Ayats Found (3)
Surah 2 : Ayat 2
ذَٲلِكَ ٱلْكِتَـٰبُ لَا رَيْبَۛ فِيهِۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ
یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں1 ہدایت ہے اُن پرہیز گار لوگوں کے لیے2
2 | یعنی یہ کتاب ہے تو سراسر ہدایت و رہنمائی ، مگر اس سے فائدہ اُٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی میں چندصفات پائی جاتی ہوں۔ ان میں سے اوّلین صِفت یہ ہے کہ آدمی ” پرہیزگار“ ہو۔ بَھلائی اور بُرائی میں تمیز کرتا ہو۔ بُرائی سے بچناچاہتا ہو۔ بَھلائی کا طالب ہو اور اس پر عمل کرنے کا خواہش مند ہو۔ رہے وہ لوگ، جو دُنیا میں جانوروں کی طرح جیتے ہوں جنہیں کبھی یہ فکر لاحق نہ ہوتی ہو کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ صحیح بھی ہے یا نہیں ، بس جدھر دنیا چل رہی ہو، یا جدھر خواہشِ نفس دھکیل دے ، یا جدھر قدم اُٹھ جائیں ، اسی طرف چل پڑتے ہوں، تو ایسے لوگوں کے لیے قرآن میں کوئی رہنمائِ نہیں ہے |
1 | اس کا ایک سیدھا سادھا مطلب تو یہ ہے کہ ”بیشک یہ اللہ کی کتاب ہے۔“ مگر ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ایسی کتاب ہے جس میں شک کی کوئی بات نہیں ہے۔ دُنیا میں جتنی کتابیں اُمورِ مابعد الطبیعت اور حقائق ِ ماوراء ادراک سے بحث کرتی ہیں وہ سب قیاس و گمان پر مبنی ہیں، اس لیے خود ان کے مصنّف بھی اپنے بیانات کے بارے میں شک سےپاک نہیں ہو سکتے خواہ وہ کتنے ہی یقین کا اظہار کریں۔ لیکن یہ ایسی کتاب ہے جو سراسر علمِ حقیقت پر مبنی ہے ، اس کا مصنف وہ ہے جو تمام حقیقتوں کا علم رکھتا ہے، اس لیے فی الواقع اس میں شک کے لیے کوئی جگہ نہیں ، یہ دُوسری بات ہے کہ انسان اپنی نادانی کی بنا پر اس کے بیانات میں شک کریں |
Surah 10 : Ayat 37
وَمَا كَانَ هَـٰذَا ٱلْقُرْءَانُ أَن يُفْتَرَىٰ مِن دُونِ ٱللَّهِ وَلَـٰكِن تَصْدِيقَ ٱلَّذِى بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ ٱلْكِتَـٰبِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ
اور یہ قرآن وہ چیز نہیں ہے جو اللہ کی وحی و تعلیم کے بغیر تصنیف کر لیا جائے بلکہ یہ تو جو کچھ پہلے آ چکا تھا اس کی تصدیق اور الکتاب کی تفصیل ہے1 اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فرمانروائے کائنات کی طرف سے ہے
1 | ’’جو کچھ پہلے آچکا تھا اس کی تصدیق ہے“، یعنی ابتدا سے جو اصولی تعلیمات انبیاء علیہم السلام کی معرفت انسان کو بھیجی جاتی رہی ہیں یہ قرآن اُن سے ہٹ کر کوئی نئی چیز نہیں پیش کر رہا ہے بلکہ انہی کی تصدیق و توثیق کررہا ہے۔ اگر یہ کسی نئے مذہب کے بانی کی ذہنی اُپج کا نتیجہ ہوتا تو اس میں ضرور یہ کوشش پائی جاتی کہ پرانی صداقتوں کے ساتھ کچھ اپنا نرالا رنگ بھی ملا کر اپنی شان امتیاز نمایاں کی جائے۔ ”الکتاب کی تفصیل ہے“، یعنی اُن اصولی تعلیمات کو جو تمام کتب آسمانی کا لُبِّ لُباب (الکتاب) ہیں، اس میں پھیلا کر دلائل و شواہد کے ساتھ، تلقین و تفہیم کے ساتھ، تشریح و توضیح کے ساتھ، اور عملی حالات پر انطباق کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ |
Surah 32 : Ayat 2
تَنزِيلُ ٱلْكِتَـٰبِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ
اِس کتاب کی تنزیل بلا شبہ رب العالمین کی طرف سے ہے1
1 | قرآن مجید کی متعدّد سُورتیں اس طرح کے کسی نہ کسی تعارفی فقرہ سے شروع ہوتی ہیں جس سے مقصود آغاز کلام ہی میں یہ بتانا ہوتا ہے کہ یہ کلام کہاں سے آرہا ہے۔ یہ بظاہر اُسی طرز کا ایک تمہیدی فقرہ ہے جیسے ریڈیو پراعلا ن کرنے والا پروگرام کےآغاز میں کہتا ہے کہ ہم فلاں اسٹیشن سے بول رہے ہیں۔ لیکن ریڈیو کے اس معمولی سےاعلان کے برعکس قرآن مجید کی کسی سورت کا آغاز جب اس غیر معمولی اعلان سے ہوتا ہے کہ یہ پیغام فرمانروائے کائنات کی طرف سے آرہا ہے تو یہ محض مصدرکلام کا بیان ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ اس میں ایک بہت بڑا دعوٰی، ایک عظیم چیلنج اور ایک سخت اِنذار بھی شامل ہوتا ہے۔ اس لئے کہ وہ چھوٹتے ہی اِتنی بڑی خبر دیتا ہے کہ یہ ا نسانی کلام نہیں ہے، خداوندِ عالم کا کلام ہے۔ یہ اعلان فوراً ہی یہ بھاری سوال آدمی کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے کہ اس دعوے کو تسلیم کروں یا نہ کروں۔ تسلیم کرتا ہو ں تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے آگے سرِ اطاعت جھکا دینا ہو گا، پھر میرے لیے اس کے مقابلہ میں کوئی آزادی باقی نہیں رہ سکتی۔ تسلیم نہیں کرتا تو لا محالہ یہ خطرۂ عظیم مول لیتا ہوں کہ اگر واقعی یہ خداوندِ عالَم کا کلام ہے تو اسے رد کرنے کا نتیجہ مجھ کو ابدی شقاوت و بد بختی کی صورت میں دیکھنا پڑے گا۔ اِس بِنا پر یہ تمہیدی فقرہ مجرد اپنی اس غیر معمولی نوعیت ہی کی بنا پر آدمی کو مجبور کر دیتا ہے کہ چوکنّا ہو کر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اِس کلام کو سنے اور یہ فیصلہ کرے کہ اس کو کلامِ الہٰی ہونے کی حیثیت سے تسلیم کرنا ہے یا نہیں ۔ یہاں صرف اتنی بات کہنے پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے کہ یہ کتاب ربّ العالمین کی طرف سے نازل ہوئی ہے ، بلکہ مزید براں پورے زور کے ساتھ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ لَا رَیْبَ فِیْہِ ، بیشک یہ خدا کی کتاب ہے ، اس کے مَنَزَّل مِنَ اللہ ہونے میں قطعاً کسی شک کی گنجائش نہیں ہے اس تاکیدی فقرے کو اگر نزولِ قرآن کے واقعاتی پس منظر اور خود قرآن کے اپنے سیاق میں دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے اندر دعوے کے ساتھ دلیل بھی مضمر ہے، اور یہ دلیل مکّہ معظّمہ کے اُن باشندوں سے پوشیدہ نہ تھی جن کے سامنے یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا۔ اس کتاب کے پیش کرنے والے کی پوری زندگی اُن کے سامنے تھی، کتاب پیش کرنے سے پہلے کی بھی اور اس کے بعد کی بھی۔ وہ جانتے تھے کہ جو شخص اس دعوے کے ساتھ یہ کتاب پیش کر رہا ہے وہ ہماری قوم کا سب سے زیادہ راستباز، سنجیدہ اور پاک سیرت ہے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ دعوائے نبوّت سے ایک دن پہلے تک بھی کسی نے اُس سے وہ باتیں کبھی نہ سُنی تھیں جو نبوّت کے بعد یکایک اُس نے بیان کرنی شروع کر دیں۔ وہ اس کتاب کی زبان اور طرز بیان میں اور خود محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان اور طرز بیان میں نمایاں فرق پاتے تھے اوراس بات کو ہدائتہً جانتے تھے کہ ایک ہی شخص کے دو اسٹائل اتنے صریح فرق کے ساتھ نہیں ہو سکتے۔ وہ اس کتاب کے انتہائی معجزانہ ادب کو بھی دیکھ رہے اور اہل زبان کی حیثیت سے خود جانتے تھے کہ ان کے سارے ادیب اور شاعر اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہیں۔ وہ اس سے بھی واقف نہ تھے کہ ان کی قوم کے شاعروں، کاہنوں اور خطیبوں کے کلام میں اور اس کلام میں کتنا عظیم فرق ہے اور جو پاکیزہ مضامین اس کلام میں بیان کئے جا رہے ہیں وہ کتنے بلند پایہ ہیں۔ انہیں اس کتاب میں، اور اس کے پیش کرنے والے کی دعوت میں کہیں دور دور بھی اُس خود غرضی کا ادنیٰ شائبہ تک نظر نہیں آتا جس سے کسی جھوٹے مدّعی کاکام اور کلام کبھی خالی نہیں ہو سکتا۔ وہ خوردبین لگا کر بھی اس امر کی نشان دہی نہیں کرسکتے تھے کہ نبوّت کا یہ دعویٰ کر کے محمد صلی اللہ علیہ و سلم اپنی ذات کے لئے یا اپنے خاندان کے لئے یا اپنی قوم کے لئے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کام میں ان کی اپنی کیا غرض پوشیدہ ہے۔ پھر وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ اس دعوت کی طرف ان کی قوم کے کیسے لوگ کھِنچ رہے ہیں اور اس سے وابستہ ہو کر ان کی زندگیوں میں کتنا بڑا انقلاب واقع ہو رہا ہے۔ یہ ساری باتیں مل جل کر خود دلیل دعویٰ بنی ہوئی تھیں اِسی لئے اس پس منظر میں یہ کہنا بالکل کافی تھا کہ اس کتاب کا ربّ العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہونا ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ اس پر کسی دلیل کے اضافے کی کوئی حاجت نہ تھی۔ |