Ayats Found (7)
Surah 2 : Ayat 19
أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ ٱلسَّمَآءِ فِيهِ ظُلُمَـٰتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَـٰبِعَهُمْ فِىٓ ءَاذَانِهِم مِّنَ ٱلصَّوَٲعِقِ حَذَرَ ٱلْمَوْتِۚ وَٱللَّهُ مُحِيطُۢ بِٱلْكَـٰفِرِينَ
یا پھر ان کی مثال یوں سمجھو کہ آسمان سے زور کی بارش ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ اندھیری گھٹا اور کڑک چمک بھی ہے، یہ بجلی کے کڑاکے سن کر اپنی جانوں کے خوف سے کانوں میں انگلیاں ٹھو نسے لیتے ہیں اور اللہ اِن منکرین حق کو ہر طرف سے گھیرے میں لیے ہوئے ہے1
1 | یعنی کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس کر وہ اپنے آپ کو کچھ دیر کے لیے اس غلط فہمی میں تو ڈال سکتے ہیں کہ ہلاکت سے بچ جائیں گے مگر فی الواقع اس طرح وہ بچ نہیں سکتے کیونکہ اللہ اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ ان پر محیط ہے |
Surah 2 : Ayat 55
وَإِذْ قُلْتُمْ يَـٰمُوسَىٰ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَى ٱللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ ٱلصَّـٰعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ
یاد کرو جب تم نے موسیٰؑ سے کہا تھا کہ ہم تمہارے کہنے کا ہرگز یقین نہ کریں گے، جب تک کہ اپنی آنکھوں سے علانیہ خدا کو (تم سے کلام کرتے) نہ دیکھ لیں اس وقت تمہارے دیکھتے دیکھتے ایک زبردست صاعقے نے تم کو آ لیا
Surah 4 : Ayat 154
وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمُ ٱلطُّورَ بِمِيثَـٰقِهِمْ وَقُلْنَا لَهُمُ ٱدْخُلُواْ ٱلْبَابَ سُجَّدًا وَقُلْنَا لَهُمْ لَا تَعْدُواْ فِى ٱلسَّبْتِ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَـٰقًا غَلِيظًا
اور اِن لوگوں پر طور کو اٹھا کر اِن سے (اُس فرمان کی اطاعت کا) عہد لیا ہم نے اِن کو حکم دیا کہ دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہوں ہم نے اِن سے کہا کہ سبت کا قانون نہ توڑو اوراس پر اِن سے پختہ عہد لیا
Surah 13 : Ayat 13
وَيُسَبِّحُ ٱلرَّعْدُ بِحَمْدِهِۦ وَٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِۦ وَيُرْسِلُ ٱلصَّوَٲعِقَ فَيُصِيبُ بِهَا مَن يَشَآءُ وَهُمْ يُجَـٰدِلُونَ فِى ٱللَّهِ وَهُوَ شَدِيدُ ٱلْمِحَالِ
بادلوں کی گرج اس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتی ہے1 اور فرشتے اس کی ہیبت سے لرزتے ہوئے اُس کی تسبیح کرتے ہیں2 وہ کڑکتی ہوئی بجلیوں کو بھیجتا ہے اور (بسا اوقات) اُنہیں جس پر چاہتا ہے عین اس حالت میں گرا دیتا ہے جبکہ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں فی الواقع اس کی چال بڑی زبردست ہے3
3 | یعنی اس کے پاس بے شمار حربے ہیں اور وہ جس وقت جس کے خلاف جس حربے سے چاہے ایسے طریقے سے کام لے سکتا ہے کہ چوٹ پڑنے سے ایک لمحہ پہلے بھی اسے خبر نہیں ہوتی کہ کدھر سے کب چوٹ پڑنے والی ہے۔ ایسی قادرِ مطلق ہستی کے بارے میں یوں بے سوچے سمجھے جو لوگ الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں انہیں کون عقلمند کہہ سکتا ہے |
2 | فرشتوں کے جلال خداوندی سے لرزنے اور تسبیح کر نے کا ذکر خصُوصیت کے ساتھ یہاں اس لیے کیا کہ مشرکین ہر زمانے میں فرشتوں کو دیوتا اور معبود قرار دیتے رہے ہیں اور اُن کا یہ گمان رہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اُس کی خدائی میں شریک ہیں ۔ اس غلط خیال کی تردید کے لیے فرمایا گیا کہ وہ اقتدارِ اعلیٰ میں خدا کے شریک نہیں ہیں بلکہ فرمانبردار خادم ہیں اور اپنے آقا کے جلال سے کانپتے ہوئے اس کی تسبیح کررہے ہیں |
1 | یعنی بادلوں کی گرج یہ ظاہر کرتی ہے کہ جس خدا نے یہ ہوائیں چلائیں، یہ بھاپیں اُٹھائیں، یہ کثیف بادل جمع کیے، اِس بجلی کو بارش کا ذریعہ بنایا اور اس طرح زمین کی مخلوقات کے لیے پانی کی بہم رسانی کا انتظام کیا، وہ سبوح و قدوس ہے ، اپنی حکمت اور قدرت میں کامل ہے، اپنی صفت میں بے عیب ہے، اور اپنی خدائی میں لاشریک ہے۔ جانوروں کی طرح سُننے والے تو ان بادلوں میں صرف گرج کی آواز ہی سُنتے ہیں۔ مگر جو ہوش کے کان رکھتے ہیں وہ بادلوں کی زبان سے توحید کا یہ اعلان سنتے ہیں |
Surah 32 : Ayat 13
وَلَوْ شِئْنَا لَأَتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَٮٰهَا وَلَـٰكِنْ حَقَّ ٱلْقَوْلُ مِنِّى لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ ٱلْجِنَّةِ وَٱلنَّاسِ أَجْمَعِينَ
(جواب میں ارشاد ہو گا) 1"اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے مگر میری وہ بات پُوری ہو گئی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنّم کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا2
2 | اشارہ ہے اُس قول کی طرف جواللہ تعالٰی نے تخلیق آدم ؑ کے وقت ابلیس کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا تھا۔ سورہ ص کے آخری رکوع میں اُس وقت کا پورا قصّہ بیان کیا گیا ہے۔ ابلیس نے آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اورنسل آدم کو بہکانے کے لیے قیامت تک کی مہلت مانگی۔ جواب میں اللہ تعالٰی نے فرمایا : فَا لْحَقُّ وَالْحَقَّ اَقُوْلُ لَاَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکَ وَمِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ اَجْمَعِیْنَ‘‘ پس حق یہ ہے اور میں حق ہی کہا کرتا ہوں کہ جہنم کو بھردوں گا تجھ سے اوراُن لوگوں سے جو انسانوں میں سے تیری پیروی کریں گے۔‘‘ اَجْمَعِیْنَ کا لفظ یہاں اس معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ہے کہ تمام جن اور تمام انسان جہنم میں ڈال دیے جائیں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے شیاطین اوران شیاطین کے پیروانسان سب ایک ساتھ ہی وصل جہنم ہوں گے۔ |
1 | یعنی ا س طرح حقیقت کا مشاہدہ اور تجربہ کرا کر ہی لوگوں کو ہدایت دینا ہمارے پیش نظر ہوتا تو دنیا کی زندگی میں اتنے بڑے امتحان سے گزار کر تم کو یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی‘ ایسی ہدایت تو ہم پہلے ہی تم کو دے سکتے تھے لیکن تمہارے لیے توآغاز ہی سے ہماری اسکیم یہ نہ تھی ہم تو حقیقت کو نگاہوں سے اوجھل اورحواس سے مخفی رکھ کر تمہارا امتحان لینا چاہتے تھے کہ تم براہ راست اُس کو بے نقاب دیکھنے کے بجائے کائنات میں اور خود اپنے نفس میں اُس کی علامات دیکھ کر اپنی عقل سے اُس کو پہچانتے ہو یا نہیں، ہم اپنے انبیاء اوراپنی کتابوں کے ذریعہ سے اِس حقیقت شناسی میں تمہاری جو مدد کرتے ہیں اُس سے فائدہ اُٹھاتے ہو یا نہیں، اور حقیقت جان لینے کے بعد اپنے نفس پراتنا قابو پاتے ہو یا نہیں کہ خواہشات اوراغراض کی بندگی سے آزاد ہو کراس حقیقت کو مان جاؤ اور اس کے مطابق اپنا طرز عمل درست کرلو۔ اس امتحان میں تم ناکام ہو چکے ہو۔ اب دوبارہ اِسی امتحان کا سلسلہ شروع کرنے سے کیا حاصل ہو گا۔ دوسرا امتحان اگر اس طرح لیا جائے کہ تمہیں وہ سب کچھ یاد ہو جو تم نے یہاں دیکھ اور سُن لیا ہے تو یہ سرے سے کوئی امتحان ہی نہ ہو گا۔ اگر پہلے کی طرح تمہیں خالی الذہن کر کے اور حقیقت کو نگاہوں سے اوجھل رکھ کر تمہیں پھر دُنیا میں پیدا کر دیا جائے اور نئے سِرے سے تمہارا اُسی طرح امتحان لیا جائے جیسے پہلے لیا گیا تھا، تو نتیجہ پچھلے امتحان سے کچھ بھی مختلف نہ ہو گا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل، صفحات ۱۶۰۔ ۱۶۱۔ ۵۶۵۔ ۶۲۵۔ ۵۳۲ ۔ ۶۰۳ ۔۶۰۴۔جلد دوّم ص، ۲۷۶ ۔ جلد سوّم ص ۳۰۰)۔ |
Surah 32 : Ayat 17
فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ أُخْفِىَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَآءَۢ بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزا میں ان کے لیے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے1
1 | بخاری، مسلم، ترمذی اور مسند احمد میں متعدد طریقوں سے حضرت ابوہریرہ ؓ کی یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: قال اللہ تعالٰی اعددت بعبادی الصالحین ما لا اذن سمعت ولا خطرعلٰی قلب بشرٍ۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ فراہم کر رکھا ہے جسے نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کبھی کسی کان نے سُنا، نہ کوئی انسان کبھی اس کا تصوّر کر سکا ہے‘‘۔ یہی مضمون تھوڑے سے لفظی فرق کے ساتھ حضرت ابو سعید خُدری، حضرت مُغیرو بن شُعْبہ اور حضرت سہَل بن سَعد ساعِدی نے بھی حضورؐ سے روایت کیا ہے جسے مسلم، احمد ، ابن جریر اور ترمذی نے صحیح سند وں کے ساتھ نقل کیا ہے۔ |
Surah 51 : Ayat 44
فَعَتَوْاْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ فَأَخَذَتْهُمُ ٱلصَّـٰعِقَةُ وَهُمْ يَنظُرُونَ
مگر اس تنبیہ پر بھی انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی آخر کار ان کے دیکھتے دیکھتے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب1 نے اُن کو آ لیا
1 | قرآن مجید میں مختلف مقامات پر اس عذاب کے لیے مختلف الفاظ استعمال ہوۓ ہیں۔ کہیں اسے رَجْرہ (دہلا دینے والی اور ہلا مارنے والی آفت) کہا گیا ہے۔ کہیں اس کی صیحہ (دھماکے اور کڑکے ) سے تعبیر کیا گیا ہے۔کہیں اس کے لیے طاغیہ (انتہائی شدید آفت) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اور یہاں اسی کو صاعقہ کہا گیا ہے جس کے معنی بجلی کی طرح اچانک ٹوٹ پڑنے والی آفت کے بھی ہیں اور سخت کڑک کے بھی۔ غالباً یہ عذاب ایک ایسے زلزلے کی شکل میں آیا تھا جس کے ساتھ خوفناک آواز بھی تھی |