت فرمانے کے بعد پھراصل سلسلہ کلام ’’ ہر گز نہیں ، اصل بات یہ ہے ‘‘ سے شروع ہو جاتا ہے۔ جو لوگ اس پس منظر سے واقف نہیں ہیں وہ اس مقام پر ان فقروں کو دیکھ کر یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس سلسلہ کلام میں یہ بالکل بے جوڑ ہیں۔ لیکن اس پس منظر کو سمجھ لینے کے بعد کلام میں کوئی ربطی محسوس نہیں ہوتی۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک استاد درس دیتے دیتے یکایک یہ دیکھے کہ طالب علم کسی اور طرف متوجہ ہے اور وہ درس کا سلسلہ توڑ کر طالب علم سے کہے کہ توجہ سے میری بات سنو اور اس کے بعد آگے پھر اپنی تقریر شروع کر دے۔ یہ درس اگر جوں کا توں نقل کر کے شائع کر دیا جائے تو جو لوگ اس اصل واقعہ سے واقف نہ ہوں گے وہ اس سلسلہ تقریر میں اس فقرے کو بے جوڑمحسوس کریں ۔ لیکن جو شخص اس اصل واقعہ سے واقف ہو گا جس کی بنا پر یہ فقرہ درمیان میں آیا ہے وہ مطمئن ہو جائے گا کہ درس فی الحقیقت جوں کا توں نقل کیا گیا ہے، اسے نقل کرنے میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی ہے۔ اوپر ان آیات کے درمیان یہ فقرے بطور جملہ معترضہ آنے کی جو توجیہ ہم نے کی ہے وہ محض قیات پر مبنی نہیں ہے، بلکہ معتبرروایات میں اس کی یہی وجہ بیان ہوئی ہے۔ مسند احمد، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن جریر، طبرانی، بہیقی اور دوسرے محدثین نے متعدد سندوں سے حضرت عبداللہ بن عباس کی یہ روایت نقل کی ہے کہ جب حضورؐ پر قرآن نازل ہوتا تھا تو آپ اس خوف سے کہیں کوئی چیز بھول نہ جائیں جبریل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ وحی کے الفاظ دہرانے لگتے تھے۔ اس پر فرمایا گیا کہ لا تحرک بہ لسانک لتعجل بہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی بات شعبی ، ابن زید، ضحاک، حسن بصری، قتادہ، مجاہد اور دوسرے اکابر مفسرین سے منقول ہے |
Surah 75 : Ayat 19
ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُۥ
پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ذمہ ہے1
1 | اس سے گمان ہوتا ہے، اور بعض اکابر مفسرین نے بھی اس گمان کا اظہار کیا ہے، کہ غالباً ابتدائی زمانے میں رسول اللہ ﷺ نزول وحی کے دوران ہی میں قرآن کی کسی آیت یا کسی لفظ یا کسی حکم کا مفہوم بھی جبریل علیہ السلام سے دریافت کر لیتے تھے۔ اس لیے حضورؐ کو نہ صرف ہدایت کی گئی کہ جب وحی نازل ہو رہی ہو اس وقت آپ خاموشی سے اس کو سنیں ، اور نہ صرف اطمینان دلایا گیا کہ اس کا لفظ لفظ ٹھیک ٹھیک آپ کے حافظہ میں محفوظ کر دیا جائے گا اور قرآن کو آپ ٹھیک اسی طرح پڑھ سکیں گے جس طرح وہ نازل ہوا ہے، بلکہ ساتھ ساتھ یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ اللہ تعالی کے ہر حکم اور ہر ارشاد کا منشا اور مدعا بھی پوری طرح آپ کو سمجھا دیا جائے گا۔ یہ ایک بڑی اہم آیت ہے جس سے چند ایسی اصولی باتیں ثابت ہوتی ہیں جنہیں اگر آدمی اچھی طرح سمجھ لے تو ان گمراہیوں سے بچ سکتا ہے جو پہلے بھی بعض لوگ پھیلاتے رہے ہیں اور آج بھی پھیلا رہے ہیں۔ اولاً، اس سے صریح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر صرف وہی وحی نازل نہیں ہوتی تھی جو قرآن میں درج ہے، بلکہ اس کے علاوہ بھی وحی کے ذریعہ سے آپ کو ایسا علم دیا جاتا تھا جو قرآن میں درج نہیں ہے۔ اس لیے کہ قرآن کے احکام و فرامین ، اس کے اشارات ، اس کے الفاظ اور اس کی مخصوص اصطلاحات کا جو مفہوم و مدعا حضورؐ کو سمجھایا جاتا تھا وہ اگر قرآن ہی میں درج ہوتا تو یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس کا مطلب سمجھا دینا یا اس کی تشریح کر دینا بھی ہمارے ذمہ ہے، کیونکہ وہ تو پھر قرآن ہی میں مل جاتا۔ لہذا یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مطالبِِ قرآن کی تفہیم و تشریح جو اللہ تعالی کی طرف سے کی جاتی تھی وہ بہرحال الفاظ قرآن کے ماسوا تھی۔ یہ وحی خفی کا ایک اور ثبوت ہے جو ہمیں قرآن سے ملتا ہے (قرآن مجید سے اس کے مزید ثبوت ہم نے اپنی کتاب ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ میں صفحات 94۔95 ۔ اور صفحات 118 تا 125 میں پیش کر دیے ہیں)۔ ثانیاً ، قرآن کے مفہوم و مدعا اور اس کے احکام کی یہ تشریح جو اللہ تعالی کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کو بتائی گئی تھی آخر اسی لیے تو بتائی گئی تھی کہ آپ اپنے قول اور عمل سے اس کے مطابق لوگوں کو قرآن سمجھائیں اور اس کے احکام پر عمل کرنا سکھائیں۔ اگر یہ اس کا مدعا نہ تھا اور یہ تشریح آپ کو صرف اس لیے بتائی گئی تھی کہ آپ اپنی ذات کی حد تک اس علم کو محدود رکھیں تو یہ ایک بے کار کام تھا، کیونکہ فرائض نبوت کی ادائیگی میں اس سے کوئی مدد نہیں مل سکتی تھی۔ اس لیے صرف ایک بیوقوف آدمی ہی یہ کہ سکتا ہے کہ یہ تشریحی علم سرے سے کوئی شریعی حیثیت نہ رکھتا تھا۔ اللہ تعالی نے خود سورہ نحل آیت 44 میں فرمایا ہے وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم۔ ’’اور اے نبی، یہ ذکر ہم نے تم پر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو ان کے لیے اتاری گئی ہے‘‘ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم، النحل ، حاشیہ 40)۔ اور قرآن میں چار جگہ اللہ تعالی نے صراحت فرمائی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا کام صرف کتاب اللہ کی آیات سنا دینا ہی نہ تھا بلکہ اس کی تعلیم دینا بھی تھا۔ (البقرہ، آیات 129 و 151 ، آل عمران، 164۔ الجمعہ، 2۔ ان سب آیات کی تشریح ہم ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ میں صفحہ 74 سے 77 تک تفصیل کے ساتھ کر چکے ہیں)۔ اس کے بعد کوئی ایسا آدمی جو قرآن کو مانتا ہو اس بات کو تسلیم کرنے سے کیسے انکار کر سکتا ہے کہ قرآن کی صحیح و مستند، بلکہ فی الحقیقت سرکاری تشریح صرف وہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے اپنے قول اور عمل سے فرما دی ہے ، کیونکہ وہ آپ کی ذاتی تشریح نہیں ہے بلکہ خود قرآن کے نازل کرنے والے خدا کی بتائی ہوئی تشریح ہے۔ اس کو چھوڑ کر یا اس سے ہٹ کر جو شخص بھی قرآن کی کسی آیت یا اس کے کسی لفظ کا کوئی من مانا مفہوم بیان کرتا ہے وہ ایسی جسارت کرتا ہے جس کا ارتکاب کوئی صاحبِ ایمان آدمی نہیں کر سکتا۔ ثالثاً ، قرآن کا سرسری مطالعہ بھی ا گر کسی شخص نے کیا ہو تو وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس میں بکثرت باتیں ایسی ہیں جنہیں ایک عربی داں آدمی محض قرآن کے الفاظ پڑھ کر یہ نہیں جان سکتا کہ ان کا حقیقی مدعا کیا ہے اور ان میں جو حکم بیان کیا گیا ہے اس پر کیسے عمل کیا جائے۔ مثال کے طور پر لفظ صلوۃ ہی کو لے لیجئے۔ قرآن مجید میں ایمان کے بعداگر کسی عمل پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے تو وہ صلوۃ ہے۔ لیکن محض عربی لغت کی مدد سے کوئی شخص اس کا مفہوم تک متعین نہیں کر سکتا۔ قرآن میں اس کا ذکر بار بار دیکھ کر زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ سمجھ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ عربی زبان کے اس لفظ کو کسی خاص اصطلاحی معنی میں استعمال کیا گیا ہے اور اس سے مراد غالباً کوئی خاص فعل ہے جسے انجام دینے کا اہل ایمان سے مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن صرف قرآن کو پڑھ کر کوئی عربی داں یہ طے نہیں کر سکتا کہ وہ خاص فعل کیا ہے اور کس طرح اسے ادا کیا جائے۔ سوال یہ ہےکہ ا گر قرآن کے بھیجنے والے نے اپنی طرف سے ایک معلم کو مقرر کر کے ا پنی اس اصطلاح کا مفہوم اسے ٹھیک ٹھیک نہ بتایا ہوتا اور صلوۃ کے حکم کی تعملی کرنے کا طریقہ پوری وضاحت کے ساتھ اسے نہ سکھا دیا ہوتا تو کیا صرف قرآن کو پڑھ کر دنیامیں کوئی دو مسلمان بھی ایسے ہو سکتے تھے جو حکم صلوۃ پرعمل کرنے کی کسی ایک شکل متفق ہو جاتے؟ آج ڈیڑھ ہزار برس سے مسلمان نسل در نسل ایک ہی طرح جو نماز پڑھتے چلےآرہے ہیں، اور دنیا کے ہر گوشے میں کروڑوں مسلمان جس طرح نماز کے حکم پر یکساں عمل کررہے ہیں، اس کی وجہ یہی تو ہے کہ اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ پر صرف قرآن کےالفاظ ہی وحی نہیں فرمائے تھے بلکہ ان الفاظ کا مطلب بھی آپ کو پوری طرح سمجھا دیا تھا، اور اسی مطلب کی تعلیم آپ ان سب لوگوں کو دیتے چلے گئے جنہوں نے قرآن کو اللہ کی کتاب اور آپ کو اللہ کا رسول مان لیا۔ رابعاً ، قرآن کے الفاظ کی جو تشریح اللہ نے اپنے رسولﷺ کو بتائی اور رسول ﷺ نے اپنے قول اورعمل سے اس کی جو تعلیم امت کو دی، اس کو جاننےکا ذریعہ ہمارے پاس حدیث وسنت کے سوا کوئی نہیں ہے۔ حدیث سے مراد وہ روایات ہیں جو حضورؐ کے اقوال و افعال کے متعلق سند کے ساتھ اگلوں سے پچھلوں تک منتقل ہوئیں۔ اور سنت سے مراد وہ طریقہ ہے جو حضورؐ کی قولی و عملی تعلیم سے مسلم معاشرے کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں رائج ہوا، جس کی تفصیلات معتبرروایتوں سے بھی بعد کی نسلوں کو اگلی نسلوں سے ملیں، اور بعد کی نسلوں نے اگلی نسلوں میں اس پر عملدرآمد ہوتے بھی دیکھا۔ اس ذریعہ علم کو قبول کرنے سے جو شخص انکار کرتا ہے وہ گویا یہ کہتا ہے کہ ا للہ تعالی نے ثم ان علینا بیانہ فرما کر قرآن کا مطلب اپنے رسول کو سمجھا دینے کی جو ذمہ داری لی تھی اسے پورا کرنے میں معاذ اللہ وہ ناکام ہو گیا، کیونکہ یہ ذمہ داری محض رسولؐ کو ذاتی حیثیت سے مطلب سمجھانے کے لیے نہیں لی گئی تھی، بلکہ اس غرض کے لیے لی گئی تھی کہ رسولؐ کے ذریعہ پوری امت کو کتاب الہی کا مطلب سمجھایا جائے، اور حدیث و سنت کے ماخد قانون ہونے کا انکار کرتے ہی آپ سے آپ یہ لازم آ جاتا ہے کہ اللہ تعالی اس ذمہ داری کو پورا نہیں کرسکا ہے، اعاذنا اللہ من ذالک۔ اس کے جواب میں جو شخص یہ کہتا ہے کہ بہت سےلوگوں نے حدیثیں گھڑبھی تو لی تھیں اس سے ہم کہیں گے کہ حدیثوں کا گھڑا جانا خود اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ آغاز اسلام میں پوری امت رسول اللہ ﷺ کےاقوال واعمال کو قانون کا درجہ دیتی تھی ورنہ آخرگمراہی پھیلانے والوں کو جھوٹی حدیثیں گھڑنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ جعل ساز لوگ وہی سکے تو جعلی بناتے ہیں جن کا بازار میں چلن ہو۔ جن نوٹوں کی بازار میں کوئی قیمت نہ ہو انہیں کون بیوقوف جعلی طور پر چھاپے گا؟ پھر ایسی بات کہنے والوں کو شاید یہ معلوم نہیں ہے کہ اس امت نے اول روز سے اس بات کا اہتمام کیا تھا کہ جس ذات پاکؐ نے اقوال و افعال قانون کا درجہ رکھتے ہیں اس کی طرف کوئی غلط بات منسوب نہ ہونے پائے ، اور جتنا جتنا غلط باتوں کے اس ذاتؐ کی طرف منسوب ہونے کا خطرہ بڑھتا گیا اتنا ہی اس امت کے خیر خواہ اس بات کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرتے چلے گئے کہ صحیح کو غلط سے ممیز کیا جائے۔ صحیح و غلط روایات کی تمیز کا یہ علم ایک بڑا عظیم الشان علم ہے جو مسلمانوں کے سوا دنیا کی کسی قوم نے آج تک ایجاد نہیں کیا، سخت بد نصیب ہیں وہ لوگ جو اس علم کو حاصل کیے بغیر مغربی مستشرقین کے بہکائے میں آ کر حدیث و سنت کو ناقابل اعتبار ٹھیراتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اپنی اس جاہلانہ جسارت سے وہ اسلام کو کتنا بڑا نقصان پہنچا رہے ہیں |