Ayats Found (14)
Surah 2 : Ayat 60
۞ وَإِذِ ٱسْتَسْقَىٰ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِۦ فَقُلْنَا ٱضْرِب بِّعَصَاكَ ٱلْحَجَرَۖ فَٱنفَجَرَتْ مِنْهُ ٱثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًاۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْۖ كُلُواْ وَٱشْرَبُواْ مِن رِّزْقِ ٱللَّهِ وَلَا تَعْثَوْاْ فِى ٱلْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
یاد کرو، جب موسیٰؑ نے اپنی قوم کے لیے پانی کی دعا کی تو ہم نے کہا کہ فلاں چٹان پر اپنا عصا مارو چنانچہ اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے1 اور ہر قبیلے نے جان لیا کہ کونسی جگہ اس کے پانی لینے کی ہے اُس وقت یہ ہدایت کر دی گئی تھی کہ اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ پیو، اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو
1 | وہ چٹان اب تک جزیرہ نمائے سینا میں موجود ہے۔ سیّاح اسے جا کر دیکھتے ہیں اور چشموں کے شگاف اس میں اب بھی پائے جاتے ہیں۔ ۱۲ چشموں میں یہ مصلحت تھی کہ بنی اسرائیل کے قبیلے بھی ۱۲ ہی تھے۔ خدا نے ہر ایک قبیلے کے لیے الگ چشمہ نکال دیا تاکہ ان کے درمیان پانی جھگڑا نہ ہو |
Surah 7 : Ayat 160
وَقَطَّعْنَـٰهُمُ ٱثْنَتَىْ عَشْرَةَ أَسْبَاطًا أُمَمًاۚ وَأَوْحَيْنَآ إِلَىٰ مُوسَىٰٓ إِذِ ٱسْتَسْقَـٰهُ قَوْمُهُۥٓ أَنِ ٱضْرِب بِّعَصَاكَ ٱلْحَجَرَۖ فَٱنۢبَجَسَتْ مِنْهُ ٱثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًاۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْۚ وَظَلَّلْنَا عَلَيْهِمُ ٱلْغَمَـٰمَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْهِمُ ٱلْمَنَّ وَٱلسَّلْوَىٰۖ كُلُواْ مِن طَيِّبَـٰتِ مَا رَزَقْنَـٰكُمْۚ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَـٰكِن كَانُوٓاْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
اور ہم نے اس قوم کو بارہ گھرانوں میں تقسیم کر کے انہیں مستقل گروہوں کی شکل دے دی تھی1 اور جب موسیٰؑ سے اس کی قوم نے پانی مانگا تو ہم نے اس کو اشارہ کیا کہ فلاں چٹان پر اپنی لاٹھی مارو چنانچہ اس چٹان سے یکایک بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر گروہ نے اپنے پانی لینے کی جگہ متعین کر لی ہم نے اُن پر بادل کا سایہ کیا اور اُن پر من و سلویٰ اتارا2 کھاؤ وہ پاک چیزیں جو ہم نے تم کو بخشی ہیں مگر اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کیا تو ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے3
3 | اب تاریخ بنی اسرائیل کے اُن واقعات کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مذکورہ بالا احسانات کو جواب یہ لوگ کیسی کیسی مجرمانہ بے باکیوں کے ساتھ دیتے رہے اور پھر کس طرح مسلسل تباہی کے گڑھے میں گرتے چلے گئے |
2 | اوپر جس تنظیم کا ذکر کیا گیا ہے وہ منجملہ اُن احسانات کے تھی جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر کیے۔ اس کے بعد اب مزید تین احسانات کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ایک یہ کہ جزیرہ نمائے سینا کے بیابانی علاقہ میں ان کے لیے پانی کی بہم رسانی کا غیر معمولی انتظام کیا گیا۔ دوسرے یہ کہ ان کو دھوپ کی تپش سے بچانے کے لیے آسمان پر بادل چھا دیا گیا۔ تیسرے یہ کہ ان کے لیے خوراک کی بہم رسانی کا غیر معمولی انتظام من و سلویٰ کے نزول کی شکل میں کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ اگر ان تین اہم ترین ضروریاتِ زندگی کا بندوبست نہ کیا جاتا تو یہ قوم جس کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچی ہوئی تھی، اس علاقہ میں بھوک پیاس سے بالکل ختم ہو جائی ۔ آج بھی کوئی شخص وہاں جائے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جائے گا کہ اگر یہاں پندرہ بیس لاکھ آدمیوں کا ایک عظیم الشان قافلہ یکایک آ ٹھہرے تو اس کے لیے پانی، خوراک اور سائے کا آخر کیا انتظام ہو سکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں پورے جزیرہ نما کی آبادی ۵۵ ہزار سے زیادہ نہیں ہے اور آج اس بیسویں صدی میں بھی اگر کوئی سلطنت وہاں پانچ چھ لاکھ فوج لے جانا چاہے تو اس کے مُدَبِّروں کو رسد کے انتظام کی فکر میں دردِ سر لاحق ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے بہت سے محققین نے ، جو نہ کتاب کو مانتے ہیں اور نہ معجزات کو تسلیم کرتے ہیں ، یہ ماننے سے انکار کر دیا ہے کہ بنی اسرائیل جزیرہ نمائے سینا کےاُس حصہ سے گزرے ہونگے جس کا ذکر بائیبل اور قرآن میں ہوا ہے۔ ان کا گمان ہے کہ شاید یہ واقعات فلسطین کے جنوبی اور عرب کے شمالی حصہ میں پیش آئے ہوں گے۔ جزیرہ نمائے سینا کے طبعی اور معاشی جغرافیہ کو دیکھتے ہوئے وہ اس بات کو بالکل نا قابلِ تصور سمجھتے ہیں کہ اتنی بڑی قوم یہاں برسوں ایک ایک جگہ پڑاؤ کرتی ہوئی گزر سکی تھی، خصوصاً جب کہ مصر کی طرف سے اس کی رسد کا راستہ بھی منقطع تھا اور دوسری طرف خود اس جزیرہ نما کے مشرق اور شمال میں عَمالِقَہ کے قبیلے اس کی مزاحمت پر آمادہ تھے۔ ان امور کو پیش نظر رکھنے سے صحیح طور پر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان چند مختصر آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے جِن احسانات کاذکر فرمایا ہے وہ درحقیقت کتنے بڑے احسانات تھے اور اس کے بعد یہ کتنی بڑی احسان فراموشی تھی کہ اللہ کے فضل و کرم کی ایسی صریح نشانیاں دیکھ لینے پر بھی یہ قوم مسلسل اُن نا فرمانیوں اور عذاریوں کی مر تکب ہوتی رہی جن سے اس کی تاریخ بھری پڑی ہے۔(تقابل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ۷ حواشی نمبر ۷۲، ۷۳، ۷٦) |
1 | اشارہ ہے بنی اسرائیل کی اُس تنظیم کی طرف جو سورہ مائدہ آیت ١۲ میں بیان ہوئی ہے اور جس کی پوری تفصیل بائیبل کی کتاب گنتی میں ملتی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کوہِ سینا کے بیابان میں بنی اسرائیل کی مردم شماری کرائی، پھر ان کے ١۲ گھرانوں کو جو حضرت یعقوب کے دس بیٹوں اور حضرت یوسف کے دو بیٹوں کی نسل سے تھے الگ الگ گروہوں کی شکل میں منظم کیا، اور ہر گروہ پر ایک ایک سردار مقرر کیا تاکہ وہ ان کےاندر اخلاقی، مذہبی، تمدنی و معاشرتی اور فوجی حیثیت سے نظم قائم رکھے اور احکامِ شریعت کا اجراء کرتا رہے۔ نیز حضرت یعقوب کے بارھویں بیٹے لاوِی کی اورلاد کو جس کی نسل سے حضرت موسیٰ اور ہارون تھے، ایک الگ جماعت کی شکل میں منظم کیا تاکہ وہ ان سب قبیلوں کےدرمیان شمعِ حق روشن رکھنے کی خدمت انجام دیتی رہے |
Surah 36 : Ayat 34
وَجَعَلْنَا فِيهَا جَنَّـٰتٍ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَـٰبٍ وَفَجَّرْنَا فِيهَا مِنَ ٱلْعُيُونِ
ہم نے اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کیے اور اس کے اندر چشمے پھوڑ نکالے
Surah 36 : Ayat 35
لِيَأْكُلُواْ مِن ثَمَرِهِۦ وَمَا عَمِلَتْهُ أَيْدِيهِمْۖ أَفَلَا يَشْكُرُونَ
تاکہ یہ اس کے پھل کھائیں یہ سب کچھ ان کے اپنے ہاتھوں کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے1 پھر کیا یہ شکر ادا نہیں کرتے2؟
2 | ان مختصر فقروں میں زمین کی روئیدگی کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ آدمی شب و روز اس زمین کی پیداوار کھا رہا ہے اور اپنے نزدیک اِسے ایک معمولی بات سمجھتا ہے۔ لیکن اگر وہ غفلت کا پردہ چاک کر کے نگاہ غور سے دیکھے تو اسے معلوم ہو کہ اس فرشِ خاک سے لہلہاتی کھیتیوں اس سرسبز باغوں کا اگنا اور اس کے اندر چشموں اور نہروں کا رواں ہونا کوئی کھیل نہیں ہے جو آپ سے آپ ہوئے جا رہا ہو بلکہ اس کے پیچھے ایک عظیم حکمت و قدرت اور ربوبیت کار فرما ہے۔ زمین کی حقیقت پر غور کیجیے،جب مادّوں سے یہ مرکب ہے ان کے اندر بجائے خود کسی نشوونما کی طاقت نہیں ہے۔ یہ سب مادّے فرداً فرداً بھی اور ہر ترکیب و آمیزش کے بعد بھی بالکل غیر نامی ہیں اور اس بنا پر ان کے اندر زندگی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس بے جان زمین کے اندر سے نباتی زندگی کا ظہور آخر کیسے ممکن ہوا؟ اس کی تحقیق آپ کریں گے تو معلوم ہو گا کہ چند بڑے بڑے اسباب ہیں جو اگر پہلے فراہم نہ کر دیے گئے ہوتے تو یہ زندگی سرے سے وجود میں نہ آ سکتی تھی: اولاً، زمین کے مخصوص خطّوں میں اس کی اوپری سطح پر بہت سے ایسے مادوں کی تہ چڑھائی گئی جو نباتات کی غذا بننے کے لیے موزوں ہو سکتے تھے اور اس تہ کو نرم رکھا گیا تاکہ نباتات کی جڑیں اس میں پھیل کر اپنی غذا چوس سکیں۔ ثانیاً، زمین اوپر کی فضا میں ہوا پیدا کی گئی جو آفاتِ سماوی سے زمین کی حفاظت کرتی ہے، جو بارش لانے کا ذریعہ بنتی ہے، اور اپنے اندر وہ گیسس بھی رکھتی ہے جو نباتات کی زندگی اور ان کے نشوونما کے لیے درکار ہیں۔ رابعاً، سورج اور زمین کا تعلق اس طرح قائم کیا گیا کہ نباتات کو مناسب درجۂ حرارت اور موزوں موسم مل سکیں۔ یہ چار بڑے بڑے اسباب (جو بجائے خود بے شمار ضمنی اسباب کا مجموعہ ہیں)جب پیدا کر دیے گئے تب نباتات کا وجود آنا ممکن ہوا۔ پھر یہ ساز گار حالات فراہم کرنے کے بعد نباتات پیدا کیے گئے اور ان میں سے ہر ایک کا تخم ایسا بنایا گیا کہ جب اسے مناسب زمین، پانی، ہوا اور موسم میسّر آئے تو اس کے اندر نباتی زندگی کی حرکت شروع ہو جائے۔مزید برآں اسی تخم میں یہ انتظام بھی کر دیا گیا کہ ہر نوع کے تخم سے لازماً اسی نوع کا بوٹا اپنی تمام نوعی اور موروثی خصوصیات کے ساتھ پیدا ہو۔ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر کاریگری یہ کی گئی کہ نباتات کی دس بیس یا سو پچاس نہیں بلکہ بے حد و حساب قسمیں پیدا کی گئیں اور ان کو اس طرح بنایا گیا کہ وہ ان بے شمار اقسام کے حیوانات اور بنی آدم کی غذا، دوا، لباس اور ان گنت دوسری ضرورتوں کو پورا کر سکیں جنہیں نباتات کے بعد زمین پر وجود میں لایا جا نے والا تھا۔ اس حیرت انگیز انتظام پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ اگر ہٹ دھرمی اور تعصب میں مبتلا نہیں ہے تو اس کا دل گواہی دے گا کہ سب کچھ آپ سے آپ نہیں ہو سکتا۔ اس میں صریح طور پر ایک حکیمانہ منصوبہ کام کر رہا ہے جس کے تحت زمین، پانی، ہوا اور موسم کی مناسبتیں نباتات کے ساتھ، اور نباتات کی مناسبتیں حیوانات اور انسانوں کی حاجات کے ساتھ انتہائی نزاکتوں اور باریکیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے قائم کی گئی ہیں۔ کوئی ہوشمند انسان یہ تصّور نہیں کر سکتا کہ ایسی ہمہ گیر مناسبتیں محض اتفاقی حادثہ کے طور پر قائم ہو سکتی ہیں۔ پھر یہی انتظام اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ یہ بہت سے خداؤں کا کارنامہ نہیں ہو سکتا یہ تو ایک ہی ایسے خدا کا انتظام ہے اور ہو سکتا ہے جو زمین، ہوا، پانی، سورج، نباتات، حیوانات اور نوعِ انسانی، اب کا خالق و رب ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے خدا الگ الگ ہوتے تو آخر کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایک ایسا جامع، ہمہ گیر اور گہری حکیمانہ مناسبتیں رکھنے والا منصوبہ بن جاتا اور لاکھوں کروڑوں برس تک اتنی باقاعدگی کے ساتھ چلتا رہتا۔ توحید کے حق میں یہ استدلال پیش کرنے کے بعد اللہ تعالٰی فرماتا ہے اَفَلَا یَشْکُرَوْنَ؟ یعنی کی یہ لوگ ایسے احسان فراموش اور نمک حرام ہیں کہ جس خدا نے یہ سب کچھ سروسامان ان کی زندگی کے لیے فراہم کیا ہے،اس کے شکر گزار نہیں ہوتے اور اس کی نعمتیں کھا کھا کر دوسروں کے شکریے ادا کرتے ہیں؟ اس کے آگے نہیں جھکتے اور ان جھوٹے معبودوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں جنہوں نے ایک تنکا بھی ان کے لیے پیدا نہیں کیا ہے۔ |
1 | اس فقرے کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے :’’تاکہ یہ کھائیں اس کے پھل اور وہ چیزیں جو ان کے اپنے ہاتھ بناتے ہیں۔‘‘ یعنی مصنوعی غذائیں جو قدرتی پیداوار سے یہ لوگ خود تیار کرتے ہیں، مثلاً روٹی، سالن، مُربّے،اچار،چٹنیاں اور بے شمار دوسری چیزیں۔ |
Surah 39 : Ayat 21
أَلَمْ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَسَلَكَهُۥ يَنَـٰبِيعَ فِى ٱلْأَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِۦ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا أَلْوَٲنُهُۥ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَٮٰهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُۥ حُطَـٰمًاۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَذِكْرَىٰ لِأُوْلِى ٱلْأَلْبَـٰبِ
کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کو سوتوں اور چشموں اور دریاؤں1 کی شکل میں زمین کے اندر جاری کیا، پھر اس پانی کے ذریعہ سے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی قسمیں مختلف ہیں، پھر وہ کھیتیاں پک کر سوکھ جاتی ہیں، پھر تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد پڑ گئیں، پھر آخرکار اللہ اُن کو بھس بنا دیتا ہے در حقیقت اِس میں ایک سبق ہے عقل رکھنے والوں کے لیے2
2 | یعنی اس سے ایک صاحب عقل آدمی یہ سبق لیتا ہے کہ یہ دنیا کی زندگی اور اس کی زینتیں سب عارضی ہیں۔ ہر بہار انجام خزاں ہے۔ ہر شباب کا انجام ضعیفی اور موت ہے۔ ہر عروج آ خر کار زوال دیکھنے والا ہے۔ لہٰذا یہ دنیا وہ چیز نہیں ہے جس کے حُسن پر فریفتہ ہو کر آدمی خدا اور آخرت کو بھول جائے اور یہاں کی چند روزہ بہار کے مزے لوٹنے کی خاطر وہ حرکتیں کریں جو اس کی عاقبت برباد کر دیں۔ پھر ایک صاحب عقل آدمی ان مناظر سے یہ سبق بھی لیتا ہے کہ اس دنیا کی بہار اور خزاں اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے پروان چڑھاتا ہے اور جسے چاہتا ہے خستہ و خراب کر دیتا ہے۔ نہ کسی کے بس میں یہ ہے کہ اللہ جسے پروان چڑھا رہا ہو اس کو پھلنے پھولنے سے روک دے۔ اور نہ کوئی یہ طاقت رکھتا ہے کہ جسے اللہ غارت کرنا چاہے اسے وہ خاک میں ملنے سے بچا لے۔ |
1 | اصل میں لفظ ینا بیع استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق ان تینوں چیزوں پر ہوتا ہے۔ |
Surah 54 : Ayat 12
وَفَجَّرْنَا ٱلْأَرْضَ عُيُونًا فَٱلْتَقَى ٱلْمَآءُ عَلَىٰٓ أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ
اور یہ سارا پانی اُس کام کو پورا کرنے لیے مل گیا جو مقدر ہو چکا تھا
Surah 2 : Ayat 74
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّنۢ بَعْدِ ذَٲلِكَ فَهِىَ كَٱلْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةًۚ وَإِنَّ مِنَ ٱلْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ ٱلْأَنْهَـٰرُۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ ٱلْمَآءُۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ ٱللَّهِۗ وَمَا ٱللَّهُ بِغَـٰفِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
مگر ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی آخر کار تمہارے دل سخت ہوگئے، پتھروں کی طرف سخت، بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے، کیونکہ پتھروں میں سے تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے اور کوئی خدا کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے اللہ تمہارے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے
Surah 6 : Ayat 6
أَلَمْ يَرَوْاْ كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ مَّكَّنَّـٰهُمْ فِى ٱلْأَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّن لَّكُمْ وَأَرْسَلْنَا ٱلسَّمَآءَ عَلَيْهِم مِّدْرَارًا وَجَعَلْنَا ٱلْأَنْهَـٰرَ تَجْرِى مِن تَحْتِهِمْ فَأَهْلَكْنَـٰهُم بِذُنُوبِهِمْ وَأَنشَأْنَا مِنۢ بَعْدِهِمْ قَرْنًا ءَاخَرِينَ
کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کا اپنے اپنے زمانہ میں دور دورہ رہا ہے؟ اُن کو ہم نے زمین میں وہ اقتدار بخشا تھا جو تمہیں نہیں بخشا ہے، ان پر ہم نے آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اور ان کے نیچے نہریں بہا دیں، (مگر جب انہوں نے کفران نعمت کیا تو) آخر کار ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں تباہ کر دیا اور ان کی جگہ دوسرے دور کی قوموں کو اٹھایا
Surah 13 : Ayat 3
وَهُوَ ٱلَّذِى مَدَّ ٱلْأَرْضَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَٲسِىَ وَأَنْهَـٰرًاۖ وَمِن كُلِّ ٱلثَّمَرَٲتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ ٱثْنَيْنِۖ يُغْشِى ٱلَّيْلَ ٱلنَّهَارَۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
اور وہی ہے جس نے یہ زمین پھیلا رکھی ہے، اس میں پہاڑوں کے کھو نٹے گاڑ رکھے ہیں اور دریا بہا دیے ہیں اُسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں، اور وہی دن پر رات طاری کرتا ہے1 ان ساری چیزوں میں بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں
1 | اَجرامِ فلکی کے بعد عالمِ ارضی کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور یہاں بھی خدا کی قدرت اور حکمت کے نشانات سے اُنہی دونوں حقیقتوں (توحید اور آخرت) پر استشہاد کیا گیا ہے جن پر پچھلی آیات میں عالمِ سماوی کے آثار سے استشہاد کیا گیا تھا۔ ان دلائل کا خلاصہ یہ ہے: (۱) اجرامِ فلکی کے ساتھ زمین کا تعلق ، زمین کے ساتھ سورج اور چاند کا تعلق ، زمین کی بے شمار مخلوقات کی ضرورتوں سے پہاڑوں اور دریاؤں کا تعلق، یہ ساری چیزیں اس بات پر کھلی شہادت دیتی ہیں کہ ان کو نہ تو الگ الگ خداؤں نے بنایا ہے اور نہ مختلف با اختیار خدا ان کا انتظام کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ان سب چیزوں میں باہم اتنی مناسبتیں اور ہم آہنگیاں اور موافقتیں نہ پیدا ہو سکتی تھیں اور نہ مسلسل قائم رہ سکتی تھیں ۔ الگ الگ خداؤں کے لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ مل کر پوری کائنات کے لیے تخلیق و تدبیر کا ایسا منصوبہ بنا لیتے جس کی ہر چیز زمین سے لے کر آسمانوں تک ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کھاتی چلی جائے اور کبھی ان کی مصلحتوں کے درمیان تصادم واقع نہ ہونے پائے۔ (۲) زمین کے اِس عظیم الشان کُرے کا فضائے بسیط میں معلق ہونا ، اس کی سطح پر اتنے بڑے بڑے پہاڑوں کا اُبھر آنا، اس کے سینے پر ایسے ایسے زبر دست دریاؤں کا جاری ہونا، اِس کی گود میں طرح طرح کے بے حد و حساب درختوں کا پھلنا ، اور پیہم انتہائی باقاعدگی کے ساتھ رات اور دن کے حیرت انگیز آثار کا طاری ہونا، یہ سب چیزیں اُ س خدا کی قدرت پر گواہ ہیں جس نے انہیں پیدا کیا ہے ۔ ایسے قادرِ مطلق کے یہ گمان کرنا کہ وہ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ زندگی عطا نہیں کر سکتا، عقل ودانش کی نہیں، حماقت و بلادت کی دلیل ہے۔ (۳) زمین کی ساخت میں، اُس پر پہاڑوں کی پیدائش میں ، پہاڑوں سے دریاؤں کی روانی کا انتظام کرنے میں ، پھلوں کی ہر قسم دو دوطرح کے پھل پیدا کرنے میں، اور رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات باقاعدگی کے ساتھ لانے میں جو بے شمار حکمتیں اور مصلحتیں پائی جاتی ہیں وہ پکا ر پکار کر شہادت دےرہی ہیں کہ جس خدانے تخلیق کا یہ نقشہ بنایا ہے وہ کمال درجے کا حکیم ہے۔ یہ ساری چیزیں خبر دیتی ہیں کہ یہ نہ تو کسی بے ارادہ طاقت کی کار فرمائی ہے اور نہ کسی کھلنڈرے کا کھلونا ۔ ان میں سے ہر ہر چیز کے اندر ایک حکیم کی حکمت اور انتہائی بالغ حکمت کا م کرتی نظر آتی ہے ۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد صرف ایک نادان ہی ہو سکتا ہے جو یہ گمان کرے کہ زمین پر انسان کو پیدا کرکے اور اُسے ایسی ہنگامہ آرائیوں کے مواقع دے کر وہ اس کو یونہی خاک میں گم کر دے گا |
Surah 14 : Ayat 32
ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ وَأَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَخْرَجَ بِهِۦ مِنَ ٱلثَّمَرَٲتِ رِزْقًا لَّكُمْۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ ٱلْفُلْكَ لِتَجْرِىَ فِى ٱلْبَحْرِ بِأَمْرِهِۦۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ ٱلْأَنْهَـٰرَ
اللہ وہی تو ہے1 جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعہ سے تمہاری رزق رسانی کے لیے طرح طرح کے پھل پیدا کیے جس نے کشتی کو تمہارے لیے مسخر کیا کہ سمندر میں اُس کے حکم سے چلے اور دریاؤں کو تمہارے لیے مسخر کیا2
1 | یعنی وہ اللہ جس کی نعمت کا کفران کیا جا رہا ہے، جس کی بندگی و اطاعت سے منہ موڑا جارہا ہے، جس کے ساتھ زبردستی کے شریک ٹھہرائے جا رہے ہیں ، وہ وہی تو ہے جس کے یہ اور یہ احسانات ہیں |