Ayats Found (10)
Surah 9 : Ayat 31
ٱتَّخَذُوٓاْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَـٰنَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ ٱللَّهِ وَٱلْمَسِيحَ ٱبْنَ مَرْيَمَ وَمَآ أُمِرُوٓاْ إِلَّا لِيَعْبُدُوٓاْ إِلَـٰهًا وَٲحِدًاۖ لَّآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَۚ سُبْحَـٰنَهُۥ عَمَّا يُشْرِكُونَ
انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے1 اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں
1 | حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عَدِی بن حاتِم، جو پہلے عیسائی تھے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر مشرف با اسلام ہوئے تو انہوں منجملہ اور سوالات کے ایک یہ سوال بھی کیا تھا کہ اس آیت میں ہم پر اپنے علماء اور درویشوں کو خد ا بنا لینے کا جو الزام عائد کیا گیا ہے اس کی اصلیت کیا ہے۔ جواب میں حضور نے فرمایا کہ یہ واقعہ نہیں ہے کہ جو کچھ یہ لوگ حرام قرار دیتے ہیں اسے تم حرام مان لیتے ہو اور جو کچھ یہ حلال قرار دیتے ہیں اسے حلال مان لیتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ یہ تو ضرور ہم کرتے رہے ہیں۔ فرمایا بس یہی ان کو خد ا بنا لینا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کتاب اللہ کی سند کے بغیر جو لوگ انسانی زندگی کے لیے جائز و ناجائز کی حدود مقرر کرتے ہیں وہ دراصل خدائی کے مقام پر بزعمِ خود متمکن ہوتے ہیں اور جو ان کے اس حقِ شریعت سازی کو تسلیم کرتے ہیں وہ انہیں خدابناتے ہیں۔ یہ دونوں الزام ، یعنی کسی کو خدا کا بیٹا قرار دینا، اور کسی کو شریعت سازی کا حق دے دینا، اس بات کے ثبوت میں پیش کیے گئے ہیں کہ یہ لوگ ایمان باللہ کے دعوے میں جھوٹے ہیں۔ خدا کی ہستی کو چاہے یہ مانتے ہوں مگر ان کا تصورِ خدائی اس قدر غلط ہے کہ اس کی وجہ سے ان کا خدا کو ماننا نہ ماننے کے برابر ہو گیا ہے |
Surah 10 : Ayat 18
وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـٰٓؤُلَآءِ شُفَعَـٰٓؤُنَا عِندَ ٱللَّهِۚ قُلْ أَتُنَبِّــُٔونَ ٱللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَلَا فِى ٱلْأَرْضِۚ سُبْحَـٰنَهُۥ وَتَعَـٰلَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
یہ لوگ اللہ کے سوا اُن کی پرستش کر رہے ہیں جو ان کو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع، اور کہتے یہ ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں اے محمدؐ، ان سے کہو “کیا تم اللہ کو اُس بات کی خبر دیتے ہو جسے وہ نہ آسمانوں میں جانتا ہے نہ زمین میں؟1" پاک ہے وہ اور بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں
1 | کسی چیز کا اللہ کے علم میں نہ ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ سرے سے موجود ہی نہیں، اس لیے کہ سب کچھ جو موجود ہے اللہ کے علم میں ہے۔ پس سفارشیوں کے معدوم ہونے کے لیے یہ ایک نہایت لطیف انداز بیان ہے کہ اللہ تعالٰی تو جانتا نہیں کہ زمین یا آسمان میں کوئی اس کے حضور تمہاری سفارش کرنے والا ہے، پھر یہ تم کن سفارشیوں کی اس کو خبر دے رہے ہو؟ |
Surah 16 : Ayat 1
أَتَىٰٓ أَمْرُ ٱللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُۚ سُبْحَـٰنَهُۥ وَتَعَـٰلَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
آ گیا اللہ کا فیصلہ1، اب اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ پاک ہے وہ اور بالا تر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں2
2 | پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کا باہمی ربط سمجھنے کے لیے پس منظر کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔ کفار جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار چیلنج کر رہے تھے کہ اب کیوں نہیں آجاتا خدا کا وہ فیصلہ جس کے تم ہمیں ڈراوے دیا کرتے ہو، اس کے پیچھے دراصل ان کا یہ خیال کار فرما تھا کہ اُن کا مشرکانہ مذہب ہی بر حق ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) خواہ مخواہ اللہ کا نام لے لے کر ایک غلط مذہب پیش کر رہے ہیں جسے اللہ کی طرف سے کوئی منظوری حاصل نہیں ہے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اللہ سے پھرے ہوئے ہوتے اور محمدؐ اس کے بھیجے ہوئے نبی ہوتے اور پھر بھی جو کچھ ہم ان کے ساتھ کر رہے ہیں اُس پر ہماری شامت نہ آجاتی۔ اس لیے خدائی فیصلے کا اعلان کرتے ہی فورًا یہ ارشاد ہوا ہے اس کے نفاذ میں تاخیر کی وجہ ہرگز وہ نہیں ہے جو تم سمجھے بیٹھے ہو۔ اللہ اس سے بلند تر اور پاکیزہ تر ہے کہ کوئی اس کا شریک ہو۔ |
1 | یعنی بس وہ آیا ہی چاہتا ہے۔ اُس کے ظہور و نفاد کا وقت قریب آ لگا ہے ۔۔۔۔۔ اس بات کو صیغہْ ماضی میں یا تو اس کے انتہائی یقینی اور انتہائی قریب ہونے کا تصور دلانے کے لیے فرمایا گیا،یا پھراس لیے کہ کفار قریش کی سرکشی و بدعملی کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا اور آخری فیصلہ کُن قدم اُٹھائے جانے کا وقت آگیا تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ”فیصلہ“ کیا تھا اور کس شکل میں آیا؟ ہم یہ سمجھتے ہیں (اللہ اعلم بالصواب) کہ اس فیصلے سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے ہجرت ہے جس کاحکم تھوڑی مدت بعد ہی دیا گیا۔ قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی جن لوگوں کے درمیان مبعوث ہوتا ہے اُن کے حجُود و انکار کی آخری سرحد پر پہنچ کر اُسے ہجرت کا حکم دیا جاتا ہے اور یہ حکم اُن کی قسمت کا فیصلہ کر دیتا ہے۔ اس کے بعد یا تواُن پر تباہ کُن عذاب آجاتا ہے، یا پھر نبی اور اس کے متبعین کے ہاتھوں ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دی جاتی ہے۔ یہی بات تاریخ سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ ہجرت جب واقع ہوئی تو کفارِ مکہ سمجھے کہ فیصلہ ان کے حق میں ہے۔ مگر آٹھ دس سال کے اندر ہی دنیا نے دیکھ لیا کہ نہ صرف مکّے سے بلکہ پوری سرزمین عرب ہی سے کفر و شرک کی جڑیں اکھاڑ پھینک دی گئیں۔ |
Surah 30 : Ayat 40
ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْۖ هَلْ مِن شُرَكَآئِكُم مَّن يَفْعَلُ مِن ذَٲلِكُم مِّن شَىْءٍۚ سُبْحَـٰنَهُۥ وَتَعَـٰلَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
اللہ ہی1 ہے جس نے تم کو پیدا کیا، پھر تمہیں رزق دیا2، پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے، پھر وہ تمہیں زندہ کرے گا کیا تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو ان میں سے کوئی کام بھی کرتا ہو؟3 پاک ہے وہ اور بہت بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں؟
3 | یعنی اگرتمہارے بنائےہوئےمعبودوں میں سےکوئی بھی نہ پیداکرنےوالاہے،نہ رزق دینے والا،نہ موت وزیست اس کےقبضہٴ قدرت میں ہے،اورنہ مرجانے کےبعد وہ کسی کوزندہ کردینے پرقادرہے،توآخریہ لوگ ہیں کس مرض کی دواکہ تم نےاِنہیں معبُود بنالیا؟ |
2 | یعنی زمین میں تمہارے رزق کےلیے جملہ وسائل فراہم کیےاورایساانتظام کردیا کہ رزق کی گردش سےہرایک کوکچھ نہ کچھ حصّہ پہنچ جائے۔ |
1 | یہاں سےپھرکفارومشرکین کوسمجھانےکےلیےسلسلہٴکلام توحیدوآخرت کےمضمون کی طرف پھرجاتاہے |
Surah 39 : Ayat 67
وَمَا قَدَرُواْ ٱللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِۦ وَٱلْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُۥ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ وَٱلسَّمَـٰوَٲتُ مَطْوِيَّـٰتُۢ بِيَمِينِهِۦۚ سُبْحَـٰنَهُۥ وَتَعَـٰلَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
اِن لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے1 (اس کی قدرت کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ) قیامت کے روز پوری زمین اُس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان اس کے دست راست میں لپٹے ہوئے ہوں گے2 پاک اور بالاتر ہے وہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں3
3 | یعنی کہاں اُس کی یہ شان عظمت و کبریائی اور کہاں اس کے ساتھ خدائی میں کسی کا شریک ہونا۔ |
2 | زمین اور آسمان پر اللہ تعالٰی کے کامل اقتدار تصرف کی تصویر کھینچنے کے لیے مٹھی میں ہونے اور ہاتھ پر لپٹے ہونے کا استعارہ استعمال فرمایا گیا ہے۔جس طرح ایک آدمی کسی چھوٹی سے گیند کو مٹھی میں دبا لیتا ہے اور اس کے لیے یہ ایک معمولی کام ہے، یا ایک شخص ایک رومال کو لپیٹ کر ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اس کے لیے یہ کوئی زحمت طلب کام نہیں ہوتا،اسی طرح قیامت کے روز تمام انسان (جو آج اللہ کی عظمت و کبریائی کا اندازہ کرنے سے قاصر ہیں) اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ زمین اور آسمان اللہ کے دست قدرت میں ایک حقیر گیند اور ایک ذرا سے رُومال کی طرح ہیں۔ مسند احمد، بخاری، مسلم، نسائی، ابن ماجہ، ابن جریر وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوہریرہؓ کی روایات منقول ہوئی ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ دَوران خطبہ میں یہ آیت آپؐ نے تلاوت فرمائی اور فرمایا ’’اللہ تعالٰی آسمانوں اور زمینوں (یعنی سیّاروں) کو اپنی مٹھی میں لے کر اس طرح پھرائے گا جیسے ایک بچہ گیند پھراتا ہے،اور فرمائے گا میں ہوں خدائے واحد، میں ہوں بادشاہ، میں ہوں جبّار، میں ہوں کبریائی کا مالک، کہاں ہیں زمین کے بادشاہ؟ کہاں ہیں جبّار؟ کہاں ہیں متکبّر،؟ یہ کہتے کہتے حضورؐ پر ایسا لرزہ طاری ہوا کہ ہمیں خطرہ ہونے لگا کہ کہیں آپ منبر سمیت کر نہ پڑیں۔ |
1 | یعنی ان کو اللہ کی عظمت و کبریائی کا کچھ اندازہ ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کبھی یہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ خداوند عالم کا مقام کتنا بلند ہے اور وہ حقیر ہستیاں کیا شے ہیں جن کو یہ نادان لوگ خدائی میں شریک اور معبودیت کا حق دار بنائے بیٹھے ہیں |
Surah 16 : Ayat 3
خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ بِٱلْحَقِّۚ تَعَـٰلَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
اُس نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے، وہ بہت بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں1
1 | دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ شرک کی نفی اور توحید کا اثبات جس کی دعوت خدا کے پیغمبر دیتے ہیں، اسی کی شہادت زمین وآسمان کا پورا کارخانۂ تخلیق دے رہا ہے۔ یہ کارخانۂ کوئی خیالی گورکھ دھندا نہیں ہے، بلکہ ایک سراسر مبنی برحقیقت نظام ہے۔ اس میں تم جس طرف چاہو نگاہ اُٹھا کر دیکھ لو، شرک کی گواہی کہیں سے نہ ملے گی، اللہ کے سوا دوسرے کی خدائی کہیں چلتی نظر نہیں آئے گی، کسی چیز کی ساخت یہ شہادت نہ دے گی کہ اس کا وجود کسی اور کا بھی رہینِ منت ہے۔ پھرجب یہ ٹھوس حقیقت پربنا ہوا نظام خالص توحید پر چل رہا ہے تو آخر تمہارے اِس شرک کا سکہ کس جگہ رواں ہو سکتا ہے جبکہ اس کی تہ میں وہم و گمان کے سوا واقعیت کا شائبہ تک نہیں ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد آثارِ کائنات سے اور خود انسان کے اپنے وجود سے وہ شہادتیں پیش کی جاتی ہیں جو ایک طرف توحید پر اور دوسری طرف رسالت پر دلالت کرتی ہیں۔ |
Surah 27 : Ayat 63
أَمَّن يَهْدِيكُمْ فِى ظُلُمَـٰتِ ٱلْبَرِّ وَٱلْبَحْرِ وَمَن يُرْسِلُ ٱلرِّيَـٰحَ بُشْرَۢا بَيْنَ يَدَىْ رَحْمَتِهِۦٓۗ أَءِلَـٰهٌ مَّعَ ٱللَّهِۚ تَعَـٰلَى ٱللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ
اور وہ کون ہے جو خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں تم کو راستہ دکھاتا ہے1 اور کون اپنی رحمت کے آگے ہواؤں کو خوشخبری لے کر بھیجتا ہے؟2 کیا اللہ کے ساتھ کوئی دُوسرا خدا بھی (یہ کام کرتا) ہے؟ بہت بالا و برتر ہے اللہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں
2 | رحمت سے مراد ہے بارش جس کے آنے سے پہلے ہوائیں اس کی آمد آمد کی خبر دیتی ہیں۔ |
1 | یعنی جس نےستاروں کے زریعہ سے انتظام کردیا ہے کہ تم رات کےاندھیرے میں بھی اپنا راستہ تلاش کرسکتے ہو۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکیمانہ تدبیروں میںسے ایک ہے کہ اس نے بحری اوربرّی سفروں میں انسان کی رہنمائی کےلیے وہ زرائع پیدا کردیے ہیں جن سے وہ اپنی سمت سفر، اور منزل مقصود کی طرف اپنی متعین کرتا ہے دن کے وقت زمین کی مختلف علامتیں اورآفتاب کے طلوع وغروب کی سمتیں اس کی مدد کرتی ہیں اورتاریک راتوں میں تارے اس کی رہنمائی کرتے ہیں۔ سورہ نحل میں ان سب کو اللہ تعالیٰ کے احسانات میں شمار کیاگیاہے:ووعلامات وبالنجم ھم یھتدون،(آیت۱۶)۔ |
Surah 28 : Ayat 68
وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ وَيَخْتَارُۗ مَا كَانَ لَهُمُ ٱلْخِيَرَةُۚ سُبْحَـٰنَ ٱللَّهِ وَتَعَـٰلَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
تیرا رب پیدا کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے اور (وہ خود ہی اپنے کام کے لیے جسے چاہتا ہے) منتخب کر لیتا ہے، یہ انتخاب اِن لوگوں کے کرنے کا کام نہیں ہے1، اللہ پاک ہے اور بہت بالاتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں
1 | یہ ارشاد دراصل شرک کی تردید میں ہے۔ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میںسے جوبےشمار معبود اپنے لیےبنالیےہیں، اوران کو اپنی اوصاف، مراتب اورمناصب سونپ رکھے ہیں، اس پراعتراض کرتےہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ اپنے پیدا کیے ہوئے انسانوں،فرشتوں، جنوں اوردوسرے بندوں میں سے ہم خود جس کوجیسے چاہتے ہیں اوصاف، صلاحیتیں اورطاقتیں بخشے ہیں اورجوکام جس سے لینا چاہتے ہیں، لیتے ہیں۔یہ اختیارات آخر ان مشرکین کوکیسے اورکہاں سے مل گئے کہ میرے بندوں میںسے جس کوچاہیں مشکل کشاجسے چاہیں گنج بخش اورجسے چاہیں فریادرس قراردےلیں؟ جسے چاہیں بارش برسابے کامختار، جسے چاہیں روزگار یااولاد بخشنے والا،جسے چاہیں بیماری وصحت کامالک بنادیں؟ جسے چاہیں میری خدائی کے کسی حصے کافرماں رواٹھیرالیں؟ اورمیرے اختیارات میںسے جوکچھ جس کوچاہیں سونپ دیں؟ کوئی فرشتہ ہویاجن یانبی یاولی، بہرحال جوبھی ہے ہماراپیدا کیاہوا ہے۔ جوکمالات بھی کسی کوملے ہیں ہماری عطا وبخش سےملے ہیں۔ اورجوخدمات بھی ہم نے جس سے لینی چاہی ہے لی ہے۔اس برگزیدگی کے یہ معنی کیسے ہوگئے کہ یہ بندے بندگی کے مقامات سے اٹھا کرخدائی کےمرتبے پرپہنچادیے جائیں اورخدا کوچھوڑ کران کے آگے سرنیازجھکادیاجائے، ان کومدد کےلیے پکارا جانے لگے، ان سے حاجتیں طلب کی جانے لگیں، انہیں قسمتوں کابنانے اوربگاڑنے والا سمجھ لیاجائے، اورانہیں خدائی صفات واختیارات کاحامل قراردے دیاجائے؟ |
Surah 52 : Ayat 43
أَمْ لَهُمْ إِلَـٰهٌ غَيْرُ ٱللَّهِۚ سُبْحَـٰنَ ٱللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ
کیا اللہ کے سوا یہ کوئی اور معبود رکھتے ہیں؟ اللہ پاک ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں1
1 | یعنی امر واقعہ یہ ہے کہ کن کو انہوں نے اِلٰہ بنا رکھا ہے وہ حقیقت میں اِلٰہ نہیں ہیں اور شرک سراسر ایک بے اصل چیز ہے ۔ اس لیے جو شخص توحید کی دعوت لے کر اٹھا ہے اس کے ساتھ سچائی کی طاقت ہے اور جو لوگ شرک کی حمایت کر رہے ہیں وہ ایک بے حقیقت چیز کے لیے لڑ رہے ہیں ۔ اس لڑائی میں شرک آخر کیسے جیت جاۓ گا |
Surah 59 : Ayat 23
هُوَ ٱللَّهُ ٱلَّذِى لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلْمَلِكُ ٱلْقُدُّوسُ ٱلسَّلَـٰمُ ٱلْمُؤْمِنُ ٱلْمُهَيْمِنُ ٱلْعَزِيزُ ٱلْجَبَّارُ ٱلْمُتَكَبِّرُۚ سُبْحَـٰنَ ٱللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ
وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بادشاہ1 ہے نہایت مقدس2، سراسر سلامتی3، امن دینے والا4، نگہبان5، سب پر غالب6، اپنا حکم بزور نافذ کرنے والا7، اور بڑا ہی ہو کر8 رہنے والا پاک ہے اللہ اُس شرک سے جو لوگ کر رہے ہیں9
9 | یعنی اس کے اقتدار اور اختیارات اور صفات میں، یا اس کی ذات میں، جو لوگ بھی کسی مخلوق کو اس کا شریک قرار دے رہے ہیں۔ وہ در حقیقت ایک بہت بڑا جھوٹ بول رہے ہیں۔ اللہ تعالٰی اس سے پاک ہے کہ کسی معنی میں بھی کوئی اس کا شریک ہو |
8 | اصل میں لفظ الْمُتَکَبِّر استعمال ہوا ہے جس کے دو مفہوم ہیں۔ ایک وہ جو فی الحقیقت بڑا نہ ہو مگر خواہ مخواہ بڑا بنے۔ دوسرے وہ جو حقیقت میں بڑا ہو اور بڑا ہی ہو کر رہے۔ انسان ہو یا شیطان، یا کوئی اور مخلوق، چونکہ بڑائی فی الواقع اس کے لیے نہیں ہے، اس لیے اس کا اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور دوسروں پر اپنی بڑائی جتانا ایک جھوٹا ادعا اور بدترین عیب ہے۔ اس کے برعکس، اللہ تعالٰی حقیقت میں بڑا ہے اور بڑائی فی الواقع اسی کے لیے ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کے مقابلے میں حقیر و ذلیل ہے، اس لیے اس کا بڑا ہونا اور بڑا ہی ہو کر رہنا کوئی ادعا اور تصنع نہیں بلکہ ایک امر واقعی ہے، ایک بری صفت نہیں بلکہ ایک خوبی ہے جو اس کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتی |
7 | اصل میں لفظ الجبار استعمال ہوا ہے جس کا مادہ جبر ہے۔ کبر کے معنی ہیں کسی شے کو طاقت سے درست کرنا، کسی چیز کی بزور اصلاح کرنا۔ اگرچہ عربی زبان میں کبھی جبر محض اصلاح کے لیے بھی بولا جاتا ہے، اور کبھی صرف زبردستی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اس کا حقیق مفہوم اصلاح کے لیے طاقت کا استعمال ہے۔ پس اللہ تعالٰی کو جبار اس معنی میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنی کائنات کا نظم بزور درست رکھنے والا اور اپنے ارادے کو، جو سراسر حکمت پر مبنی ہوتا ہے، جبراً نافذ کرنے والا ہے۔ علاوہ بریں لفظ جبار میں عظمت کا مفہوم بھی شامل ہے۔ عربی زبان میں کھجور کے اس درخت کو جبار کہتے ہیں جو اتنا بلند و بالا ہو کہ اس کے پھل توڑنا کسی کے لیے آسان نہ ہو۔ اسی طرح کوئی کام جو بڑا عظیم الشان ہو عمل جبار کہلاتا ہے |
6 | اصل میں لفظ العزیز استعمال ہوا ہے جس سے مراد ہے ایسی زبر دست ہستی جس کے مقابلہ میں کوئی سر نہ اٹھا سکتا ہو، جس کے فیصلوں کی مزاحمت کر نا کسی کے بس میں نہ ہو، جس کے آگے سب بے بس اور بے زور ہوں |
5 | اصل میں لفظ اَلْمُھَیْمِنُ استعمال ہوا ہے جس کے تین معنی ہیں۔ ایک نگہبانی اور حفاظت کرنے والا۔ دوسرے، شاہد، جو دیکھ رہا ہو کہ کون کیا کرتا ہے۔ تیسرے، قائم بامور الخلق، یعنی جس نے لوگوں کی ضروریات اور حاجات پوری کرنے کا ذمہ اٹھا رکھا ہو۔ یہاں بھی چونکہ مطلقاً لفظ المہیمن استعمال کیا گیا ہے، اور اس فاعل کا کوئی مفعول بیان نہیں کیا گیا کہ وہ کس کا نگہبان و محافظ، کس کا شاہد، اور کس کی خبر گیری کی ذمہ داری اٹھانے والا ہے، اس لیے اس اطلاق سے خود بخود مفہوم نکلتا ہے کہ وہ تمام مخلوقات کی نگہبانی و حفاظت کر رہا ہے، سب کے اعمال کو دیکھ رہا ہے، اور کائنات کی ہر مخلوق کی خبر گیری، اور پرورش، اور ضروریات کی فراہمی کا اس نے ذمہ اٹھا رکھا ہے |
4 | اصل میں لفظ اَلْمُؤْ مِنُ استعمال ہوا ہے جس کا مادہ امن ہے۔ امن کے معنی ہیں خوف سے محفوظ ہونا۔ اور مؤْمِن وہ ہے جو دوسرے کو امن دے۔ اللہ تعالٰی کو اس معنی میں مؤمِن کہا گیا ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو امن دینے والا ہے۔ اس کی خلق اس خوف سے بالکل محفوظ ہے کہ وہ کبھی اس پر ظلم کرے گا، یا اس کا حق مارے گا، یا اس کا اجر ضائع کرے گا، یا اس کے ساتھ اپنے کیے ہوۓ وعدوں کی خلاف ورزی کرے گا۔ پھر چونکہ اس فاعل کا کوئی مفعول بیان نہیں کیا گیا ہے کہ وہ کس کو امن دینے والا ہے، بلکہ مطلقاً المؤمن کہا گیا ہے، اس لیے اس سے یہ مفہوم آپ سے آپ نکلتا ہے کہ اس کا امن ساری کائنات اور اس کی ہر چیز کے لیے ہے |
3 | اصل میں لفظ السلام استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں سلامتی۔ کسی کو سلیم، یا سام کہنے کے بجاۓ سلامتی کہنے سے خود بخود مبالغہ کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلاً کسی کو حسین کہنے کے بجاۓ حسن کہا جاۓ تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ سراپا حسن ہے۔ اللہ تعالٰی کو السلام کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ سراسر سلامتی ہے۔ اس کی ذات اس سے بالا تر ہے کہ کوئی آفت، یا کمزوری یا خامی اس کو لاحق ہو، یا کبھی اس کے کمال پر زوال آۓ |
2 | اصل میں لفظ قُدُّوس استعمال ہوا ہے جو مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس کا مادہ قدس ہے۔ قدس کے معنی ہیں تمام بُری صفات سے پاکیزہ اور منزہ ہونا۔ اور قُدُّوس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس سے بدر جہا بالا و بر تر ہے کہ اس کی ذات میں کوئی عیب، یا نقص،یا کوئی قبیح صفت پائی جاۓ۔ بلکہ وہ ایک پاکیزہ ترین ہستی ہے جس کے بارے میں کسی بُرائی کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ قدوسیت در حقیقت حاکمیت کے اولین لوازم میں سے ہے۔ انسان کی عقل اور فطرت یہ ماننے سے انکار کرتی ہے کہ حاکمیت کی حامل کوئی ایسی ہستی ہو جو شریر اور بد خلق اور بد بیت ہو۔ جس میں قبیح صفات پائی جاتی ہوں۔ جس کے اقتدار سے اس کے محکوموں کو بھلائی نصیب ہونے کے بجاۓ بُرائی کا خطرہ لاحق ہو۔ اسی بنا پر انسان جہاں بھی حاکمیت کو مرکوز قرار دیتا ہے وہاں قدوسیت نہیں بھی ہوتی تو اسے موجود فرض کر لیتا ہے، کیونکہ قدوسیت کے بغیر اقتدار مطلق ناقابل تصور ہے۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالٰی کے سوا در حقیقت کوئی مقتدرِ اعلٰی بھی قدوس نہیں ہے اور نہیں ہو سکتا۔ شخصی بادشاہی ہو یا جمہور کی حاکمیت، یا اشتراکی نظام کی فرمانروائی، یا انسانی حکومت کی کوئی دوسری صورت، بہر حال اس کے حق میں قدوسیت کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا |
1 | اصل میں لفظ اَلْمَلِکْ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اصل بادشاہ وہی ہے۔ نیز مطلقاً الملک کا لفظ استعمال کرنے سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ وہ کسی خاص علاقے یا مخصوص مملکت کا نہیں بلکہ سارے جہان کا بادشاہ ہے۔ پوری کائنات پر اس کی سلطانی و فرمانروائی محیط ہے۔ ہر چیز کو وہ مالک ہے۔ ہر شے اس کے تصرف اور اقتدار اور حکم کی تابع ہے۔ اور اس کی حاکمیت (Sovereignty) کو محدود کرنے والی کوئی شے نہیں ہے۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر اللہ تعالٰی کی بادشاہی کے ان سارے پہلوؤں کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے : وَلَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰ تِ وَ الْاَرْضِ کُلٌّ لَّہٗ تٰنِتُوْنَ (الروم: 26) زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہیں اس کے مملوک ہیں، سب اس کے تابع فرمان ہیں۔ یُدَ بِّرُالْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْض، (السجدہ 5)۔ آسمان سے زمین تک وہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے۔ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰ تِ وَالْاَرْضِ وَاِلَی اللہِ تُرْ جَعُ الْاُمُوْرُ۔ (الحدید: 5)۔ زمین اور آسمانوں کی بادشاہی اسی کی ہے اور اللہ ہی کی طرف سارے معاملات رجوع کیے جاتے ہیں۔ وَلَمْیَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ (الفرقان : 2) بادشاہی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ بِیَدِہٖ مَلَکُوْ تُ کُلِّ شَیْءٍ (یٰس : 83)۔ ہر چیز کی سلطانی و فرمانروائی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ۔ (البروج : 16)۔ جس چیز کا ارادہ کرے اسے کر گزرنے والا۔ لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُوَھُمْ یُسْئَلُوْنَ (الانبیاء : 23) جو کچھ وہ کرے اس پر وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے، اور سب جواب دہ ہیں۔ وَاللہُ یَحْکُمُ لَامُعَقِّبَ لِحُکْمِہٖ۔ (الرعد:41) اور اللہ فیصلہ کرتا ہے، کوئی اس کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے۔ وَھُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارَ عَلَیْہِ۔ (المؤمنون : 88)۔ اور وہ پناہ دیتا ہے اور کوئی اس کے مقابلے میں پناہ نہیں دے سکتا۔ قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَالْمُلْکَ تُؤْتِیالْمُلْکَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآءُ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ بِیَدِ کَ الْحَیْرُ اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَئ ءٍ قَدِیْرٌ (آل عمران : 26 )۔ کہو، خدایا، ملک کے ملک، تو جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے۔ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے۔ بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے یقیناً تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ ان توضیحات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالٰی کی بادشاہی حاکمت کے کسی محدود یا مجازی مفہوم میں نہیں بلکہ اس کے پورے مفہوم میں، اس کے مکمل تصور کے لحاظ سے حقیقی بادشاہی ہے۔ بلکہ در حقیقت حاکمیت جس چیز کا نام ہے وہ اگر کہیں پائی جاتی ہے تو صرف اللہ تعالٰی کی بادشاہی میں ہی پائی جاتی ہے۔ اس کے سوا اور جہاں بھی اس کے ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، خواہ وہ کسی بادشاہ یا ڈکٹیٹر کی ذات ہو، یا کوئی طبقہ یا گروہ یا خاندان ہو، یا کوئی قوم ہو، اسے فی الواقع کوئی حاکمیت حاصل ہے اس حکومت کو کہتے ہی نہیں ہیں جو کسی کا عطیہ ہو، جو کبھی ملتی ہو اور کبھی سلب ہو جاتی ہو، جسے کسی دوسری طاقت سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہو، جس کا قیام و بقاء عارضی دوقتی ہو، اور جس کے دائرہ اقتدار کو بہت سی دوسری متصادم قوتیں محدود کرتی ہوں۔ لیکن قرآن مجید صرف یہ کہنے پر اکتفا نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کائنات کا بادشاہ ہے، بلکہ بعد کے فقروں میں تصریح کرتا ہے کہ وہ ایسا بادشاہ ہے جو قدوس ہے، سلام ہے، مومن ہے، مہیمن ہے، عزیز ہے، جبار ہے، متکبر ہے، خالق ہے، باری ہے اور مصور ہے |