Ayats Found (7)
Surah 10 : Ayat 1
الٓرۚ تِلْكَ ءَايَـٰتُ ٱلْكِتَـٰبِ ٱلْحَكِيمِ
ا ل ر، یہ اُس کتاب کی آیات ہیں جو حکمت و دانش سے لبریز ہے1
1 | اس تمہیدی فقرے میں ایک لطیف تنبیہ مضمر ہے، نادان لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ پیغمبر قرآن کے نام سے جو کلام ان کو سنا رہا ہے وہ محض زبان کی جادوگری ہے، شاعرانہ پوازِتخیل ہے اور کچھ کاہنوں کی طرح عالم بالا کی گفتگو ہے۔ اس پر انہیں متنبہ کیا جا رہاہے کہ جو کچھ تم گمان کر رہے ہو یہ وہ چیزنہیں ہے۔ یہ تو کتابِ حکیم کی آیات ہیں۔ اِن کی طرف توجہ نہ کرو گے تو حکمت سے محروم ہو جاؤ گے۔ |
Surah 11 : Ayat 1
الٓرۚ كِتَـٰبٌ أُحْكِمَتْ ءَايَـٰتُهُۥ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ
ا ل ر فرمان ہے، جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ارشاد ہوئی ہیں12، ایک دانا اور باخبر ہستی کی طرف سے
2 | سُوْرَةُ هُوْد حاشیہ نمبر :2 |
1 | یعنی اس فرمان میں جو باتیں کی گئی ہیں وہ پکی اور اٹل ہیں۔ خوب جچی تُلی ہیں۔ نِری لفاظی نہیں ہیں خطابت کی ساحری اور تخیل کی شاعری نہیں ہے۔ ٹھیک ٹھیک حقیقت بیان کی گئی ہے اور اس کا ایک لفظ بھی ایسا نہیں جو حقیقت سے کم یا زیادہ ہو۔ پھر یہ آیتیں مفصل بھی ہیں، ان میں ایک ایک بات کھول کھول کر واضح طریقے سے ارشاد ہوئی ہے۔ بیان اُلجھا ہوا،گنجلک اور مبہم نہیں ہے۔ ہر بات کو الگ الگ، صاف صاف سمجھا کر بتایا گیا ہے |
Surah 17 : Ayat 39
ذَٲلِكَ مِمَّآ أَوْحَىٰٓ إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ ٱلْحِكْمَةِۗ وَلَا تَجْعَلْ مَعَ ٱللَّهِ إِلَـٰهًا ءَاخَرَ فَتُلْقَىٰ فِى جَهَنَّمَ مَلُومًا مَّدْحُورًا
یہ وہ حکمت کی باتیں ہیں جو تیرے رب نے تجھ پر وحی کی ہیں اور دیکھ! اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ بنا بیٹھ ورنہ تو جہنم میں ڈال دیا جائے گا ملامت زدہ اور ہر بھلائی سے محروم ہو کر1
1 | بظاہرتو خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، مگر ایسے مواقع پر اللہ تعالٰی اپنے نبی کو خطاب کر کے جو بات فرمایا کرتا ہے اس کا اصل مخاطب ہر انسان ہوا کرتا ہے۔ |
Surah 31 : Ayat 2
تِلْكَ ءَايَـٰتُ ٱلْكِتَـٰبِ ٱلْحَكِيمِ
یہ کتاب حکیم کی آیات ہیں1
1 | یعنی ایسی کتاب کی آیات جو حکمت سے لبریز ہے، جس کی ہر بات حکیمانہ ہے۔ |
Surah 36 : Ayat 2
وَٱلْقُرْءَانِ ٱلْحَكِيمِ
قسم ہے قرآن حکیم کی1
1 | (1)۔ابن عباس، عکرمہ، ضحاک، اسن بصری اور سفیان بن عُیَیْنہ کا قول ہے کہ اس کے معنی ہیں ’’اے انسان‘‘ یا ’’اے شخص‘‘۔ اور بعض مفسرین نے اسے ’’یا سید‘‘کا مخفف بھی قرار دیا ہے۔ اس تاویل کی رو سے ان الفاظ کے مخاطب نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ |
Surah 43 : Ayat 4
وَإِنَّهُۥ فِىٓ أُمِّ ٱلْكِتَـٰبِ لَدَيْنَا لَعَلِىٌّ حَكِيمٌ
اور در حقیقت یہ ام الکتاب میں ثبت ہے1، ہمارے ہاں بڑی بلند مرتبہ اور حکمت سے لبریز کتاب2
2 | اس فقرے کا تعلق کتاب مبین سے بھی ہے اور امّ الکتاب سے بھی ۔ یعنی یہ تعریف قرآن کی بھی ہے اور اس اصل کتاب کی بھی جس سے قرآن منقول یا ماخوذ ہے ۔ اس تعریف سے یہ بات ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ کوئی شخص اپنی نادانی سے اس کتاب کی قدر و منزلت نہ پہچانے اور اس کی حکیمانہ تعلیم سے فائدہ نہ اٹھاۓ تو یہ اسکی اپنی بد قسمتی ہے ۔ کوئی اگر اس کی حیثیت کو گرانے کی کوشش کرے اور اس کی باتوں میں کیڑے ڈالے تو یہ اس کی اپنی رذالت ہے ۔ کسی کی ناقدری سے یہ بے قدر نہیں ہو سکتی، اور کسی کے خاک ڈالنے سے اس کی حکمت چھپ نہیں سکتی۔ یہ تو بجاۓ خود ایک بلند مرتبہ کتاب ہے جسے اس کی بے نظیر تعلیم ، اس کی معجزانہ بلاغت ، اس کی بے عیب حکمت اور اس کے عالی شان مصنف کی شخصیت نے بلند کیا ہے ۔ یہ کسی کے گراۓ کیسے گر جاۓ گی۔ آگے چل کر آیت 44 میں ریش کو خاص طور پر اور اہل عرب کو بالعموم یہ بتایا گیا ہے کہ جس کتاب کی تم اس طرح نا قدری کر رہے ہو اس کے نزول نے تم کو ایک بہت بڑے شرف کا موقع عطا کیا ہے جسے اگر تم نے کھو دیا تو خدا کے سامنے تمہیں سخت جوابدہی کرنی ہو گی۔ (ملاحظہ ہو حاشیہ 39) |
1 | ’’ امّ الکتاب ‘‘ سے مراد ہے ’’ اصل الکتاب‘‘ یعنی وہ کتاب جس سے تمام انبیاء علیہم السلام پر نازل ہونے والی کتابیں ماخوذ ہیں۔ اسی کو سورہ واقعہ میں : کِتَابٌ مَّکْنُوْنٌ (پوشیدہ اور محفوظ کتاب) کہا گیا ہے ، اور سورہ بُروج میں اس کے لیے لوح محفوظ کے الفاظ استعمال کیے گۓ ہیں، یعنی ایسی لوح جس کا لکھا مِٹ نہیں سکتا اور جو ہر قسم کی در اندازی سے محفوظ ہے ۔ قرآن کے متعلق یہ فرم کر کہ یہ ’’ امّ الکتاب‘‘ میں ہے ایک اہم حقیقت پر متنبہ فرمایا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف زمانوں میں مختلف ملکوں اور قوموں کی ہدایت کے لیے مختلف انبیاء پر مختلف زبانوں کتابیں نازل ہوتی رہی ہیں، کگر ان سے میں دعوت ایک ہی عقیدے کی طرف دی گئی ہے ، حق ایک ہی سچائی کو قرار دیا گیا ہے ، خیر و شر کا ایک ہی معیار پیش کیا گیا ہے ، اخلاق و تہذیب کے یکساں اصول بیان کیے گۓ ہیں اور فی ا لجملہ ایک ہی دین ہے جسے یہ سب کتابیں لے کر آئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب کی اصل ایک ہے اور صرف عبارتیں مختلف ہیں۔ ایک ہی معنی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک بنیادی کتاب میں ثبت ہیں اور جب کبھی ضرورت پیش آئی ہے ، اس نے کسی نبی کو مبعوث کر کے وہ معنی حال اور موقع کی مناسبت سے ایک خاص عبارت اور خاص زبان میں نازل فرما دیے ہیں ۔ اگر بالفرض اللہ تعالیٰ کا فیصلہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو عرب کے بجاۓ کسی اور قوم میں پیدا کرنے کا ہوتا تو یہی قرآن وہ حضورؐ پر اسی قوم کی زبان میں نازل کرتا۔ اس میں بات اسی قوم اور ملک کے حالات کے لحاظ سے کی جاتی، عبارتیں کچھ اور ہوتیں، زبان بھی دوسری ہوتی، لیکن بنیادی طور پر تعلیم و ہدایت یہی ہوتی، اور وہ یہی قرآن ہوتا (اگرچہ قرآن عربی نہ ہوتا اسی مضمون کو سورہ شعراء میں یوں ادا کیا گیا ہے : وَ اِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ............ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ وَّ اِ نَّہٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَ وَّ لِیْنَ (192۔ 196)۔ ’’ یہ رب العٰلمین کی نازل کردہ کتاب ہے ............. صاف صاف عربی زبان میں ، اور یہ اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی موجود ہے ۔‘‘(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، لشعراء حواشی ۱۱۹۔۱۲۱) |
Surah 43 : Ayat 5
أَفَنَضْرِبُ عَنكُمُ ٱلذِّكْرَ صَفْحًا أَن كُنتُمْ قَوْمًا مُّسْرِفِينَ
اب کیا ہم تم سے بیزار ہو کر یہ درس نصیحت تمہارے ہاں بھیجنا چھوڑ دیں صرف اِس لیے کہ تم حد سے گزرے ہوئے لوگ ہو؟1
1 | اس ایک فقرے میں وہ پوری داستان سمیٹ دی گئی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے اعلان نبوت کے وقت سے لے کر ان آیات کے نزول تم پچھلے چند برس میں ہو گزری تھی۔ یہ فقرہ ہمارے سامنے یہ تصویر کھینچتا ہے کہ ایک قوم صدیوں سے سخت جہالت ، پستی اور بد حالی میں مبتلا ہے ۔ یکایک اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت اس پر ہوتی ہے ۔ وہ اس کے اندر ایک بہترین رہنما اٹھاتا ہے اور اسے جہالت کی تاریکیوں سے نکالنے کے لیے خود اپنا کلام نازل کرتا ہے ، تاکہ وہ غفلت سے بیدار ہو، جاہلانہ اوہام کے چکر سے نکلے اور حقیقت سے آگاہ ہو کر زندگی کا صحیح راستہ اختیار کر لے ۔ مگر اس قوم کے نادان لوگ اور اس کے خود غرض قبائلی سردار اس رہنما کی پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہیں اور اسے ناکام کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ جوں جوں سال پر سال گزرتے جاتے ہیں، ان کی عداوت اور شرارت بڑھتی چلی جاتی ہے ، یہاں تک کہ وہ اسے قتل کر دینے کی ٹھان لیتے ہیں۔ اس حالت میں ارشاد ہو رہا ہے کہ کیا تمہاری اس نالائقی کی وجہ سے ہم تمہاری اصلاح کی کوشش چھوڑ دیں ؟ اس درس نصیحت کا سلسلہ روک دیں ؟ اور تمہیں اسی پستی میں پڑا رہنے دیں جس میں تم صدیوں سے گرے ہوۓ ہو ؟ کیا تمہارے نزدیک واقعی ہماری رحمت کا تقاضا یہی ہونا چاہیے ؟ تم نے کچھ سوچا بھی خدا کے فضل کو ٹھکرانا اور حق سامھے آ جانے کے بعد باطل پر اصرار کرنا تمہیں کس انجام سے دوچار کرے گا۔؟ |